بس کچھ ایسا ہی موسم تھا میری بچی ، جب تم سولہ سال پہلے میری گود میںآئی تھیں۔بکائن کے اووے اووے پھول اسی طرح مہک رہے تھے اوربیریوں پر گلہریاں، تنے سے چوٹی تک اسی طرح بھاگی پھرتی تھیں، اور ایسی ہوا چل رہی تھی جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی۔ جب تم میری گود میں آئی تھیں تو دیے کی کالی پیلی روشنی میں اونگتا ہوا کوٹھا چمکنے سا لگا تھا اور دایہ نے کاہ تھا کہ ہائے ری ، اس چھوکری کے تو انگ انگ میںجگنو ٹکے ہوئے ہیں ۔اس وقت میں نے درد کے خمار میں اپنے جسم کے اس ٹکڑے کو دیکھا تھا اور مجھے تو یاد نہیں ہے دایہ نے بعد میں مجھے بتایا تھا کہ میں نے مسکرا کر تمہارے چہرے کی دمک میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھنے لگی تھی جیسے کوئی خط پڑھتا ہے۔
اگلی رات جب تمہارے بابا نے موقع پا کر تمہیں دیکھا تھا تو اداس ہو گیا تھا ۔اور میں نے کہا تھا ۔
’’تم تو کہتے تھے بیٹا ہو یا بیٹی سب خدا کی دین ہے ۔ پھر اب کیوں منہ لٹکا لیا ہے اور اس نے کہا تھا’’تو نہیں جانتی نابھولی عورت، تو ماں ہے نا، تو کیسے جانے کہ خدا اتنی خوبصورت لڑکیاں صرف ایسے بندوں کو دیتا ہے جن سے وہ بہت خفا ہوتا ہے۔ اس وقت میرا جی چاہا تھا میں تمہارے بابا کی آنکھیں اس کی کھوپڑی میں سے نکال کرباداموں کی طرح توڑ دوں کیونکہ میری جان ، وہ تو تمہیں اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے چڑیا سانپ کو دیکھتی ہے۔ وہ تمہاری خوبصورتی دیکھ کر ڈر گیا تھا اور پھر اس نے اپنی عمر کے سولہ سترہ سال تم سے ڈرتے ڈرتے گزار دئیے ۔وہ اب بھی ڈرا اور سہما ہوا ،باہر گلی میں بچھی ہوئی چٹائیوں پر، لوگوں میں گھرا بیٹھا ہے اور آسمانوں کو یوں دیکھ رہا ہے جیسے کوئی اس کی طرف آرہا ہے۔
تم مجھ پہ تو نہیں گئی تھیں ۔ میں تو گائوں کی ایک عام سی لڑکی تھی، میرا ناک نقشہ بالکل سیدھا سادا تھا۔ ہاں تم اپنے بابا پر گئی تھیں۔جو بہت خوبصورت تھا۔ وہ تو اب بھی خوبصورت ہے پر اب اس کی خوبصورتی سولہ سترہ سال کی گرد سے اٹ گئی ہے۔ اب بھی اس کی بڑی بڑی بادامی آنکھیں ہیں اور اب بھی اس کے چہرے اور مونچھوں کے رنگ میں سونا ہے پر جب تم پیدا ہوئی تھیں نا تو وہ بالکل مورت تھا۔ تم آئیں تو وہ ڈر گیا مگر اس کی شکل نہیں بدلی ۔بس ذرا سی بجھادی۔ تمہارے آنے کے بعد میں نے اس کے موتیوں کے سے دانت کم دیکھے اس کے پنکھڑی ہونٹ ہمیشہ یوں بھنچے رہے جیسے کھلے تو کچھ ہو جائے گا۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب وہ آیا اور اس نے تمہیں دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے بہت بڑے محل کی بنیادیں بیٹھ رہی ہیں۔ وہ یہاں کھڑے کھڑے ہی ایک دم اندر سے بوڑھا ہوگیا جب وہ پلٹا تو میں ڈری کہ وہ گلی تک پہنچے سے پہلے ہی ڈھیر ہوجائے گا۔ مگر ابھی ابھی میں نے دیوار پر سے جھانکا ہے تو وہ گلی میں بیٹھا ہے اور جمع ہوتے لوگوں کو یوں ڈر ڈر کر ،چونک چونک کر دیکھ رہا ہے جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہے۔
تم جب تین چار سال کی ہو کر بھاگنے دوڑنے لگیں تو دیکھنے والوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مٹی کا بنا ہوا انسان اتنا خوبصورت بھی ہوسکتا ہے، ایک بار تم گر پڑیں اور تمہارے ماتھے پر چوٹ آئی تو میں تو روتے روتے نڈھال ہوگئی پر تمہارے بابا نے چہک کر کہا تھا۔ خدا جو بھی کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے۔ ہماری رانو بیٹی کے ماتھے پر چوٹ کے نشان نے اس کی خوبصورتی کو داغ دار کردیا ہے ۔پر خدا کو تو کچھ اور منظور تھا چوٹ کا نشان تو باقی رہ گیا مگر یہ نشان بالکل نئے نئے چاند کا سا تھا۔ لال لال سا بھی اور سنہرا سنہرا سا بھی، جو اب میری جان ، پیلا پیلا سا لگ رہا ہے۔
پھر جب تم پانچ سال کی ہوئیں تو میں نے قرآن شریف پڑھانے کے لئے تمہیں بی بی جی کے پاس بٹھادیا۔ تب پتہ چلا کہ تمہاری آواز بھی تمہاری طرح خوبصورت ہے۔ بی بی جی کے گھر کی دیواروں کے اندرسے قرآن شریف پڑھنے عوالی بچیوں کی آوازیں آتی تھیں تو ان میں سے میری رانو بیٹی کی آواز صاف پہچانی جاتی تھی۔ تمہاری آواز میں چاندی کی کٹوریاں بجتی تھیں۔ ایسی کھنک کہ تم چپ بھی ہوجا تی تھیں تو جب بھی چار طرف سے جھنکار سی اٹھتی رہتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ پہلے تم آیت پڑھتی تھیں اور تمہارے بعد تمہاری ہم سبقوں کی آوازیں آتی تھیں۔ یوں جب تم اکیلی پڑھ رہی ہوتی تھیں تو گلی مین سے گزرنے والوں کے قدم رک جاتے تھے اور چڑیوں کے غول منڈیروں پر اتر آتے تھے ۔ایک بار مزار سائیں دولھے شاہ جی کے مجاور سائیں حضرت شاہ اِدھر سے گزر رہے تھے اور تمہاری آواز سن کر انہوں نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔یہ کون لڑکی ہے جس کی آواز میں ہم فرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سن رہے ہیں!۔۔۔۔۔۔ اور جب تمہیں معلوم ہوا تھا کہ سائیں حضرت شاہ نے تمہارے بارے میں یہ کہا ہے تو تم اتنی خوش ہوئی تھیں کہ رونے لگی تھیں۔
تب یوں ہوا کہ عورتیں پانی سے بھرے ہوئے برتن لاتیں اور تمہاری تلاوت ختم ہونے کا انتظار کرتی رہتیں۔ تم قرآن پاک بند کرکے اٹھتیں اور طفیل سائیں دولھے شاہ جی کہتی ہوئی ، ان برتنوں پر ’’چُھوہ‘‘ کرتیں اور عورتیں یہ پانی اپنے عزیزوں کو پلاتیں تو بیمار اچھے ہو جاتے ، بُرے نیک ہو جاتے ، بے نماز نمازی ہو جاتے!
