جس وقت سیمل گھر پہنچی اس وقت عصر کا وقت نکل رہا تھا،جلدی سے نہاکر کپڑے تبدیل کرکے وه فوراً صلٰوةٍالعصر کی نیت باندھ کر کھڑی ہوگئ__نماز پڑھنے کے بعد سیمل نے دعا کے لیۓ ہاتھ اٹھاۓ تو اپنی ماں باپ کی لمبی زندگی اور گھر کی خیروعافیت مانگی__
نماز پڑھ کر وه کچن میں آئی اور امی سے ابو کی طبیعت دریافت کی۔ سیمل اپنے ماں باپ کی چھوٹی بیٹی تھی اور اسکا ایک ہی اکلوتا بھائی تھا جسکی شادی ہوچکی تھی اور جو اپنی زندگی بے حد خوش و خرم طریقے سے گزار رہا تھا__ سیمل کے ابو کا اپنا بزنس تھا__ ولید جو کہ سیمل کا بھائی جسکو پیار سے سیمل ولی بھیا پکارتی تھی، اپنی اکلوتی بہن پہ جان چھڑکتا تھا__انکی بیوی بھی دل کی بہت اچھی تھیں اور سیمل کو اپنی چھوٹی بہن مانتی تھیں__
ولی بھیا لندن میں الگ گھر میں اپنے ماں باپ کی اجازت سے شفٹ ہوگئے تھے البتہ وه روز ماں باپ کی طبیعت دریافت کرنے کے لیۓ سکائپ پہ روزانہ کال کرتے تھے __اسکے ولی بھیا کی وجہ سے ہی وه اپنی قیمتی خواہش کو پورا کر رہی تھی__ سیمل ایم بی بی ایس کے سیکنڈ ائیر میں تھی__اور زینب اور اسکی دوستی کالج لائف میں ہوئی تھی جو اب تک میڈیکل کالج میں بھی برقرار تھی__سیمل کی واحد پکی دوست صرف زینب تھی وه اسی سے ہر بات شئیر کرتی تھی__سیمل لڑکوں سے الرجک تھی__
بیس کی دہائی کی نوجوان نسل کی طرح سیمل بالکل نہیں تھی__وه انتہائی ریزرو نیچر کی ساده لوح لڑکی تھی__ اسے میک اپ وغیره سے چڑ بلکہ نفرت کہا جائے تو ٹھیک ھوگا __
وه پردے کا خاص خیال رکھتی تھی__
اسکے ابو کی طبیعت چند دنوں سے ناساز تھی تبھی وه آفس سے چھٹیوں پہ تھے__
وه کچن میں جاکر دیکھتی ہے تو کھانے میں میں پلاؤ بنا ہوتا ہے __
اسے دیسی کھانے کم ہی پسند تھے __
وه امی کے کمرے میں آتی تو دیکھتی امی ولی بھیا سے اسکائپ پہ بات کررہی ہیں__
وه بھی اپنے بھیا کو سلام کرتی ، حنا بھابھی کی طبیعت پوچھ کر اپنی چھوٹی سی فیری ڈول کا پوچھتی جو ابھی ایک ہفتے پہلے ہی دنیا میں آئی تھی اور ان سب کی آنکھ کا تاره بن گئی تھی__
“ولی بھیا ! میری بےبی کا کیا نام رکھا ؟؟”
” تم بتاؤ گڑیا کیا رکھوں ابھی امی سے بھی یہی پوچھ رہا تھا__؟ ”
“عائشے رکھ دیں، قسم سے بڑا پیارا نام ہے__”سیمل نے نام تجویز کیا جسکو سن کر اسکے بھیا خوش ہوگئے__
“گڈ ،نائس نیم آئی لائک اٹ__ چلو گڑیا یہی نام رکھ دیتے ہیں__”
“شکریہ ولی بھیا! “سیمل نے فرمیلیٹی ادا کی___”ارے پاگل لڑکی ڈاکٹر بن گئ یہ نہیں پتا کہ بھائی کو تھینک یو سوری نہیں بولتے__”ولی بھیا نے چھوٹا سا شکوه کیا__
“ارے ولی بھیا سوری!” سیمل تھوڑی سی شوخ ہوئی__
“امی دیکھیں یہ نہیں سدھرے گی__” کمرے میں سیمل کی جاندار ہنسی گونجی__
“سیمل تم جاؤ مجھے بات کرنے دو__”امی نے شاہی فرمان جاری کیا__ سیمل کو ناچار اٹھنا پڑا__
اپنے کمرے میں آکر وه پڑھائی میں مصروف ہوگئی__
اکرام صاحب کی سیکرٹری نے کال ریسیو کرنے کے بعد بروقت آکے سلمان صاحب کے کمرے میں اطلاع دی کہ” سر__ایک بیڈ نیوز ہے__ آغا کمپنی نے اپنی ڈیل کا کنٹرایکٹ کینسل کردیا ہے تو کمپنی کو کافی نقصان ہوا ہے__”
