سورج کی روشنی نے ہر چیز کو روشن کر رکھا تھا۔مطلع صاف تھا۔موسمِ بہار کاوسط چل رہا تھا۔ہلکی ہوا کے دوش پہ اس کی کمرے کی کھڑکی پہ موجود پردے پھڑ پھڑا رہے تھے، گویا بے چین تھے۔اس نے قد آدم شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گیلے بالوں کو سدھارا۔اور پھر پھڑ پھڑاتے پردے ہٹا دئے۔لیکن پھر پھولوں کی تیز خوشبو کی وجہ سے اسے ان کو برابر کرنا پڑا۔اسے گلاب کی خشبو پسند نہ تھی۔
وہ اس وقت نیلے ٹراؤزرز کے ساتھ،سفید ٹی شرٹ میں اچھا دکھ رہا تھا۔آج اتور ہونے کی وجہ سے وہ اپنے روٹین کے حولئے سے الگ دکھ رہا تھا۔
اس نے موبائل کی سکرین کو دائیں جانب کے بٹن سے آن کیا۔اور ساتھ ہی بڑھ کر دروازہ کھولتا باہر آ گیا۔
موبائل کی سکرین روشن ہوتے ہی اس نے ان بوکس کھولا۔اور پھر ایک دلفریب مسکرہٹ اس کے ہونٹوں کو چھوتی چلی گئی تھی۔وہ جو چاہ رہا تھا وہی ہوا تھا۔وہ اسے اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی پہ بلا رہی تھی۔ایک ہفتے کے دوران ان کی دوستی اتنی گہری ہو ہی چکی تھی ۔کہ وہ اب اس سے فرمائشیں کر نے لگی تھی۔
اس کی انگلیاں سکرین پہ تھرکنے لگیں۔
سوری ڈئر میں کچھ بزی ہوں۔
آج بھی بزی؟ وہ پوچھ رہی تھی۔جواب کچھ لمحوں بعد آیا۔وہ گلاس ڈور کھولتا ڈائینگ روم میں آ چکا تھا۔جہاں بیٹھی دادی نے مسرور ہو کر اسے دیکھا۔آ گیا میرا بچہ۔ادھر آ ۔ادھر آ کر بیٹھ۔انہوں نے بائیں جانب کی کرسی کو اس کے لئیے گھسیٹا تھا۔
کیسی ہیں میری جان۔اس نے بیٹھنے سے قبل انکے کے ماتھے کا بوسہ لیا۔
ٹھیک ہوں اگر گھٹنوں کا درد ساتھ نہ ہو تو۔وہ اس وقت تسبیحات کا ورد کیا کرتی تھیں۔سو اسی میں مصروف بولی تھیں۔مگر نظریں اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھو رہی تھیں۔وہ جو موبائل پہ جھکا کچھ ٹائپ کر رہا تھا،ان کے اس طرح دیکھنے پہ سیدھا ہو تھا۔
کیا دیکھ رہی ہیں؟
میں دیکھ رہی ہوں ۔کہ آج جو تم اتفاق سے گھر ہو ہی۔تو بیٹا ذرا اس بیماری(موبائل)سے بھی جان چھڑوا لو۔اور مجھ بوڑھی کی بھی سن لو۔
وہ سن کر شرمندہ ہوتا موبائل رکھ چکا تھا۔جی بولیں۔میں سن رہا ہوں۔
مریم بیٹا ذرا بھائی کے لئے بھی ناشتہ بنا دو۔ڈائینگ روم اور کیچن کو شیشے کی شفاف دیوار سے الگ کیا گیا تھا۔جہاں مریم آپی کھڑی اس وقت ناشتہ بنانے کے ساتھ ساتھ گاہے بگاہے شفاف دیوار کے پار بھی دیکھ رہی تھیں۔ہاتھوں میں پہلے سے تیزی آ چکی تھی۔
میں کہہ رہی ہوں کہ میری ٹانگ کا درد بڑھتا جا رہاہے۔اور دو ماہ بعد سردی آ گئی ۔تو چلنا پھرنا محال ہو جائے گا۔تکلیف کا احساس ان کی جھریوں زدہ چہرے پہ واضح تھا۔
وہ یک دم فکرمندی سے اٹھ کر ان کے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر آگے کو جھکا۔
کیا درد میں کمی نہیں آئی؟میڈیسن کا فائدہ نہیں ہو رہا؟لہجہ پریشانی لئے ہوئے تھا۔
