وہ بخار میں مکمل تڑپ رہی تھی ۔۔ کافی تیز بخار تھا ۔۔ ڈاکٹر اسے انجکشن لگا گیا تھا ۔۔
لیکن پھر بھی وہ بخار میں نیم بےہوش تھی ۔۔
” کیا ہو گیا ہے میری بیٹی کو ۔۔ اتنا تیز بخار کیسے ہو گیا میری بچی کو ۔۔ کم ہی نہیں ہو رہا ۔۔ ”
زینیہ نہایت پریشانی سے اپنی بیٹی کو دیکھتی کہہ رہی تھی ۔۔ عائش بار بار ایلا کا ٹمپریچر چیک کر رہا تھا ۔۔ جب خلیل بہزاد اندر آئے تھے ۔۔
” کیسی طبعیت ہے اب ایلا کی ؟؟ ”
” ٹمپریچر کم ہی نہیں ہو رہا ۔۔ کیا ہوا ہے یوں اچانک میری بچی کو ”
زینیہ آبدیدہ تھی ۔۔
” اب کم ہے ٹمپریچر پہلے سے ۔۔ آپ فکر نہ کریں ۔۔ جا کے آرام کیجئیے مما ”
عائش نے نرمی سے کہا تھا ۔۔ جبکہ خلیل اپنی بیٹی کا نقاہت زدہ چہرہ دیکھ رہے تھے ۔۔
” یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے زینیہ ۔۔۔ جب دیکھو اس کے پیچھے پڑی ہوتی ہو ۔۔ ”
خلیل کے سپاٹ لہجے پہ زینیہ نے بھیگی آنکھوں سے ۔۔ انھیں دیکھا تھا ۔۔
” آپ کیسے ایسا کہہ سکتے ہیں مجھے۔ ۔ ایلا بیٹی ہے میری ۔۔ میں کیسے دشمن ہو سکتی ہوں اپنی ہی بیٹی کی ۔۔ ”
خلیل بہزاد لب بھینچ گئے تھے ۔۔
” مجھے کچھ نہیں سننا ۔۔ ”
سر جھٹک کے ۔۔ وہ انھیں نظرانداز کرتے ۔۔ اپنی بیٹی کو دیکھنے لگے ۔۔
” یہ آپ دونوں کے لڑنے کی جگہ نہیں ہے ۔۔ ایک دفعہ پہلے بھی آپ دونوں کی لاپرواہی کی وجہ سے ۔۔ ایلا کس مشکل اور مصیبت سے گزری تھی ۔۔۔ میں نہیں بھولا آج تک ۔۔ ”
عائش نے دونوں سپاٹ نظروں سے دیکھا تھا ۔۔ جبکہ زینیہ نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ لیا تھا ۔۔
” کہیں ۔۔ وہ پھر سے تو نہیں آ گیا میری بچی کو لے جانے ۔۔ ”
خلیل نے گھور کے انھیں دیکھا تھا ۔۔
” سوچ سمجھ کے بولا کرو زینیہ ۔۔ اٹھو اور جاؤ یہاں سے ۔۔ ”
وہ تقریباً غرائے تھے ۔۔ جبکہ زینیہ بھیگی آنکھیں لیے ۔۔ وہاں سے نکل گئی تھی ۔۔ عائش انھیں ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ جب ان کی نظر عائش پہ گئی ۔۔
” ایسے کیوں دیکھ رہے ہو مجھے عائش ۔۔ اس سب میں میری غلطی بلکل بھی نہیں تھی ۔۔ ”
عائش نے سر جھٹکا تھا ۔۔
” جائیے پلیز بابا ۔۔ اپنے روم میں جائیے ۔۔ ایلا کی حفاظت میں خود کر سکتا ہوں ۔۔ ”
عائش کے سپاٹ لہجے پہ ۔۔ وہ کچھ دیر وہیں کھڑے اسے دیکھتے رہے۔ ۔ اور پھر کمرے سے نکل گئے تھے ۔۔
کہ ایلا کی ایسی طبیعت خرابی ان تینوں کو پریشان کر رہی تھی ۔۔
” یہ کیا پلا رہی ہو تم مجھے ۔۔۔ اتنا گندا ٹیسٹ ”
ایک سپ لیتے ہی ۔۔ وہ گلاس کاوش نے ژاویلا کی طرف بڑھایا تھا ۔ جس پہ وہ مسکراتی ہوئی ۔۔ اس کے قریب ہوئی تھی ۔۔
” میرے لئے بھی نہیں پیو گیں ؟”
