اس نے کال ملائی تھی اور کسی کو آنے کا کہا تھا اور وہ آگیا تھا ہاں ایک محد ہی تو تھا اسکا واحد دوست…
وہ اسکی گاڑی میں موجود بھی اس نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا وہ اسکی آنکھوں سے جان چکا تھا کہ وہ بہت روئی ہے۔۔ وہ جان چکا تھا کہ بات بہت بڑی ہے وہ اسے ہاسٹل چھوڑنے کا کہہ رہی تھی مگر اس حالت میں وہ اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا اس لئے اسے اپنے گھر لے آیا تھا وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل رہی تھی اس نے اسے لاونچ میں بٹھایا تھا اور خود اس کے لئے کھانے کو کچھ لینے کچن میں جاچکا تھا وہ اب بھی خاموش بیٹھی تھی بس آنسو تھے جو کہ رک نہیں رہے تھے ۔۔بے آواز ،، نا محسوس انداز میں بہہ رہے تھے
محد نے چائے اور اس کے ساتھ کھانے کے لئے سینڈوچز اس کے سامنے لاکر رکھے تھے
’’ اسکی کوئی نیڈ نہیں تھی محد ، مجھے بھوک نہیں ہے ’’ ان حالات میں کھانا کھانے کا دل کس کا چاہ سکتا ہے
’’ تمہیں نہیں ہے پر مجھے تو ہے نا ؟ صبح سے کچھ نہیں کھایا میں نے ۔۔اکیلے کھانا کھانے کی عادت نہیں ہے نہ اب تم میرے ساتھ کھاوگی ’’ وہ بھی جانتا تھا کہ اسے کیسے کھلا نا ہے
’’ مگر میرا بلکل دل نہیں چاہ رہا ’’ اس نے انکار کیا تھا
’’ تو تم چاہتی ہو کہ میں بھی بھوکا ہی رہوں ؟ ’’ اس نے مظلوم سی صورت بنا کر کیا تھا
’’ اچھا میں کھا رہی ہوں تم بھی لو ’’ اب وہ اپنی وجہ سے اسے تو بھوکا رکھ نہیں سکتی تھی
اس نے زبردستی سینڈوچ اور چائے پی تھی محد نے اس دوران اس سے کوئی بات نہیں کی تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ پہلے کچھ کھا لے
’’ اب بتاو کیا ہوا ہے ؟ ’’ چائے سے فارخ ہوکر اسنے پوچھا تھا
’’ بھائی اور پاپا نے گھر سے نکال دیا مجھے ’’ اس نے سر جھکا کر کہا تھا ’’ کیا محد میرا یقین کرے گا ؟ ’’ بس ایک یہی ڈر تھا
’’ واٹ ! کیوں ’’ اسے شدید جھٹکا لگا تھا ایسا کیسے ہوسکتا تھا ؟ کل تک تو سب ٹھیک تھا
ارسا نے بھابھی اور گھر میں ہونے والی ساری بات اسے بتائی تھی اور اس کے چہرے کے تعصورات بدلے تھے دل کو چھوٹ سی لگی تھی۔۔ وہ کتنی دیر کچھ نہ کہہ سکا تھا ۔۔ارسا کو لگا جیسے وہ اپنا آخری رشتہ بھی کھو دے گی ۔۔
’’ تم ۔؟ ’’ محد نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔ آنکھیں ضبط سے لال ہورہی تھی
’’ تم نے نکاح کر لیا ارسا ْ؟ اس لئے انکار کیا تھا منگنی سے ؟ ’’ وہ بے یقین تھا ارسا نے تو کہا تھا کہ وہ کسی کو پسند نہیں کرتی پھر یہ نکاح ؟
’’ مجھ سے نکاح کروایا گیا تھا محد پلیز میرا اعتبار کرو میں نے کچھ غلط نہیں کیا مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کے میرے ساتھ ہوا کیا ہے ؟ ’’ اس نے اب رونا شروع کر دیا تھا اور محد اس کے رونے سے ڈسٹرب ہورہا تھا وہ فوراً اٹھ کر اس کے پاس آکر بیٹھا تھا
