وہ ایک بےحد خوبصورت اور کشادہ کمرہ تھا ۔۔۔ جہاں بہت سے بک شیلف پہ ۔۔۔ کتابیں ترتیب سے رکھی ہوئی تھی ۔۔۔
کمرے کے ایک طرف ۔۔۔ کسی عبادت گاہ کی طرح ۔۔ جائے نماز ۔۔۔ اوپری حصے میں ۔۔ قرآن پاک اور تسبیح رکھی ہوئی تھی ۔۔۔
وہ خود کمرے کے بیچ میں ۔۔۔ آرام دہ کرسی میں براجمان ۔۔ کوئی کتاب پڑھ رہا تھا ۔۔۔
ملازم نے اسے زینیہ کے یہاں آنے کی اطلاع دی تھی ۔۔ اور اب وہ زینیہ کے اندر آنے کا منتظر ہی تھا ۔۔۔
” ساحر یاوش ۔۔۔ ”
آواز پہ ۔۔۔ اس نے کتاب پر سے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
” آئیے مسز زینیہ ۔۔۔ بیٹھئے ۔۔ ”
زینیہ پریشان سی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ۔۔۔ اس کے ساتھ والے سنگل صوفے پہ جا کے بیٹھی تھی ۔۔۔
” کافی سال بعد آپ سے ملاقات ہو رہی ہے ۔۔۔ کیا حال چال ہے ؟؟”
ساحر کتاب ایک طرف رکھ چکا تھا ۔۔۔ وہ 32 سال کا خوبصورت نوجوان تھا ۔۔۔ جس کی گہری سیاہ آنکھیں ۔۔ جیسے اپنے اندر بےحد گہرے راز چھپائے رکھے ہوئے ہو ۔۔ اسے دیکھنے پہ ہمیشہ یہی احساس ہوتا کسی کو بھی ۔۔۔ چہرے پہ ہلکی بیرڈ تھی جو اسے بےحد پرکشش بناتی تھی جبکہ ماتھے پہ ۔۔ بالوں کے قریب محراب کا وہ مقدس نشان بھی تھا ۔۔
” میں ٹھیک نہیں ہوں ساحر ۔۔ مجھے آپ کی ہیلپ چاہئیے ۔۔ میری بیٹی کی جان خطرے میں ہے ۔۔ ”
زینیہ کا چہرہ اور آواز خوفزدہ تھے ۔۔
” جانتا ہوں ۔۔ ”
ساحر کا لہجہ پرسکون تھا ۔۔ زینیہ کی آنکھوں میں حیرت ابھری تھی ۔۔۔
” میں آپ کے آنے کا ہی منتظر تھا ۔۔ ”
” آپ کیسے پرسکون رہ سکتے ہیں ۔۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ ایلا کو کچھ نہیں ہونے دیں گے ۔۔۔ تو کیسے خاموش ہیں آپ اب تک ۔؟؟ ژاویلا پھر سے میرے سامنے آئی تھی ۔۔ میرے گھر پہ مجھے میری فیملی کو ختم کرنے کی دھمکی دی چکی ہے ۔۔۔ وہ سب جانتی ہے ۔۔ سب جانتی ہے اگر ۔۔ اگر ڈیلاویئر کو پتہ چلا کہ ایلا ۔۔۔ وہ ایلا کو مجھ چھین لے گا ۔۔۔ ایلا اس کی بیٹی کیسے ہو سکتی ہے ۔۔ ؟؟؟ وہ میری بیٹی ہے ۔۔ خلیل کو پتہ چلا تو ۔۔۔ سب برباد ہو جائے گا ۔۔۔ میری مدد کیجئے ۔۔ ”
وہ رو رہی تھی ۔۔۔ جبکہ ساحر خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
” ایلا ۔۔۔ بہنام کے دسترس میں ہے ۔۔ وہ ایلا کو کچھ ہونے نہیں دے گا ۔۔ لیکن وہ ایلا کو کھبی چھوڑنا بھی نہیں چاہے گا ۔۔ ”
ساحر کہہ رہا تھا جبکہ زینیہ کے رونے میں روانی آئی تھی ۔۔۔
” وہ پہچان گیا ہے ایلا کو ۔۔ وہ ڈیلاویئر کو بھی بتا دے گا ۔۔۔ میری بیٹی کو چھین کے لے جائیں گے وہ لوگ اپنی دنیا میں ۔۔۔ میری بیٹی کو بچا لیں ساحر پلیز ۔۔ ”