ایک ادا سے کہتی ۔۔ وہ کاوش کو چاروں شانے چت کر چکی تھی ۔۔ تبھی وہ نرم پڑا تھا ۔۔
” یہ ہے کیا ؟؟”
” انسانی خون ۔۔ ”
کہنے کی دیر تھی ۔۔ کاوش گلاس پھینک کے بدک کے پیچھے ہوا تھا۔ ۔
” ک۔۔۔۔ ک۔۔۔۔ کیا؟؟ ک۔۔۔ ک۔۔۔ کون ہو تم ۔۔ ؟؟”
وہ ڈر گیا تھا اس سیچویشن سے ۔۔ اور جب ژاویلا اپنے اصلی روپ میں آئی تو وہ چیخے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔
” چ ۔۔۔۔ چ۔۔۔ چ۔۔۔۔۔ ”
اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی ۔۔ الفاظ ٹوٹ رہے تھے اس کی زبان کے نوک پہ ۔۔ جب ژاویلا تیزی سے ۔۔ اس کے قریب آئی ۔۔۔
” چڑیل ۔۔۔۔ ”
اور اس پہ جھک کے ۔۔۔ اس کا جملہ مکمل کر دیا ۔۔ جبکہ وہ چیخ ہی پڑا تھا ۔۔۔ آنکھوں میں خوف تھا ۔۔۔
” ت ۔۔۔ ت ۔۔ تو کل رات م ۔۔۔ میں چڑیل کے ساتھ۔ ۔۔۔ ؟؟”
ژاویلا کی آنکھیں مسکرائی تھی ۔۔
” تم میرے ساتھ تھے ۔۔۔ ”
ساتھ ہی آنکھ ونک کی تھی ۔۔۔
” اب تم سے میں جب چاہوں ۔۔ ملنے آ سکتی ہوں ۔۔”
اس کے سینے پہ۔ ۔۔ دل کے مقام پہ اپنی انگلی پھیرتی ۔۔ وہ کہہ رہی تھی ۔۔ جبکہ کاوش سانس روکے ۔۔ خوفزدہ نظروں سے ۔۔۔ اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
” میں کل رات نشے میں تھا ۔۔۔ تم تو ہوش میں تھی ۔۔ کیوں میرا فائدہ اٹھایا ۔۔۔ ”
ژاویلا نے ہنستے ہوئے ۔۔ گہری سانس خارج کی ۔۔
” کیونکہ تم میرے پیچھے آئے تھے ۔۔ یہاں اس بیڈ روم میں ۔۔۔ اپنی بھوک مٹانے ۔۔۔ ”
ژاویلا اس پہ مزید جھکی تھی ۔۔
” اب انسانی خون پیو گیں تم ۔۔۔ اور پھر تم میں وہ سب شیطانی کرامات آ جائے گی ۔۔ جس کے بل بوتے پہ ۔۔ تم اس دنیا کو فتح کر لو گیں۔ ۔۔ ایلا تمہاری ہوگی ۔۔۔ ”
کاوش جو اسے سن رہا تھا ۔۔ سر نفی میں ہلانے لگا ۔۔
” د ۔۔۔ د۔ ۔۔۔ دور رہو مجھ سے ۔۔ ج۔۔۔ جانے دو ۔۔ ”
وہ رو دینے والا ہو گیا تھا ۔۔ جبکہ ژاویلا نے ہنستے ہوئے ۔۔ اس کے چہرے پہ اپنی انگلیاں پھیری تھی ۔۔۔ اور وہ ایکدم سے بےہوش ہو گیا تھا ۔۔ جبکہ ژاویلا کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ تھی ۔۔۔
” آہ ۔۔۔ کاوش ۔۔۔ آہ ”
نم آنکھوں سے ۔۔
وہ ایلا کے نقاہت زدہ چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
عائش ابھی ابھی اس کے کمرے سے باہر گیا تھا ۔۔۔ وہ بیڈ پہ ایلا کے قریب ہی اس کی پشت پہ نیم دراز ہوا تھا ۔۔۔
بہنام نرمی سے ۔۔ اس کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگا ۔۔۔
” ایلا ۔۔۔ میری جان ”
اس نے مدھم سرگوشی کی تھی ۔۔ لیکن وہ ابھی بھی نیم بےہوش تھی ۔۔۔ دھیرے سے اپنے لب اس کی گردن پہ رکھے تھے بہنام نے ۔۔۔
