” یا اللہ! یہ لڑکا تو انتہائی غلیظ ہے۔” ساریہ اور وجیہہ لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھیں۔ اور ان کے سامنے عباس رضوی کے کمرے کا منظر چل رہا تھا۔ وجیہہ ایک بار عباس کے فلیٹ پر جاچکی تھی تو اس کے کمرے میں ایک انچ کا مائیکرو کیمرہ لگا پایا تھا۔ جو اتنا چھوٹا تھا جو کسی کو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتا۔
سامنے چلتے منظر کو دیکھنے کی ان میں ہمت نہیں تھی وجیہہ نے نے اسکرین آف کردی۔ وہ بیہودہ مناظر دیکھ کر گناہ نہیں کما سکتی تھیں۔ وجیہہ اور ساریہ ساتھ رھتی تھیں۔ اور دونوں عباس رضوی کے خلاف ثبوت جمع کر رہی تھیں۔ وجیہہ اور ساریہ کے علاوہ وجیہہ کی بہن کی خودکشی کا یونیورسٹی میں کسی کو نہیں پتہ تھا۔
” یار یہ لڑکا تو حد سے زیادہ برا ہے۔” ساریہ حیران تھی۔
“پر اس کے بارے میں لگائے گئے میرے سارے اندازے بالکل ٹھیک ہیں۔” وجیہہ کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ ساریہ نے اسے خود سے لگا لیا۔ وہ ایک بار پھر اپنا ضبط کھو چکی تھی۔ ساریہ کے نمبر پر کال آئی تو اس نے وجیہہ کو دور کرتے ہوئے کال اٹھائی۔
“وجی بس یار کتنا رو گئی۔” وہ کان سے فون لگائے بغیر بولی تھی۔ وجیہہ واش روم میں گھس گئی۔
“اسلام و علیکم” ساریہ نے فون کان سے لگاتے ہی سلام کیا۔
“وجیہہ کیوں رو رہی ہے۔” احد نے سلام کے جواب کے بعد پریشانی سے سوال کیا۔
“یار وہ ایک ناول کئی دنوں سے پڑھ رہی تھی اب اس کا ہیرو مر گیا تو وہ دو دن تک رونے کا سیگمنٹ پورا کرے گی ناں۔” ساریہ نے جلدی سے بہانہ سوچ کر کہا۔
” استغفراللہ! شکر ہے تم اتنے چھوٹے دل کی نہیں ہو۔” احد کو سکون ہوا۔
“چھوٹے دل کی وہ بھی نہیں پر ناولز کے معاملے میں تھوڑی پاگل ہے۔” ساریہ نے وضاحت دی۔
“اچھا چھوڑو وجی کی بات۔ تم یہ بتاؤ وھاج بھائی سے بات ہوئی خیریت تھی ناں وہ کیوں چلے گئے تھے؟” ساریہ کو یونیورسٹی کا واقعہ یاد آیا تو فورا سوال کیا۔
“اس کی بہن کے بیٹا ہوا ہے تو اس لئے اسے دیکھنا تھا۔ گھر والے تو کراچی میں ہیں نہیں۔ تو میکے کی طرف سے وہی گیا۔” احد نے تفصیل بتائی۔ ساریہ تھوڑی دیر تک اس سے باتیں کرتی رہی پھر کال کاٹ دی۔ وجیہہ نماز پڑھ رہی تھی۔ ساریہ اسے دیکھے گئی۔ کتنی خوبصورت لگ رہی تھی وہ دوپٹہ کے ہالے میں روئی ہوئی سرخ ناک والی۔۔۔۔
“اب بھلا کوئی روتے ہوئے بھی اتنا پیارا لگتا ہے۔ ساریہ نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کو بات بدلی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بات ایک بار پھر عباس رضوی سے شروع ہو۔
“پاگل۔” وجیہہ مسکرا دی۔ جائے نماز لپیٹ کر وہ بیڈ پر لیٹ گئی۔ “کل ہم یونی جا رہے ہیں۔” وجیہہ نے لیٹے لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے کہا۔