ان دنوں مجھے یوں لگنے لگا جیسے تم نور کی بنی ہوئی تو خیر ہمیشہ سے ہو پر اب تم بی بی جی کے ہاں سے واپس گھر میں آتیں تو تمہارے چہرے پر میری نظریں نہ جم پاتیں، جیسے سورج پر نظر نہیں جمتی۔
خدا اور رسول کے بعد تم سائیں دولھے شاہ جی کا نام جپتی رہتی تھی ۔اسی لئے تو تمہارا بابا ایک بار تمہیں سائیں دولھے شاہ جی کے مزار پر سلام بھی کرالایا تھا۔
قرآن شریف تم نے اتنا پڑھا میرے جگر کی ٹکڑ ی ! کہ اب بھی جب چاہے چار طرف سناٹاہے اور سرف اِدھر اُدھر سے سسکی کی آواز آجاتی ہے، میں تمہارے آس پاس، تمہاری ہی آواز میں قرآن شریف کی تلاوت سن رہی ہوں۔ تمہارے ہونٹ تو نہیں ہل رہے ، پر میں اپنے دودھ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ یہ آواز تمہاری ہے۔ زمین پر ایسی نورانی آواز میری رانو کے سوا اور کس کی ہو سکتی ہے۔
ایک دن جب تمہارے چاچا دین محمد کی بیوی اپنے بیٹے کے لئے تمہارا رشتہ پوچھنے آئی تو تب مجھے معلوم ہوا کہ تم شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہو۔ مائیں تو بیٹی کے سر پر چنی لیتے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ وقت آرہا ہے پر تمہارے بارے میں تو میں سوچ ہی نہ سکی ۔ تم نے سوچنے کی مہلت ہی نہ دی ۔میں نے تمہارے بابا سے اپنی اس بے خبری کی بات کی تو وہ بولا۔’’تو تو سدا کی بے خبری ہے پر میں ایسا بے خبر نہیں ہوں۔ بس یہ ہے کہ مجھیلڑکی سے ڈر لگتا ہے اس سے بھی تو بات کرو۔ اس نے تو اپنا سب کچھ مولا کی راہ میں تج دیا ہے۔
تب پہلی بار مجھے تم سے خوف آیا۔ میں نے سوچا اگر میں نے تم سے رشتے کی بات کی تو کہیں تم جلال میں نہ آجائو۔ مگر پھر اسی شام کو سائیں حضرت شاہ کا ایک خادم آیا اور اس نے بتایا کہ کل سے سائیں دولھے شاہ جی کا عرس ہے جو تین دن تک چلے گا اور سائیں حضرت شاہ نے خواب میں سائیں دولھے شاہ جی کو دیکھا ہے اور یہ فرماتے سنا ہے کہ میری چیلی رانو کو بلا کر تین دن تک اس سے میرے مزار پر قرآن شریف کی تلاوت کرائو ورنہ سب کو بھسم کردوں گا۔ تم جانتی تھیں بیٹی کو سائیں دولھے شاہ جی بڑے جلال والے سائیں تھے ۔زندگی میں جس نے بھی ان کے خلاف کوئی بات کی، اسے بس ایک نظر بھر کر دیکھا اور راکھ کر ڈالا۔ مرنے کے بعد بھی ان کی درگاہ میں یا اس کے آس پاس کوئی برا کام یا بری بات ہو جائے تو ان کا مزار شریف سرہانے کی طرف سے کھل جاتا ہے اور اس میں سے ان کا دست مبارک بلند ہوتا ہے بُرا کام یا بری بات کرنے والا جہاں بھی ہو کھنچا چلا آتا ہے۔ اپنی گردن سائیں جی کے دست مبارک میں دے دیتا ہے اور پھر وہیں ڈھیر ہو جاتا ہے ۔سائیں جی کا دست مبارک واپس مزار شریف میں چلا جاتا ہے اور مزار شریف کی دراڑیں یوں مل جاتی ہیں جیسے کبھی کھلی ہی نہیں تھیں۔
کس کی مجال تھی کہ سائیں دولھے شاہ جی کا حکم ٹالتا ۔دوسرے دن صبح کو ہم تینوں ایک اونٹ پر بیٹھے تھے اور درگاہ سائیں دولھے شاہ جی کی طرف جارہے تھے میں کجاوے کے ایک طرف تھی اور تم میری جان، دوسری طرف تھیں اور درمیان میں اونٹ کے پالان پر تمہارا بابا بیٹھا تھا۔ اونٹ جونہی اٹھا تھا اور چلنے لگا تھا تو تم نے قرآن شریف کی تلاوت شروع کردی تھی اور میری پاک اور نیک بچی ، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ہمارا اونٹ جہاں سے بھی گزرا تھا، لوگ دور دور سے کھنچے چلے آئے تھے وہ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور رو رہے تھے اور سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہہ رہے تھے اور کجاوے کے اوپر چڑیوں اور ابابیلوں اور کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ آتے تھے اور غوطہ لگا کر جیسے میری بچی کی آواز کا شربت پی کر ناچتے تیرتے ہوئے دور نکل جاتے تھے اور میں سوچتی تھی کہ یہ ہم گنہگاروں کی کس نیکی کا بدلہ ہے کہ خدا نے ہمیں ایسی بیٹی بخشی ہے جو زمین پر قرآن شریف کی تلاوت کرتی ہے تو اس کی آواز آسمان تک جاتی ہے۔ آسمان کا خیال مجھے یوں آیا تھا کہ ایک بار تمہارے بابا نے پالان پر سے جھک کر میرے کان میں ہولے سے کہا۔ اوپر دیکھو۔یہ کیسے نورانی پرندے ہیں جو ہمارے ساتھ ساتھ اڑ رہے ہیں۔ میں نے ان علاقوں میں ایسا پرندہ کبھی نہین دیکھا کہ ان کے پروں میں ستارے چمکتے ہوں۔ یہ تو آسمانوں سے اتر کر آنے والے فرشتے معلوم ہوتے ہیں!۔۔۔۔۔۔ اور میری آنکھوں کا نور بچی ، میں تمہاری جاہل ماں بھی قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ وہ فرشتے ہی تھے۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسے جیسے ننھے منے بچوں کے پر لگ گئے ہوں اور وہ ہوا میں ہمکتے پھرتے ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ میری پہنچی ہوئی بیٹی سے تلاوت سننے آئے تھے۔