ایلا کے بدن کی خوشبو کو ۔۔ اپنی سانسوں میں اتار کے اس نے آنکھیں موندی تھی ۔۔۔
تم جو عشق ہو ۔۔
تم جو عبادت ہو ۔۔
تم سے عشق جو کیا ہے ۔۔
نمازوں جیسی نیت جو باندھی ہے ۔۔
میرے عشق کے ۔۔
ہر رکوع اور ۔۔
ہر سجدے میں تمہارا وجود بسا ہے ۔۔
کہ میرے عشق کی ہر دعا ۔۔
تمہارے وجود کی خوشبو سے مہکی پڑی ہے ۔۔
اس کی آواز بھاری اور بوجھل تھی ۔۔ ایلا آنکھیں موندے بھی ۔۔ اسے اپنے قریب محسوس کر رہی تھی ۔۔
اس کی خوشبو کا حصار ۔۔ ایلا محسوس کر رہی تھی ۔۔
وہ آنکھیں کھولنا چاہ رہی تھی ۔۔۔ لیکن اس کی بند پلکیں بھاری ہو رہی تھی ۔۔۔
وہ چاہ کے بھی ہل نہیں پا رہی تھی ۔۔ آنکھیں نہیں کھول پا رہی تھی ۔۔
جب بہنام نے اس کی پیشانی پہ اپنے لب رکھے تھے ۔۔۔۔ اس کی پشت کے گہرے گلے سے ۔۔۔ نظر آتا اس کا کندن جیسا بدن ۔۔۔
اپنی انگلی کی پور سے بہنام نے اس کی پشت پہ ۔۔۔
Beloved
لکھا تھا ۔۔۔ ایلا ہلکا سا کسمسائی تھی ۔۔۔ جبکہ بہنام کا دل گستاخی کرنے کو چاہنے لگا ۔۔
تبھی آنکھیں موند کے ۔۔ اس کی پشت پہ اپنے لب رکھے تھے ۔۔ بخار کا اثر اب زائل ہو رہا تھا ۔۔
وہ محبت بھری نظروں سے ۔۔۔ اس کی بند پلکوں کو دیکھنے لگا ۔۔۔
” وہ تمہاری ہے بہنام ۔۔ تمہارے دل کی ملکہ ۔۔ تمہارے اس عظیم الشان سلطنت کی ملکہ ۔۔۔تم جو اسے کھو چکے تھے۔ ۔ اب اتنے سالوں بعد وہ پھر سے تمہیں مل رہی ہے ۔۔۔ اب کے اسے خود سے دور جانے مت دینا ۔۔۔ ژاویلا جیسی جادوگرنی سے تو بچا کے ہی رکھو گیں ۔۔ لیکن بہنام یاد رکھنا ۔۔ تمہارا اور ایلا کا ایک دشمن اور بھی ہے ۔۔۔ سامبیر جادوگر ۔۔ جو پہلے بھی ایلا کو اپنی دسترس میں کرنے کی کوشش کر چکا ہے ۔۔ اب پھر سے وہ آ جائے گا ۔۔ ”
اس کے کانوں میں ۔۔۔ ملکہ ایلزا کی اواز گونجی تھی ۔۔۔ وہ لب بھینچ گیا تھا ۔۔۔ بےحد آہستگی سے ۔۔۔ اس نے ایلا کی گردن میں ایک لاکٹ پہنایا تھا ۔۔ اور اسے لاکڈ کر دیا تھا ۔۔ جو اس کی حفاظت کے لئے تھا ۔۔۔۔
” آئیے پیر صاحب آئیے ۔۔ ”
زینیہ کسی پیر کو اپنے ساتھ لیے اندر لائی تھی ۔۔۔ بہنام نے بےحد ناگواری سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
کندھے تک آتے بال ۔۔ بڑھی ہوئی داڑھی ۔۔۔ بلیک شلوار قمیص ۔۔۔ سر پہ ٹوپی رکھے ۔۔ آنکھوں میں سرمہ لگائے ۔۔۔ وہ پیر نہایت ہوس بھری نظروں سے ۔۔ بیڈ پہ سوئی ایلا کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” یہ میری بیٹی ہے ایلا ۔۔ آپ نے دیکھا تو ہے اسے بچپن سے ۔۔ بس اس کی حفاظت کے لئے کوئی دم درود کر دیں ۔۔ ”
زینیہ کہنے لگی جبکہ ایک ماں ہوتے ہوئے بھی ۔۔ وہ اس پیر کی آنکھوں میں اپنی بیٹی کے لئے ابھرتے ہوس کو نہیں دیکھ پا رہی تھی ۔۔
