ایک بحری جہاز کے بارے میں قدیم یونانی کہانی ہے۔ یہ جہاز تھیسیس کی بندرگاہ سے دنیا کا سفر کرنے نکلا تھا۔ سفر کے دوران اسے کئی خطرات آئے۔ طوفانوں نے اس کے بادبانوں کو نقصان پہنچایا۔ انہیں تبدیل کرنا پڑا۔ طویل سفر میں اس کے تختے خراب ہوتے گئے۔ جب کوئی خراب ہوتا تو اسے تبدیل کر دیا جاتا۔ اس کے عملے کے کئی افراد کو راستے میں کوئی جزیرہ پسند آ گیا اور وہ وہیں رہ گئے۔ نئے افراد بھرتی کر لئے گئے۔ جہاز چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے اصل تختوں میں سے ایک بھی باقی نہ رہا۔ اصل عملے کا کوئی بھی فرد نہ رہا۔
اب سوال یہ کہ جو بحری جہاز واپس تھیسیس لوٹا، کیا وہی تھا جو یہاں سے روانہ ہوا تھا؟ اس کا جواب (خواہ ہمیں ملے یا نہیں)، شناخت کے تصور میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شناخت کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ وہ تعلق ہے جو کسی چیز کا صرف اور صرف خود کے ساتھ ہے۔ کسی بھی چیز کو جو شے منفرد بناتی ہے، وہ اس کی شناخت ہے۔ اور اگر دو اشیا کی ایک ہی شناخت ہے تو ان کا آپس میں شناخت کا تعلق ہے۔
کیا دو اشیاء ایک ہی ہیں؟ یہ بہت آسان اور واضح لگتا ہے، لیکن ایسا نہیں۔
یہ جلد ہی پیچیدہ ہوتا جاتا ہے کیونکہ تھیسیس کے بحری جہاز کی طرح، چیزیں تبدیل ہوتی ہیں۔ اور جب یہ تبدیل ہوتی ہیں تو یہ کچھ اور بن جاتی ہیں۔ اور یہ صرف قصوں والے بحری جہازوں کے ساتھ ہی نہیں، ہر قسم کی شے کے ساتھ ہے۔ خواہ وہ شے برتن ہو یا نوٹ یا آپ خود یا پھر بیٹ مین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹ مین کامک کتابوں کا مشہور سپرہیرو ہے۔ بروس وین ایک امیرزادے ہیں جو جرائم سے لڑنے کے لئے نقاب اور کاسٹیوم پہن کر بیٹ مین کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کیا بروس وین اور بیٹ مین ایک ہی شناخت رکھتے ہیں؟ یہاں پر ایک شناخت رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا حلیہ ایک ہے بلکہ یہ کہ یہ دونوں ایک ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ ہاں۔ بروس وین اور بیٹ مین ایک ہی ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ بیٹ مین کے نقاب کے پیچھے وہی ہیں۔ بروس وین کو نکال دیا جائے تو بیٹ مین الگ سے وجود نہیں رکھتا۔ ان کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔
لیکن ان کی جگہ تو لوگ لے چکے ہیں۔ ایک بار ان کے ساتھی (رابن) نے ان کی جگہ لی تھی اور اپنے باس کی غیرموجودگی میں ان کا لباس اور نقاب استعمال کر کے گوتھم کو محفوظ رکھنے میں مدد کی تھی اور یہی کام پولیس کمشنر نے کیا تھا۔ تو پھر یہ دونوں بھی اس وقت بیٹ مین تھے۔
تو پھر اگر بیٹ مین کے کاسٹیوم میں موجود ہونا کسی کو بیٹ مین نہیں بناتا تو پھر کیا شے بناتی ہے؟
سترہویں صدی میں جرمنی کے گوٹفرائیڈ لائبنیز نے ایک اصول دیا تھا جو شاید مدد کر سکے۔ ان کا یہ اصول indiscernibility of identicals ہے۔ اس کے مطابق، “اگر دو اشیاء آئیڈینٹیکل ہیں تو ان کی تمام خاصیتیں ایک ہوں گی”۔
اگر لائبنز درست ہیں تو پھر تھیسیس کا بحری جہاز اسی وقت ایک نیا بحری جہاز بن گیا جب اس کا پہلا تختہ تبدیل کیا گیا۔ کیونکہ نئی خاصیت اپنا لینے کے ساتھ ہی اس کی شناخت تبدیل ہو گئی۔
اسی طرح بروس وین اور بیٹ مین الگ ہیں کیونکہ ان کی خاصیتیں الگ ہیں۔ بروس وین زندگی سے لطف اندوز ہونے والے ایک امیرزادے ہیں جبکہ بیٹ میں کی یہ خاصیت نہیں۔ بیٹ مین کی خاصیت جوکر سے لڑائی کرنا ہے جبکہ بروس وین کی یہ خاصیت نہیں۔
