ذیابطیس ٹائپ 1 عام طور پر بچپن میں شروع ہوتی ہے جب لبلبے کےاندر کچھ خلیات جنکو بیٹا خلیات کہاجاتا ہے نامعلوم وجوہات کی بناء پر تباہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ضائع ہونے کے بعد یہ خلیات دوبارا نہیں بنتے اور مریض انسولین بنانے کی صلاحیت محروم ہوجاتا ہے۔ انسولین کے بغیر جسم میں شوگر کی سطح کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ انسولین کو مختلف طریقوں سے جانوروں سے نکالا جاسکتا ہے اور یہ انسولین ذیابیطس کے مریضوں کو عرصہ سے لگائی جاتی رہی ہے۔ لیکن اسکے ساتھ بہت سے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں۔ مریض کو دن بھر میں کئی مرتبہ شوگر لیول چیک کرنا پڑتا ہے اور کھانے اور انسولین کی خوراک کے درمیان ردوبدل کرنا پڑتا ہے جوکہ بہت مشقت طلب عمل ہے خصوصاً لڑکپن کے اندر۔
لیکن اگر روز انسولین لگانےکے بجائے ہم ذیابیطس کے مریض کے اندر بیٹا خلیات لگادیں تو یہ ایک انقلابی قدم ہوگا اور اسطرح سے مختلف سائیڈ ایفیکٹس بھی ختم ہو جائیں گے۔ لیکن اس طرح کا کوئی بھی خلیہ نہیں جو بیٹا خلیات بنا سکے یہ ایپی جینیٹک لینڈ سکیپ کے بالکل نیچے کسی راستے پر موجود ہوتے ہیں۔ لہذاٰ یا تو لبلبہ کا ٹرانسپلانٹ کرنا پڑیگا یا پھر کچھ انسانی ایمبریونک سٹیم سیلز کو بیٹا خلیات میں تبدیل کرنا پڑیگا۔ اس میں بھی دو مسائل ہیں ایک تو یہ کہ ڈونر خلیات بہت کم مقدار میں ہونگے اور تمام شوگر کے مریضوں کیلئے میسر نہیں ہونگے۔ دوسرا اگر تمام مریضوں کیلئے سپلائی میسر بھی ہو تب بھی اس بات کے امکانات موجود ہیں کی مریض کا مدافعاتی نظام ان بیرونی خلیات کی نشاندھی کرکے انکو رد کردیگا۔ ایسی صورت میں مریض کو تمام عمر مدافعاتی نظام کو سلانے والی ادویات استعمال کرنا ہونگی۔ اور ان ادویات کے دیگر نقصانات موجود ہیں۔
مریض کی جلد سے کچھ خلیات لیکر انھیں لیبارٹری میں کلچر کروایا جائیگا۔ جب انکی تعداد بڑھ جائیگی تو ان میں یاماناکا فیکٹرز ڈال کر انکو آئی پی ایس خلیات کے اندر تبدیل کردیا جائیگا۔ اب ان آئی پی ایس خلیات کو لیبارٹری میں بیٹا خلیات کے اندر بدل دیا جائیگا اور انکو واپس اسی مریض کے جسم میں ڈال دیا جائیگا۔ اس عمل کے دوران کوئی ردعمل ہونے کا خطرہ نہیں کیونکہ لگائے گئے خلیات مریض کے اپنے ہونگے۔ ماہرین اس قسم کے تجربات چوہوں کے شوگر ماڈلز پر کر چکے ہیں۔
یہ اتنا آسان نہیں ہوگا اور بہت سی تکنیکی رکاوٹیں ہیں جنکو ختم کرنا ہوگا۔ مثلاً یاماناکا فیکٹرز میں سے ایک c-Myc کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ لیکن ان تحقیقات کے شائع ہونے کے بعد کچھ سالوں میں ہم نے کافی ترقی کی ہے اور اس ٹیکنالوجی کو کلینک تک لانے میں ہم کامیاب ہونے والے ہیں۔ چوہوں کے آئی پی ایس خلیات کی طرح انسانی آئی پی ایس خلیات بنانا بھی ممکن ہے اور ایسا c-Myc جین کے استعمال کے بغیر بھی ممکن ہے۔ اسکے علاوہ خلیات کی تیاری کے کچھ اور طریقے بھی دریافت کئیے گئے ہیں جن سے کافی ساری حفاظتی پریشانیاں بھی کم ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ابتدائی طور پر ان تجربات میں خلیات کے اندر جانوروں کے اجزاء شامل کئیے جاتے تھےجس سے مختلف بیماریاں پھیلنے کا خدشہ تھا۔ اب جانوروں کے اجزاء کے بجائے مصنوعی متبادل استعمال کئیے جارہے ہیں۔