’’ ارسا پلیز رؤ مت ، مجھے تم پر خود سے زیادہ اعتبار ہے میں تمہیں غلط نہیں سمجھ سکتا کبھی ’’ اس نے اسے یقین دلایا تھا اس نے اپنے آنسو صاف کیے تھے
’’ تھینک یو محد مجھے لگا میں اپنا دوست بھی کھو دونگی ’’ اس کی بات پر وہ مسکرایا تھا ’ وہ اسے کھونا نہیں چاہتئ تھی
’’ میں تمہیں خود کو کھونے نہیں دونگا ، میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہونگا ارسا’’ اس نے دل سے کہا تھا
’’ تم مجھ سے کوئی سوال نہیں کروگے ؟ ’’ اس نے اسے دیکھ کر کہا تھا
’’ میں جانتا ہوں تم بنا پوچھے سب بتا دوگی ’’ وہ پر یقین تھا
پھر ارسا نے اسے اس سارے واقعے کے بارے میں بتایا تھا وہ پارلر کے لئے نکلی تھی اور پھر ایک گاڑی نے اسکا راستہ روکا تھا اس میں سے کچھ لوگ باہر آئے تھے اور اسے زبردستی باہر نکال کر ایک کپڑا اسکے منہ پر رکھا تھا اور اس کے بعد اس نے خود کا ایک بند کمرے میں پایا تھا
وہ اسے سب کچھ بتا چکی تھی اور محد الجھ گیا تھا
’’ تمہیں شک ہے کسی پر ؟ ایسا کون کرسکتا ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا
’’ میں یہی سوچ کر پاگل ہورہی ہوں کہ وہ کون ہوسکتا ہے میری تو تمہارے علادہ کسی لڑکے سے کبھی بات بھی نہیں ہوئی ’’ وہ اسکی بات پر مسکرایا تھا
’’ تم پریشان مت ہوں یہ بتاو کہ کسی نے کبھی تنگ کیا ؟ کوئی نمبر ؟ یا کسی نے کبھی تمہارا پیچھا کیا ہو ؟ ’’ اس کی بات پر تھوڑی دیر تک وہ سوچتی رہی پھر کافی دیر بعد نفی میں سر ہلا کر کہا تھا
’’ نہیں محد ایسا کبھی کچھ بھی نہیں ہوا ’’
’’ اسکا نام کیا ہے ؟ ’’ محد نے ایک اور سوال کیا تھا
’’ مجھے نہیں یاد ۔۔ میں اتنی پریشان تھی کہ کچھ ٹھیک سے سنائی ہی نہیں دے رہا تھا اس وقت’’ اس نے مایوسی سے کہا تھا ۔۔
’’ اچھا ہم اس بارے میں بعد میں سوچینگے تم پریشان مت ہو ’’
’’ مجھے ہاسٹل چھوڑ آؤ محد میرا یہاں رکنا مناسب نہیں ہے ’’ ارسا نے کہا تھا اور وہ اسکی بات سمجھ گیا تھا
’’ میں تمہیں ان حالات میں اکیلا رہنے نہیں دے سکتا اور نا ہی یہاں رک سکتی ہو تم۔۔ کوئی بیچ کا راستہ نکالنا ہوگا ’’ وہ اس کے لئے فکر مند تھا
’’ میں ہاسٹل میں آرام سے رہ سکتی ہوں محد مجھے وہاں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ’’ اس نے کہا تھا
’’ میں جانتا ہوں مگر تم سمجھ نہیں رہی ہو اب حالات الگ ہیں تمہارہ ہاسٹل میں رہنا بلکل ٹھیک نہیں ہے وہ وہاں بھی آسکتا ہے اور میرا گھر ہاسٹل سے دور ہے ’’ وہ اسکی بات سمجھ گئ تھی
’’ خیر تم آج کی رات وہاں گزار لو میں کل تک تمہارے رہنے کا بندوبست کرتا ہوں ’’