” ایلا مکمل اس کی اسیر ہو چکی ہی مسز زینیہ ۔۔۔ وہ بہنام کی محبت میں مکمل ڈوب چکی ہے ۔۔۔۔ اسے بہنام سے الگ کر کے ۔۔ آپ اس پہ ہی ظلم کریں گی ۔۔۔ وہ بہت جلد ایلا کو اپنے وجود کا حصہ بنانے والا ہے ۔۔۔ ایلا اس کی بیوی ہے ۔۔ اس کی منکوحہ ہے ۔۔۔ ایلا کو پا کے ہی ۔۔ وہ قدرتمند ہو پائے گا کہ وہ ایلا کو ژاویلا کے شر سے محفوظ رکھ سکیں ۔۔ ڈاریون جادوگر ایک روح ہے ۔۔۔ جو ایلا کو ڈرا سکتا ہے ۔۔ خوفزدہ کر سکتا ہے ۔۔ اسے چھو نہیں سکتا ۔۔ لیکن ژاویلا اپنے شیطانی عمل سے ۔۔۔ ایلا کو بہت بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے ۔۔۔ ”
زینیہ بھیگی آنکھوں سے ۔۔ ساحر کو بولتا دیکھ رہی تھی ۔۔
” ک ۔۔ ک۔۔۔ کاوش ۔۔۔ کاوش سے شادی ۔۔ ”
” ہششش سوچئے گا بھی مت ۔۔۔ ایلا کاوش کے نکاح میں نہیں جا سکتی ۔۔۔ وہ ڈیلاویئر کی بیٹی ہے ۔۔ جس کا نکاح وہ بہنام سے کروا چکا ہے ۔۔ اور کاوش ژاویلا کے بس میں ہو چکا ہے ۔۔۔ وہ شیطان بن چکا ہے ۔۔ وہ ایلا کو موقع ملتے ہی نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کرے گا ۔۔ ”
ساحر نے اس کی بات کاٹ کے ۔۔ اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔۔
” ایسا مت کہئیے ساحر ۔۔ میری ایلا کو مجھ سے مت چھینئے ۔۔ وہ میرے اور خلیل کی بیٹی ہے ۔۔ ”
زینیہ نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔۔ ۔
” مت بھولیے مسز زینیہ ۔۔۔ ڈیلاویئر ہی تھا جس نے خلیل کے وجود کو تسخیر کر لیا تھا ۔۔۔ جو آپ پہ اپنی دسترس پا چکا تھا ۔۔ اور جو آپ کو اپنی دنیا میں لے جانا چاہتا تھا ۔۔۔ عارضی طور پہ ۔۔ آپ نے اس سے رہائی حاصل کر لی تھی ۔۔ لیکن یہ مت بھولئے کہ وہ کھبی بھی ۔۔ آپ پہ پھر سے اپنی دسترس پا سکتا ہے ۔۔ ”
ساحر نرمی سے ۔۔۔ اسے سمجھا رہا تھا ۔۔ جبکہ وہ پھر سے رونے لگی ۔۔
” تو میں کیا کرتی ؟؟ میرا شوہر میرے ساتھ ہی خیانت کر رہا تھا ۔۔ دوسری عورت کے ساتھ مل کے ۔۔۔ مجھے ہی چیٹ کر رہا تھا ۔۔۔ میں دور ہوتی گئی سب سے ۔۔ سوسائٹی سے ۔۔ لوگوں سے ۔۔ اپنوں سے ۔۔۔۔ صرف اپنے شوہر کی وجہ سے ۔۔۔ بند کمرے میں روتے روتے ۔۔ تنہائی میں دیواروں سے اپنا درد بانٹتے بانٹتے نہ جانے کب ۔۔۔۔ ڈیلاویئر میری زندگی میں آیا ۔۔۔ آپ جانتے تو ہیں سب ۔۔۔ اور اب ۔۔۔ اب وہ سچ میں پھر سے آ جائے گا ۔۔ وہ ایلا کو لے جائے گا ۔۔ ”
ساحر نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔۔
” بات ڈیلاویئر کی نہیں ہے ۔۔ وہ بہنام کی اسیر ہو چکی ہے ۔۔ بہنام اسے جو سالوں سے ڈھونڈ رہا تھا ۔۔ اب وہ کھبی ایلا کو خود سے دور ہونے نہیں دے گا ۔۔ ”
