قدرت کے اس کارخانے میں جسے دنیا کہتے ہیں ،اس میں مختلف النوع کے ہزارہا جان دار بستے ہیں ۔ان جان داروں میں ایک حیوانِ ناطق بھی ہے جو دیگر حیوانات سے افضل و مشرف ہے اس قدر فضلیت کا حامل ہے کہ رب کائنات نے اسے اپنا خلیفہ کہا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر اُتارا ۔اسی حیوان ناطق میں بھانت بھانت کے لوگ پیدا ہوئے ۔بہت عجیب و غریب فطرت ، طبیعت اور مزاج کے آدمی اس زمین پر بستے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو دیکھ کر ، ان کی عادات کا مشاہدہ کر کے یا ان کی حرکات و سکنات کاعملی مظاہرہ دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے، ہنسی بھی آتی ہے اور غصہ بھی آتا ہے ۔
دراصل انسانوں کی طبیعت کی متنوع عادات نے اس زمین میں رنگینی پیدا کی ہے ، جب ہم چند مدت ہی میں یکسانیت سے گھبرا جاتے ہیں تو پھر تصور کیجیے کہ اگر انسان یکساں طبیعت و عادت و افعال کے ہوتے تو یہ زمین اتنے طویل مدت تک رہ سکتی تھی؟
عام حالات میں انسانوں کی طبیعت اور عادات ، فطرت و طینت سے بڑے دل چسپ اور مضحکہ خیز صورت حال دیکھنے میں آتی ہے مگر حال میں آنے والے کرونا نے تو انسانوں کی فطرت و طینت کے ایسے ایسے خفیہ گوشوں کو ظاہر کر دیا ہے کہ دیکھ کر ہنسی بھی بہت آئی اور غصہ بھی جب کہ طبیعت ان کی قربت سے مکدر بھی بہت ہوتی ہے۔
کرونا سے بچنے کے لیے جو چند حفاظتی تدابیر کثرت سے بیان کی جاتی رہی ہیں وہ یہ کہ آپس میں فاصلہ رکھیں، منہ پر ماسک لگائیں ، ہاتھ ملانے سے گریز کریں ، باربار ہاتھوں کو دھوئیں ۔
کرونا سے بچنے کے لیے ان چارحفاظتی تدابیر سے جہاں انسانوں نے اپنی جان بچانے کے لیے بہت تگ ودو کی وہاں زیادہ تر لوگوںنے ان اعمال سے خود کو انتہائی بے وقوف ، ہونق اور مضحکہ خیز بھی ظاہر کیا مگر اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ بہت سے انسان بے زار اور مطلب پرستوں نے ان حفاظتی تدابیر سے اپنے خبث باطن کا بھی بھرپور طریقے سے اظہار کر کے اپنی وقعت دو کوڑی کی کر دی۔میں آج انھی چند افراد کے بارے میں بیان کر رہا ہوں۔
ع…روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیا
عام زندگی میں بہت سے لوگ ملنے ملانے میں حد سے زیادہ احتیاط کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے سنکی ہوتے ہیں۔ کرونا نے ان کی مشکل آسان کر دی اور انھوںنے کرونا کی آڑ میں فاصلے بڑھا دیے حال آں کہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ لوگ خود ان سے ملنے سے کتراتے ہیں اس لیے جہاں ایک طرف وہ اپنے تئیں کرونا کی آڑ میں لوگوں سے دور ہو رہے ہیں ،عام لوگوں کے لیے ان کی دوری کا یہ عمل خوش گوار ہے ۔