وہ اب اسے ہاسٹل چھوڑنے آیا تھا گاڑی سے نکلنے سے پہلے ارسا نے اس سے کہا تھا
’’ مجھے پاپا کی خیریت پتہ کر کے بتا دو محد اور پلیز میرے بارے میں ان سے کوئی بات نہ کرنا ’’
’’ اوک تم پریشان نہ ہو ’’ وہ گاڑی سے اتر کر ہاسٹل کی طرف گئ تھی اور محد اسے تب تک دیکھتا رہا جب تک کہ وہ ہاسٹل کے اندر نہ چلی گئ ہو ۔ اس کے جانے کے بعد اس نے گاڑی آگے بڑھا دی تھی
u
وہ ابھی ہسپتال سے گھر آئے تھے ساحل انہیں ان روم میں لِٹا رہا تھا جب ماما نے اس سے پوچھا تھا
’’ ارسا کہاں ہے ؟ ’’ ماما کی بات پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا اور پاپا کو لٹا کر اب انکی میڈیسنز سائیڈ ٹیبل پر رکھ رہا تھا
’’ ارسا کہاں ہے ساحل ؟’’ اب کی بار پاپا نے پوچھا تھا
’’ چلی گئ ہے ’’ انہوں نے پرسکون انداز میں جواب دیا تھا
’’ کہا چلی گئ وہ ؟ ’’ ماما حیرانگی سے پوچھ رہی تھیں
’’ ہاسٹل ہی گئ ہوگی ’’
’’ گئ ہوگی کا کیا مطلب ہے ؟ اور وہ ایسے کیسے جاسکتی ہے بنا بتائے ؟’’ پاپا کو اب غصہ آیا تھا انکی بیٹی انہیں اس حال میں چھوڑ کر کیسے جاسکتی تھی انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔۔
’’ مطلب یہ کہ میں نے اسے گھر سے نکال دیا ہے اور اب اس گھر کے علاوہ یا تو ہاسٹل یا پھر وہ شخص۔۔ دو ایسی جگہ ہیں جہاں وہ جاسکتی ہے ’’ انداز نارمل تھا جبکہ ان دونوں کے چہروں پر حیرانگی تھی
’’ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ کس سے پوچھ کر تم نےاسے اس گھر سے نکالا ہے ؟ ’’ پاپا کی غصے کی وجہ سے حالت خراب ہونے لگی تھی
’’ پاپا آپ پریشان مت ہوں میں نے یہ سب اسکی بھلائی کے لئے کیا ہے ’’ اس نے آگے بڑھ کر پاپا کو سنبھالا تھا
’’ یہ کونسی بھلائی ہے ساحل کہ تم نے میری بیٹی کو بے گھر کر دیا ’’ ماما اب رونے لگی تھی
’’ اگر میں ایسا نہ کرتا تو وہ ہمیں کبھی بھی سچ نہیں بتائے گی ’’ ساحل کی بات پر پاپا چونکے تھے
’’ کیا مطلب ہے تمہارا ’’
’’ مطلب یہ کہ وہ اس شخص کے بارے میں کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں تھی پاپا میں کیسے برداشت کرتا یہ؟ اب جب میں نے اسے اس گھر سے نکالا ہے وہ یقیناً مجبوراً یہاں واپس آئے گی میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ صرف اس صورت میں یہاں واپس آسکتی ہے جب وہ اس شخص کی معلومات ہمیں دے گی ’’ اس نے اپنے فیصلے کی وضاحت دی تھی
’’ یہ سب ہم خود اس سے پوچھ سکتے تھے وہ کب تک چھپاتی ہم سے ؟ ’’ پاپا اب بھی غصہ تھے