” کوئ ورد ۔۔ کوئی منتر ۔۔ کچھ تو ہوگا ایسا ۔۔ جو میری بیٹی کو بہنام کے اثر سے باہر نکال دیں ۔۔ کچھ تو پلیز ساحر۔۔۔ ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔پلیز ”
وہ ساحر کے سامنے ہاتھ جوڑ گئی تھی ۔۔
” بہنام بہت طاقتور ہے ۔۔ وہ مکمل آگ ہے ۔۔۔ ایلا اس کے سلطنت کی ملکہ ہے ۔۔ وہ بھسم کر دے گا سب کو ۔۔ ”
ساحر اپنی جگہ سے کھڑا ہو کے ۔۔۔ بک واپس اپنی جگہ پہ رکھنے لگا ۔۔ جبکہ زینیہ اس کی پشت دیکھ رہی تھی ۔۔
” بہنام کے آگے ۔۔۔ ژاویلا کی کوئی طاقت نہیں ۔۔۔ اپنے بھائی ڈاریون اور کاوش کے ساتھ مل کے ۔۔ وہ اپنے شیطانی عملات کر رہی ہے ایلا کے خلاف ۔۔۔ ”
وہ مڑ کے اب زینیہ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” ایلا ایک گہری کھائی میں گرتی جا رہی ہے ۔۔۔ بہنام کا جو حصار اس کے گرد بن رہا ہے ۔۔۔ وہ ایلا کو اس کھائی میں گرنے سے حفاظت کر سکتا ہے ۔۔ یہ بہت مشکل ہے ۔۔ لیکن میں یہی کہوں گا کہ ابھی یہ ہونے دو ۔۔ ژاویلا کا خطرہ ٹلتے ہی ۔۔ ہم ایلا کو بہنام سے دور کردیں گے ۔۔ یہ میرا وعدہ ہے آپ سے ۔۔۔ لیکن پلیز ابھی آپ تعاون کریں ۔۔۔ پلیز ”
زینیہ پرسوچ نظروں سے ساحر کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ جبکہ ساحر کی سنجیدہ نظریں زینیہ پہ تھی ۔۔ اور پھر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا ۔۔۔
لب کاٹتی ۔۔ وہ اپنے آنسو صاف کرنے لگی ۔۔ کہ اپنی بیٹی کو ان سب کے شر سے بچانے کی سرتوڑ کوشش کرنی تھی اسے ۔۔ اور اس کے لئے ۔۔ اسے ساحر کی بات ماننی ہی پڑے گی ۔۔
وہ جو بےحد غصیلے تیور لیے ۔۔۔ وہاں آیا تھا ۔۔۔ ژاویلا کے شیطانی چیلے اسے روکنے کے لئے آگے بڑھے تھے ۔۔۔
لیکن بہنام آنکھوں سے نکلتے شعلوں سے ۔۔۔۔ انھیں جلا کے بھسم کرتا آگے بڑھ رہا تھا ۔۔۔ ہوائیں جیسے اپنا رخ بدل رہے تھے ۔۔۔ آگ کے دھوئیں سے اٹھ رہے تھے ۔۔۔
” یہاں کیوں آئے ہو بہنام ۔۔ ؟؟”
ژاویلا کی تیز آواز پہ ۔۔ وہ رک کے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ چہرے پہ چٹانوں سی سختی تھی ۔۔
” لگتا ہے تم بھول چکی ہو ژاویلا ۔۔۔شاید مجھے پھر سے یاد دلانا پڑے گا کہ کیا کہا تھا میں نے ۔۔ ”
وہ دھاڑا تھا ۔۔ جبکہ ژاویلا کی ہنسی گونجی تھی ۔۔
” زور سے لگی ہے ۔۔۔ لگتا ہے ”
بہنام غصے سے ۔۔۔ ہوا کے جھونکے کی طرح اس تک پہنچا تھا ۔۔ جب بیچ میں ڈاریون اس کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔
اور زور سے دھاڑا تھا ۔۔۔
ایک طرف آگ تو مقابل اس جادوگر کی مکروہ روح کھڑی تھی ۔۔۔