“سلمان صاحب جو اکیلے آفس میں بطور آفسر اپنے فرض انجام دے رہے تھے سر پکڑ کر بیٹھ گئے__”
اپنے آپ سے ہی سرگوشی کرنے لگے کہ یہ کمپنی تو کافی نقصان میں جاتی جارہی ہے__مجھے اکرام سے ملنا ہی ہوگا__اکرام اور سلمان بزنس پارٹنر تھے__اور دونوں ہی کافی پرانے دوست تھے جسے انھوں نے اپنی دوستی کو بزنس شئیر کر کے اور مضبوط کرلیا تھا__
سلمان صاحب اس وقت گھر جانا چاہتے تھے__انھوں نے گھڑی میں وقت دیکھا تو گھڑی نے رات آٹھ بجے کا وقت بتایا__
فضا میں خنکی بڑھتی جارہی تھی__موسم اپنی مخصوص وقت پہ بدل رہا تھا__درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے__کسی درخت پہ ایک مینا اکیلی بیٹھی تھی__تھوڑی دیر بعد ایک اور مینا آکر اسکی تنہائی دور کرنے لگ گئی__
“سر کل سنڈے کے دن تو میٹنگ نہ رکھیں میں وه اپنی فیملی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں__”وه سر سے التجایا انداز میں گزارش کر رہا تھا__
“سنو برخودار ہم تم سے اور تمھارے کام سے ھمیشہ خوش ہوتے ہیں اور تم اپنا کام پوری ڈیڈیکیشن سے بھی کرتے ہو__آج تم نے ہم سے کافی عرصے بعد فرمائش کی ہے تو کیا یاد کرو گے چلو کل کا آف دیتے ہیں مگر یاد رکھنا تم ایک بہترین نیوی آفیسر اور ایک سیکیرٹ ایجنڈ ہو__تمہارے لیۓ کوئی دن سنڈے اور کوئی فیملی نہیں ہوتی __” سر نے کافی اچھی یاد دہانی کروائی__
“جی سر آپ نے بجا فرمایا بالکل آئینده خیال رکھوں گا__ابھی اس کوتاہی کے لیۓ معزرت__” اس نے معافی مانگنے میں بالکل دیر نہیں کی کیونکہ وه جانتا تھا اس فیلڈ میں آنے کے بعد اسے سب کچھ چھوڑنا پڑے گا__حتیٰ کہ ماں باپ بھی__
کل سے اسے اپنے ماں باپ کی کافی یاد ستا رہی تھی تبھی اسنے گھر جانے کی درخواست کی تھی__
جلدی جلدی اپنا کام ختم کرکے وه گھر کے لیۓ روانہ ہوگیا__
گھر آکر وه اپنی امی کے گلے کا ہار بن گیا جو کہ کچن میں کام کررہی ہوتی ہیں__
“آگیا میرا بیٹا__ بہت دن سے میں اور تمہارے ابو تمہیں یاد کررہے تھے__ “امی نے اپنے بیٹے کا ماتھا چوما __
“تبھی تو میں آگیا دیکھیں__”
پھر وه اپنے مخصوص انداز میں امی کے ہاتوں کو چوم رہا تھا__
“چلو جلدی سے کھانا لگا دوں تو تم دونوں ابا بیٹے کھانا کھاؤ__
“کیوں؟ ابو نے کھانا نہیں کھایا ابھی تک_؟” اسے ابو کی عادت کا علم تھا تبھی اسے اتنی حیرا نگی ہوئی__
“پتہ نہیں بیٹا ! جب سے آفس سے آئیں ہیں پریشان ہیں تم یی پوچھو جاکر __”امی نے بے بسی سے جواب دیا__
وه سیدھا ابو کے کمرے میں آیا__سلام دعا کے بعد اس نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو ابو نے سب کچھ اپنے سپوت کے گوش گزار کردیا__
ساری بات توجہ سے سننے کے بعد وه بولا
” ابو آپکو اکرام انکل کو سب کچھ بتا دینا چاہیۓ آخر کو وه بھی بزنس میں برابر کے شریک ہیں__”
“ہاں بیٹا میں کل جاؤنگا انکے گھر__میں نے سوچا ہے ہم اپنے دس فیصد شئیرز بیچ دیتے ہیں اس سے ہماری کمپنی سٹیبل ہوجاۓ گی __”ابو نے اپنا دماغ چلاتے ہوئے ایک ترکیب بتائی__