“کیوں؟” ساریہ کو حیرت ہوئی۔ کل ہمیں سارا ڈیٹا اس کو فاروڈ کرنا ہے پھر دیکھتے ہیں اس کا طرز عمل کیا ہوتا ہے۔” وجیہہ نے نفرت سے کہا۔
” لیکن وجی پرسوں رات میں اسلام آباد کے لیے نکل رہی ہوں۔ تھوڑا رک جاؤ۔ میں جانا ترک نہیں کر سکتی۔ بابا نے ضروری بلوایا ہے۔” ساریہ نے اسے سمجھانا چاہا۔
“کوئی بات نہیں۔ تم چلی جاؤ۔ کچھ نہیں ہوگا میں اکیلی سب دیکھ لوں گی۔” تم ویسے بھی دو دن میں آ جاؤں گی۔” وجیہہ فیصلہ کرچکی تھی۔ پر ساریہ نہ جانے کیوں ڈر رہی تھی۔
صبح وہ فجر تک کام کرتی رہیں۔ پھر فجر کی اذان پر انہوں نے لیپ ٹاپس ببد کیے۔ سارا ڈیٹا فاروڈ ہوچکا تھا۔
“نماز پڑھ کر سوجاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس کا ری ایکشن کیا ہوگا۔ آج وہ یونی نہیں جائے گا دیر سے اٹھے گا۔ ہم بھی دیر تک سوئینگے۔”۔وجیہہ اٹھ کر وضو کرنے چل دی۔ ساریہ نے احد کو یونی نہ آنے کا بتا کر موبائل سائینٹ کردیا۔ توقع کے خلاف فورا جواب آیا۔
“کیوں نہیں آؤں گی؟” ساریہ کو حیرت ہوئی۔
“تم اٹھے ہوئے ہو۔” اس نے فوراً میسج کیا۔
“نماز کے لیے اٹھا ہوں۔” احد کے جواب پر ساریہ کو خوشی ہوئی۔ “کل اسلام آباد جا رہی ہوں۔ اس لئے نہیں آپاؤں گی۔ کچھ کام ہیں۔” ساریہ نے نہ آنے کی وجہ بتائی۔
“ٹھیک ہے رات میں چکر لگاتا ہوں۔” احد نے کہا تو وہ خوش ہوگئی۔ موبائل ٹیبل پر رکھ کر نماز کے لئے وضو کرنے چل دی۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
“اللہ ہے ناں میرے ساتھ تم فکر نہ کرو سب بہتر ہوگا۔ انشاءاللہ۔” وجیہہ نے اس کے جانے کے بعد لیپ ٹاپ کھول دیا۔
میلز دیکھ کر تو اس کا سر ہی چکرا گیا۔ اسے کچھ دیر تک سمجھ نہ آیا۔ عباس رضوی کی طرف سے بھیجی گئی ای میلز نے واضح دھمکی تھی۔ وہ خیالوں کو جھٹکتی نماز کے لئے اٹھ گئی۔ ڈر کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ نماز پڑھ کر وہ کچن میں چلی آئی۔ چائے بنا کر مڑی ہی تھی کہ عباس رضوی ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ چائے کا کپ اس کے ہاتھوں سے پھسل کر زمین بوس ہو گیا۔
“تم۔۔۔۔۔تم گھر میں کیسے داخل ہوئے؟” وجیہہ اندر سے ڈر رہی تھی مگر خود پر بہادر ظاہر کر رہی تھی۔
“تم شاید کھڑکی بند کرنا بھول گئی تھی۔” وہ مزے سے بولا۔
“مجھے برباد کرنے چلی تھیں تم۔ اب اپنی بہن کی طرح اپنی بربادی کے لئے تیار ہوجاؤ۔” وہ غصے میں پھنکارا۔
“تم جانتے ہو میرے اندر اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ تمہیں للکاروں؟ وہ سنجیدگی سے بولی تھی۔ اب اس کے چہرے پر پریشانی کے کوئی آثار نہ تھے۔