” بہنام ۔۔۔ اب وہ وقت گیا جب میں اکیلی تھی ۔۔ اب تمہارے مقابل میرا بھائی تمہیں ملے گا ہمیشہ ۔۔۔ ”
ژاویلا کی آواز ابھری تھی ۔۔ بہنام لب بھینچے دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ تم دونوں میرے مقابل کھڑے ہوتے ہو ۔۔۔ ایلا کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی ۔۔ تو یاد رکھنا آگ میں جلا دیے جاؤ گیں ۔۔۔ ”
” آگ ۔۔۔ تم اگر آگ ہو تو میں بھی شیطان ہوں بہنام ۔۔۔ اور میرے پاس بھی شیطانی طاقتیں ہیں ۔۔ ”
ژاویلا کے رنگ ہی نرالے تھے آج ۔۔۔
” تم جیسی شیطان کو تمہارے شیطانی طاقتوں سمیت موت دوں گا ژاویلا ۔۔ بس آنے والے وقت کا منتظر رہنا ۔۔۔ ”
بہنام دھاڑا تھا ۔۔
” اس سے پہلے میں تجھے بھسم کر دوں گا بہنام ۔۔ ”
ڈاریون نے جیسے ہی منہ کھولا تھا ۔۔ تو اس کے منہ سے چھوٹے بڑے حشرات باہر نکلنا شروع ہو چکے تھے ۔۔۔
بہنام جو بےحد نفرت سے ۔۔۔ اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی اس کے مقابل کی تھی ۔۔۔ آگ کے شعلے ڈاریون کی طرف لپکے تھے اور وہ چلایا تھا ۔۔
” تم جو ایک بار جل کے بھسم ہو چکے ہو ڈاریون ۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ پھر سے میرے مقابل آؤ گیں تو میں تم سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہونگا ۔۔۔ تمہاری بھول ہے ۔۔۔ ”
ساتھ ہی ڈاریون دیوار سے جا لگا تھا ۔۔۔
” میرا بھائی ۔۔۔ ”
ژاویلا چیخی تھی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ ڈاریون کی طرف لپکتی ۔۔ اپنے دوسرے ہاتھ کے اشارے سے ۔۔ بہنام ژاویلا کو دیوار سے پن کر چکا تھا ۔۔ وہ چیخ رہی تھی لیکن خود کو دیوار سے آزاد نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔
جبکہ ڈاریون کا بھسم شدہ جسم وہیں ۔۔۔ پھر سے آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تھا اور وہ تڑپ رہا تھا ۔۔۔
” بہنام ۔۔ چھوڑ دو میرے بھائی کو ۔۔۔ ”
ژاویلا چلائی تھی ۔۔۔
” میری ایلا کو چھونے کی جو غلطی کر چکا ہے تمہارا بھائی ۔۔ اس کی سزا میری کتاب میں موت ہے موت ۔۔۔ ”
بہنام غرایا تھا ۔۔۔
” ڈاریون کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے ۔۔ میں نے جو جتن کیے ہیں ۔۔ تم میری ان کوششوں کو خاک میں نہیں ملا سکتے ۔۔ ”
وہ غرائی تھی ۔۔ جبکہ بہنام لب بھینچے اپنے کام میں مشغول رہا تھا ۔۔ اور پھر ڈاریون کا بےجان وجود نیچے دیوار کے پاس گرا تھا ۔۔۔
ساتھ ہی بہنام نے ہاتھ کے اشارے سے ۔۔ ژاویلا کو زمین پہ پٹخا تھا ۔۔
” I am the king of my kingdom ….