پھر جب درگاہ سائیں دولھے ساہ جی کے پاس ہمارا اونٹ بیٹھا تھا تو جیسے تم بھو ل گئی تھیں کہ تمہارے ساتھ تمہارے ماں باپ بھی ہیں۔ تم مزار شریف کی طرف یوں کھنچی تھیں جیسے سائیں دولھے شاہ جی تمہاری انگلی پکڑ کر تمہیں اپنے گھر لئے جارہے ہوں ۔مزار شریف کو بوسہ دے کر اور اس کے ایک طرف بیٹھ کر تم نے قرآن شریف کی تلاوت شروع کردی تھی اور تمہاری آواز کی مٹھاس چکھنے کے لئے عرس پر آنے والے لوگ مزار شریف پر توٹ پڑے تھے۔ ہم دونوں نے مزار شریف کو اپنی پوروں سے چھوا اور پھر اپنی پوریں چوم لیں ۔پھر ہم سائیں حضرت شاہ کی خدمت میں ان کے زانوئوں کو چھونے اور دستِ مبارک کو چومنے پہنچے تھے اور انہوں نے فرمایا تھا۔ اپنی بیٹی کو سائیں جی کے قدموں میں بٹھا کر تم نے اپنے اگلے پچھلے گناہ معاف کرالیئے ہیں۔ تم انشاء اﷲ جنتی ہو ۔ یہ سن کر خوشی سے ہماری سانسیں پھوگئی تھیں ۔پھر میں نے اندر جا کر بی بیوں کو سلام کیا تھا اور تمہیں ۔۔۔۔۔۔ میری جان۔۔۔۔۔۔ سائیںدولھے شاہ جی اور سائیں حضرت شاہ اور ان کے گھرانے کی بی بیوں کی امانت میں دے کر ہم دونوں یہ کہہ کر واپس گائوں آگئے تھے کہ عرس کے تین دن گزرنے کے بعد اگلے روز ہم اپنی نعمت کو لینے حاضر ہو جائیں گے جو خدا نے اور اس کے حبیب پاک نے ہم غریبوں گنہگاروں کو ہماری سیدھی سادی نیکی سے خوش ہو کر بخشی ہے۔
اے میری بچی ، اے میری جگر کی ٹکڑی، اے میری صاف ستھری رانو بیٹی! پھر جب تین دنوں کے بعد ہم دونوں سائیں دولھے شاہ جی کے مزار شریف پر گئے تھے تو تم وہیں بیٹھی تھیں جہاں ہم تمہیں بٹھا گئے تھے ، مگر کیا یہ تمہی تھیں؟ تمہاری آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئی تھیں۔ تمہارے ہونٹوں پر جمے ہوئے خون کی پپڑیاں تھیں۔ تمہارے بال الجھ رہے تھے ۔ چادر تمہارے سر سے اُتر گئی تھی مگر اپنے بابا کو دیکھ کر بھی تمہیں اپنا سر ڈھانپنے کا خیال نہیں آیا تھا۔ تمہارا رنگ مٹی مٹی ہورہا تھا اور ہمین دیکھتے ہی تم چلا پڑی تھیں۔۔۔۔۔۔ مجھ سے دور رہو بابا۔میرے پاس نہ آنااماں۔ میں اب یہیں رہوں گی۔میں اس وقت تک یہیں رہوں گی جب تک سائیں دولھا شاہ جی کا مزار شریف نہیں کھلتا اور اس میں سے ان کا دست مبارک نہیں نکلتا۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا میں یہیں رہوں گی جب تک انصاف نہیں ہوگا۔ میں یہیں رہوں گی اورمزار شریف کھلے گا۔آج نہیں تو کل کھلے گا۔ ایک مہینہ بعد ایک سال بعد، دو سال بعد سہی، پر مزار شریف ضرور کھلے گا اور دست مبارک ضرور نکلے گا۔ تب میں خود ہی اپنے بابا اور اپنی اماں کے قدموں میں چلی آئوں گی اور ساری عمر ان کی جوتیاں سیدھی کروں گی اور ان کے پائوںدھو دھو کرپیوں گی۔ پر اب میں نہیں آئوں گی ، اب میں نہیں آسکتی۔ میں بندھ گئی ہوں۔ میں مرگئی ہوں۔‘‘پھر تمہیں ایک دم بہت سا رونا آگیا تھا مگر تم نے ایک دم اپنے آنسو روک لئے تھے اور تم بھیگی ہوئی آواز میں تلاوت کرنے لگی تھی ۔آس پاس کھڑے ہوئے بیسیوں لوگ ہمارے ساتھ زار زار رونے لگے تھے اور کہنے لگے تھے ۔’’اثر ہو گیا ہے دن رات مزار شریف پر رہنے سے اس پر اثر ہوگیا ہے۔‘‘
تمہارے بابا نے فریاد کی تھی۔’’اثر ہوگیا ہے؟ دن رات قرآن شریف کی تلاوت کرنے والی لڑکی پر کون اثر کیسے ہوسکتا ہے اور اگر تم کہتے ہو کہ اثر ہوگیا ہے تو سائیں حضرت شاہ کہاں ہیں؟ ‘‘وہ روتا ہوا سائیںحضرت شاہ کی طرف چل پڑا تھا اور مین بلکتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ مگر عین خادموں نے بتایا تھا کہ سائین جی تو عرس کے فوراً بعد ایک حجرے میں بند ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور کئی دنوں تک وظیفہ فرماتے ہیں اور کسی سے نہیں ملتے۔ پھر مین نے اندر بی بیوں کے پاس جانا چاہا تھا مگر بڑے دروازے پر خادمائوں نے بتایا تھا کہ رانو کی حالت سے بی بیاں پہلے ہی بہت پریشان ہیں اور انہیں اور زیادہ پریشان کرنا گنا ہ ہے۔
ہم پھر لپک کر مزار شریف کی طرف گئے تھے مگر اب کے میری بچی، تم نے ہمیں دیکھا تو تمہیں جلال آگیا تھا اور تم نے اتنے زور سے چیخ کر کہا تھا ۔’’تم چلے کیوں نہیں گئے ‘‘ کہ مجھے یقین آیا تھا کہ یہ چیخ اس حلق سے نکلی ہے جس نے تلاوت کے سوا کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔
ہم اجڑے پجڑے ماں باپ ، مزار شریف سے ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئے تھے اور رو رہے تھے اور لوگ ہمیں روتا دیکھ کر رو رہے تھے کہ سائیں حضرت شاہ کا خاص خادم آیا تھا اور اس نے ہم سے کہا تھا کہ سائیں جی کو بھی رانو کی اس حالت کا برا دکھ تھا اور انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ لڑکی اچانک بھوت کے قبضے میں چلی گئی ہے اور سائیں حضرت شاہ ایک خاص وظیفہ فرما رہے ہیں کہ یہ جن اترے تو اس امانت کو اس کے ماں باپ تک پہنچایا جائے ۔پھر حکم ہوا تھا کہ تم جائو اور رانو کو درگاہ شریف کی نگرانی میں رہنے دو۔