اسکے علاوہ بھی دیگر بیماریاں موجود ہیں جنکے علاج کیلئے یہ ٹیکنالوجی ایک انقلاب سے کم نہیں ہوگی۔ مثلاً خون کے جمنے کی بیماریاں ، ہیموفیلیا، پارکنسن بیماری، اوسٹیو آرتھرائیٹس وغیرہ۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی اور سائنس ترقی کریگی اور ہم اس قابل ہو پائیں گے کہ مصنوعی ساختیں تیار کرپائیں جوکہ جسم کے اندر منتقل کئیے جاسکیں تو آئی پی ایس خلیات کو دل کی بیماری میں متاثرہ خون کی نالیوں سے بدلا جاسکیگا۔ اسی طرح کینسر سےتباہ شدہ ٹشوز دوبارہ بنائے جاسکیں گے۔ روزمرہ زندگی میں خون کی ضرورت پڑتی ہے جو جنگوں میں اور حادثات میں زخمی ہونے والے لوگوں کو لگایا جاسکے۔ خون کے سرخ خلیات باقی خلیات سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان میں نیوکلئس موجود نہیں ہوتا اور یہ تقسیم ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ خاصیت اور مددگار ثابت ہوگی کیونکہ آئی پی ایس خلیات سے بنائے گئے سرخ خلیات زیادہ عرصہ جسم میں موجود نہیں رہیں گے۔
ہمارا جسم باقی خلیات کی طرح خون کے خلیات کے خلاف اسطرح ردعمل نہیں دکھاتا اور بہت سے لوگوں کے خون کے خلیات دوسرے لوگوں میں منتقل کئے جاسکتے ہیں۔ ایسا ABO بلڈ گروپ سسٹم کے باعث ہوتا ہے۔ اس بات کا حساب لگایا گیا ہے کہ اگر ہم چالیس مخصوص خون کے گروپس کے ڈونر لے لیں تو ان سے آئی پی ایس خلیات کے ذخائر تیار کئیے جاسکتے ہیں جو ہماری ساری ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہونگے۔ کیونکہ آئی پی ایس خلیات تقسیم در تقسیم ہوتے رہتے ہیں اگر مخصوص ماحول مہیا کیا جائے لہٰذا ہمارے پاس نا ختم ہونے والا ذخیرہ موجود ہوگا۔
مالیکولر یاداشت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی پی ایس خلیات کی تیاری حیاتیات کی تاریخ میں نایاب واقعات میں سے ایک ہے جنھوں نے پوری فیلڈ کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ جب ایک سپرم اور ایگ ملتے ہیں تو دونوں خلیات کے نیوکلئس کو ایگ کا سائٹوپلازم ریپروگرام کردیتا ہے۔ سپرم کا نیوکلئس بڑی جلدی اپنی تقریباً تمام مالیکولر یاداشت ضائع کردیتا ہے اور ایک خالی کینوس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ یہی ریپروگرامنگ تھی جسکو جان گورڈن، ایان ولمٹ اور کیمبل نے دریافت کیا جب انھوں نے نیوکلئس کو سائٹوپلازم میں منتقل کیا اور نئے کلون تیار کئیے۔ سپرم اور ایگ کی فیوژن کے بعد ریپروگرامنگ کا عمل بہت تیزی سے مکمل ہوتا ہے اور تقریباً چھتیس گھنٹوں میں پورا عمل مکمل ہوچکا ہوتا ہے۔ شنیا یاماناکا کے تجربات میں صرف ایک فیصد خلیات کی ریپروگرام ہوسکے تھے۔ پہلے ریپروگرام خلیے کو بڑھنے میں ہفتہ لگ گیا۔ حال ہی میں فیصد شرح کو بہتر بنانے میں اور بالغ خلیات کو ریپروگرام کرکے آئی پی ایس خلیات میں تبدیل کرنے کی رفتار کو بہتر بنایا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ رفتار اور نفاست جسم کے اندر موجود قدرتی عمل سے بہت پیچھے ہے۔ آخر کیوں؟
اسکا جواب ایپی جینیٹکس ہے۔ مختلف کاموں کیلئے مخصوص خلیات مالیکیولر سطح پر مخصوص طریقے سے ایپی جینیٹک ترامیم سے گزرتے ہیں۔ اسی لئیے عام طور پر جلد کے فائبروبلاسٹ ہمیشہ فائبروبلاسٹ ہی رہینگے کارڈیو مائیو سائٹس میں تبدیل نہیں ہونگے۔ جب بالغ مخصوص خلیات کی ریپروگرامنگ کی جاتی ہے چاہے سومیٹک سیل نیوکلئیر ٹرانسفر کے ذریعے ہو یا چار یاماناکا فیکٹرز کی مدد سے تو خلیے کے اندر موجود ایپی جینیٹک ترامیم کو بھی ختم کرنا پڑتا ہے۔ سائٹو پلازم ہمارے جینز سے مالیکولر یاداشت کو بڑے عمدہ طریقے سے مٹاتا ہے۔ مصنوعی طریقے سے ایسا کرنا ایک چھوٹے بچے کو ہوم ورک کرتے ہوئے دیکھنا ہے۔ جیسے وہ بار بار لکھتے لکھتے اپنی غلطیاں ربر سے مٹاتا ہے اور کئی مرتبہ بہت زور سے صاف کرنے پر صفحات میں سوراخ بھی کردیتا ہے۔ ہم نے اس بارے میں تھوڑی ترقی کی ہے لیکن ہم قدرتی عمل جیسے نتائج حاصل کرنے میں بہت پیچھے ہیں۔
ابھی تک ہم ایپی جینیٹکس کو بطور مظہر دیکھتے آئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس ان مالیکولز کے اندر جھانکیں جنکے اندر وہ سارے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں جنکا ہم نے ذکر کیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...