“ماما” ماما ماما حاتم اپنی ماں کی طرف لپکا ماما اُٹھے پلیز ماما؟
روبینہ کے سینے پر گولی لگی تھی وہ خون میں لت پت اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی
حسن وہی کھڑا بے بس سا سب دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم اپنی ماں کو گود میں لیے چیخ رہا تھا کوئی ڈاکٹر کو فون کرو ماما اَٹھے پلیز ماما مجھے چھوڑ کر نہیں جائے میں آپکا بیٹا آپ کے بغیر کچھ نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔
حاتم کے باپ نے شروع سے کبھی اپنی بیوی بچے کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی وہ پاکستان میں کم ہی رہتے تھے حاتم کا کوئی بہن بھائی نہیں تھا اسلیے وہ اپنی ماں کے ساتھ زیادہ اٹیچ تھا وہ جتنا بھی بُڑا انسان سہی لیکن ماں کے سامنے کبھی بدتمیزی سے بات نہیں کرتا تھا لیکن اج اسکا واحد سہارا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا جسکا ذمدار وہ خود تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم اب کوئی فائدہ نہیں حسن نے ہوش میں آتے ہی روبینہ کا بازو پکڑ چیک کیا وہ جان گیا تھا روبینہ کی سانسیں رک چکی ہیں ۔۔۔۔۔
نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو ماما انکھیں کھولے پلیز ماما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان گاڑی میں بیٹھا ہانیہ اور عائشہ کا ویٹ کر رہا تھا جو ماما کو ساتھ چلنے پر فورس کر رہی تھی آسیہ مان نہیں رہی تھی بچوں آپ لوگ جاو انجوائے کرو میں کیا کروں گی ماما پلیز ہمیں اچھا لگے گا بچوں میری طبعیت ٹھیک نہیں ۔۔۔۔۔
کیا ہوا طبعیت کو اپ نے بتایا نہیں ہم بھی نہیں جا رہے پھر ۔۔۔۔۔
ارے نہیں میری جان ہم پھر کسی دن ڈنر پر چلے گے ۔۔۔۔۔۔
بہت کوششوں کے بعد بھی ہانیہ اور عائشہ ناکام ہی لوٹی دونوں نے آتے ہی گاڑی کے دونوں بیک ڈور کھولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو کِدھر میں ڈرائیور ہوں کیا؟
نہیں کیوں؟ ہانیہ نے سوال پر سوال کیا ۔۔۔۔۔۔
دونوں میں سے ایک اگے اکر بیٹھو ہانیہ بات سمجھتے ہی کھل کر مسکرائی رحمان نے اج پہلی بار اُسے خوش دیکھا اسکی گالوں پر پڑھتے ڈمپل اسکی خوبصورتی کو اور بڑھاتے رحمان نے دل میں اپنی بہن کی خوشیوں کی دعا کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپی آپ آگے ہانیہ کے منہ میں ابھی آدھی بات تھی عائشہ فوراً پی پیچھے بیٹھی نہیں تم بیٹھ جاؤ اگے ۔۔۔۔
ہانیہ نے آکر فرنٹ سیٹ سنبھالی۔۔۔۔۔۔۔۔
گڈ گرل چلے؟
جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ مسلسل گاڑی سے باہر نظریں جمائے بیٹھی تھی ہانیہ بھی خاموشی سے اپنی ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوگیا ہے بھئی کچھ بولو کوئی بات کرو نہیں تو گھر واپس لے جاؤں گا
بھائی اپ بتائے نہ کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی ٹھیک ہے میں اپکو کہہ رہا ہوں اور الٹا مجھ پر ہی ڈال دیا ۔۔۔
چلے بتائے ہم کہا جا رہے ہے؟
ہم عاشی کی فیورٹ جگہ پر جارہے ہے فوڈ سٹریٹ میں ایک بہت اچھا ائسکریم پوائنٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گڑیا آپ بتاو آپکی کی فیورٹ جگہ کون سی ہے؟