میرا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ۔۔ تمہارا بھائی مرا ہوا زیادہ پیارا لگتا ہے ۔۔۔ اسے پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کر کے ۔۔ دنیا والوں پہ ظلم ہی کیا تھا تم نے ۔۔۔ ”
ژاویلا غم و غصے سے اٹھتی ۔۔
کسی طوفان کی مانند بہنام کی طرف لپکی تھی ۔۔ لیکن راستے میں ہی ۔۔ جیسے اس کی ٹانگیں بےجان ہوئی تھی ۔۔ اور وہ نیچے گری تھی ۔۔۔
اس کی دلدوز چیخ فضا میں گونج کے معدوم ہوئی تھی ۔۔۔
جبکہ بہنام کرخت چہرے کے ساتھ ۔۔ ان دونوں کے جسدوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ جو لمحہ بہ لمحہ سیاہ ہو رہے تھے ۔۔۔ اور پھر ہوا میں تحلیل ہوتا وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔
” کہاں گئی تھی تم؟”
خلیل کی تیز آواز پہ ۔۔ اندر آتی وہ چونکی تھی ۔۔ اور پھر سر جھٹک گئی ۔۔
” تم سے مطلب ۔۔ ”
اس کا لہجہ بیزاریت لیے ہوئے تھا ۔۔ تبھی خلیل کو غصہ آیا تھا ۔۔۔
” سیدھا سیدھا جواب چاہئیے ۔۔۔ ”
وہ غصے سے اٹھتا اس کے سامنے آیا تھا ۔۔ جب زینیہ نے بھی غصے سے انھیں دیکھا ۔۔
” اپنی بیٹی کو بچانے ۔۔ ”
” ساحر کے پاس گئی تھی تم ۔۔۔”
خلیل نے اپنے لب بھینچ لیے ۔۔
” جب باپ کو عیاشی سے فرصت نہ ہو ۔۔ تو ماں کو ہی اپنی بیٹی کو بچانے کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے ۔۔ ”
زینیہ کہتی آگے بڑھنے لگی ۔۔ جب خلیل نے اس کا بازو دبوچ لیا ۔۔
” بہت زبان چل رہی ہے ۔۔۔ وہ تو شکر کرو اتنا سب ہونے کے بعد بھی تمہیں۔ اس گھر میں رکھا ہوا ہے ۔۔ ”
” میں شکر مناؤں ؟؟ مجھے تباہی کی طرف لے جانے والے آپ ہیں خلیل ۔۔ آپ کی ذات ہر دوسری عورت کے گرد گھوم رہی ہے ۔۔ اور میں ڈیپریشن کا شکار ہو رہی ہوں کہ میرا ہزبینڈ مجھے چیٹ کر رہا ہے ۔۔ ”
زینیہ جھٹکے سے اپنا بازو چھڑاتی چلائی تھی ۔۔
” تم بھی تو عیش کرتی رہی اپنے تنہائی کے لمحات میں ۔۔۔ کون سا میرے غم میں روتی رہی ہو ۔۔ ”
خلیل بہزاد کی بات پہ ۔۔ وہ بےیقینی سے کچھ دیر اپنے شوہر کو دیکھتی رہی ۔۔ اور پھر سر جھٹک دیا تھا ۔۔
” ۔۔ وہ تو شکر مناؤ ۔۔ کہ اتنا سب کے بعد ۔۔ پھر بھی تمہیں اس گھر میں رکھا ہوا ہے میں نے ۔۔ اور کسی کو خبر بھی نہیں ہونے دی کہ تمہاری بدچلنی کی میں نے ۔۔ ”
خلیل مزید بھڑکے تھے ۔۔