’’ اس نے جو ہمارے ساتھ کیا ہے نہ پاپا اس کے بعد میں اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرونگا یہ ہماری عزت کا سوال ہے وہ چھپ کر نکاح کر آئی اور یہ بھی بتانے کو تیار نہیں کہ کس سے کر کے آئی ہے ؟ میں جانتا ہوں وہ ہم سب سے محبت کرتی ہے ہمارے بنا زیادہ دن نہیں رہ سکے گی اس لئے وہ واپس آئے گی اور اس شخص کی بارے میں بھی سب بتائے گی اور اگر اس نے کچھ نہیں بتایا تو میں اسے اس گھر میں واپس نہیں آنے دونگا اور آپ دونوں بھی کچھ نہیں کہیں گے مجھے ’’ وہ اپنا فیصلہ سناتے ہوئے وہاں سے جاچکا تھا اور وہ دونوں بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے
’’ صائمہ ! ’’ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد انہوں نے کہا تھا
’’ جی ’’ وہ اپنے آنسو دوپٹے کے پلو سے صاف کرتے ہوئے بولی تھی
’’ میری بیٹی کو کال کرو اس سے پوچھو وہ ٹھیک تو ہے نا ؟ ’’ انہوں نے کہا تھا اور وہ فوراً موبائیل کی طرف بڑھی تھی
ایک بار
دو بار
تین بار
وہ بار بار کال ملا رہی تھیں مگر آگے سے کوئی کال نہیں ریسیو کر رہا تھا وہ دونوں بے حد پریشان ہوگئے تھے
اس دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا سجاد صاحب نے آنکھیں بند کر دیں تھی جانے کہا ہوگی ارسا ؟
صائمہ اب انکے ساتھ بیٹھی رو رہی تھی اور انکا ایک ایک آنسو بیٹی کی سلامتی کی دعا مانگ رہا تھا ۔
رات کا کھانا اس گھر میں کسی نے بھی نہیں کھایا تھا پورے گھر میں جیسے ایک سوگ کا سماں تھا
ہر کوئی اپنے اپنے کمرے میں بند تھا تقریباً دس کا ٹائم تھا جب ساجد صاحب کا موبائیل بجا تھا انہوں نے دیکھا محد کی کال تھی ’’ یا اللہ میں اسے کیا جواب دونگا ؟ ارسا یہ کس مشکل میں ڈال دیا تم نے مجھے ’’
انہوں نے کال ریسیو کی تھی
’’ اسلام و علیکم انکل کیسے ہیں آپ ؟ ’’ محد نے کہا تھا
’’ ٹھیک ہوں بیٹا تم کیسے ہو ؟ ’’ صائمہ انہیں بات کرتا دیکھ رہی تھیں
’’ میں بھی بلکل ٹھیک ہوں آپکی آواز کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ’’ اسے تشویش ہوئی تھی
’’ ٹھیک ہوں بیٹا اب میں صبح تھوڑی خراب ہوگئ تھی طبیعت ’’ انہوں نے اسے ساری بات تو بتانی نہیں تھی
’’ اپنا خیال رکھا کرے انکل ایک ہی ایک تو انکل ہیں آپ میرے ’’ وہ چہک کر بولا تھا
’’ تم بھی تو خیال نہیں رکھتے میرا آئے بھی نہیں ملنے ’’ انہوں نے اب شکوہ کیا تھا
’’ سوری انکل ایکچولی میری کلاسس شروع ہوگئ اور آپ جانتے ہیں ایک بھی مس کرلو تو بہت نقصان ہوتا ہے ’’ اس نے معذرت کی تھی
’’ کوئی بات نہیں بیٹا اللہ تمہیں بہت ساری کامیابیاں دے ’’ انہوں نے اسے دعا دی تھی
’’ آمین اور آپکو بھی صحت دے ’’
’’ آمیں ’’ انہوں نے کہا تھا
’’ چلیں پھر آپ سے بعد میں بات ہوتی ہے میں ذرا تھوڑا کام کرلوں ’’
’’ اوک اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ ’’ انہوں کال کٹ کی تھی اور اللہ کا شکر کیا تھا کہ اس نے ارسا کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا
وہ انکل سے بات کر چکا تھا اب اسے ارسا کے رہنے کا انتظام کرنا تھا وہ کوئی بھی رزق لینے کو تیار نہیں تھا
u
اس نے ساری رات جاگ کر گزاری تھی وہ پوری رات سوچتی رہی تھی مگر اسے کوئی سوراخ نہ ملا تھا ایسا کوئی بھی نہیں تھا جس پر وہ شک بھی کرسکے اسکی تو کوئی دوست بھی نہیں تھی پھر وہ کون تھا ؟ یہ سوچ اسے پاگل کر رہی تھی ۔ اسے ابھی پتہ لگا تھا کہ کوئی اس سے ملنے آیا ہے وہ ڈر گئ تھی کہیں پھر کچھ ایسا نہ ہوجائے ؟ وہ ابھی گیسٹ روم میں آئی تھی جب سامنے محد کو دیکھ کر اسنے لمبی سانس لی تھی ۔ شکر ہے
’’ کیسی ہو؟ ’’ وہ اس کے سامنے آکر بولا تھا
’’ ٹھیک ہوں’’ اس نے جواب دیا تھا
’’ ہاں وہ تو تمہاری آنکھیں بتا رہی ہیں ’’ اس نے اسکی آنکھیں دیکھی تھیں جو کہ رات پھر جاگنے کی وجہ سے لال تھیں
’’ میری نیندیں اڑ چکی ہیں ساری رات سوچ کر بھی کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا ’’ وہ بہت پریشان تھی
’’ تم ابھی ان باتوں کو چھوڑو اور اپنا سامان لے کر آو’’ اس نے کہا تھا
’’ سامان کیوں ’’ وہ سمجھی نہیں تھی
’’ تمہارے رہنے کا انتظام ہوگیا ہے جاؤ اب سامان لاو’’ اس نے اسے جانے کا کہا تھا
’’ اوک ’’ وہ کہہ کر پلٹی تھی اور تھوڑی دیر بعد ایک بیگ ہاتھ میں لئے واپس آئی تھی اس نے اسکے ہاتھ سے بیگ لیا تھا اور گاڑی میں جاکر رکھا تھا تھوڑی دیر بعد اس نے ایک فلیٹ کے آگے گاڑی روکی تھی اور اسے ایک اپارٹمنٹ میں لے آیا تھا جس میں ضرورت کی ساری چیزیں موجود تھیں
’’ یہ اپارٹمنٹ تم نے خریدا ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا
’’ نہیں میرے ایک دوست کا ہے وہ ملک سے باہر ہوتا ہے تو چابیاں میرے پاس ہوتی ہیں’’ اس نے اسے سچ نہیں بتایا تھا وہ جانتا تھا کہ اگر اسے پتہ لگا کے اس نے اسکے لئے یہ خریدا ہے تو وہ کبھی بھی یہاں نہیں رہے گی
’’ اچھا ۔۔بہت خوبصورت ہے ’’ اس نے تعریفی نگاہوں سے پورے اپارٹمنٹ کو دیکھا تھا
’’ مجھ سے کم ’’ اس نے اترا کر کہا تھا
’’خوش فہمی ہے ’’ وہ بھی جواب دینے کو تیار تھی
’’ آپکی ’’
’’ آپکی ’’ اس نے بھی رکنا کہا تھا
’’ اچھا ٹھیک ہے تم اب اپنا سامان سیٹ کرو میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں ’’ وہ کہہ کر پلٹا تھا اور ارسا اپنا بیگ لے کر کمرے میں گئ تھی
تھوڑی دیر بعد وہ کھانا لے کر آچکا تھا محد نے زبرستی اسے کھانا کھلایا تھا کھانے کے بعد اس نے چائے بنائی تھی وہ اس وقت چائے پر رہے تھے جب اس نے پوچھا تھا
’’ محد ’’
’’ ہاں کہوں ’’ وہ چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے بولا تھا
’’ تمہاری پاپا سے بات ہوئی ؟ ’’