” بھسم ہو جائے گا ۔۔ سب بھسم ہو جائے گا ۔۔۔ ایسا دم درود کروں گا کہ کوئی جادوگر ۔۔ کوئی جن زاد اس کے قریب بھی نہیں آ پائے گا ۔۔ جاؤ تم اب کمرے سے ۔۔ اس منتر کے لئے ۔۔ میں اور ایلا کا اکیلے ہونا ضروری ہے ۔۔۔ ”
اس نے اپنی بھاری آواز میں ۔۔ زینیہ پہ رعب جمانے کے لئے کہا تھا ۔۔ اور زینیہ مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگی ۔۔
” آپ نے جو بھی کرنا ہے ۔۔ کر لیں ۔۔ بس میری بیٹی کو ٹھیک کر دیں۔ آپ تو ہمارے بزرگ ہے ۔۔ ہم پہ آپ کا سایہ ہمیشہ بنا رہے ۔۔۔ آپ کے قدموں میں ۔۔۔ میں اپنا وجود قربان کردوں ۔۔ ”
زینیہ تو جیسے الفاظ سے ہی اس پیر پہ قربان ہونے لگی ۔۔ جبکہ اپنے کام میں خلل پڑتا دیکھ کے ۔۔ اس پیر نے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
” میں چلتی ہوں ۔۔”
زینیہ جلدی سے کہتی ۔۔ کمرے سے نکلنے لگی ۔۔ بہنام کی سرد نظریں اس جعلی پیر پہ تھی ۔۔
جو دروازے تک گیا اور جلدی سے لاک کر کے ۔۔ تیزی سے اپنی بتیسی نکالتا ۔۔۔ بیڈ تک آیا تھا ۔۔۔
” کیا حسن ہے ۔۔۔ کب سے تجھ پہ میری نظر تھی ۔۔ یا اللہ وارے نیارے ہو گئے میرے ۔۔۔ اس حسن کی ملکہ کے ساتھ میں ۔۔۔ اس بستر پہ ۔۔۔۔ آہہہہ ”
وہ خوش ہوتا ۔۔ ایلا پر سے ۔۔ بلینکٹ بھی ہٹا چکا تھا ۔۔۔ اس کے حسن کی رعنائیاں ۔۔۔ جیسے اس جعلی پیر کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی ۔۔
اپنا ہاتھ اس نے ایلا کی گردن تک پہنچایا ہی تھا ۔۔۔ جب اسے احساس ہوا ۔۔۔ کہ کسی مضبوط گرفت میں اس کا ہاتھ آ چکا ہے ۔۔ اور اس کی کلائی جل رہی ہے ۔۔۔ جل کے جیسے بھسم ہو رہی ہے ۔۔۔
وہ زور سے چیخنے لگا ۔۔۔
جبکہ بہنام کی آگ برساتی آنکھوں میں ۔۔۔ نفرت اور سردمہری تھی ۔۔۔
وہ جعلی پیر چیخ رہا تھا ۔۔ جب جھٹکے سے ۔۔ وہ دیوار سے جا لگا تھا ۔۔۔
” میری ایلا کو چھونے کی غلطی بھی کیسے کر سکتے ہو تم ۔۔ ”
وہ دانت پیستا ۔۔۔ غرایا تھا ۔۔۔ پورا کمرا اسکی دھاڑ سے لرز اٹھا تھا ۔۔ جبکہ وہ پیر صاحب ۔۔۔ خوفزدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا ۔۔
” ک ۔۔۔۔ ک۔۔۔۔ ک۔۔۔۔۔ کون ۔۔۔۔ ”
وہ کہہ بھی نہیں پا رہا تھا ۔۔۔ جب اسے اپنی گردن پہ ۔۔۔ کسی بھاری گرفت کا احساس ہوا تھا ۔۔۔
” ت۔۔۔۔ ت۔۔۔ تمہاری موت ۔۔ ”
اسی کے لہجے میں ۔۔ بہنام بھی غرایا تھا ۔۔۔ اور پھر جھٹکے سے اس کا ہاتھ ہوا میں لہرایا تھا ۔۔۔ اور چٹاخ کی آواز کے ساتھ ہی ۔۔ ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔۔۔ وہ چیخ اٹھا تھا درد کی شدت سے ۔۔۔