’’اب تم جائو ‘‘ ہمارے سروں پر تمہاری آواز آئی تھی اور ہم سے سراٹھا کر دیکھا تھا کہ تمہاری آنکھیں تالایوں کی طرح بھری ہوئی تھیں۔ اب تم جائو میرے بابا۔ جائو میری اماں۔ اب تم جائو۔ مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دست مبارک ضرور نکلے گا ۔ فیصلہ ضرور ہوگا۔ فیصلہ ہو جائے تو میں سیدھی تمہارے پاس پہنچوں گی۔ سائیں دولھے شاہجی خود مجھے تمہارے پاس چھوڑ جائیں گے۔ اب تم جائو۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر تم مزار شرید کی طرف پلٹ گئی تھیں اور تم چلتے ہوئے یوں ڈول رہی تھیں جیسے کٹی ہوئی پتنگ ڈولتی ہے۔
میں تم پر سے صدقے جائوں میری بیٹی۔ ہم تمہارے ماں باپ اس کے بعد بھی بار بار تمہارے پاس پہنچے مگر تب تو تم ہمیں پہچانتی بھی نہیں تھیں۔ ہم تمہیں پکارتے تھے تو تم ہماری طرف یوں خالی خالی آنکھوں سے دیکھتی تھیں جیسے حیران ہو رہی ہو کہ یہ آواز کدھر سے آئی ہے ۔تمہارا رنگ خاکستری ہوگیا تھا۔ تمہارے ہونٹ اکڑ کر پھٹ گئے تھے۔ تمہارے بالوں میں گرد تھی اور تنکے تھے اور ٹوٹے ہوئے خشک پتے تھے ۔ایک بار جب ہم تمہارے لئے کپڑوںکا نیا جوڑا لے کر گئے اور ہم نے یہ کپڑے تمہارے سامنے رکھ دئیے تو تم یہ کپڑے ہاتھ میں لے کر اٹھیں اور ایک طرف چل پڑیں۔ تمہارا ایک بھی قدم سیدھا نہیں اٹھتا تھا۔ پھر تم غائب ہوگئی تھیںاور ہم خوش ہوئے تھے کہ ہم کہیں کپڑے بدلنے گئی ہو۔ مگر پھر ایک طرف سے شور اٹھا ۔ تم اسی رفتار سے واپس آرہی تھیں اور تمہارے پیچھے درگاہ کے چند خادم تھے جنھوں نے بتایا کہ تم نے نئے کپڑوں کا جوڑا درگاہ شریف کے لنگر کی دیگ کے نیچے بھڑکتی آگ میں جھونک دیا تھا۔
تلاوت تو تم اب بھی کر رہی تھی مگر آواز مین چاندی کی کٹوریان نہیں بجتی تھیں۔ پھر تم پڑھتے پڑھتے مزار شریف کے سرہانے کی طرف جھک جاتی تھیں جیسے کوئی جھری، کوئی دراڑ ڈھونڈ نے کی کوشش میں ہو۔ پھر تم ٹوٹ کر رو دیتی تھیں اور تلاوت کو روک کر ہولے ہولے جیسے خود کو سمجھاتی تھیں۔۔۔۔۔۔مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دست مبارک ضرور نکلے گا، فیصلہ ضرور ہوگا۔انصاف ضرور ہوگا۔۔۔۔۔۔پھر تم آنکھیں بند کر لیتی تھیں اور تلاوت میں مصروف ہو جاتی تھیں۔
ایک بار ہم سائیں حضرت شاہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے اور عرض کیا تھا کہ جن بھوت کلام پاک پڑھنے والوں کے پاس بھی نہیں پھٹکتے۔ دور سے بیٹھے ہنستے رہتے ہیں اور جھومتے رہتے ہیں اور اگر ہماری ہیرا بیٹی پر ایسے کافر جن آگئے ہیں جو قرآن شریف کی تلاوت کا بھی لحاظ نہیں کرتے، تو یہ آپ کی درگاہ شریف ہی کے جن ہیں آپ کے حکم سے اتر جائیں گے ۔خدا کے نام پر، رسول پاکؐ کے نام پر، پیر دستگیر کے نام پر ،سائیں دولھے شاہ جی کے نام پر ہمارے ساتھ مزار شریف پر چلنے اور یہ جن اتاردیجئیے اور سائیں حضرت شاہ نے فرمایا تھا کہ ہم جن تو اتاردیتے مگر تم نے ٹھیک کہا۔ یہ کوئی بڑا کافر جن ہے اور کافر جن ہمارے قبضے میں نہیں ہیں۔ ہم یہاں دعا کررہے ہیں۔ تم گھر جا کر دعا کرو۔ ہمارا وظیفہ جاری رہے گا۔
جب ہم ٹوٹے پھوٹے واپس آرہے تھے تو بی بیوں کی ایک بوڑھی خادمہ نے مجھے ایک طرف لے جا کر بتایا کہ عرس کے تیسرے دن سائیں حضرت شاہ مزار کی طرف آئے تھے تو تمہاری بدنصیب بیٹی نے مزار شریف پر سے گول گول لہرئیے پتھر اٹھا کر جھولی میں بھر لئے تھے اور چیخ چیخ کر کہا تھا کہ سائیں! مزار شریف سے دست مبارک تو جب نکلے گا ، نکلے گا ۔اگر تم ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں سائیں دولھے شاہ جی کے دئیے ہوئے ان پتھروں سے تمہارا ناس کردوں گی!خادم تمہاری بیٹی کو پکڑ کر مارنے پیٹنے کے لئے آگے بڑھے تھے تو سائیں جی نے انہیں روک کر کہا تھا کہ نادانو، یہ لڑکی نہیں بول رہی ہے اس کے اندر کا کافر جن بول رہا ہے جب تک یہ مزار شریف پر قابض ہے ہمیں اور ہمارے خاندان کے کسی مرد عورت کو ادھر نہیں آنا چاہئے ورنہ کیا خبر یہ جن کیا کر بیٹھے۔
پھر رات درگاہ شریف کا ایک خادم آیا کہ تمہاری بیٹی تمہیں بلارہی ہے۔ پر راتوں رات گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو تم مزار شریف کی پائنتی لیٹی ہوئی تھیں۔ چراغ کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ تمہاری نظر اٹک گئی تھیں۔ اور تمہارے ہونٹ ذرا ذرا سے ہل رہے تھے۔ ظاہر ہے تم اس وقت بھی تلاوت ہی کررہی تھیں۔پھر جب میں نے تمہارا سر اپنی گود میں رکھا اور تمہارے بابا نے تمہارا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر رونا شروع کردیا تو نہایت ہی کمزور آواز میں تم نے کہا تھا۔’’میری اماں،میرے بابا،کون جانے مزارشریف کیوں نہیں کھلا، انصاف تو نہیں ہوا پر فیصلہ تو ہوگیا۔ چلو میں ہی گنہگار سہی۔ سائیں دولھے شاہ جی، آپ نے بڑا انتظار کرایا۔ اب قیامت کے دن جب ہم سب خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔۔۔۔۔۔جب ہم خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔۔۔۔۔۔خدا کے سامنے۔۔۔۔۔۔خدا۔۔۔۔۔۔!‘‘اس کے بعد تم چپ ہوگئی تھیں اور تب سے چپ ہو۔