میری؟ میں کبھی کہی گئی ہی نہیں بابا کی بہت پہلے ہی ڈیتھ ہوگئی تھی بھائی تھے نہیں اور میری امّاں ہانیہ نے ایک گہری سانس لی وہ تو بہت بھولی تھی بات کرتے ہی ہانیہ رونے لگی ۔۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی میں نے اُداس ہونے کے لیے تو نہیں کہا ہانیہ نے جلدی سے اپنے انسوں صاف کیے ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا ہمارے اپنوں سے دوری کی اذیت ہمارے اندر کہی نہ کہی ہمیشہ باقی رہتی ہے اُسکو ہم کبھی بیاں نہیں کر پاتے بس کبھی کھبی آنسوؤں کی شکل میں اُسے بہا دیتے ہے ۔
وہ آئسکریم پوائنٹ پہنچ چکے تھے ہانیہ کون سا فلیور کھاؤ گی ؟
رحمان نے گاڑی سے نکلتے ہوئے پوچھا۔۔۔
میرے بھائی جو بھی لے آئے میں کھا لوں گی ۔۔۔۔
چلو آپ دونوں بیٹھو میں میں لے کر اتا ہوں ۔۔۔۔
کیا رحمان کو ابھی بھی میرے فیورٹ فلیور کا یاد ہے جو مجھے پوچھا نہیں عائشہ نے ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے سوچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لو جی اپنی اپنی آئسکریم جلدی سے شروع ہو جاؤ آئسکریم پر نظر پڑتے ہی عائشہ نے رحمان کی طرف دیکھا وہ عائشہ کی فیورٹ تھی۔۔۔
یہ انسان مجھے شرمندگی کی کھائی میں دھکیلتا جارہا ہے میں نے کیوں وقت رہتے اس پر یقین نہیں کیا تھا ۔۔۔۔۔
ہیلو ستارا…..!
عائشہ اپنی سوچ میں گم تھی جب ایک بھاری مردانہ آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی عائشہ ایک سیکنڈ میں وہ آواز پہچان گئی تھی اُسے اپنا سر اُٹھانا دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آدمی عائشہ پر جھکا تھوڑا ٹائم ہمیں بھی دے دو ۔۔۔۔۔
رحمان ایک جھٹکے میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوا کون ہو تم پیچھے رہ کر بات کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے بھی قریب رہ چکے ہیں ہم تمہیں کیوں اتنا مسئلہ ہو رہا ہے مانا آج تمہارا ٹائم ہے تم نے پیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چُپ رحمان نے اُسکا گریبان پکڑا تمہاری زبان کھینچ لوں گا وہ تیز آواز میں بول رہا تھا لوگ دیکھنے لگے تھے ۔۔۔۔۔
عائشہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ہانیہ نے اگے بڑھ کر عائشہ کو سہارا دیا آپی پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن حاتم کے گھر پر ہی موجود تھا وہ مشکل وقت میں آسکے ساتھ رہنا چاہتا تھا جو بھی ہوا لیکن وہ ہمیشہ سے دوست تھے حسن اس دوستی کو نبھانا چاہتا تھا جنازہ ہو چکا، تھا سب مہمان جارہے تھے حاتم اپنے روم میں آکر بیٹھ گیا حسن بھی اسکے پیچھے روم میں آیا تھا حاتم حسن کو دیکھ غصہ نہیں ہوا آج پہلی بار حاتم کو روتا دیکھا تھا حسن آکر حاتم کے ساتھ بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آس دن جب تم نے کہا ہانیہ کو کوٹھے پر چھوڑ آؤ پہلی بار مجھے ڈر لگا تھا میں ڈرائیو کر رہا تھا پر میرے ہاتھ کانپ رہے تھے پھر بھی میں اُسے چھوڑ آیا وہاں حاتم آس دن جو میں نے رحمان کی آنکھوں میں دیکھا میرے اُس ڈر نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا مجھے احساس ہوا میرا یہ گناہ ہر گناہ پر بھاری ہے وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑے اپنی بہن کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا مجھ سے کوٹھے کا پتہ پوچھ رہا تھا