کچھ لوگ اپنے منہ کی بدبو ، اپنے ٹوٹے ہوئے دانت اور اپنے چہرے کی ہئیت کذائی سے واقف تو تھے مگر ان کو دور کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، کرونا ان کے لیے رحمت بن کر آیا اور انھوںنے اپنے چہرے پر ماسک لگا کر اپنے چہرے کے سارے ظاہر ی عیوب چھپا لیے ۔ گھر سے نکلتے ہی جو ماسک لگاتے تو گھر جا کر ہی اتارتے ، اگران سے کہا جاتا کہ بھئی ماسک ہمہ وقت نہیں لگایا جاتا تو کرونا کے ایسے خوف ناک فرضی واقعات سناتے کہ سننے والے بہ جائے ڈرنے کے ہنسنے لگتے اور سب کچھ سمجھ جاتے ۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو کرونا کی ہدایت پرکہ ہاتھ ملانے سے گریزکریں۔ اس قدر سختی سے عمل کرنے لگے کہ ہاتھ ملانا تو درکنار وہ دور ہی سے اپنا ہاتھ سینے پر رکھ پر سلام کر لیتے ہیں ۔ اگر خدانخواستہ ان سے ہاتھ ملا لیا تو کرونا کے سارے جراثیم انگلیوں کے پور وں سے سیدھے ان کے قلب پر حملہ کریں گے اور وہ چٹ پٹ گر کر مر جائیں گے ۔
بار بارہاتھ دھونے والا معاملہ تو محفل یا بازار میں ممکن نہیں ہے یہ عمل تو گھر پر ہی کیا جا سکتا ہے اگر کسی قریبی عزیز کے گھر جائیں تو وہاں بھی کسی حد تک ممکن ہے مگر کرونا کے بے جا خوف سے مارے ہوئے لوگ کسی محفل یا مجلس میں جائیں پھر اپنے ہاتھوں کو اپنی بغلوں میں دابے بیٹھے رہتے ہیں ۔ اس عمل سے وہ بالکل خبطی لگتے ہیں۔
کرونا کے علاج کے لیے یہ ہدایت بھی دی جاتی رہی کہ کم سے کم گھر سے نکلیں ۔ کرونا کا یہ وار تو ایسے لوگوں کے لیے رحمت ثابت ہو گیا جو ہر کسی کے ہاں تو بے دھڑک جاتے تھے مگر اپنے ہاں کبھی نہیں بلاتے تھے مبادلہ چائے نہ پلانا پڑے اور چائے وہ خود تو بنائیں گے نہیں اور شوہر کے دوستوں کے لیے بیگم کا چائے بنانے کا نہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ شوہر کے دوست کبھی بیگم کو اچھے نہیں لگے ،وہ تو انھیں اپنی سوکن سمجھتی ہیں۔ ان کا گھر میں آنا سختی سے ممنوع ہوتا ہے۔ عام حالات میں تو دوست احباب مذاق میں کبھی کہ بھی دیتے ہیں کہ چلو کل فلاں کے گھر چلتے ہیں ،چائے پیئں گے اور یہ سن کر فلاں کا خون چائے بن جاتا ہے کہ کہیں یہ کم بخت لوگ گھر آ ہی نہ جائیں اس لیے کبھی کبھی وہ ہمت کر کے اداکاری کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ’’ارے کیا چھوٹی بات کہی ہے میاں آپ کا گھر ہے جم جم آئیں مگر کل میں بیگم کے ساتھ ان کے کسی رشتے دار کے ہاں جا رہا ہوں ،اس لیے کل نہیں پھر کسی دن فون کر کے آیے گا ۔
دراصل یہ لوگ خبیث ٹائپ کے کنجوس ہوتے ہیں، ایک دمڑی تک خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ کرونا کے بھاگوں ان کے چھینکے ٹوٹے اور ان کی مراد بر آئی ، جب کہیں دوستوں کی دعوت ہوئی تو پہنچ گئے ورنہ گھر میں کرونا کے باعث دبک کر بیٹھ گئے ۔
کرونا ہو یا کوئی بھی بیماری دراصل مطلب پرست، خود غرض ، آدم بے زار اور خبیث لوگ ہر چھوٹی اور بڑی بیماری کو اپنے لیے رحمت بنا لیتے ہیں ۔اس کی آڑ میں اپنا دامن بچا لیتے ہیں اور دوسرے کا آنگن چھان لیتے ہیں ۔
جیسا کہ میں پہلے ہی اس محفل میں دو تین مرتبہ کہ چکا ہوں کہ دیگر وبائی امراض کی طرح یہ کرونا کا مرض بھی وبائی ہے مگر اس قدر شتاب نہیں کہ ہاتھ ملانے سے ، بات کرنے سے ، قریب ہونے سے یا بغیر ہاتھ دھونے سے کرونا کے جراثیم فوراً سامنے والے کی ناک میں گھس کراس کا ناطقہ بند کر دیں گے ۔
کرونا کا باقاعدہ وائرس بنایا گیا ہے اور اسے انسانوں میں داخل کر دیا گیا ہے بہت سے قوی انسانوں کے اندر تو یہ وبا ویسے ہی دم توڑ گئی جن کے قویٰ مضمحل ہیں ان کے اندر اس وائرس نے جگہ بنائی اور پھر وائرس کے بڑھنے سے اس کی حالت غیر ہوئی اور جو اس کے قریب ہوا وہ شکار ہوا ۔