کرتی ہے مگر وقتی۔آرام آنے لگتا ہے تو پھر سے اگر ذرا چل پھر لوں تو پھر وہی حال۔وہ اسے بتا رہی تھیں۔اور نظریں گاہے بگاہے شفاف دیوار کے پار بھی اٹھ رہی تھیں۔
یہ سب آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔میں ابھی کال کرتا ہوں ڈاکٹر کو۔آپ کا سفر کرنا مناسب نہیں ہے۔کچھ دیر پہلے کی تازگی مفقود تھی۔
بتاتی کیسے؟تم تو گھر پہ ہی نہیں ٹکتے۔اتوار کے دن اب اللہ جانے کیا کھودنے آفس چلے جاتے ہو ۔جب سارے ملازمین چھوٹی پہ ہوتے ہیں۔انداز نرم مگر شکایت کرتا تھا۔اس کی اٹھی گردن شرمندگی میں جھکی تھی۔
میں شرمندہ ہوں دادی جان۔آپ کہیں گی توہی آفس جاؤں گا ورنہ نہیں جاؤں گا۔ہمیشہ کی طرح وہ ان کی شکایت پہ شرمندہ ہوا۔
میری جان تم کیوں شرمندہ ہوتے ہو۔میں نے تو بس ایسے ہی بات کر دہ تھی۔انہوں نے جھک کراس کے ہاتھ کا بوسہ لے کر شفقت سے چھوڑا۔
آپ کہہ رہی تھیں چلنے پھرنے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے۔تو پھر مت اٹھا کریں۔میں ہوں نا! جو کام ہو مجھے بتا دیا کریں۔یاپھر ظفر ،آپی کو۔لیکن آپ خود زحمت نہ کیا کریں۔آپ کو تکلیف میں دیکھ کہ مجھے تکلیف ہوتی ہے۔لوہا گرم ہو چکا تھا۔یہی صحیح وقت ہے بات منوانے کا۔
اب ہر وقت تو ایک جگہ بیٹھا نہیں جا سکتا نا ذریت۔آپی بھی کھانے کی چیزیں لاتی بات میں حصہ لے کر واپس کیچن کی طرف بڑھ گئیں۔
چلیں میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں۔اب سے وہ ہردو دن بعد آیا کرے گا۔بول دوں گا میں۔پھر چاہے جیسے مرضی گھومئے پھرئے گا ۔کوئے نہیں روکے گا۔لیکن تب تک کے لئے محض آرام۔وہ اس کی محبت اور تاکید پہ مسکرا کررہ گئیں۔وہ آذر کے جانے بعد بالکل ہی ہنسنا بھول گیا تھا۔
دادی کو ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ بہو کی بھی ضرورت ہے۔کیوں دادی؟مریم آپی کی بات پہ وہ چونکا تھا۔اور دادی کی طرف بھی دیکھا ۔جو آس بھری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔اسے یاد آیا تھا کہ کس طرح سے اسے پیچھلے ایک سال سے وہ شادی کے لئے منا رہی تھیں اور وہ مان کے نہیں دے رہا تھا۔
وہ ان کی آس بھری نظریں دیکھ کر انہیں بتا نہیں سکا تھا۔کہ اسے باہر کی عورت پہ بھروسہ نہیں تھا۔عورت نام کی چیز سے اسے حقارت و نفرت محسوس ہونے لگی تھی ۔جس کی وجہ سے،آج ایک ماں در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور تھی۔جس کی وجہ سے بھائی جیسے بچپن کے دوست سے اس کا تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا تھا۔عورت نام کے دھوکے کو وہ اپنے ارد گرد کیسے برداشت کرتا۔جو ازل سے فساد کی جڑ رہی ہے۔
بہو کی کیا ضرورت ہے جب میں ہوں تو۔وہ ٹال جانا چاہتا تھا۔لیکن سامنے بیٹھی خواتین بھی اس کے انداز اطوار خوب جانتی تھیں۔
اچھا تم تو جیسے بڑا ٹکتے ہو گھر۔اب یہ مت کہنا کہ اب رہ لو گے۔کیونکہ تم بھی جانتے ہو کہ یہ ممکن نہیں ہے۔وہ اس کا منہ کھلتا دیکھ کو جھٹ بولی تھیں۔وہ دادی کو دیکھ کر رہ گیا۔جو خاموشی سے چائے کے گھونٹ لے رہی تھیں
