ولید آیت کو کمرے میں لایا اور اسے بیڈ پر پھینکا۔
“تم نے ہماری پرسنل باتیں اس شامیر کے ساتھ شئیر کی۔سمجھ لیا رکھا ہے تم نے مجھے دودھ پیتا بچہ ہوں میں ہاں کہ لوگ کہہ رہے ہیں تم سمجھدار ہو اور میں تم سے عمر میں چھوٹا ہوں ۔”
ولید نے آیت کے بالوں کو زور سے تھاما۔آیت کو آج ولید سے سخت نفرت ہو رہی تھی۔اس نے پورا زور لگایا اور ولید کا ہاتھ اپنے بالوں سے ہٹایا ۔
“شرم آنی چاہیے آپ کو خان۔میں نے تو کبھی اس انسان سے بات بھی نہیں کی۔پورا دن میں کچن میں رہی وہاں اور پہلے بھی میں نے کبھی شامیر سے بات نہیں کی۔آپ کے دماغ میں یہ گند بھرا ہے جس کی وجہ سے آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔یہ آپ کا قصور نہیں ہے آپ نے اپنی بہن کو ہہ سب کرتے دیکھا ہے اس لیئے آپ کے دل میں ہر ایک لڑکی کے لیئے یہی گندگی بھری ہوئی ہے۔”
ولید نے آیت کو مارنے کے لیئے ہاتھ اٹھایا جسے آیت نے روک دیا ۔
“آج ہاتھ مت اٹھانا مجھ پر۔یہ لیمپ دیکھ رہے ہیں نہ یہی سر پر توڑ دوں گی آپ کے۔اگر میں اس رشتے کو نبھا رہی یہاں تو وہ میری مجبوری ہے آپ کی بد کردار بہن کی محبت اور عشق مشعوقی کی بدولت مجھے قربانی دینی پڑی۔یہ تھپڑ مجھے نہیں اسے مارنے تھے نہ بھرے مجمے میں جب وہ اپنی کلائی پر چاقو لیئے کھڑی تھی۔ارے اسے روکتے نہ اس کی پسند سے شادی کرنے سے۔بزدل ہیں آپ خان بہت بزدل روز مجھ پر ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔میرا اور کوئی گھر نہیں ہے آپ یہ بھی جانتے ہیں اسی لیئے سب کچھ کرتے ہیں میرے ساتھ تو میں آپ کو پتا دوں کل کو اپنی بیٹی کو بھی شادی کے بعد کہہ دینا تمہارا شوہر تمہیں مارے جو مرضی کرے اس میں ہمارا عمل دخل نہیں ۔میں کہتی ہوں آپ جیسے مرد اپنی بیٹیوں کو تو سنبھال کر رکھتے ہیں مگر دوسروں کی بیٹی کیا کچرے سے اٹھائی ہوئی ہوتی ہے جس کے ساتھ یہ سب سلوک کرتے ہیں آپ ۔نفرت ہوتی ہے مجھے آپ سے۔”
“تم مجھے یہ سب باتیں سنائو گی مجھے ولید خان کو۔تم نے مجھے سمجھ کر کیا رکھا ہے ہاں۔”
“بزدل عورت پر ہاتھ اٹھانے والا ہوتا ہی بزدل ہے۔وہ۔کمزور ہے اپنے دفاع کے لیئے کچھ نہیں کرسکتی ۔میرے دل سے اتر چکے ہیں آپ ۔مرد کا ایک تھپڑ عورت کی نظر میں مرد کو اونچائی سے بہت نیچے گرا دیتا ہے۔یہ ہر تھپڑ میرے لیئے ذلت ہے مگر یہ بار یاد رکھیں خان یہ ذلت صرف میری نہیں آپ کی بھی ہے کہ آپ ایک کمزور پر ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔”
آیت ولید کے ہاتھ چھڑا کر باہر بھاگ گئی تھی۔ولید نے پاس پڑے ہوئے ٹیبل سے گلدان اٹھائے اور نیچے پھینک دیئے۔ولید نے اپنا سر پکڑ لیا۔جتنا یہ آیت کو ڈرا دھمکا کر خود کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا اتنی وہ اس سے دور ہورہی تھی۔دادی صاحب جو اس کی دادا سے 10 سال چھوٹے تھے انہوں نے ہمیشہ دادا پر روپ ہی جمایا تھا ۔دادی کے سامنے کبھی دادا بولے بھی نہ تھے۔آدھے سے زیادہ جائیداد ان کی تھی اس لیئے ان کا روپ تھا ۔دادی کی وجہ سے اس حویلی میں بہت کچھ خراب ہوا تھا۔