” کتنے گرے ہوئے ہیں آپ خلیل ۔۔ اور کتنا گرے گیں آپ ؟”
زینیہ بھی غصے و بےیقینی سے چلائی تھی ۔۔
” کاش اس دن قسم نہ دی ہوتی ۔۔کاش ڈیلاویئر کے ہاتھوں تمہاری موت ہو جاتی آپ کی ۔۔ ”
خلیل نے طنزیہ انداز میں اسے دیکھا تھا ۔۔
” عیاشی کے لمحوں میں تو تھا تمہارے ساتھ ۔۔ تو جانے کیوں دیا اسے ۔۔ فضول کی قسم دے دی ۔۔ آج تم بھی عیش ہی کر رہی ہوتی اپنے بیڈ روم میں ۔۔ ”
ان کے چہرے پہ تمسخر تھا ۔۔۔
” خلیل ۔۔ ”
زینیہ نے آگے بڑھ کے ۔۔ غصے میں اسے تھپڑ مار دیا تھا ۔۔ جب خلیل نے اس کی گردن دبوچ لی ۔۔۔
” ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے تھپڑ مارنے کی زینیہ ۔۔۔ تمہارے ہاتھ کے ٹکڑے کر کے ۔۔ کتوں کے آگے پھینک دوں گا ۔۔ یاد رکھنا ۔۔۔ اور میری بیٹی کے لئے کسی ساحر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ اپنا سایہ میری بیٹی سے دور ہی رکھو ۔۔ ”
وہ غرا رہا تھا جبکہ زینیہ بھیگی آنکھوں سے انھیں دیکھ رہی تھی ۔۔
خلیل نے جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا ۔۔ اور خود لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔ جبکہ زینیہ یہ بھی نہ کہہ سکی کہ جس بیٹی کا وہ دعویدار ہے ۔۔ وہ اس کی ہے ہی نہیں ۔۔ وہ وہیں خاموش آنسو بہاتی رہی ۔۔
اس کی گردن سے لاکٹ کے اترتے ہی ۔۔۔ اس کے ارد گرد کا منظر جیسے بدلا تھا ۔۔۔
وہ جگہ بےحد تاریک تھی ۔۔۔ دیواروں پہ جالے پڑے ہوئے تھے ۔۔ جو اس تاریک نما جگہ کو بےحد خوفناک بنا رہے تھے ۔۔۔
کھبی کھبی چمگادڑوں کی آواز بھی سنائی دیتی تھی ۔۔۔
لیکن اسے کسی چیز سے سروکار نہ تھا ۔۔ وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ چلتی جا رہی تھی ۔۔۔ اس کا دھیان ۔۔ اسی آواز کی طرف تھا ۔۔ جو مکمل اسے اپنی دسترس میں کر رہا تھا ۔۔
” ایلا میرے پاس آؤ ۔۔۔ آؤ یہاں ۔ ۔۔ اور قریب ۔۔ قریب ۔۔۔ ”
اس کے دماغ میں اسی جملے کی بازگشت تھی ۔۔
وہاں موجود شیطانی چیلے ۔۔۔ اس کے بازو پہ ۔۔ اپنا ہاتھ پھیر رہے تھے ۔۔
جو اس کے قریب آنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔ لیکن وہ بےحس سے چلتی جا رہی تھی ۔۔
یہاں تک کہ وہ کاوش کے مقابل آئی تھی ۔۔ جو آگ کے بڑے سے الاؤ کے قریب کھڑا ۔۔ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
” تم آ گئی ایلا ۔۔۔ ”
” کاوش ۔..”