باہر والی سے زیادہ آپ کو مجھ پہ بھروسہ ہونا چاہے۔وہ ناراض نظر آیا۔عام حالات میں بھائی کی ناراضگی وہ کبھی برداشت نہ کرتیں۔مگر اب عام حالات نہیں تھے۔یہ اسی کی زبان تھی ۔جو اسے سمجھ آتی تھی۔
کر کے دیکھا تم پہ بھی اعتبار۔معمولی سی گھوٹنوں کی درد تک کا علاج تم کروا نہ سکے۔وہ اس سے سخت نالاں تھیں۔وہ یک دم گڑ بڑا گیا۔
دادی جھٹ مدد کے لئے پہنچیں۔چھوڑو بھی مریم۔تم تو صدا کی لڑاکا صفت ہی رہنا۔پل میں میرے بچے کو ظالم بنا دیا۔
بات ظلم کی نہیں ہے دادی جان۔۔۔اور بات سنو ذریت حسن اگر تم نہیں دادی جان کی کئیر کر سکتے تو بتا دو۔میں لے جاؤں گی اپنی بوڑھی ماں کو اپنے ساتھ فرانس۔آنکھوں میں نمی در آئی۔
وہ جو دادی کی سائڈ لینے پر پُرسکون ہوا تھا۔یک دم بکھلا گیا۔نہیں دادی کو میں کہیں نہیں جانے دوں گا۔اس نے تیزی سے ان کا ہاتھ بھی پکڑا جیسے ابھی وہ اسے تنہا چھوڑ کر چلی جائیں گی۔
دادی کے دل کو بھی کچھ ہوا۔تو پوتی کو آنکھیں دیکھانے لگیں کہ اب بس اتنا کافی ہے۔مگر مریم آپی خوب سمجھ رہی تھیں وقت کی نزاکت کو۔اس لئے ان کی ایک نہ سنی اور بات جاری رکھی۔میں سچ بول ہی ہوں ۔میں ایسا ہی کروں گی۔اس سے پہلے تم فیصلہ کر لو۔اتنا بول کر وہ ناشتے کی طرف ہاتھ بڑھا چکی تھیں۔
آپی غصہ مت کریں،اور آرام سے بات سنیں۔میں ابھی شادی نہیں کر سکتا۔بزنس میں۔۔۔
بزنس کا بہانا مت گھڑنا۔جتنی تیزی سے تم ترقی کر رہے ہو مجھے سب معلوم ہے۔تیزی سے انہوں نے اس کی بات کاٹی تھی۔وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔سمجھ چکا تھا۔انکو اب ہٹانا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔اس لئے ایک بار پھر سے دادی جان کو دیکھا۔جو نہایت غم کے عالم میں چائے پینے کے دوران اس سے لا تعلق نظر آ رہی تھیں۔مگر وہ افسردہ تھیں۔وہ سمجھ چکا تھا۔
دادی جان آپ کے ساتھ کہیں نہیں جائیں گی۔یہ میرا آخری فیصلہ ہے ۔کہہ کر وہ غصے میں پاؤں سے کرسی کو اٹھنے کے بعد ٹھوکر لگا کر گیا تھا۔
تو میں ہاں سمجھوں؟وہ آواز کی چہکار کو دبا کر بولی تھیں۔
جو مرضی کریں۔وہ لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے بلند آواز سے کہہ کر ٹی وی آن کر چکا تھا۔
وہ دونو ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں تھیں۔مشن پورا ہوا۔
ذریت بچے ناشتہ تو کر لو۔اسے دادی جان کی آواز میں جوش اور خوشی محسوس ہوئی تھی۔وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔آپ کی خاطر یہ بھی سہی۔وہ سوچ کر رہ گیا ۔
اس سب کے دوران نتاشا کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی۔جو آج کل ذریت حسن کو شکار بنانے کے اونچے خواب دیکھ رہی تھی۔لیکن شائد وہ یہ نہیں جانتی تھی،جہاں تک ذریت حسن کی پہنچ تھی۔وہاں تک اسکا خیا ل بھی نہ تھا۔وہ کاٹھ کا اولو بننے والامرد نہیں تھا۔
………….