پھر ہم تمہیں گھر میں اٹھا لائے اور جب ابھی ابھی صبح سویرے سائیں حضرت شاہ کا خاص خادم سائین جی کی طرف سے تمہارے لئے کفن لایا تو تم پر سے اترا ہوا جن جیسے تمہارے بابا پر آگیا۔ اس نے کفن ہاتھ میں لیا اور اسے اس چولھے میں جھونک دیا جس پر تمہیں غسل دینے کے لئے پانی گرم کیا جارہا تھا۔
اب میرے جگر کی ٹکڑی، میری نیک اور پاک، میری صاف اور ستھری رانو بیٹی!آئو میں تمہارے ماتھے کے بجھے ہوئے چاند کو چوم لوں۔ دیکھو کہ بکائن کے اودے اودے پھول مہک رہے ہیں اور بیریوں پر گلہریان تنے تنے چوٹی تک بھاگی پھر رہی ہیں اور ایسی ہوا چل رہی ہے جیسے صدیون کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گئیں اور چار طرف تمہاری تلاوت کی گونج ہے اور سائیں حضرت شاہ کے بھیجے ہوئے کفن کے جلنے کی بو اب تک سارے گھر میں آرہی ہے اور میرے اندر اتنا بہت سا درد جمع ہوگیا ہے جیسے تمہیں جنم دیتے وقت جمع ہوا تھا۔
٭٭٭
تجزیہ
فن مصّوری کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک ماڈرن آرٹ ۔ ماڈرن آرٹ بالکل تجریدی اور تمثیلی افسانوں کی طرح ہوتا ہے۔جس طرح علامتی افسانوں میں شعور کی رو جدھر بہہ گئی بہہ گئی۔ افسانہ نگار نے جیسا چاہا لکھ دیا کوئی بھی نیا سمبل قائم کردیا پڑھنے والا جو بھی سوچ لے وہی درست۔ اسی طرح ماڈرن آرٹ ہوتا ہے۔ آرٹسٹ نے جو چاہا بنا دیا۔ جیسا چاہا برش گھما دیا۔ رنگوں کا اپنا مزاج ہوتا ہے ۔ جو اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں مگر ماڈرن آرٹسٹ ان بندشوں سے بھی آزاد رہتا ہے اُسے پرواہ نہیں کہ دیکھنے والے کی سمجھ میں کچھ آیا کہ نہیں وہ کچھ بھی بنا دیتا ہے گدھے کے سر پر سینگ ، شیر کے جسم پر بکری کا سر بھی بنا دیتا ہے۔ جیسے بیانیہ افسانے زندگی کی سچائیاں اُس کا عکس پیش کرتے ہیں۔ ویسے ہی فائین آرٹ میں قدرت کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ جِسے دیکھنے والا سمجھتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ زیادہ تر شاہ کار پینٹنگز فائین آرٹ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ جیسے افسانوی ادب میں شاہکار افسانے بیانیہ میں پائے جاتے ہیں۔ بیانیہ افسانے میں کبھی کبھی ایسے افسانے پڑھنے کو مل جاتے ہیں جن کو پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ان کو فریم کروا کر اپنے ڈرائینگ روم کی کسی خوبصورت دیوار پر سجا لیا جائے ۔تا کہ ذی ہوش اور صاحب ذوق دوست اس سے محظوظ ہو سکیں اور ہمارے ذوق انتخاب کی تعریف کریں۔
احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’ بین‘ ‘ پڑھ کر میرے اندر بھی ایسی ہی تمنّا اُبھری، کہ کیوں نہ میں اس خوبصورت افسانے کو فریم کرو الوں اور اپنے ڈرائینگ روم میں سجالوں۔ افسانے کی منظر نگاری کسی بھی دلکش تصویر سے کم نہیں افسانے کا مطالعہ شروع کریں تو آپ اس کی سحر انگیز گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی افسانے میں سانس لینا شروع کریں گے اور اُس کی جمالیات میں گم ہو کر رہ جائیں گے۔ افسانہ پاکستان کے ماحول کے پس منظر میں تخلیق کیا گیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے یہ افسانہ نقطہء عروج سے شروع کیا ہے پورا افسانہ بیک گرائونڈ میں بیان ہوتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے،زمانہ حال میں۔
افسانے میں کوئی راوی نہیں ۔ایک ماں اپنی سولہ سترہ سال کی بیٹی سے ہمکلام ہے جو مر چکی ہے افسانہ خود کلامی سے ہی آگے بڑھتا ہے اور انجام تک پہونچ جاتا ہے کہانی پن اس قدر مضبوط ہے کہ قاری کا دھیان ادھر ادھر بٹتا ہی نہیں افسانہ ، رانوجو گھر میں مردہ پڑی ہے کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ ماں رانو سے مخاطب ہے۔
’’بس ایسا ہی موسم تھا ۔میری بچی جب سولہ سترہ سال پہلے میری گود میں آئی تھی۔‘‘ماں بڑی عزت سے بات کرتی ہے۔ جی تو چاہتا ہے پورا افسانہ جوں کی توں آپ کے سامنے بیان کردوں ۔کیونکہ کوئی جملہ چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ ماں بیٹی سے کہتی ہے ۔
’’دایہ نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا۔ ہائے ۔۔۔۔۔۔ری اس چھوکری کے انگ انگ میں جگنو ٹکے ہیں۔ میں مسکرا کر تمہارے چہرے کی دمک میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو یوں دیکھنے لگی تھی جیسے کوئی خط پڑھتا ہے۔ اگلی رات جب تمہیں تمہارے بابا نے دیکھا تو اداس ہو گیا اور بولا۔
’’خدا اتنی خوبصورت لڑکیاں صرف ایسے بندوں کو دیتا ہے جن سے وہ بہت خفا ہوتا ہے۔ تمہارے بابا نے اپنی عمر کے سولہ سترہ سال تم سے ڈرتے ڈرتے نکال دئیے۔ تم مجھ پر تو نہیں گئی تھی تم اپنے بابا پرگئی تھی ۔وہ بہت خوبصورت تھا۔ مگر اب سولہ سترہ سال سے اُس کی خوبصورتی گرد میں اَٹ گئی۔ تمہاری پیدائش نے اُس کی شکل تو نہیں بدلی بس ذرا سی بجھا دی۔‘‘