جب آیت اور ولید کی شادی ہوئی تو دادا نے اس سے کہا تھا کہ یہ دادا صاحب کی طرح ہرگز آیت کو کھلی چھوٹ نہ دے۔کل کو آیت اسے بچہ سمجھے گی اور ساری زندگی خراب ہوجائے گی اس کی۔بابا جانی کو یہ نہیں پتا تھا کہ وہ یہ بات کر کے اپنی پوتی کی ہی زندگی خراب کر رہے ہیں ۔ولید نے بچپن سے اپنی ماں کو باپ سے مار کھاتے دیکھا تھا۔وہ کبھی روئی نہیں تھی کسی کے سامنے اپنے میاں کو لے کر۔وہ چاہے انہیں جوتے بھی مار لیں مگر وہ کبھی ناراض نہیں ہوئی تھی۔آیت کے ساتھ سلوک میں زیادہ ہاتھ ولید کی تربیت کا تھا جس میں عورت پر حکمرانی ہی سیکھائی گئی تھی ۔ولید اس وقت سخت غصے میں تھا اس لیئے یہ باہر نکل گیا۔آیت بھی لان میں چلی گئی تھی۔آیت کو ولید پر بہت زیادہ غصہ تھا آخر کو یہ بھی انسان تھی آج کے بعد اس نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ کچھ بھی برداشت نہیں کرے گی چاہے رشتے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں۔مہر بہت خاموشی سے اس حویلی سے چلی گئی اور وہ بہتریں زندگی گزار رہی تھی تو یہ کیوں اس کی خاطر سب سہتی۔اس نے اپنی دوست فاریہ کو کال کی گھر کے نمبر سے کال کی
“بے وفا یاد آگئی تجھے میری۔شادی کیا ہوگی تیری تو غائب ہی ہوگئی ہے۔”
جواب میں آیت نے رونا شروع کر دیا۔
“ارے کیا ہوگیا تجھے کیوں رو رہی ہے۔کیا ہوا ہے بتا نہ۔”
“میری شادی نہیں ہوئی فاریہ میرا سودا ہوا ہے۔میرا سودا کرنے والے اور کوئی نہیں میرے اپنے ہیں ۔تم جانتی ہو میں سخت اذیت میں ہوں میں پل پل مر رہی یہاں میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے خود کو اس اذیت سے باہر نکلنے کا۔”
“کیا ہوا ہے مجھے بتا تو سہی ۔”
آیت اسے سب کچھ بتاتی گئی اور ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھی۔
“تو پریشان مت ہوں کل ہی آتی ہوں میں تیرے پاس۔ویسے بھی بابا نے کہا تھا کہ ہم نے سوات جانا ہی ہے تو تجھ سے ملتے ہوئے جائوں گی ۔میں کل ہی آتی ہوں یہ کیا تماشا بنا رکھا ہے تیرے خاندان والوں نے ہاں۔جیتی جاگتی انسان ہے تو میں بھی تو دیکھوں ذرا کیا کرتے ہیں سب لوگ۔”
آیت کو بہت حوصلہ ہوا تھا فاریہ سے بات کر کے۔آیت ولید کا انتظار کیئے بغیر ہی کمرے میں چلی گئی اور چپ چاپ بستر پر سو گئی۔اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ یہ ولید کو اب دوبارہ برداشت کرتی۔___________________________
مہر کی نائٹ ٹیوٹی تھی۔یہ ہسپتال سے آئی تو رات کے دو بج رہے تھے۔شاہ بخت ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ملازم سب سونے جا چکے تھے۔ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ شاہ بخت یوں رات گئے گھر سے باہر رہتا۔مہر ساری رات گھر میں پریشان رہی۔پانچ بجے کے قریب شاہ بخت گھر آیا مگر کوئی لڑکی تھی اس کے ساتھ جس نے اسے سہارا دے رکھا تھا۔لاوئنج میں بیٹھی ہوئی مہر کو تو آگ ہی لگ گئی۔
“کون ہو تم اور شاہ بخت کے ساتھ کیا کر رہی ہو۔”
“میڈیم میں نے انہیں کلب میں دیکھا تو ان سے ان کا پتا پوچھا اور انہیں چھوڑنے آگئی۔آپ کے شوہر نے شراب پی رکھی ہے شاید کلب میں کوئی پارٹی چل رہی تھی تو انہوں نے کچھ زیادہ ہی پی لی۔”