امی جی کی اجازت اور چچی جان کے فون کو فارغ کرتے ہی وہ آبیٹھی تھی۔جھٹ پٹ ماہ نور کے گھر کا نمبر ملا ڈالا۔وقفے وقفے سے بیل جاتی رہنے کے بعد فون اٹھا لیا گیا
اسلامُ علیکم !بھاری مردانہ آواز سنتے ہی اس پہ شادیِ مرگ کی سی کیفیت چھا گئی ۔
ہلو۔۔۔؟دوسری طرف سے بولنے کے لئے اُکسایا جا رہا تھا۔فرح خان کا رنگ دوسری طرف سفید پڑ چکا تھا۔اس نے تیزی سے لائن کاٹ دی۔
دوسری طرف فون پہ موجود ابرار ابتسام نے تاسف سے سر ہلا کر ابھی فون رکھا ہی تھا۔جب گھنٹی ایک بار پھر سے بج اٹھی۔
جی؟ بتائیں محترم ۔میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ماؤتھ پیس سے گونجنے والی اسی آواز کو سن کی اس کا دماغ سن ہونے لگا۔آخر یہ نمبر بار بار غلط کیوں مل رہا ہے۔وہ سخت پر یشان ہوئی تھی۔لیکن اس بار پھر سے اس نے کال کاٹنے میں منٹ نہیں لگایا تھا۔
شاباش ہے بھئی۔وہ بڑ بڑا کر واپس فون کو رکھ کر کچھ فاصلے پہ پڑے اخبار کی طرف بڑھ گیا۔آج پاکستان میں یہ اس کی تیسری شام تھی۔اور ابھی ابھی وہ بابا کوآفس سے لے کر گھر آیا تھا۔اور اب ماہ نور کو کافی کا بول کر بیٹھا ہی تھا جب فون کی آواز پہ اسے اٹھ کر جانا پڑا تھا۔مگر عجیب مسلہ تھا۔مقابل تھا کہ بول ہی نہیں رہا تھا۔اور اس کے صبر کا امتحان لینا چاہتا تھا۔
دوسری طرف فرح خان کی جان سوکھ کر رہ گئی تھی۔نمبر تو وہ صحیح ملا ہی تھی۔مگر آدمی پتہ نہیں کون تھا۔
ہائے اللہ یہ کون ہے۔پتہ نہیں کون پاگل انسان ہے۔آواز سے ہی جاہل لگ رہا ہے۔وہ خود سے بڑ بڑائی کے کچھ فاصلے سے آتی چچی جان نے سنا نہیں تھا۔مگر فون ہاتھ میں پکڑے پریشان بیٹھی فرح کو دیکھ کر ایک طنزیہ مسکراہٹ ضرور نمودار ہوئی تھی۔جس سے وہ ناواقف ہی رہی تھی۔
یہ لیں کافی۔۔۔اس نے مسکرا کر ابرار بھائی کو کافی تھمائی۔جو اخبار کی سرخیاں دیکھنے میں مصروف تھے۔
ابرار بھائی کیسا لگا آپ کو پاکستان؟دائیں گھٹنے پہ ٹھوڑی جمائے وہ دلچسپی سے اپنے خوبرو بھائی سے پوچھ رہی تھی۔جس کے چہرے پہ سیاہ فریم والے چشمے نے اس کے وجاہت کو بڑھا دیا تھا۔جو اس وقت شلوار قمیض میں خاصہ برد بار دیکھائی دے رہا تھا۔
کیسا دکھنا گڑیا۔۔۔جیسا ہے ویسا ہی دکھے گا۔وہ اس کے سوال پہ مسکرا کر گویا ہوئے۔اور کچھ آگے جھک کر اخبار میز کی شفاف سطح پر رکھا۔
لے یہ کیا جواب ہوا۔۔۔وہ خوب بد مزہ ہوئی تھی۔اور بدلے میں بُرا سا منہ بنایا تو۔وہ جو اپنی نازک سی کلیوں جیسی بہن کی جدائی کا سوچ کر افسردہ ہو رہے تھے۔اس کے چہرے کے تاثرات نے انہیں قہقہ لگانے پہ مجبور کر دیا تھا۔