ایلا کی سسکی نما آواز نکلی تھی ۔۔۔
” بیٹھو ۔۔۔ ”
وہ کاوش کو دیکھتی ۔۔ پاس پڑی کرسی پہ بیٹھی تھی ۔۔۔
” سالوں سے اس لمحے کا منتظر رہا ہوں ایلا ۔۔۔ سالوں سے ۔۔۔ جانتی ہو ناں ۔۔ ”
کاوش اس کے قریب آتا کہنے لگا ۔۔ جبکہ ایلا اثبات میں سر ہلانے لگی ۔۔ اور پھر اس نے ایلا کے بالوں میں اپنا ہاتھ پھیرا تھا ۔۔ ایلا جیسے ہوش میں آئی تھی ۔۔ وہ اجنبی اور حیران نظروں سے اپنے ارد گرد دیکھنے لگی ۔۔
جبکہ کاوش اس کے قریب جھکا ۔۔۔ بےحد محویت سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
” میں ۔۔ میں یہاں کیسے ؟”
” میرے کہنے پہ ۔۔ تم یہاں آئی ہو ۔۔ ”
کاوش نے اس کے بال سنوارتے کہا تھا ۔۔ جبکہ ایلا نے اس کے ہاتھ جھٹکے کے لئے ۔۔ اپنا ہاتھ اٹھانا چاہا لیکن وہ جیسے کرسی کے ہینڈل سے چپک گئے تھے ۔۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ خود بھی نہیں اٹھ پا رہی اس کرسی سے ۔۔
” یہ ۔۔ یہ ۔۔ ”
اس کی آنکھوں میں خوف ابھرا تھا ۔۔
” سرپرائز ۔۔۔ ”
کاوش نے ہنستے ہوئے کہا تھا جبکہ ایلا کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا ۔۔ جب اس نے کاوش کی آنکھوں کا رنگ بدلتے دیکھا تھا ۔۔
” I am the Devil .. my dear Ella ”
” کاوش ۔۔۔ ”
ایلا نے بےیقینی سے اس دیکھا اور پھر ان آنکھوں میں خوف اتر آیا تھا ۔۔۔
وہ خود کو حرکت دینے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔ جبکہ کاوش نے اس کے کندھے سے نیچے بازو تک ہاتھ پھیرے تھے ۔۔
” ہشششششش ۔۔۔ مائی باربی ڈول ۔۔۔ ہشششششش ۔۔ یہ کوشش چھوڑ دو ۔۔ تم میری مرضی کے بنا کچھ نہیں کر سکتی ۔۔ ”
” یو باسٹرڈ ۔۔۔ ”
وہ چیخی تھی ۔۔
” کیوں کر رہے ہو یہ سب ۔۔ مجھے جانا ہے ۔۔ لیو می۔ ”
جبکہ کاوش گہرا مسکرایا تھا ۔۔
” لیٹ می شو یو سم تھنگ ۔۔ ”
وہ کہتا پیچھے مڑا تھا ۔۔ اور ایک جار سے ۔۔ اس نے بچھو نکالا تھا ۔۔
ایلا سہمی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ جبکہ کاوش اس بچھو کو لیے ۔۔۔ ایلا کے قریب ہوا تھا ۔۔
ایلا اپنے چہرے کے قریب ۔۔۔ اس بچھو کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جو حرکت کر رہا تھا ۔۔۔
” جانتی ہو اس کا زہر کتنا گہرا ہے ؟؟”
کاوش اس کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا اب ۔۔۔
” جانتی ہو انسان کی موت ہونے میں کتنے سیکنڈ لگتے ہیں ؟؟”
وہ پھر سرگوشی کر رہا تھا ۔۔ جب کہ ایلا کی خوفزدہ نظریں اب کاوش پہ تھی ۔۔۔
” یہ بہت زہریلا ہے ایلا ۔۔ کیونکہ اس میں میرا زہر ہے ۔۔ میرا شیطانی زہر ۔۔ ”