اور مختلف بیٹ مین بھی ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے۔ خواہ کاسٹیوم وہی ہو۔ لڑنے کی الگ تکنیک اور الگ اخلاقی کوڈ ۔۔۔ تو پھر کیا ہم کوئی حد لگا سکتے ہیں کہ کونسی شے میں کتنی تبدیلی ہو جائے تو پھر بھی وہ اپنی شناخت برقرار رکھے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسا معمہ امریکی فلسفی ایلن گبرڈ نے رکھا تھا۔ ایک مجسمہ ساز گندھی ہوئی چکنی مٹی لیتا ہے۔ اور اس کا نام لمپل رکھتا ہے۔ اب وہ اس سے ایک مجسمہ بناتا ہے۔ اس مجسمے کا نام گولیاتھ رکھتا ہے۔ کیا لمپل اور گولیاتھ ایک ہی ہیں؟ شاید ہم کہیں کہ ہاں۔ کیونکہ فزیکلی تو یہ بالکل ایک ہی شے تھے۔ صرف ڈھالنے میں کچھ فرق ہے۔ اس کے سوا تو کچھ بھی نہیں۔ لمپل کا کوئی بھی ایسا حصہ نہیں جو گولیاتھ میں نہ ہو اور گولیاتھ کا کوئی بھی حصہ نہیں جو لمپل میں نہ ہو۔
لیکن اب، اگر ہم اس مجسمے کو خراب کر دیتے ہیں اور اس کو توڑ کر واپس چکنی مٹی کا ڈھیر بنا دیتے ہیں تو گولیاتھ تو ختم ہو گیا۔ کیونکہ گولیاتھ ہونے کا مطلب ایک خاص صورت بھی تھی۔ لیکن لمپل کو ایسی کسی شکل میں ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ گولیاتھ کے تباہ ہو جانے کے بعد یہ باقی رہا۔
ایک طرف ایسا لگتا ہے کہ لمپل اور گولیاتھ کی شناخت ایک ہی ہے کیونکہ الگ ڈھال کے سوا یہ بالکل ایک ہی ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ ایک کیسے ہو سکتے ہیں جب ایک کا وجود دوسرے کے ختم ہو جانے کے بعد بھی برقرار رہ سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شناخت کے بارے میں وضاحت کا ایک اور طریقہ کسی شے کا وقت کے ساتھ تعلق ہے۔ اس میں لازمی اور اتفاقی خاصیتیوں میں تفریق رکھی جاتی ہے۔
لازمی خاصیت وہ ہیں جو کسی شے کو وہی شے بناتی ہیں۔ اتفاقی خاصیتوں کو اگر کسی شے سے الگ کر دیا جائے تو شناخت پر فرق نہیں پڑتا۔
ایک کتے کی مثال دیکھ لیتے ہیں۔ اگر اس کی دّم نہ ہو تو بھی وہ کتا رہے گا۔ اس کے بال اتار دیں تو بھی وہ کتا رہے گا۔ اسے بھونکنے سے روک دیں تو بھی وہ کتا رہے گا۔ یہ سب اتفاقی خاصیتیں ہیں۔ لیکن پھر لازمی خاصیت کیا ہے؟ جو کہ اگر نہ ہو تو پھر یہ کتا نہ رہے؟ اور جتنی بھی کوئی شے تبدیل ہو جائے، اتنا ہی شناخت پہنچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔
ایک درخت سے اگر پتے جھڑ جائیں تو پھر بھی وہ درخت ہی رہتا ہے۔ لیکن اگر اس کو کاٹ کر اس سے کتابیں بنا لی جائیں؟ کیا یہ اب بھی وہی درخت ہے؟ اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر اس پورے پراسس میں وہ کونسا مقام آیا جہاں پر اس کی درخت ہونا ختم ہوا تھا؟ جب اسے کاٹ کر گرا دیا گیا تھا تو کیا اس وقت یہ درخت نہیں رہا تھا؟ شاید۔ لیکن کیا مردہ درخت درخت نہیں ہوتا؟ یا پھر اس وقت جب اس کے کاٹ کر ٹکڑے کئے گئے تھے؟ یا پھر اس وقت جب ان ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے فیکٹری لے جایا گیا تھا؟ یا پھر اس وقت جب اس کو پیس کر گودا بنا دیا گیا تھا؟ لیکن ایسا مقام تھا جب درخت ہونے کی لازمی خاصیت اس میں سے ختم ہو گئی تھی۔ یہ ٹھیک ٹھیک کب ہوا؟ اس کا انحصار آپ کے نکتہ نظر پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی مفکرین لازمی خاصیتوں کے تصور سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اگر آپ existentialist ہیں تو آپ اس کا انکار کریں گے۔