کرونا کی وبا پھیلانے کا اصل مقصد چند ملعون اور شیطان صفت لوگوں کی دنیا پر حکمرانی کا خواب ہے ۔ ان کی نیت یہ ہے کہ پہلے کوئی ایسا وائرس ایجاد کیا جائے جو لوگوں کے اندر جا کر ان کی قوت مدافعت کو کم زور کرے اور وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ جائے پھر ڈاکٹر اسے وینٹی لیٹر پر لٹا کرے اس کی جان نکال لیں ،اس انسانیت سوز کام کے لیے ڈاکٹروں کو ڈالر میں بھاری رقم دی گئی مگر چوں کہ ڈاکٹر اپنے اپنے ملک کے جواب دہ ہوتے ہیں اس لیے ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ ملکوں کو بھی خریدا گیا ۔
منصوبہ یہ تھا کہ پہلے کم از کم ایک ارب لوگ دنیا سے کم ہو جائیں اور انھیں کم کرنے کے لیے پہلے کرونا کا وائرس ایجاد کیا اور اس کا خوف پوری دنیا میں پھیلا گیا ۔
یاد رکھیے تشہیر کا عمل اس وقت دنیا کا سب سے خطرناک ترین حربہ ہے ۔ اگر میں کل میڈیا کو منہ مانگے پیسے دے کر آپ کے خلاف کوئی کمپین چلا دوں تو آپ سمجھتے ہیں کہ منٹوں سکینڈوں میں آپ کے خلاف پوری رائے عامہ ہو جائے گی اورجو بُرا کام کرنے کا آپ نے سوچا تک نہیں تھا وہی بُرا کام آپ سے منسوب ہو کر آپ کو خودکشی پر مجبور کر دے گا ۔
کرونا کا خوف سوشل میڈیا سے اس قدر پھیلا یا گیا کہ بالآخر ملکوں کے عوام ہی نہیں حکومتیں بھی اس کے زیر اثر آ گئیں مگر یہ سارا کام زبانی جمع خرچ سے نہیں ہوا انھوں نے اس کام کے لیے حکومتوں کو اور ڈاکٹروں کو حتیٰ کہ اسپتالوں کو بھی ڈالرز دیے جو انسانی قتل میں شریک ہوئے۔
ٹیکہ یا دوا اسی کو دی جاتی ہے جو بیمار ہو، صحت مند کو دوا یا ٹیکہ کب لگایا جاتا ہے؟ کرونا سے بچنے کا یہ ٹیکہ دراصل کرونا سے نجات کا ٹیکہ نہیں ہے ، یہ ٹیکہ صحت مند انسانوں کو اس لیے جبراً لگایا جا رہا ہے کہ یہ وائر س پہلے انسانی نظام کو متاثر کرے گا مگر فوری طور پر نہیں بلکہ یہ سلو پوئزن کی طرح کام کرے گا ۔
اگلا مرحلہ کرونا کو کسی دوسری شکل میں دنیا میں پھیلا یا جائے گا اور یہ بہت زیادہ خوف ناک طریقے سے آئے گا ۔کرونا سے تو پھر کم مرے ہیں اس سے ایک جھٹکے میں کئی ہزار افراد چلے جائیں گے اور یہ ٹیکہ جبری لگایا جائے گا اور اسی ٹیکے کے ذریعے ایک بہت چھوٹی معمولی سی چپ انسان کے جسم کے اندر ہتھیلی ، بازو یا گردن میں ڈال دی جائے گی اور یہ چپ دراصل ان کے لیے رموٹ کنڑول کا کام کرے گی ۔ آپ کیا کرتے ہیں؟ کہاں جاتے ہیں؟ کیا کھاتے ہیں؟غرض یہ ایک طرح سے دنیاوی منکر نکیر ہوں گے جو آپ کے ہر ہر لمحے کی خبر ان ملعونوں کو حساس ترین مواصلاتی ذریعے سے دے گا اور اس احساس ترین مواصلاتی نظام کو5Gکہتے ہیں اور …5Gسے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ اس طرح ہر وہ انسان جس کے چپ لگ جائے گی وہ روبوٹ بن جائے گا ۔