“ٹھیک ہے جائو تم۔”
شاہ بخت کو سہارا دے کر مہر کمرے میں لائی۔یہ حیران ہوگئی کہ شاہ بخت شراب بھی پیتا ہے اس کو تو یہ بات معلوم ہی نہیں تھی۔مہر کو صبح کا بے چینی سے انتظار تھا۔
________________________
صبح شاہ بخت کی آنکھ کھلی تو اس کے سامنے ہی صوفے پر مہر بیٹھی ہوئی تھی۔
“ارے میری جان نے آج ہسپتال نہیں جانا تھا۔”
“نہیں میری آج ڈیوٹی نہیں ہے۔شاہ بخت آپ نے رات کو شراب پی تھی۔”
شاہ بخت نے مہر کی طرف دیکھا پھر ہنستے ہوئے بولا ۔
“بے بی یہ چیزیں عام سی ہیں تم ان چیزوں کو زیادہ مت دیکھو ۔ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں یہ سب عام ہے۔”
“مگر شاہ بخت مجھے یہ سب نہیں پسند۔مجھے زہر لگتے ہیں وہ لوگ جو شراب پیتے ہیں ۔”
“اب کیا کر سکتے ہیں بے بی تمہارے لیئے میں اپنی عادات تو نہیں بدل سکتا نہ۔کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جب کے ساتھ بیٹھ کر ان کی طرف سے کیئے جانے والے تقاضوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔”
“مگر میں یہ سب برداشت نہیں کروں گی شاہ بخت۔
“شاہ بخت مہر لے قریب آیا اور اس کی تھوڑی تھامی۔
“میری جان تمہیں یہ سب برداشت کرنا ہے اب کیونکہ تم میری بیوی ہو۔میں نے تم سے شادی تمہاری ہی پسند سے کی ہے تم جانتی تھی کہ حویلی کے باہر میری ایک دنیا ہے۔اب تمہیں ایسے ہی رہنا ہے۔مجھے سوال جواب کرنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے۔تمہیں میرا پیار مل رہا ہے نہ اس سے زیادہ کی توقع کرنا مجھ سے کہ میں عام مردوں کی طرح تمہاری ہر بات مانوں گا۔مجھے ذرا دیر ہورہی ہے میں آتا ہوں ۔”
مہر کو شاہ بخت پر بے تحاشا غصہ آیا تھا مگر یہ کر بھی کیا سکتی تھی۔اب اس نے خود ہی اپنی پسند سے شادی کی تھی اب یہ اعتراض بھی نہیں کر سکتی تھی۔
__________________
صبح صبح آیت کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ولید کے بازو کے حلقے میں پایا۔اس لمحے اس کا دل کیا کہ ولید کو اٹھا کر کوئی چیز مارے۔یہ ولید کا بازو ہٹاتے ہوئے اٹھ بھی گئی۔
“آیت۔۔۔۔۔”
ولید نے اسے نیچے اترنے سے روک لیا۔
“چھوڑیں مجھے خان۔”
“سوری۔۔۔۔۔میں تم سے اپنے رویے کی معافی مانگتا وہاں مجھے تمہارے ساتھ اتنا سخت رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔تم میری بیوی ہو تو ۔۔۔۔”
“تو کیا ایک سوری وہ ساری ذلت مٹا دے گا جو میں نے برداشت کی ہے ہرگز نہیں ۔میں آپ کو معاف نہیں کروں گی ۔”
“آیت دیکھو پلیز میرے لیئے معافی مانگنا بہت مشکل کے۔مجھے معافی مانگنا نہیں سیکھایا گیا ۔پلیز میری بات کو سمجھو۔”
“میں کیا سمجھوں کہ اگر آپ کو کچھ نہیں سکھایا گیا تو وہ بھی میری ہی غلطی ہے۔اپنی خامیوں کو چھپانے کا اچھا ذریعہ ہے خان مگر مجھے یہ باتیں اب اٹریکٹ نہیں کرت۔میری طرف سے جو مرضی کریں اب آپ۔”
آیت اس کا ہاتھ چھڑا کر اٹھ گئی۔ولید کے لیئے سچ میں آیت سے معافی مانگنا بہت مشکل تھا مگر اس نے معافی مانگی ۔شاید آیت کے دل کے زخم اب اتنے بڑھ گئے تھے کہ ولید جتنی مرضی کوشش کر لیتا وہ اسے اب معاف نہیں کرنے والی تھی۔_____________