یہ۔۔۔یہ ابھی کیا کیا تم نے؟وہ ان کی بات کا مطلب سمجھ نہ پائی تھی۔
کیا؟
یہ ابھی جو تم نے منہ بگاڑا تھا۔یہ دوبارہ کرنا۔اسے ان کا ہنسنا اچھا لگا تھا۔
کیوں؟وہ ہنس پڑی ۔
ماہا کر و نا۔وہ اسے ابھی بھی وہی دو سال کی ماہا ہی سمجھتے تھے۔اور وہ ایکٹ بھی تو ایسے ہی کر ہی تھی۔
میں جوکر نہیں ہوں ۔۔۔
کرو تو۔۔۔تم جب چار سال کی تھی تب یہی تمہاری عادت تھی۔اب بھی یہی عادت ہے۔بہت کچھ یاد آنے لگا تھا۔
ہاں سچی۔بس ایک یہ عادت نہیں جاتی میری ناک چڑھانے والی۔وہ بھی انکی ہنسی میں انکا ساتھ دی رہی تھی۔جب فون کی گھنٹی نے تیسری آواز پیدا کی تھی۔
ابرار بھائی کو اٹھتے اور پھر فون کی جانب جاتے ۔اور پھر کال نہ اٹھاتے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی۔
کیا ہوا کال کیوں نہیں پِک کی؟۔وہ اٹھ کر برابر کے ساتھ آ کھڑی ہوئی تھی۔
ایسے ہی کوئی فارغ انسان ہے۔بار بار کال کرتا ہے۔اور جب میں بولتا ہوں تو جواب ندارد۔
کال اب بھی آ رہی تھی۔اس نے آنے والے نمبر کو دیکھا ۔اور منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنسی کے فوارے کو پھوٹنے سے روکا۔
کیا ہوا؟وہ معصومیت سے اس سے پوچھ رہے تھے۔جو آنے والی کال سننے کی غرض سے جانبوجھ کر سپیکر کھول چکی تھی۔
اسلامُ علیکم فری۔۔۔اس نے مسکراہٹ روک کر سلام میں پہل کی تو دوسری طرف لمبی سانس لی گئی۔جیسے لمبی تھکاوٹ زدہ محنت کے بعد لی جاتی ہے۔
مر و یہ کونسا واہیات سا نمبر دے دیا ہے۔جو تیسری بار ملانے پہ صحیح جگہ ملا ہے۔اس کی آواز میں خوف اور غصہ ایک ساتھ تھے۔
ماہ نور اور ساتھ کھڑا ابرار اس کی بات پہ نہ جانے کیسے اپنی ہنسی کو روک سکے تھے۔
کیا بول رہی ہو۔میں سمجھی نہیں؟وہ اس سے استفسار کر رہی تھی۔
مت پوچھو۔۔۔میں نے تم کو یہ تیسری بار کال کی ہے۔ہر بار پتہ نہیں کون ۔عجیب سی کھردری سی آواز والا آدمی فون اٹھا رہا تھا۔میری تو مانو جان ہی نکل گئی۔آواز سے وہ خاصی پریشان لگی تھی۔جبکہ داسری طرف وہ دونو ہنسی روکنے کے چکر میں سرخ ہو چکے تھے۔
اچھا کیا بول رہے تھے وہ؟کون تھے تم نے پوچھا؟
نہیں یار میں نے نہیں پوچھا۔آواز سے تو جاہل سا آدمی لگ رہا تھا۔موٹا سا۔۔۔اس کی بات اس کے ماہ نور اور ابرار بھائی کا قہقہ ایک ساتھ گونجا تھا۔ماہ نور نے تیزی سے کال کاٹ دی۔تاکہ وہ سن نہ سکے۔اسے دکھ ہوتا۔جبکہ دوسری طرف وہ دونو موٹا اور نہ جا نے کیا کیا،عجیب و غریب الفاظ سن کے ہنستے چلے گئے تھے۔