آپ میرے خیالات کو مجذوب کی بڑ بھی کہ سکتے ہیں، ڈراؤنا خواب بھی اور ذہن کی منفی لہربھی کہ میں آپ سب کو خوف زدہ کر رہا ہوں اور آپ یہ سوچنے یا کہنے پر حق بہ جانب ہیں ۔ خاکم بہ دہن ایسا ہو ہی نہ جائے کیوں کہ جب سے کرونا آیا ہے اور اس کے بارے میں لوگوں میں جس شدت سے خوف پھیلا جا رہا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اگر آپ دنیا کے ملکوں کی خبریں پڑھ رہے ہیں ، وہاں کے ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کے بیانات سن رہے ہیں تو آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ کرونا کی جعل سازی سے بھی پردا فاش ہوتا جا رہا ہے ۔رب کائنات کا نظام اگر انسان سمجھنا چاہے تو لاینحل نہیں ہے اس کے لیے عقل کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہے۔ زلزلہ ، سیلاب، تباہ کن بارش ، آگ اور حادثات جس میں کسی انسان کا ہاتھ نہیں ہوتا وہ من جانب رب کائنات ہوتا ہے یہ اس کی مرضی اورمنشا کے مطابق ہوتا ہے اسے جب آبادی کم کرنی ہوتی ہے، زمین سے فساد ، بے حیائی اور خود غرضی کو کم کرنا چاہتا ہے تو آفات بھیجتا ہے ۔اس سلسلے میں ہم سب مجبور و بے بس ہی نہیں ہیں بلکہ راضی بہ رضا بھی ہیںمگر جب انسانوں پر کوئی انسان آفت ڈھانے لگے تو پھر اس کا انجام عبرت ناک ہی ہو تا ہے ۔ یہ جو چند ملعون لوگوں نے دنیا پر حکم رانی کا خواب دیکھا ہے کیا یہ پورا ہو سکتا ہے؟
ذرا دیکھیے دنیا میں فرعون ، شداد اور نمرود جیسے ظالم و جابر اور شیطان صفت لوگ بھی تو گزرے ہیں، ان تینوں کے خواب بھی تو یہی تھے نا کہ پوری دنیا پر حکم رانی کریں ، ہر انسان ان کا تابع ہو ، ہر چیز ان کے حکم کے بغیر ہلے تک نہیں ، ہر انسان ان کے آگے سر بہ سجد ہ رہے مگر ہوا کیا ، قہر خداوندی کا شکار ہوئے ، رائندہ درگار ہوئے، سب نے خاک چاٹی اور رہتی دنیا تک کے لیے ملعون و معتوب ٹھہرے ۔آج کے یہ شیطان خدا کے کام میں براہ راست مداخلت کر رہے ہیں ، فی الحال تو ان کی رسی تھوڑی سی دراز ہے مگر ان کے عزائم تو کبھی پورے نہیں ہوں گے ، اگر ان کے اس گھناؤنے عمل سے انسانوں کی جان جا رہی ہے تو اس عمل میں بھی اللہ کی رضا شامل ہے ۔ بہرحال ! میں بات کرونا کی کر رہا تھا اور پتا نہیں کتنے دور چلا گیا ۔ دراصل میرے لیے قلم روکنا محال ہو جاتا ہے خیالات کا ایک تسلسل موجوں کی طرح بہتا چلا آ تا ہے مگر پھر ہوش آجاتا ہے کہ اپنی بات کو مکمل کرنا چاہیے ۔مجھے نہیں معلوم کہ میرے ان خیالات سے کتنے لوگ متفق ہوں گے اگر ہوئے تو اپنا بھلا کر لیں گے اگر نہ ہوئے تو میرا بھی بُرا نہیں ہوگا۔ بس یہ کروں گا کہ کل سے میں بھی ماسک لگا کر سینے پر ہاتھ رکھ کر سب سے ملا کروں گا بلکہ کوشش کروں گا گھر آنے والے دوستوں کو بچوں سے کہلا دوں کہ کرونا سے بچنے کے لیے ڈاکٹروں نے ملنے سے شدید منع کیا ہے ہاں کوئی دعوت دے تو ماسک پہنچ کر شرکت کرنے ضرور پہنچ جائوں ۔ آخر مجھے بھی تو زندہ رہنا ہے ۔
غالب ؔکا شعر ہے کہ :
؎ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
میں اس شعر میں تصرف کرتے ہوئے التجا کرتا ہوں کہ :
؎ بک رہا ہوں جنوں میں جو جو کچھ
کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی
(بزم سائنسی ادب، ڈاکٹر سلیم الزماں سینٹرکراچی میں بہ تاریخ۲۷، نومبر ۲۰۲۱ء کوپڑھا گیا ۔)
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...