وہی حال دوسرے بازو کے ساتھ بھی ہوا تھا ۔۔۔ اس کی درد بھری چیخیں ۔۔۔ کمرے کے در و دیوار ہلا رہے تھے ۔۔۔ وہ دروازے کی طرف بھاگنے لگا ۔۔۔ لیکن اس کی دونوں ٹانگیں شل ہوئی تھی اور وہ نیچے گرا تھا ۔۔۔ خوفزدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھتا ۔۔ وہ جیسے رینگ رہا تھا ۔۔۔
” میری ایلا پہ اپنی گندی نظریں ڈالی بھی کیسے ۔۔۔ ؟؟”
پھر سے بہنام دھاڑا تھا ۔۔۔ اور اسکی آنکھوں سے خون کے آنسو نکلنا شروع ہوئے تھے ۔۔۔
” م۔۔۔۔ مجھے بچا لو ۔۔۔ مجھے بچا لو ۔۔۔۔ ”
وہ روتے ہوئے چلانے لگا ۔۔۔۔ باہر سے زینیہ بار بار دروازہ بجا رہی تھی ۔۔۔ لیکن دروازہ لاکڈ تھا ۔۔۔ اور پھر دروازہ دروازہ ان لاک ہوا تھا جسے بہنام نے ایک ہی اشارے سے ان لاکڈ کیا تھا ۔۔۔ ۔۔ اور زینیہ اندر آئی تھی ۔۔
” پیر صاحب آپ چیخ کیوں ۔۔۔ ”
لیکن اندر کا منظر دیکھ کے ۔۔ اس کی آنکھیں حیرت سے باہر کو آئی تھی ۔۔
” پیر صاحب ۔۔ پیر صاحب کیا ہوا ہے آپ کو ؟؟”
جبکہ اس جعلی پیر صاحب کی ہمت ہی جواب دے گئی تھی ۔۔
” تمہاری بیٹی کو جن چڑھ گئے ہیں ۔۔۔ مجھے مار دیا ۔۔۔ مجھے مار دیا ۔۔۔ ”
وہ چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔ جبکہ زینیہ نے بیڈ کی طرف دیکھا ۔۔۔ ایلا وہاں سو رہی تھی ۔۔۔
” میری بیٹی تو سو رہی ہے ۔۔ ”
” ن۔۔۔ نہیں ۔۔ اس پہ جن چڑھ گیا ہے ۔۔ ”
جبکہ وہ پیر اپنی بات دہرانے لگا ۔۔۔ اور بہنام اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے ۔۔ اس پیر کو تڑپتا ہوا دیکھ رہا تھا ۔۔ کہ ایلا کی طرف اٹھنے والی ہر گندی آنکھ ۔۔ ہر ہوس بھری نیت والے کو ۔۔۔ وہ ایسی ہی سزا دیتا تھا ۔۔۔
ایلا بہنام کی ہے ۔۔ صرف بہنام کی ۔۔۔ پاکیزہ بندھن ہیں ان کا ۔۔۔
” بہنام کہاں ہے ؟؟”
ڈیلاویئر کی بھاری آواز وہاں گونجی تھی ۔۔۔ وہ ان سب کا بزرگ تھا ۔۔۔
آج ان کی میٹنگ تھی ۔۔ جن میں بہنام کی غیر موجودگی کو انھوں نے محسوس کیا تھا ۔۔
سب نے ایکدوسرے کی طرف دیکھا تھا ۔۔ جبکہ ژامبون ان کی طرف دیکھنے لگا ۔۔
” بہنام آج کل کسی انسانی لڑکی کے عشق میں پڑ چکا ہے ۔۔۔ وہ اپنے حواسوں میں کہاں رہتا ہے جو یہاں ہوگا ۔۔۔ ”
ڈیلاویئر کے ماتھے پہ ۔۔۔ اس کی بات سے بل پڑ گئے تھے ۔۔۔
” کون سی انسانی لڑکی ؟؟ کون سا عشق ؟؟ کیا وہ ہمارے اصول نہیں جانتا ۔۔ ”
ان کا لہجہ سرد و سپاٹ تھا ۔۔۔ جب رامبر کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی تھی ۔۔۔
” وہ خود کو اس سلطنت کا بےتاج بادشاہ کہتا ہے ۔۔۔ اسے کسی روک ٹوک یا اصولوں کی پرواہ نہیں ہے ۔۔ ”
اس کا لہجہ تمسخر لیے ہوئے تھا ۔۔۔
” وہ بادشاہ ہے تو یہاں کا بزرگ میں ہوں ۔۔۔ پیغام پہنچاؤ اسے میرا ۔۔۔ کہ میں نے اسے پہلی فرصت میں بلایا ہے ۔۔۔ ”