آیت کی دوست فاریہ اس سے ملنے کے لیئے آگئی تھی۔فاریہ کے گلے لگ کر آیت نے اسے اپنے سارے غم بانٹ لیئے۔فاریہ اس چپ کروا رہی تھی۔
“تم نے اسے برداشت ہی کیوں کیا۔دو جوتے لگانے تھے جب پہلی بار اس نے تم کر ہاتھ اٹھایا تھا۔تم بھی گھریلو عورتوں کی طرح چپ چاپ اس کا ظلم سہتی رہی ۔مجھے سمجھ نہیں آتا تم نے اتنی تعلیم کیسے حاصل کی ہے ہاں۔”
“میں کیسے آواز اٹھائیں فاریہ۔یہ تمہارے بابا نہیں ہیں جو تمہاری یر بات مانتے ہیں یہ میرا گھر ہے۔یہاں بیٹی کی کوئی اہمیت نہیں ہے مجھے پڑھایا لکھایا بھی اسی لیئے گیا تھا کہ کل کو اس آنے والے زمانے میں کوئی اس حویلی پر انگلی نہ اتنا پائے کہ یہ لوگ عورتوں کو پڑھنے نہیں دیتے ۔اس حویلی میں، میں کوئی پہلی لڑکی تو نہیں جس کے ساتھ یہ سب ہوا ہے۔”
“ویسے وہ ہے کہاں تمہارا شوہر ذرا میرے سامنے تو آنے دو۔ دو ہاتھ کروں اس سے۔آخر اس نے سمجھا کیا ہوا ہے خود کو کوئی بہت بڑی چیز ہے وہ۔”
“فاریہ میں نے کل اس کا ہاتھ روکا اور مزے کی بات ہے آج صبح اس نے مجھ سے معافی مانگی۔میں نے تو اس دن سے اس سے نفرت شروع کر دی تھی جب میرے چہرے پر پہلا تھپڑ مارا تھا اس نے۔مجھے سخت برا لگتا ہے وہ اب”
“آیت اگر اس نے معافی مانگی ہے تو اسے ایک اور موقع دے کر دیکھو ۔ہوسکتا ہے وہ سدھر جائے۔”
“وہ سدھرنے والا نہیں ہے ۔”
“میری بات مانوں ایک آخری بار اس رشتے کو دو ۔وہ ابھی چھوٹا ہے تم سے بہت اس میں میچورٹی شاید ویسی نہیں ہے جیسی تم میں ہے ۔عورت کا کام ہی یہی ہوتا ہے سب کچھ بھول کر آگے بڑھانا تمہیں بھی یہی کرنا ہے۔اچھا یہ تمہاری طبیعت مجھے کچھ بدلی ہوئی لگ رہی ہے کہیں کچھ خوش خبری تو نہیں ۔”
“پتا نہیں میں ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی۔”
“تم خود ایک ڈاکٹر ہو تمہیں پتا چل جانا چاہیے ۔خیر میں بھی تو ڈاکٹر ہوں میں تمہیں چیک کر دیتی ہوں۔مجھے لگتا ہے تم امید سے ہو۔”
فاریہ نے گاڑی میں پڑا ہوا اپنا میڈیکل کا سامان منگوایا جو اس نے اپنے گائوں لے جانا تھا وہاں کے ہسپتال کے لیئے ۔تھوڑی دیر بعد آیت کو فاریہ نے خوش خبری سنا دی تھی ۔
“مبارک ہو امید سے ہو تم۔”
“پتا نہیں فاریہ مجھے خوشی نہیں ہورہی۔”
چھوڑ دو سب کچھ اور خود کا دھیان رکھو اب۔بھول جائو اپنے شوہر کو تم اور اب اس کو اہمیت ہی نہ دو۔تمہارے پاس اتنا پیار تحفہ جو آنے والا ہے۔اسے احساس دلائو کہ اگر وہ تمہارے ساتھ یہ سلوک رکھے گا تو تم بھی اس کو اپنے بچے کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دو گی۔مجھے دیر ہورہی ہے اب میں چلتی ہوں پھر۔دوبارہ آئوں گی سوات سے واپسی پر تم سے ملنے۔”
فاریہ جا چکی تھی ۔آیت کو فاریہ کے ساتھ ہونے سے بہت زیادہ حوصلہ ہوا تھا۔اب اس کے پاس اس کا بچہ تھا ۔اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ کوئی بات برداشت نہیں کرے گی ولید کی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...