’’ ہاں کل رات ہوئی تھی’’ اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا تھا
’’ کیسے ہیں وہ ؟ ٹھیک تو ہیں نا؟ ’’ وہ پریشان ہوگئ تھی
’’ ہاں بلکل ٹھیک ہیں اب گھر میں ہی تھے تم پریشان مت ہو ’’
’’ وہ مجھ سے ناراض ہیں محد وہ مجھ سے بات بھی نہیں کرینگے’’ وہ اب پھر سے رونے لگی تھی
’’ ایک تو تم یہ آنسوؤں کا سیلاب کہا سے لاتی ہو؟ ’’ وہ اسکی آنسوؤ سے چڑ گیا تھا
’’ چپ ہوجاؤ اب ورنہ میں بھی ناراض ہوجاؤنگا ’’ اس کے کہنے پر اس نے فوراً سے اپنے آنسو صاف کئے تھے وہ اسکی حرکت پر مسکرایا تھا
’’ گڈ اب تم گھر والوں کی طرف سے بلکل پریشان نہیں ہوگی وہ تمہارے اپنے ہیں جب حقیقت پتہ لگے گی تو مان جائیں گے ہمیں بس اب اس شخص کا پتہ لگانا ہے ’’ وہ اب اسکی سوچ کا رخ بدل رہا تھا
’’ تم ٹھیک کہتے ہو مگر ہم کیسے معلوم کریں گے؟ ’’
’’ یہ تو سوچنا ہوگا ارسا اتنا آسان کام نہیں ہے یہ ’’ اس نے کہا تھا
’’ محد میرا موبائیل کھو گیا ہے ۔۔ تمہیں کال کرنے کے بعد جانے کہا گر کیا ؟ ’’ اسے اب اپنے فون کا خیال آیا تھا
’’ میرے پاس ایک ایکسٹرا رکھا ہے تم لے لینا اور سم بھی آج لے لینگے ہم ’’ اس نے یہ مسئلہ بھی حل کیا تھا
’’ تھینک یو محد’’ اس نے کہا تھا
’’ کس لئے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا
’’ میرا ساتھ دینے کے لئے ’’
’’ ساتھ دینے والوں کا شکریہ ادا نہیں کیا جاتا ’’ اس نے اسکی طرف دیکھ کر کہا تھا وہ مسکرائی تھی
’’ کل سے یونیورسٹی جانا شروع کرو اب تمہارے امتحان قریب ہیں ’’ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا
وہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی
’’ میں صبح تمہیں لینے آؤنگا تیار رہنا ’’ اس نے سر ہلایا تھا وہ اب یہاں سے چلا گیا تھا اس نے دروازہ لاک کیا تھا
وہ اب اس اپارٹمنٹ میں اکیلی تھی۔۔ اس نے اپنا سامان کمرے میں رکھا تھا ۔۔ وہ یہاں اکیلی تھی۔۔۔ اسے لگا کہ وہ اس دنیا میں اکیلی رہ گئ ہوتی اگر محد جیسا دوست اسکے ساتھ نہ ہوتا ۔۔ کل اسے یونیورسٹی جانا تھا ۔۔ جانے اب وہ کیسے پڑھ پائے گی؟ اسے بس ایک ہی پریشانی تھی وہ اس مسئلے کا حل چاہتی تھی ۔۔ اسے ڈر بھی لگ رہا تھا کہیں وہ شخص اسکے آس پاس ہی نہ ہو؟ اچانک اسکی نظر اپنے ہاتھ پر پڑی تھی ۔۔ وہ انگوٹھی اب بھی اسکے ہاتھ میں تھی ۔۔ مگر وہ سائز میں بہت چھوٹی تھی ۔ وہ اسے نکا نہیں سکتی تھی مگر وہ اسے برداشت بھی نہیں کر سکتی تھی اس نے اپنا بیگ اٹھایا تھا اور باہر نکلی تھی۔محد اپنی گاڑی اسکے لئے چھوڑ گیا تھا ۔ وہ اسی گاڑی بھی بیٹھ کر آگے بڑھی تھی ۔۔
تھوڑی دیر بعد اس نے گاڑی ایک جیورلر کی شاپ کے آگے روکی تھی اور گاڑی سے نکل کر اندر آئی تھی
سامنے ہی اسے ایک لڑکا نظر آیا تھا جو کسی کسٹمر کو سیٹ دکھا رہا تھا