رانو پانچ سال کی ہوئی تو ماں نے اُسے بی بی جی کے پاس قرآن شریف پڑھنے کے لئے بٹھا دیا۔ رانو جب قرآن پڑھتی تو گلی میں سے گذرنے والے لوگوں کے قدم رُک جاتے چڑیوں کے غول منڈیروں پر اُتر آتے ایک بار مزار سائیں دولہے شاہ جی کے مجاور حضرت شاہ اِدھر سے گذرے انہوں نے رانو کی تلاوت سنی تو کہنے لگے۔ یہ کون لڑکی ہے جس کی آواز میں ہم فرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سن رہے ہیں۔ جب رانو کو اس بات کا علم ہوا تو وہ خوشی کے مارے رونے لگی۔ رانو اور اس کے ماں بابا بریلوی عقیدے کے مالک تھے۔ مزاروں پر اُن کا اندھ وشواس تھا۔ آگے چل کر قاسمی تحریر کرتے ہیں کہ رانو خدا اور رسولؐ کے بعد سائیں دولہے شاہ کا نام جپتی تھی۔ اسی وجہ سے اُس کے بابا اُسے درگاہ دولہے شاہ پر سلام کروا لائے تھے۔
ایک دن رانو کی چاچی اُس کے لئے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آئی تب ماں بابا جو بیٹی کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے ، کو احساس ہوا کہ رانو جوان ہوگئی ۔ابھی ماں رانو سے اُس کی شادی کے بارے میں بات کرنے ہی والی تھی کہ سائیں حضرت شاہ جی مجاور کا پیغام آگیا۔ سائیں دولہے شاہ جی کا عرس تھا، انہوں نے مجاور کے خواب میں آکر کہا کہ عرس کے تین دن، میری چیلی رانو سے میرے مزار پر تلاوت کروائو ورنہ سب کو بھسم کردوں گا، رانو جانتی تھی کہ دولہے شاہ بڑے جلال والے ہیں۔ اُن کی زندگی میںجس نے اُن کے خلاف بات کی انہوں نے اُسے بھسم کردیا۔ مرنے کے بعد بھی اگر اُن کے مزار کے اردگرد کوئی غلط کام کرتا ہے تو قبر کھلتی ہے اُن کا دستِ مبارک باہر نکلتا ہے اور بری بات کرنے والا جہاں بھی ہو کھنچا چلا آتا ہے اور اپنی گردن سائیں جی کے دسات مبارک میں دے دیتا ہے پھر کس کی مجال تھی کہ دولے شاہ جی کا حکم ٹالتا۔
ماں رانو سے مخاطب ہے۔
’’دوسرے دن ہم تینوں اونٹ کے کجادے میں بیٹھے تھے اور مزار سائیں دولہے شاہ جی کی طرف جارہے تھے۔ راستے میں تم تلاوت کرتے جارہی تھی لوگ دور دور سے کھنیچے چلے آرہے تھے ۔رورہے تھے اور سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہہ رہے تھے ۔کجاوے کے اوپر چڑیوں ابابیلوں اور کبوتروں کے جھنڈ آنے لگے تھے اور کچھ عجیب و غریب نورانی پرندے بھی دکھائی دیتے۔ تیرے بابا کہنے لگے کہ یہ پرندے تو آسمان سے اُترے ہوئے فرشتے معلوم ہوتے ہیں۔ جانے ہم گنہگاروں کی کس نیکی کے بدلے ہمیں تمہارے جیسی بیٹی ملی ہم دولہے شاہ جیکی درگاہ پررُکے تم ہمیں بھول کر مزار کی طرف کھینچی چلی گئی ۔قبر کو بوسہ دے کر تم قرآن پڑھنے لگیں۔ لوگ تمہاری آواز سن کر کھنچے چلے آئے ۔حضرت شاہ جی مجاور نے ہمیں کہا کہ اپنی بیٹی کو سائین جی کے قدموں میں بٹھا کر تم نے اپنے اگلے پچھلے گناہ معاف کروا لئے اور کہا کہ انشاء اﷲ تم جنتّی ہو۔ مارے خوشی کے ہماری سانسیں پھول گئیں۔ پھر ہم تمہیں حضرت شاہ اور اُن کے گھرانے کی بی بیوں کی امانت میں دے کر دونوں واپس اپنے گائوں میں آگئے ۔ تیسرے دن جب ہم مزار شریف پر گئے تو۔ تو تمہاری آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئی تھیں۔ تمہارے ہونٹوں پر جمے خون کی پپڑیاں تھیں۔تمہارے بال الجھ رہے تھے۔ چادر تمہارے سر سے اُتر گئی تھی ۔تمہارا رنگ مٹی ہو رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر تم چلّا اٹھی تھیں مجھ سے دور ہو بابا۔۔۔۔۔۔!میرے پاس نہ آنا اماں ۔ میں اب یہیں رہوں گی، میں اس وقت تک یہیں رہوں گی جب تک سائیں دولھے شاہ جی کا مزار شریف نہیں کھلتا اور اس میں سے دست مبارک نہیں نکلتا۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا میں یہیں رہوں گی۔ جب تک انصاف نہیں ہو جاتا۔ آج نہیں تو کل ۔ایک مہینہ بعد ایکسال بعد دو سال بعد سہی مزار ضرور کھلے گا۔ تب میں خود ہی چلی آئوںگی!۔۔۔۔۔۔‘‘بیسیوں لوگ جو قریب کھڑے تھے رونے لگے کہنے لگے اس پر اثر ہوگیا ۔ بابا کو یقین نہیں آتا کہ رانو پر اثر ہوا ہوگا۔ بابا روتے ہوئے سائیں حضرت کی طرف چل پڑے خادموں نے اُن سے ملنے نہیں دیا۔ کہہ دیا کہ وہ عرس کے بعد وظیفہ کرتے ہیں کسی سے ملتے نہیں۔ ماں بابا نے اندر بی بیوں کے پاس جانا چاہا خادموں نے پھر روکا کہ وہ رانو کی حالت سے پہلے ہی پریشان ہیں اور پریشان کرو گے تو گناہ ہو گا۔ ماں بابا مزار پر لوٹے تو رانو چیک اُٹھی کہ تم چلے کیوں نہیں گئے۔ پھر سائیںشاہ جی نے کہلا بھیجا کہ وہ رانو کا جن بھوت اتارنے کا وظیفہ کر رہے ہیں اسے مزار کے سپرد کرکے تم گھر جائو۔ ماں بابا گھر لوٹ گئے۔ پھر وہ بار بار مزار پر آتے رہے ۔رانو اُن کو پہچانتی نہیں ،مجاور کہتا ہے وہ رانو کے لئے وظیفہ کررہا ہے تم گھر جاکر دعا کرو بی بیوں کی ایک بوڑھی خادمہ ماں بابا کو بتاتی ہے کہ عرس کے تیسرے دن سائیں حضرت شاہ مزار کی طرف آئے تو تمہاری بدنصیب بیٹی نے مزار سے گول گول پتھر اُتھا کر جھولی بھرلی اور چیخ چیخ کر کہا تھا۔