“کامل یقین۔۔۔۔ اپنے رب پر کامل یقین نے مجھے اتنا سہارا دیا کہ تم سے لڑھ سکوں۔ اور اب تو الحمدللہ اللہ نے مجھے اتنی ہمت دی ہے کہ میں تم سے لڑھ سکوں۔ وجیہہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
“ہاہاہاہا۔۔۔ دیکھتے ہیں ہی بی۔ ابھی اپنا لیپ ٹاپ دو مجھے ڈیٹا ڈیلیٹ کرنا ہے۔” اس نے قہقہہ لگایا۔
” نہیں دونگی۔” وجیہہ نے چلا کر کہا۔
تیرے تو اچھے بھی دینگے۔” عباس نے اسے بالوں سے پکڑ کر دیوار سے ٹکر دلائی۔ ٹکر اتنی شدید تھی کہ وجیہہ کا سر گھوم گیا اور ننھے ننھے قطرے ماتھے پر نمودار ہوئے۔
“میں نے کہا ناں نہیں دوں گی۔” وہ سر پکڑ کر پھر چلائی تھی۔ عباس نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی تو اسے لیپ ٹاپ نظر آیا۔ زبردستی پاس ورڈ کھلوا کر ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے لگا۔ وجیہہ پھر بھی پرسکون کھڑی تھی کیونکہ یہ سارا ڈیٹا ساریہ کے لیپ ٹاپ میں بھی موجود تھا جو وہ ساتھ لے گئی تھی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔
“ہوگیا ڈیلیٹ مجھے برباد کرنے چلی تھی۔” عباس رضوی نے حقارت سے اس کا لیپ ٹاپ پرے کیا۔
“میری دوست کے لیپ ٹاپ سے کون ڈیلیٹ کرے گا گھٹیا انسان۔” اس نے پرسکون لہجے میں مسکراہٹ لیے کہا۔
“وہ میں ہی کروں گا ڈارلنگ۔ بس تجھے ٹھکانے لگا دوں تاکہ تیرے پاس ساری زندگی رونے کی وجہ تو رہے۔ مجھے رلانے چلی تھی۔” عباس اس کی جانب بڑھا۔ وجیہہ نے شیشے کا گلاس اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا اور لاؤنج سے کچن کی طرف بھاگی۔ عباس صوفے سے لڑکھڑایا تھا۔ گلاس اس کا ماتھا چیر گیا تھا پر وہ مرد تھا جلد سنبھل گیا اور اس کے پیچھے کچن کی طرف لپکا۔
“اوہ تو مجھے مارنے کے ارادے ہیں۔” وجیہہ کے ہاتھ میں چھرا دیکھ کر اس نے ڈرنے کی اداکاری کی پھر زور زور سے ہنسنے لگا۔
“نہیں۔۔۔” وجیہہ کے نہیں پر وہ ایک دم خاموش ہوا اور حیرانی سے اسے دیکھا۔
“میں تمہیں تمہارے گندے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔ میں اس سے پہلے ہی اپنی بربادی کے سارے راستے بند کر دوں گی۔ میں خود کو نقصان پہنچا لونگی پر عزت پر حرف آنے نہیں دونگی۔” وہ چلا رہی تھی۔ عباس رضوی آہستہ آہستہ اس کے قریب آ رہا تھا۔
“یہ چھرا رکھ دو ۔حرام موت نہیں مر سکتی تم۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔” عباس رضوی نے وجیہہ کو بے وقوف بنانا چاہا پر وہ وجیہہ تھی سفھاء نہیں۔
“اوہ تو تم بھی جانتے ہو کہ گناہ کیا ہوتا ہے۔” وجیہہ نے نفرت سے کہا۔