یہ کون تھی اس قدر دور اندیش خاتون۔وہ ہنسنے کے بعدگہرے گہرے سانس لے کر پوچھ رہے تھے۔
جواب میں اس نے ہنستے ہوئے فرح خان کا مختصر تعارف کروادیا۔
……………
ہلو بیوٹی کوئین۔۔۔وہ جو بے تابی سے ہوٹل میں بیٹھی انتظار کی تکلیف سے دوچار تھی۔اس کی آواز اپنی پشت پہ سن کے چونک کے سیدھی ہوئی۔
ہلو۔۔۔اس نے پُرجوش انداز میں اس سے ہاتھ ملایا۔اس کے ہاتھ کی سختی اور آنکھوں میں موجود سرد مہری نے چند لمحوں کے لئے ساکت کیاتھا۔مگر پھر وہ اگنور کر گئی ۔
آپ نے دیر کیوں کی؟آدھا گھنٹہ جناب آپ لیٹ ہیں۔وہ ناراضگی سے کہہ رہی تھی۔ذریت جو موبائل پہ تیزی سے ٹائپ کررہا تھا۔اس کی سکرین پہ تھرکتی انگلیاں چند پل کو رکی تھیں۔
میں اپنی مرضی کا مالک ہوں۔میں نے تو نہیں کہا تھا ۔کہ انتظار کرو۔چلی جاتی۔وہ رکھائی سے کہہ کے فون رکھتا سامنے کی جانب دیکھنے لگا۔اس وقت مین ڈور اس کی پشت پہ تھا۔
نہ ۔۔۔نہیں میرا مطلب ٹائم کی پابندی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔وہ یک دم گڑبڑا گئی تھی۔
ہاں تو محترمہ میں فارغ انسان تھوڑی ہوں۔اب میں اپنے اتنے ضروری کام چھوڑ کر تو نہیں آ سکتا نا۔انداز اب بھی سخت تھا۔خفت سے یک دم اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔اسے سجھ نہیں آئی تھی ۔کہ وہ اس انسان کی خاطر خود کو کیوں اتنا ذلیل کروا رہی تھی۔اس نے جھوکے سر کو اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔اور پھر اسے اپنے اندر کا سوال خودبخود جواب دیتا محسوس ہوا۔نتاشا سمجھ سکتی تھی۔حسین لوگوں کا نخرہ بھی ادا ہی کہلاتا ہے۔
اچھا آپ ناراض مت ہوں۔ میں تو بس یوں ہی پوچھ رہی تھی۔چلیں آڈر کرتے ہیں۔وہ مسکرا کر اس کا غصہ کم کرنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔وہ بھی اس کی مسکراہٹ دیکھ کر ٹھنڈا ہوا۔
ہاں ۔۔۔مگر لنچ میری طرف سے ہوگا۔اس نے منیو کارڈ اٹھاتے ہوئے۔کہا تو ایک بار پھر اُلجھی۔
مگر پرامس تھا۔کہ آج کا لنچ میری طرف سے ہو گا۔آج دوسری بار وہ لنچ اس کے ساتھ کر رہی تھی۔پیچھلی بار بھی اسی نے لنچ کروایا تھا۔اور وعدے کے مطابق اب کی بار یہ لنچ اس کی طرف سے تھا۔مگر وہ پھر ضد پہ تھا۔
لو۔۔۔ڈئیر۔۔۔ذریت حسن کی آواز کو اسی کے فون نے کاٹا تھا۔اس نے مینیو کارڈ ایک جانب رکھ کرآنے والی کال کو کاٹا۔ اور پھر میز پہ موجود اس کے سفید ہاتھ کو اپنی آہنی گرفت میں کرتے ہوئے نہایت جزبے کے عالم میں خود کو کہتے سنا تھا۔