وہ کہتا اب وہ بچھو ایلا کے تھائیز پہ رکھ چکا تھا ۔۔ جبکہ وہ رونے لگی ۔۔
” ک ۔۔ کاوش ۔۔۔ پ ۔۔ پلیز اسے پٹاؤ ۔۔ پلیز کاوش ۔۔ مجھے ڈرلگ رہا ہے ۔۔۔ ”
وہ رو رہی تھی ۔۔ جبکہ کاوش اس کے رونے سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔۔۔
” آہ ایلا ۔۔۔ بھیک مانگو پلیز ۔۔ منتیں کرو ۔۔ روؤ ۔۔ چیخو چلاؤ ۔۔۔میں سننا چاہتا ہوں پلیز ۔۔ ”
وہ پرسکون انداز میں کہہ رہا تھا جبکہ ایلا بےساختہ چیخنے لگی ۔۔۔
” پلیز کاوش ۔۔ پلیز اسے ہٹاؤ ۔۔۔۔ م ۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز ۔۔ ”
اور پھر بچھو کے کاٹنے سے ۔۔ اسے اپنے جسم میں درد سا پھیلتا محسوس ہوا تھا ۔۔۔
اس کا جسم جیسے پیرالائز ہو رہا تھا ۔۔ وہ گہرے سانس لینے کی کوشش کرتی ۔۔ خوفزدہ نظروں سے کاوش کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
جبکہ کاوش نے اسے فلائنگ کس دی تھی ۔۔۔
” بھیک مانگو ایلا مجھ سے ۔۔۔ بھیک ۔۔۔ ”
وہ بند ہوتی پلکوں سے ۔۔ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ اور پھر جیسے تاریک ہو گیا تھا سب ۔۔۔ اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھی ۔۔
لیپ ٹاپ پہ ۔۔۔ وہ کچھ ٹائپنگ کر رہا تھا ۔۔ پاس کچھ کتابیں بھی رکھی ہوئی تھی اس نے ۔۔۔
مکمل خاموشی میں ڈوبی ہوئی یہ رات تھی ۔۔ اسے آج یہ مکمل کرنا تھا ۔۔ تبھی وہ آج کی رات یہاں تھا ۔۔ اور تبھی وہ بیدار تھا ۔۔۔
اس کے ذہن کے گوشوں میں ۔۔ اب بھی ایلا ہی منڈلا رہی تھی ۔۔ لیکن اسے یہ سب مکمل کرنا تھا ۔۔۔ ایلا کی زندگی کے لئے ۔۔
” ڈیلاویئر میں تمہیں یہ خبر بھی نہیں ہونے دوں گا کہ ایلا تمہاری بیٹی ہے ۔۔ ایلا کو چھیننے نہیں دوں گا میں کسی کو بھی ۔۔۔ وہ میری ہے ۔۔ اور اسے میرا ہونا ہی ہے ۔۔ کسی بھی طرح سے ۔۔ عرصے سے جس ملن کا انتظار تھا ۔۔ وہ ملن ہونے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا ۔۔ مجھے تم تک پہنچنے سے کوئ نہیں روک سکتا ایلا ۔۔ بس کچھ اور لمحے ۔۔ بس کچھ اور دن ۔۔ اور پھر ”
وہ خود سے محو گفتگو تھا ۔۔۔ لیپ ٹاپ بند کر کے ۔۔ وہ بالکونی میں چلا آیا تھا ۔۔۔
رات کی سیاہی میں ۔۔ پورا شہر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا ۔۔ جیسے روشنیوں کا سیلاب آیا تھا ۔۔
لیکن اسے گھٹن سی محسوس ہو ہونے لگی اچانک ۔۔۔ بےچینی جیسے رگ و پے میں اتری جا رہی تھی ۔۔
اور پھر کچھ انہونی کا احساس ہوا تھا ۔۔
” ایلا ۔۔۔ ”
اس کی زبان سے وہ لفظ ادا ہوا تھا ۔۔۔ اور پھر بےحد تیزی سے ۔۔ وہ اندر آ کے ۔۔ اپنی عبادت گاہ کی طرف گیا تھا ۔۔