’’ ایکسکیوزمی ’’ اس نے اس لڑکے کو مخاطب کیا تھا
’’ جی میم کہیں ؟ ’’ وہ اسکی طرف متوجہ ہوا تھا
’’ مجھے یہ رِنگ نکلوانی ہے ۔۔ ہاتھ میں پھنس گئ ہے ’’ اس نے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا تھا
’’ اوو مجھے افسوس ہے کہ آپکی اپنی ایکسپینسو رِنگ خراب ہوجائے گی مگر ہم اسے ریپئیر کر لیں کے ’’ اسے اسکی رَنگ خراب ہونے کا بہت افسوس ہورہا تھا اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ اسکی رِنگ کو کٹ کر کے اسکی انگلی سے نکال چکا تھا ۔۔
’’ یہ رہی آپکی رِنگ ۔۔ آپ کہیں تو میں اسے ٹھیک کر کے کل تک دے سکتا ہوں ’’ اس نے پروفیشنل انداز میں کہا تھا ۔۔ ارسا کے ایک نظر اس رِنگ پر ڈالی تھی جس پر ایک موتی چمک رہا تھا
’’ نہیں مجھے یہ نہیں چاہیئے آپ رکھ لیں اسے ’’ وہ کہہ کر پلٹنے ہی والی تھی جب شاپ کیپر نے اسے کہا تھا
’’ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ میم ۔۔ یہ ڈائمنڈ ہے اور اسے مجھے دے رہی ہیں ؟ ’’ وہ اسکی بات پر چونکی تھی
’’ کیا کہا آپ نے ؟ ’’ اس نے حیرانی سے پوچھا تھا
’’ یعنی آپ نہیں جانتی ؟ یہ جو چیز چمک رہی ہے میم اسے ڈائمنڈ کہتے ہیں ’’ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا اور ارسا حیران تھی ۔۔ ’’ڈائمنڈ ؟ ’’ وہ اسے ڈائمنڈ دے کر گیاب تھا ؟ اتنی ایکسپینسو انگھوٹھی ۔۔؟ اسکا مطلب یہ تھا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں تھا ۔۔ یقیناً وہ ایک امیر آدمی تھا ۔۔ !!
اسےڈائمنڈ کی پہچان نہیں تھی یہ تو وہ جانتی تھی کہ یہ رِنگ قیمتی ہے مگر یہ ڈائمنڈ ہوسکتا ہے؟ ایسا اس نے نہیں سوچا تھا۔ وہ رِنگ اسی حالت میں لے کر باہر آئی تھی ۔۔ دماغ اب یہ سوچنے پر لگا تھا کہ آخر وہ کون ہو سکتا ہے ؟ محد کے علاوہ تو کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جسے وہ جانتی ہو یا جو اسکا دوست ہو ۔۔ لڑکوں سے دوستی تو وہ ویسے بھی نہیں رکھتی تھی ۔۔ ابھی وہ اپنی کار کے پاس پہنچی ہی تھی کہ اسے ایک بار پھر چونکنا پڑا تھا ۔۔ گاڑی کے اندر ونڈسکرین وائپر پر ایک پیپر لگا تھا ۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے اٹھا کر پڑھا ۔۔ اور وہ حیران رہ گئ تھی ۔۔خوف کی ایک لہر اسکے پورے جسم پر پھیل رہی تھی اس نے آس پاس نگاہیں دوڑائیں تھی مگر وہاں کوئی ایسا نہیں تھا جو اسکی طرف متوجہ ہو ۔۔ پھر بھی اسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے سب اسے ہی دیکھ رہے ہیں ۔۔ اس نےایک بار پھر اس کاغذ پر لکھی تحریر پڑھی تھی
’’ انگوٹھی نکال دینے سے نکاح نہیں ختم ہوتا ۔۔ ڈئیر وائف ’’
وہ فوراً سے گاڑی میں بیٹھی اور تیزی سے وہاں سےنکل گئ تھی ۔۔