“ٹھیک ہے ابو ! مجھے اس بارے میں کوئی آئیڈیا نہیں ہے__”وه اپنے خیال کا اظہار کر کے اٹھ گیا__
اگلی صبح سیمل فجر پڑھ کر باہر آگئ چونکہ آج اتوار تھا تو آج اخبار نے آنا تھا تو وه اخبار پہ تبصره کرنے چلی گئی__تھوڑی دیر میں اسکی امی اپنا چاۓ کا مگ اور سیمل کے لیۓ کافی لے آئیں__
سیمل نے تشکرانہ انداز میں کافی لیتے ہوئے سر خم کیا__
کافی ختم کرنے میں اسے زیاده دیر نہیں لگی__
کافی پیتے ہوئے ھی امی نے بتایا تھا کہ صبح بھی ابو کی طبیعت ناساز تھی __وه ابو کی وجہ سے پریشان بھی تھی کہ آخر کیا وجه ہو سکتی ہے کہ انکی صحت یوں گرتی جارہی ہے__ آج اسکا صفائی کا موڈ تھا__
اور سونے پہ سہاگہ آج ماسی نے بھی نہیں آنا تھا تو وه اکیلی ہی کام میں جُت گئ__
مکمل ماسی والے حلیہ میں کام کرتے ہوئے اسے دوپہر ہوگئی تھی__اب بس باہر لان کی صفائی رہتی تھی__وه جلد از جلد یہ کام ختم کرکے اپنی پڑھائی کرنا چاہتی تھی__اتنے میں مین گیٹ پہ بیل ہوئی__دروازه جیسے ہی کھولا اسکی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں_
ناشته کرنے کے بعد سلمان صاحب اپنے آفس چلے گئے تھے__
البتہ انکے صاحب زادے کا دیر تک سونے کا اراده تھا__
لنچ میں انکی واپسی آن لائن ٹیکسی پہ ہوئی__
انھوں نے دیکھا لان میں دو آنکھیں حیرت سے دیکھ رہی تھیں__ جن میں سے ایک انکے سپوت سیکرٹ ایجنڈ کی تھی اور ایک انکی شریکِ حیات کی تھی__
“وه گاڑی خراب ہوگئی تھی تو مکینک کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں__”
انھوں نے دونوں نفوس کی آنکھوں میں موجود حیرت کو دیکھ کر ٹیکسی میں آنے کی وجہ بتائی__
“بیٹا مجھے تھوڑی دیر میں اکرام کے گھر لے چلنا__”اسکے ابو نے مودبانہ انداز میں گزارش کی__
“اچھا ابو آپ حکم کیا کریں__ آپکا حکم سر آنکھوں پہ__” سر کو تھوڑا خم کرتے ہوتے ہوئے وه ابو کے سامنے جھکا__
“ویسے ابو آپ میری گاڑی لے جا سکتے ہیں__”
“نہیں بیٹا مجھ سے تمھاری گاڑی نہیں چلتی__”ابو نے شاہی بہانہ جاری کیا__
اسکے بعد انکے اکلوتےکا قہقہہ پورے لان میں گونجا____
تھوڑی دیر بعد وه اپنی وٹز میں ابو کو لے کر اکرام انکل کی طرف نکل گیا___
گاڑی کو عالیشان گھر کے سامنے روکتے ہوئے اس نے اپنے ابو سے اجازت طلب کی__
‘ابو میں جاؤں؟؟”
“نہیں بیٹا بس مجھے یہ پیپر سائن کروانے ہیں وه کروا لوں اور عیادت کولوں پھر ساتھ ہی چلتے ہیں__تم بھی اندر چل لو ساتھ __ابھی چلے جاؤ گے تو پھر تھوڑی دیر بعد آنا پڑے گا _فضول میں خواری ہوگی__”ابو سو طرح کے حالات بتا دیئے__
“ٹھیک ہے ابو__”اس نے بلاآخر انکی بات مان لی__
ڈور بیل دے کر وه دروازه کھلنے کا انتظار کرنے لگے__
جیسے ہی دروازه کھلا ، جو چہرہ اسے سب سے پہلے دکھائی دیا ،وہ بے حد خوش کرگیا__ ابھی تو اس نے دل میں ہی اپنے اللّٰه سے فریاد کی تھی اتنے خوبصورت چہرے کو پھر سے دیکھنے کی __اسے نہیں پتا تھا بعض دعائیں اتنی جلدی قبول ہوتیں ہیں___
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...