وہ ہک دک اسی کو دیکھ رہی تھی۔اور وہ کہہ رہا تھا۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔لنچ تم کرواؤ یا میں۔بات تو ایک ہی ہے۔ہم کونسا غیر ہیں ۔میں تمہارا دوست ہوں ۔اور دوستوں میں سب چلتا ہے۔مسکرا کر اس نے اس کے ہاتھ کو چھوڑ دیا ۔اور پھر واپس منیو کارڈ کی طرف متوجہ ہو گیا۔جبکہ دوسری طرف موجود ہستی کچھ دیر پہلے واقع ہونے والے لمحے کے سحر میں مقید ہو کر رہ گئی تھی۔
مگر نیکسٹ ٹائم یہ چیٹنگ نہیں چلے گی۔وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی۔
زریت نے ایک بھر پور قہقہ لگایاتھا۔گویا مقابل کی بات کو خوب انجوائے کیا ہو۔کل کس نے دیکھی ہے ڈئیر نتا شا۔نتاشا جو اس کے چہرے کی مسکراہٹ کے سحر میں میں تھی چونکی۔
میں ۔۔۔جانتی ہوں۔ہم کل ضرور ملیں گے۔وہ یقین سے کہہ رہی تھی۔
اچھا ۔۔۔تم کیسے جانتی ہو؟۔وہ اس کی بات پہ ہنسا ۔اور ساتھ ہی کچھ فاصلے پہ کھڑے ویٹر کو آڈر بھی نوٹ کروا دیا۔
کیا خوبصورتی کا سحر ہی کافی نہیں ہوتا ۔کسی بھی انسان کو بے بس کر دینے کے لیے۔ایک ادا سے وہ کہہ رہی تھی ۔ساتھ ہی گال پہ جھولتی لٹ کو بھی شہادت کی انگلی سے بل دے رہی تھی۔
اچھااااا۔۔۔۔اس نے اچھا کو خاصا لمبا کیا تھا۔
بالکل۔۔۔حسن ایک ایسا سحر ہے ۔جو انسان کی عقل کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔پھر اس سحر سے نکلنا آسان نہیں رہتا۔
ہر سحر کا توڑ ہے ۔مادام۔۔۔تبھی کھانا بھی آ گیا ۔تو دونو کو چپ ہونا پڑا۔
دیکھتے ہیں۔آپ نکال پاتے ہیں اس سحر کا توڑ یا نہیں۔اس کی بات پہ ایک عجیب سی مسکراہٹ نے ذریت حسن کے چہرے پہ عکس چھوڑا تھا۔مگر وہ چپ ہی رہا۔
کھانا کھانے کے بعد وہ اہم میٹنگ کا کہہ کے اٹھ آیا تھا۔مگر اُٹھنے سے پہلے اس نے دوبارہ ملنے کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ہمیشہ کی طرح۔
گاڑی کا ڈور کھولنے کے بعد اس نے بیٹھتے ساتھ ہی موبائل کی سکرین کو سائڈ کے بٹن سے آن کر کے اکمل کو میسج کیا تھا۔
کام ہوا؟
ہاں۔۔۔چند لمحوں بعد ہی جواب آ گیا۔جسے پڑھ کر اس کے چہرے کو خوبصورت مگر خطرناک مسکراہٹ نے اپنے حصارمیں لیا تھا۔
اکمل اور بھی کچھ کہہ رہا تھا۔جسے پڑھنے کے بعد اس نے رات کے ڈنر کی دعوت دے کر فون کو آف کر دیا تھا۔ابھی اسے آفس جانا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...