ڈیلاویئر کے چہرے پہ غصے کے تاثرات تھے ۔۔۔ باقی سب انھیں دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی ان کی ۔۔ وہ تو بس بہنام کی جرات ہی تھی ۔۔ کہ وہ بنا کسی ڈر و خوف کے ۔۔۔ ڈیلاویئر کے سامنے بولتا تھا ۔۔۔ اپنے دل کی بات کرتا ۔۔۔
ژامبون اور رامبر کے چہرے پہ ۔۔ تمسخر بھری مسکراہٹ ابھری تھی ۔۔۔
جیسے کہنا چاہ رہے ہو بہنام آج کل جس ہوا میں اڑ رہا ہے ۔۔ ڈیلاویئر کا کوئ اصول اسے ۔۔۔ کسی بھی کام سے نہیں روک سکتا ۔۔۔ کیونکہ وہ کسی کو خاطر میں نہ لانے والا جن زاد تھا ۔۔
وہ آگ تھا ۔۔ وہ حاکم تھا ۔۔۔ وہ بادشاہ تھا ۔۔ ناقابلِ تسخیر تھا وہ ۔۔۔
” ہم یہاں بہنام کو ڈسکس کرنے تو نہیں بیٹھے ہوئے ”
ٹریسا نے نہایت نخوت سے ۔۔ سر جھٹکتے کہا تھا ۔۔
” بلکل ۔۔ وہ ہوگا بادشاہ اس سلطنت کا ۔۔ہمارے لئے تو بادشاہ آپ ہیں ”
یہ انٹاسیا تھی ۔۔ جو بہنام کو پسند کرتی تھی ۔۔ لیکن بہنام کا سرد رویہ ۔۔ اسے ہمیشہ غصہ دلاتا ۔۔۔
تبھی وہاں بہنام آیا تھا ۔۔۔ اور سب کی نظریں اس پہ جم گئی تھی ۔۔
” آج کی میٹنگ کیا بہنام پہ ہے ؟”
آبرو اچکا کے کہتا ۔۔ وہ ایک کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
” تم آج کل کسی انسان کے چکر میں پڑ گئے ہو ؟؟ مت بھولو بہنام کہ تمہارے سلطنت کی ملکہ انٹاسیا ہی بنے گی ۔۔ کوئی انسان نہیں۔ ۔۔ ”
ڈیلاویئر کے دو ٹوک انداز پہ ۔۔ بہنام کے ماتھے پہ بہت سے بل پڑ گئے تھے ۔۔ جبکہ انٹاسیا خوشی سے پاگل ہو رہی تھی ۔۔ تبھی مسکراتی آنکھوں سے ۔۔ بہنام کو دیکھنے لگی وہ ۔۔
” مجھے اپنے سلطنت کی ملکہ ۔۔ اپنی مرضی کی چاہئیے ۔۔۔ اور میری مرضی اور پسند ایلا ہے ”
بہنام کا لہجہ بھی دو ٹوک تھا ۔۔ جہاں دوسروں کے چہرے پہ تمسخر پھیلا تھا ۔۔ وہی ڈیلاویئر کے چہرے پہ کرختگی پھیلی تھی ۔۔
” مٹی سے بنی ۔۔ ایک عام سی انسان کیسے تمہاری ملکہ بن سکتی ہے بہنام ۔۔ تم آگ ہو ۔۔ اور آگ مٹی سے برتر ہوتا ہے ۔۔۔ آگ پورے جنگل کو ۔۔۔ اس کے مٹی سمیٹ اپنی لپیٹ میں لینے کی طاقت رکھتا ہے ۔۔ ایک مٹی سی بنے انسان کو کیسے اپنی پسند بنا سکتے ہو تم بہنام ۔۔ ”
وہ سخت غصے میں تھے ۔۔۔
” پسند ؟؟؟ پسند نہیں ۔۔ عشق ہے وہ بہنام کی ۔۔۔ میری آتی جاتی سانسوں میں بسی ہے وہ ۔۔ اگر وہ مٹی سے بنی ہے ۔۔ اگر وہ انسان ہے تو مت بھولئے وہ اشرف المخلوقات ہے ۔۔ میرے اور آپ کی طرح وہ آگ نہیں ہے ۔۔ ”
اس کا لہجہ پرسکون تھا ۔۔ جب ڈیلاویئر دھاڑا تھا ۔۔
” وہ انسان ہے ۔۔ تمہارا اس سے کیا جوڑ ۔۔۔”
” وہ میری بیوی ہے ۔۔ میرا عشق ہے ”
بہنام بھی چیخا تھا ۔۔
” بیوی ؟؟ ”
” بیوی ۔۔۔ ”
سب ایکدوسرے کا منہ تکنے لگیں ۔۔۔