“اگے نہیں بڑھنا عباس رضوی ورنہ میں خود کو ختم کرلونگی۔” وہ غلط راہ پر جارہی تھی۔ اور وہ مزید آگے بڑھتا رہا۔ وجیہہ نے اللہ سے معافی مانگتے ہوئے ہی کلائی پر چھری چلادی۔ خون یکدم ہی روانی سے بہنے لگا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ عباس رضوی رفو چکر ہو چکا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے ہوش کھو رہی تھی پر زبان پر کلمے کا ورد تھا۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
“یار گاڑی وجیہہ اور ساریہ کے گھر کی طرف موڑ لے۔ ساریہ اسلام آباد جا رہی ہے تو جانے سے پہلے ہی مل کر کوئی ضروری بات کرنی ہے۔” وہ دونوں ریسٹورینٹ سے کھانا کھا کر نکلے تھے اتفاق وہ ریسٹورنٹس وجیہہ کے اپارٹمنٹ کے نزدیک تھا۔
“یار پارکنگ نہیں ہے اور مجھ سے اتنی کم جگہ پر پارکنگ نہیں ہوتی۔” وھاج جھنجلایا ہوا لگ رہا تھا۔
“تو ہی پارکنگ کر کے آ میں بیل بجاتا ہوں۔” وہ گاڑی سے اترتے ہوئے بولا۔
“ہاں ہاں بیٹا سب جانتا ہوں کہ کس سے ملنے کی جلدی ہے۔ وجی دو دن سے یونی نہیں آئی تو صاحب مجنوں بنے ہوئے ہیں۔” احد ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے بولا۔
“بکواس نہ کر۔”وھاج دروازہ بند کر کے گھر کی بڑھا۔
دروازہ پہلے سے کھلا دیکھ کر وھاج کو شدید حیرت ہوئی۔ اس نے تیزی سے قدم آگے بڑھائے۔ اندر کا منظر اس کا دل دہلا گیا۔ وجیہہ زخمی پڑی تھی۔ اس کی کلائی سے شدید خون بہہ رہا تھا۔ آس پاس کانچ بکھرے تھے پر چھرا غائب تھا۔ وھاج جلدی سے آگے بڑھا اور اسے اٹھا کر باہر کی طرف بھاگا۔ احد نے ابھی کار پارک نہیں کی تھی اس لئے وہ لوگ بغیر ایک منٹ ضائع کیے ہسپتال کے لئے نکل پڑے۔ وجیہہ کی کلائی سے مسلسل خون بہ رہا تھا۔ جسے وھاج نے اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کی ہوئی تھی۔ دو گھنٹے سے وہ آئی سی یو میں تھی۔ خون بہت زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اسے ہوش نہیں آرہا تھا۔ احد اور وھاج دونوں کا بلڈ گروپ وجیہہ کے بلڈ گروپ سے میچ کرگیا تھا۔ ان دونوں نے جلدی جلدی ایک ایک بوتل خون دیا۔
“سب ٹھیک ہو جائے گا۔” وھاج بینچ پر گم سم سا بیٹھا تھا کہ احد نے اس کے شانوں پر تھپکی دی۔
“اس نے خود کشی کی ہے۔” وھاج نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
“ہاں جانتا ہوں۔” احد کو بھی یہ بات پریشان کررہی تھی۔
“کیوں کی ہے اس نے خودکشی کی کوشش؟”وھاج نے سوالیہ نظروں سے احد کو دیکھا۔ احد نے کندھے اچکا دئیے۔
“میں ساریہ کو کال کر کے اطلاع دے دیتا ہوں۔”احد کہتا ہوا باہر کی طرف بڑھا۔
“ساریہ میں تم سے جو بھی سوال کروں اس کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔” کال اٹھاتے ہی وہ شروع ہوچکا تھا۔ ساریہ پریشان سی ہوگئی۔
“کیا وجیہہ اور اس کے بوائے فرینڈ میں کوئی لڑائی چل رہی تھی؟” جواب میں نفی میں آیا تو احد جھنجلایا۔