قدیم یونانی فلسفی ہیراقلیس کا مشہور فقرہ ہے کہ “آپ کسی بھی دریا میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے”۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی شے ویسی نہیں رہتی۔ دریا بھی اور آپ بھی مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں۔ جب آپ اگلا قدم رکھیں گے تو آپ اور دریا، دونوں ہی تبدیل ہو چکے ہوں گے۔
یعنی تھیسیس کے بحری جہاز کا سوال صرف شروع اور آخر کا ہی نہیں۔ جب بھی تبدیلی آئے گی، ایک نیا بحری جہاز بن جائے گا۔
(ظاہر ہے کہ یہ پوزیشن اپنے ساتھ کئی قسم کے مسائل رکھتی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا یہ سوال ذہنی آوارہ گردی ہیں؟ اور ہمیں ان کی پرواہ کیوں ہے؟ ان سے ہماری زندگی پر فرق کیا پڑتا ہے؟ اگر کوئی شے آپ کے لئے اہم ہے تو آپ کو یہ جاننے میں دلچسپی ہو گی کہ آپ کے پاس وہی شے ہے جو آپ کا خیال ہے۔ اور شناخت کو ہم اہمیت دیتے ہیں۔
اگر آپ نے میرے بٹوے سے ایک ہزار روپے نکالے، انہیں خرچ کر دیا، پھر اے ٹی ایم سے پیسے نکالے اور واپس آ کر ایک ہزار روپے واپس رکھ دئے تو کیا آپ نے وہی پیسے واپس کئے جو لئے تھے؟
لیکن اگر آپ نے میرا بہت ہی پسندیدہ مگ توڑ دیا اور اس کی جگہ پر ویسا ہی نیا لا دیا؟ کیا اب بھی بات وہی ہے؟
اور میں نے باہر جاتے وقت اپنا پالتو کتا آپ کو حفاظت سے رکھنے کو دیا تھا۔ وہ بھاگ گیا اور آپ نے ویسا ہی کتا لا دیا؟ کی اب بھی بات وہی ہے؟
اگر آپ کے خیال میں تینوں سوالات میں بات ایک نہیں تو پھر پیسے، مگ اور کتے کے درمیان فرق کیا ہے؟
اس کو fungilibity کہا جاتا ہے۔ کہ کیا ایک ہی طرح کے دو آبجیکٹس کو آپس میں تبدیل کرنے سے فرق پڑتا ہے۔ ایک ہزار کا ایک نوٹ دوسرے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس لئے یہ fungible ہے۔ پیسے کو عام طور پر اس لئے فنجیبل سمجھا جاتا ہے کہ یہ قدر کی نمائندگی کرتا ہے اور ہماری دلچسپی کرنسی نوٹ میں نہیں، قدر میں ہے۔ اگر میری جیب میں ایک ہزار روپے کا نوٹ ہے جس سے میں کڑاہی خرید سکتا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ یہ وہی ہیں جو میں نے کل رکھا تھا یا کوئی اور۔ (لیکن میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ میرے بٹوےمیں جھانک کیوں رہے تھے)۔
مگ اس کے مقابلے میں زیادہ دلچسپ ہے۔ یہاں پر فرق اس چیز کا ہے کہ جو مگ توڑا گیا تھا، وہ میرا پسندیدہ تھا۔ اگر یہ پسندیدہ اس لئے تھا کہ یہ چائے گرم رکھتا تھا اور میرے ہاتھ میں پورا آ جاتا تھا تو ویسے ہی نئے مگ کے ساتھ بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ اس صورت میں یہ کپ fungible ہے۔ لیکن اگر اس سے میری کوئی ذاتی وابستگی ہے۔ مثلاً، یہ میرے والد صاحب کی طرف سے دیا گیا تحفہ تھا تو پھر نیا مگ بالکل ویسا بھی ہو تو بھی اس کے وہ معنی نہیں رہے۔ کیونکہ مجھے جس کی پرواہ ہے، وہ اس مگ کی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کے تجریدی خیال کی ہے جو میرا اور میرے والد کا تعلق تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ان تصورات کے ساتھ ہم اس کو ذاتی شناخت کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
اس کی ویڈیو یہاں سے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...