” بیوی ؟؟ تم پاگل ہو بہنام ؟؟ ایک جن زاد کی شادی ایک انسان سے کیسے ہو سکتی ہے ؟؟ کوئی مذہب اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا ۔۔۔”
ڈیلاویئر کی بات پہ ۔۔ وہ طیش میں اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
” وہ میری ہے ۔۔ میری ایلا ہے ۔۔ آج سے کئی سال پہلے ہی وہ میری بن چکی ہے ۔۔ وہ مجھ میں ہے ۔۔ میرے جیسی بن جائے گی وہ بھی ۔۔۔ مجھ سے آئندہ کوئی ایلا کے متعلق بحث نہیں کرے گا ۔۔ ”
وہ غراتا ہوا کہتا ۔۔۔ سب اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے ۔۔۔ ایک کڑی نظر ڈالتا باہر جانے لگا ۔۔
” اور میں بہنام ؟؟ میں بھی تو سالوں سے تمہارے نام پہ بیٹھی ہوں ”
انٹاسیا کی آواز پہ رک کے ۔۔ اس نے مڑ کے دیکھا تھا ۔۔ اس کی قہر برساتی آنکھوں سے جو آگ نکل رہی تھی ۔۔ ان سے نظر بچاتی ۔۔۔ انٹاسیا اپنی نظریں چرا گیا ۔۔
وہ کچھ نہیں بولا ۔۔ بس غصے سے غراتا وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔
اور یہاں موجود سب کے ذہن اب مخشوش ہو چکے تھے ۔۔ نئی مصیبت ۔۔ نیا باب کھل گیا تھا ان پہ ۔۔۔
” اس ایلا کو تو جان سے مار دینا چاہیے ۔۔ ”
یہ ژامبون تھا ۔۔
” نہیں ۔۔ ”
ڈیلاویئر نے ٹوکا تھا ۔۔ ۔
” دیکھا نہیں ۔۔ وہ کتنا پوزیسو ہو رہا ہے اس انسان کے لئے ۔۔ اسے خود اس لڑکی کو ختم کرنے دو ۔۔ ایسی سیچویشن بناؤ کہ وہ خود اس لڑکی کا گلا گھونٹ دیں ۔۔۔ ”
ڈیلاویئر کے چہرے پہ ۔۔ غصہ پھیلا ہوا تھا ۔۔۔
وہ نیند سے ہڑبڑا کے جاگا تھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی ۔۔ ہاتھ پاؤں کی جلد زرد پڑ رہی تھی جیسے برسوں سے اسنے کچھ نہ کھایا ہو ۔۔۔
کانپتے ہاتھوں سے ۔۔۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی سے بھرا گلاس اٹھایا اور غٹاغٹ پی گیا ۔۔
لیکن پیاس پھر بھی تھی ۔۔۔ اسے ہر طرف خون کی بو آتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔
جب اس کی نظر سامنے کھڑکی پہ گئی ۔۔۔ جو کھلی ہوئی تھی۔۔ اور وہاں سے ایک کھوپڑی نما سر جھانک رہا تھا ۔۔۔ جس کی کالی سیاہ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھی ۔۔ اور جس کے سر اور چہرے سے ۔۔ خون لکیروں کی صورت میں بہہ بہہ کے اندر کمرے میں آ رہا تھا ۔۔
” ک ۔۔ ک ۔۔ کون ۔۔ ؟”
جب وہ کھوپڑی اندر آئی تھی ۔۔
کاوش چلایا تھا ۔۔۔ وہ دروازے کے سمٹ بھاگنا چاہ رہا تھا ۔۔ جب وہ عین اسکی آنکھوں کے سامنے ۔۔۔ زمین اور چھت کے بیچ کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
” ڈرو نہیں ۔۔ ”