“تو کیا کوئی پریشانی تھی جو وہ دو دن تک یونیورسٹی بھی نہیں آئی۔ احد نے پھر سے سوال کیا۔
” نہیں” ساریہ نے پھر سے جھوٹ بولا۔
“ساریہ وجیہہ نے خودکشی کی کوشش کی ہے اور خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ ہوش میں نہیں آرہی ہے بارہ گھنٹوں سے۔” دعا کرو تم۔” احد نے کہہ کر کال کاٹ دی۔ ساریہ پر تو جیسے بجلی گری تھی۔ اس نے فوراً ٹکٹ کروائی اور وہ پہلی فلائٹ سے کراچی پہنچ چکی تھی۔ سارا راستہ وہ وجہ سوچتی ہوئی آئی تھی۔ نہ جانے کیوں سارا شک عباس رضوی پر جا رہا تھا۔
وہ ہسپتال پہنچی تو وہاں صرف احد تھا وھاج نہ جانے کہاں غائب تھا۔ وجیہہ کو ہوش آ چکا تھا۔ وہ خود میں ہمت جمع کرتی روم میں داخل ہوئی۔
اسللام و علیکم” بمشکل اس نے سلام کیا۔ وجیہہ کے سر اور ہاتھ پٹیوں میں جکڑے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کتنی زرد لگ رہی تھی اسے وہ۔
“کیسی ہے میری دوست؟” اس نے وجیہہ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اس کے پاس ہی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
“ٹھیک ہوں۔” وجیہہ نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
“اوکے لیڈیز میں ذرا وھاج کو دیکھ لوں نہ جانے کہاں غائب ہے۔” احد وھاج کا کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔ وجیہہ کو تھوڑا افسوس ہوا کم از کم آج ہی وہ آ جاتا۔
“وجی کیا ہوا تھا؟ تم نے خودکشی کیوں کی؟ تم ایک سال میں کتنا ٹوٹی اور جڑی ہوں میں بہت اچھے سے جانتی ہوں تب تم نے یہ بھیانک قدم نہیں اٹھایا تھا تو پھر اب کیوں؟” ساریہ بہت ڈسٹرب نظر آرہی تھی پر وجیہہ بہت پرسکون تھی۔ کیونکہ وہ خوش تھی جو اس بھیڑیے سے بچ گئی تھی۔ اپنی عزت اس نے خود بچائ تھی اور حرام موت سے اسے اس کے اللہ نے بچا لیا تھا۔ اس نے ساریہ کو ساری بات بتا دی۔ ساریہ اس کے گلے لگ گئی۔ وجیہہ رونے لگی تھی۔
“دیکھا تبھی منع کیا تھا کہ ابھی مت کرو میل۔ شکر ہے احد اور وھاج بھائی وہاں پہنچ گئے ورنہ تو پتہ نہیں۔۔۔۔۔” ساریہ آگے نہ بول پائی۔
“اب بس میں احد کو ساری بات بتا رہی ہوں۔ پہلے بھی تمہارے انکار کی سزا بھگت چکے ہیں ہم۔ خدانخواستہ وہ پھر سے کچھ کرے تو ہمارے ساتھ کوئی محافظ ہونا چاہیے۔ ایک مرد ہونا ضروری ہوتا ہے زندگی میں۔ اب بابا اور بھائی نہیں آسکتے تو احد ہی ہمارا سب کچھ ہے۔” ساریہ نے فیصلہ سنایا۔ وجیہہ خاموش رہی۔
“اس سے کہنا یہ بات اپنی حد تک رکھے اپنے کسی دوست یا فیملی کو نہ بتائے۔” دوست سے اس کا اشارہ وھاج کی طرف تھا۔ ساریہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھیں کہ وھاج روم کے دروازے کے باہر ساری بات سن چکا ہے۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