“حسن ” حاتم کی آواز پر حسن خاموش ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے جب پہلی بار ہانیہ کو دیکھا تھا مجھے لگا مجھے اُس سے محبت ہو گئی ہے لیکن اُسنے میری محبت کا سر اپنی نہ سے کُچل دیا میرے دل نے بھی اُس نہ کو گوارہ نہیں کیا میری انا کو للکارا تھا اُسنے ۔۔۔۔۔
تمہارے کہنے کا مطلب تم نے جو کیا وہ ٹھیک تھا؟
کل بات کرے گے حسن میرے سر میں درد ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن وہاں سے اُٹھ گھر کے لیے روانہ ہوا
گھر آتے ہی رحمان کمرے میں چلا گیا کمرے میں جاتے ہی رحمان غصے سے ہر چیز زمین پر پھیک رہا تھا اسکی ہمت کیسے ہوئی اسکے کانوں میں بار بار وہی الفاظ گونج رہے تھے “اس سے بھی قریب رہ چکے ہے ہم” وہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے زمین پر ڈھیر ہوا تھا ۔۔۔۔۔
عائشہ نے کمرے میں آتے ہی دروازہ لاک کرلیا تھا وہ زمین پر بیٹھی بیڈ سے ٹیک لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اپنے گھٹنوں میں منہ دیئے وہ کچھ بھی سوچنا نہیں چاہ رہی تھی ۔۔۔
آپی دروازہ کھولے پلیز آپی دروازہ کھولے ہانیہ کے بہت نوک کرنے کے بعد بھی آس نے دروازہ نہیں کھولا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے آپی کو ٹائم دینا چاہئے ہانیہ اپنے آنسوں صاف کرتی ہال میں آکر صوفہ پر لیٹ گئی تھی آسیہ بھی سو چکی تھی ہانیہ جب سے اس گھر میں آئی تھی ابھی تک پورا گھر نہیں دیکھا تھا ہانیہ وہی صوفہ پر اپنے اوپر دوپٹہ پھیلائے ہی سو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات 2 کے قریب رحمان کو پیاس محسوس ہوئی وہ زمین سے اُٹھا پانی پینے لگا لیکن جگ خالی تھا وہ پانی پینے نیچے آیا سیڑھیوں سے نیچے آتے ہی اسکی نظر ہانیہ پر پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہانیہ ” ہانیہ ؟
جی بھائی ہانیہ جلدی سے اُٹھ کر بیٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گڑیا یہاں کیوں سو رہی ہو؟
آپی نے دروازہ لاک کر دیا تھا مجھے لگا اُن کو اکیلے رہنا ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان کی حالت بھی ہانیہ کو عائشہ سے مختلف نہیں لگی لال انکھیں سوجی ہوئی سب بتا رہی تھی
“بھائی”
جی بولو……..
آپ ٹھیک ہو؟
بلکل ٹھیک ہوں بھائی کی جان اپکا بھائی کمزور نہیں ہے لیکن کبھی کبھی تکلیف کی انتہاء پر انسان ٹوٹ جاتا ہے پر میری بہن نے پریشان نہیں ہونا اللہ نے چاہا تو اپکا بھائی سب ٹھیک کردے گا اوکے؟
جی ۔۔۔۔اپ ماما کے روم میں چلی جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ذہین میں نہیں آیا بھائی ہانیہ نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔چلو میں چھوڑ آؤں اُٹھو شاباش ۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان ہانیہ کو آسیہ کے روم میں چھوڑ آیا کیچن میں اتے ہی خود پانی پیا کچھ یاد انے پر کیچن سے عائشہ کے روم کی چابی لی اور اسکے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھلنے کی آواز سے وہ خود میں سمٹ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...