’سائیں۔۔۔۔۔۔!مزار شریف سے دست مبارک جب نکلے گا نکلے گا اگر تم ایک قدم بڑھے تو میں ان پتھروں سے تمہارا ناس کردوں گی خادم تمہاری بیٹی کو مارنے پیٹنے دوڑے تو سائیں نے اُنہیںروک لیا کہ یہ لڑکی نہیں اس کے اندر کا کانرجن بول رہا ہے۔
پھر ایک رات رانو نے ماں بابا کو بلا بھیجا ۔وہ دونوں راتوں رات گرتے پڑتے مزار پر پہونچے تو رانو کی نظر ٹک گئی تھی ۔اُس کے ہونٹ ذرا ذرا سے ہل رہے تھے ماں نے اُس کو گود میں رکھ لیا اور بابا نے اُس کا ہاتھ ہاتھوں میں لے کر رونا شروع کیا رانو کہہ رہی تھی۔
’’کون جانے مزار شریف کیوں نہیں کھلا، انصاف تو نہیں ہوا چلو فیصلہ ہوگیا۔ دولھے شاہ جی نے تو بہت انتظارکروایا۔ اب قیامت کے روز ہم سب خدا کے سامنے پیش ہونگے ۔۔۔۔۔۔پیش ہونگے۔۔۔۔۔۔خدا۔۔۔۔۔۔!‘‘پھر رانو خاموش ہوگئی۔ ماں بابا اُسے گھر اٹھا لا ئے اگلے دن سائیںشاہ مجاور نے رانو کے لئے کفن بھیجا خادم کے سامنے بابا نے غصّہ میں آکر کفن آگ میں جھونک دیا۔اختتام پہ ماں اپنے درد کا اظہار کرتی ہے ۔کہتی ہے۔
’’میرے اندر اتنا درد جمع ہوگیا ہے جیسے تمہیں جنم دیتے وقت ہوا تھا۔‘‘
بنیادی طور پر افسانے کا موضوع اندھ وشواس پر کھڑا ہے۔ رانو اور اُس کے ماں بابا کا عقیدہ بریلوی ہے جیسا کہ قاسمی لکھتے ہیں کہ رانو خدا اور رسول ؐ کے بعد سائیں دولہے شاہ جی کا نام جپتی تھی۔ افسانے کے آغاز میں رانو کی پیدائش سے ہی اُس کی خوبصورتی اور پاکیزگی کی تعریفیں ہیں مثلاًدایہ نے کہا تھا ہائے ری اس چھوکّری کے تو انگ انگ میں جگنو ٹکے ہوئے ہیں۔ رانو جب بڑی ہوتی ہے تو اُس کی آواز میں جادو ہے جب قرآن شریف پڑھتی ہے تو گلی سے گذرنے والے لوگوں کے قدم رُک جاتے ہیں چڑیوں کے غول منڈیروں پر اُتر آتے ہیں۔ وہ فرشتوں کی سی پاکیزہ ہے ماں بابا سوچتے ہیں کہ اُن گنہگاروں سے کون سا ایسا نیک کام ہو گیا جو اُن کو ایسی اولاد نصیب ہوئی۔ ماں بابا کو رانو پر فخر ہے وہ اُس کو دیکھ دیکھ کر جی رہے ہیں۔ ایسی بچی کو وہ مزار والوں کے حوالے کرکے جو اُن کے لئے اجنبی ہی تھے۔۔۔۔۔۔گھر لوٹ آتے ہیں۔ یہ اندھ وشواس کی بات ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ایسی ضعیف الاعتقادی کے بل بوتے کوئی ماں باپ اپنی اکیلی اولاد پھول سی نازک اور خوبصورت ، فرشتوں کی سی پاکیزہ بچی کو، جسے گھر سے باہر صرف ایک بار اُس کا باپ سائیں دولھے شاہ جی کی درگاہ پر سلام کروانے لے کر آتا ہے، کو بے سرو پا مزار کے مجاور جس کے کردار جس کی سیرت کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے رانو کو چھوڑ کر اپنے گائوں چلے جاتے ہیں باپ تو ممکن ہے ضعیف الاعتمادی کے زیر اثر ایسا کر گذرے۔ ماں کی ممتا برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی جوان پھول سی، کنواری، معصوم پاکیزہ اور انتہائی خوبصورت بیٹی کو دیار غیر میں بے سروپا چھوڑا آئے۔ فطری تقاضہ ہے کہ بیٹی کے ساتھ ماں بھی مزار پہ رہ جاتی۔ اُس کو اکیلی نہیں چھوڑتی ۔ لڑکی کی جیسی تصویر افسانہ نگار نے الفاظ سے مرتب کی ہے اُس کی تو ماں عاشق تھی۔ جو بچی کی پیدائش پر فخر محسوس کرتی ہے۔ اُس بیٹی کے لئے وہ اتنی لاپرواہ کیسے ہوسکتی ہے۔ ایک بات اور وہ یہ کہ عرس کے دنوں میں تو درگاہوں پہ دن رات میلے لگا کرتے ہیں۔ سائیں دولہے شاہ جی کے عرس کو چھوڑ کر وہ جو بہت ہی شدّت سے عقیدت مند ہیں، کیسے درگاہ سے جا سکتے ہیں۔ سچویشن کے مطابق ماں اور بابا رانو کے ساتھ ہی درگاہ پر موجود رہتے۔ معصوم اور بھولی بھالی بچی کو محض مزار کے حوالے کرکے ماں اور بابا کا گائوں چلے جانا غیر فطری سا لگتا ہے۔ کتنی ہی صغیف الاعتقادی کیوں نہ ہو، کتنی ہی اندھی عقیدت ہو کم سے کم ماں اکیلی بچی کو نہیں چھوڑ کر آسکتی۔ یہ میرا ماننا ہے ۔ کرنے کو تو اندھ وشواس کے زیر اثر لوگ اولاد کا قتل بھی کردیتے ہیں۔ چلو قاسمی صاحب کی یہ بات مان لیتے ہیں کہ اندھی عقیدت کے تحت مجاور کے جھوٹے جال میں پھنس کر ماں باپ مجاور اوراُس کے خاندان کی بی بیوں کے حوالے کرکے گائوں چلے جاتے ہیں۔ تین دن کے بعد جب وہ مزار پر لوٹتے ہیں تو رانو کی حالت خراب تھی ۔ اُس کے ہونٹوں پر خون کی پیپڑیاں جمی ہوئی دکھا ئی دے رہی تھیں۔ رانو باپ کو کہتی ہے بابا میرے پاس مت آنا۔ وہ چلّا چلّا کر کہہ رہی تھی کہ اُسے انصاف چاہئے۔ سائیں دولہے شاہ کا دست مبارک مزار سے نکلے گا وہ انصاف کرے گا۔ اوّل تو یہ کہ رانو کی حالت دیکھ کر خون دیکھ کر ماں کا کلیجہ پھٹ جانا چاہئے وہ بیٹی سے دریافت کرتی کہ تیری یہ حالت کس نے کی۔۔۔۔۔۔؟ باپ پوچھتا کہ بھائی تیرے ساتھ کیسا ظلم ہوا۔۔۔۔۔۔؟ تو کیسا اور کیوں انصاف چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔؟ رانو کی باتوں اُس کی بیان کی گئی حالت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُس سے کی پاکیزگی چھین لی گئی ہے مَسل دیا گیا ہے اُسے، ماں اور بابا ہی سمجھ نہیں پاتے کہ اُس پر ظلم ہوا ہے۔ جبکہ قاری سمجھ جاتا ہے۔ بابا سائیں اور بی بیوں سے مل کر رانو کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں خادم بہانے سے اُسے ٹال دیتے ہیں۔ سائیں شاہ مجاور کہلا بھیجتا ہے کہ اُس پر کسی کا فرجن کا اثر ہے ۔ ماں بابا اُسے ایسی پریشان حالت میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ کئی بار مزار پر آتے ہیں رانو اُن کو پہچانتی ہی نہیں۔ جس لڑکی کا ریپ ہوا ہو، جو کسی کے ظلم کا شکار ہوئی ہو ۔اُس کی ذہنی حالت کا اندازہ ہم بآسانی لگا سکتے ہیں۔ رانو کو گہرا صدمہ ہوا۔ اُسے شاک لگا۔ بس اُس پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ سائیں کا مزار کھلے گا جس میں سے دست مبارک نکلے گا جو انصاف کرے گا۔ وہ منتظر ہے اُس مجرم کے انجام کی کہ سائین اُسے اپنے دست مبارک سے سزا دین گے۔ ایک بار ماں اور بابا کو مزار کی بی بیوں کی پرانی خادمہ حقیقت سے آگاہ کرتی ہے۔ کہ عرس کے تیسرے دن سائیں شاہ (مجاور ) مزار کی طرف آئے تھے تو تمہاری بدنصیب بیٹی نے مزار شریف پر سے گول گول پتھر اُٹھا کر جھولی بھر لی تھی۔ پھر چیخ کر ّمجاور) سائیں کو للکارا تھا۔
’’سائیں۔۔۔۔۔۔!مزار شریف سے تو دست مبارک جب نکلے گا نکلے گا۔اگر تم ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں ان پتھروں سے تمہارا ناس کردوں گی۔‘‘خادم تمہاری بیٹی کو پکڑ کر مارنے پیٹنے لگے تو اُن کو سائیں جی نے روک دیا کہ یہ لڑکی نہیں اس کے اندر جن بول رہا ہے۔ خادمہ جو چشم دید گواہ تھی اُس کی اطلاع کے مطابق تو ماں باپ کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اُن کے بیٹی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ آخر رانو پتھر اُٹھا کر سائیں شاہ مجاور کو کیوں مارنا چاہتی تھی۔ نہ تو ماں بابا بیٹی سے سوال کرتے ہیں نہ اُس پر ترس کھا کر اُسے گھر لے جاتے ہیں۔ ایک رات خادم اُن کے گھر آتا ہے کہتا ہے تمہیں بیٹی نے بلایا ہے۔ دونوں جب مزار پر پہونچتے ہیں۔ رانو مزار کی پائتیی لیٹی ہوتی تھی۔ اُس کی نظریں ٹک گئی تھیں۔ ہونت ذرا ذرا ہل رہے تھے۔ ماں نے رانو کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔بابا نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھو میں لے لیا۔ تب رانو مایوسی کی حالت میں کہتی ہے۔
’’کون جانے مزار شریف کیوں نہیں کھلا۔ انصاف تو نہیں ہوا۔ چلو فیصلہ تو ہوگیا۔ چلو میں ہی گنہگار سہی۔ سائیں دولھے شاہ جی آپ نے تو بڑا انتظار کروایا ۔اب قیامت کے دن ہم سب خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ خدا کے سامنے ۔۔۔۔۔۔خدا۔۔۔۔۔۔!‘‘
اُس کے بعد رانو خاموش ہو جاتی ہے۔ ہمیشہ کے لئے ، ظاہر ہے آخری مکالمے کے بعد رانو سخت مایوس ہو جاتی ہے۔ اُسے یقین نہیں رہتا کہ مزار سے ہاتھ نکلے گا ۔تعجب تو یہ ہے کہ خادمہ کی بات سن کر بھی ماںبابا خاموش رہتے ہیں۔ اختتام پر اپنی پیاری فرشتہ خصلت بیٹی کی لاش گھر لے جاتے ہیں۔ رانو کو اگر بدنامی کے ڈرسے سائیں شاہ جی مروا دیتا اور کہہ دیتا کہ آخر اس کافر جن نے رانو کی جان لے لی ۔ وہ ٹھیک تھا۔ ایک نیا سوال اور اُبھرتا ہے کہ رانو کی موت کیونکرواقع ہوئی کیا اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔؟ ایسا کوئی اشارہ افسانہ نگار نے ہمیں نہیں دیا ۔ڈرامائی طور پر رانو مر جاتی ہے۔ اگلے دن سائیں شاہ کا خادم رانو کے لئے کفن دے کر کہتا ہے کہ یہ کفن سائیں جی نے بھیجا ہے ۔پھر جیسے رانو سے اترا ہوا جن اُس کے بابا میں آگیا۔ وہ کفن اُٹھا کر اُسے آگ میں جھونک دیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ باپ کو مجاور کی شیطانیت کا علم تھا کہ اُس نے اُس کی بیٹی کے ساتھ کیا کیا۔ افسانے کی زبان بڑی میٹھی اور سہل ہے مثالیں بڑی شاعرانہ اورپیاری ہیں ۔
کل ملا کر افسانہ ’’بین‘‘احمد ندیم قاسمی کا بہت ہی خوبصورت افسانہ ہے جو ضعیف الاعتقادی کی ایک تصویر ہے۔ نپے تلے جملے ہیں بے جا طوالت سے پرہیز کیا گیا ہے۔ افسانے کے اسلوب کی بات کریں تو میں تو یہ کہوں گا کہ یہ قاسمی کاایک نیا تجریہ تھا۔ ماں کی خود کلامی اور مخاطب اپنی مری ہوئی بیٹی سے ہونا،بالکل نیا سٹائیل تھا ،بیانیہ افسانوں میں ایسا اسلوب پہلی بار دیکھنے کو ملا۔ممکن ہے میرا مطالعہ کمزور ہو۔ پورا افسانہ مکالمے کی ہئیت میں ہے ۔موضوع ریپ کا ہے۔ مگر کہیں بھی بداخلاقی یا ننگا پن نظر نہیں آتا۔ میں سمجھتا ہوں یہ افسانہ احمد ندیم قاسمی کا بہترین فن پارہ ہے جو شاید ہمارے نقادوں کی نظروں سے دور ہی رہا ہے جسے بار بار پڑھا جاسکتا ہے۔
٭٭٭