تین چار طرح کی ۔۔۔ خوفناک آوازیں تھی ۔۔ جسے سمجھنا کاوش کے لئے مشکل ہی تھا کہ کون سی آواز زیادہ خطرناک ہے ۔۔
” تمہاری مدد کر رہے ہیں ہم ۔۔۔ ہم وہ شیطان ہیں۔۔ جو باری باری تمہاری مدد کریں گے ۔۔ تمہیں تمہاری منزل تک پہنچانے میں۔ ۔ ”
اور پھر وہ کھوپڑیاں الگ الگ ہو کے ۔۔ چار کی تعداد میں ہوئی تھی ۔۔
جن کے سروں سے خون ٹپک ٹپک کے بہہ رہا تھا ۔۔
” ہمارا خون پیو گیں ۔۔۔ تو تم وہ طاقت پا لو گیں ۔۔ جو ناقابلِ شکست ہیں ۔۔۔ ”
کاوش وہیں کھڑا انھیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” شیطان ہمیشہ شیطان کا ساتھ دیتا ہے ۔۔۔ اور ہم تمہارا ساتھ دیں گے ۔۔۔ اس دنیا پہ حکمرانی ہوگی تمہاری ۔۔۔ ”
کاوش اثبات میں سر ہلانے لگا ۔۔۔۔
” کاوش ۔۔۔ ”
ایک اور آواز آئی تھی ۔۔۔ جو ژاویلا کی تھی ۔۔ کاوش چاروں طرف دیکھنے لگا ۔۔ لیکن ہر طرف سیاہ دھواں تھا ۔۔
” بلڈ پیو ان کا سارا ۔۔۔ پھر اپنی طاقت کو محسوس کرو ۔۔ ”
پھر سے ژاویلا کی آواز آئی تھی ۔۔
” تم کہاں ہو ؟؟”
وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔ جب کمرے میں قہقہے گونجے تھے ۔۔
” تم پہلے بلڈ پیو ۔۔ ”
کاوش ان چاروں کھوپڑیوں کو دیکھنے لگا ۔۔
” کیا تمہیں ہمارے بلڈ کی چاہ ہو رہی ہے ۔۔ ؟؟”
وہ چاروں ایک ساتھ بولے تھے ۔۔ اور کاوش کسی پیاسے کی طرح ۔۔ ان کی طرف لپکا تھا ۔۔۔
اور بوند بوند وہ ان شیطانی کھوپڑیوں کا خون پینے لگا ۔۔۔
جب اسے اپنے چاروں طرف عجیب آوازیں سنائی دینے لگی تھی ۔۔
وہ رکا تھا ۔۔ آنکھیں کھول کے چاروں طرف دیکھنے لگا ۔۔
یہ اس کا کمرہ نہیں تھا ۔۔ یہ ایک تاریک کمرہ تھا ۔۔ جہاں بہت سے اس جیسے برہنہ انسان بیٹھے۔۔۔ خود کا گوشت کاٹ کے کھا رہے تھے ۔۔
اپنا ہی خون چوس رہے تھے ۔۔ ان کے عجیب خوفناک چہرے تھے ۔۔ اور وہ منظر بھی بےحد ہولناک تھا ۔۔۔
” جاؤ کاوش۔۔۔ جاؤ اور ان میں سے ایک لڑکی کو پکڑ کے ۔۔ اس کا گوشت کھاؤ ۔۔ ”
ژاویلا کی آواز پھر سے آئی تھی ۔۔ کاوش کا چہرہ ۔۔ منہ ۔۔ شرٹ خون سے لٹ پٹ تھے ۔۔۔
” تم طاقتور ہو ۔۔ تم شیطان ہو ۔۔ یہ سب تمہارے چیلے ہیں ۔۔ انہیں جب چاہو تم کھا سکتے ہو ۔۔ جب چاہو پی سکتے ہو ان کا خون ۔۔۔ جاؤ اور اپنی ہوس ۔۔ اپنی بھوک ۔۔ اپنی پیاس بجھاؤ ۔۔ جاؤ ”
اور کاوش کسی سفاک درندے کی طرح ۔۔۔ اپنی زبان منہ سے باہر لٹکائے ۔۔۔ ایک لڑکی کی طرف بھاگا تھا ۔۔ جو اپنے تھائیز ۔۔۔ چھری کی مدد سے کاٹ کاٹ کے ۔۔ اس کا خون چوس رہی تھی ۔۔۔
وہ اس لڑکی پہ جپٹا تھا ۔۔ اور اپنے دانتوں سے اسے نوچنے لگا ۔۔ جبکہ وہ لڑکی چیختی چلاتی ۔۔ اس کا شکار بن رہی تھی ۔۔۔ ژاویلا کی ہنسی ۔۔ اسی کالی ۔۔ تاریک ۔۔ سیاہ کوٹھڑی میں۔ گونجی تھی ۔۔۔
،