بیدل ہندوستان کے اہم ترین فارسی شاعر ہوئے ہیں اور سبک ہندی کے امام، پٹنہ عظیم آباد میں پیدا ہوئے تھے انکے آباء و اجداد کاتعلق ترکوں کے ارلاس قبیلہ سے تھا انکےوالد سپہ گری سے وابستہ تھے۔غالب کی طرح بیدل نے بھی بچپن میں یتیمی کا رنج اٹھایا اور سگےچچا نے انکی کفالت کی اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی سنبھالی،ابتدائی دور میں بیدل ، سبک خسروانہ و ایراقی کی طرف متوجہ ہوئے۔ بیدل سعدی سے متاثر تھے اورانکے معتقد بھی سعدی کے اس مصرع “بیدل از بی نشان چہ گوید باز” سے “بیدل ” اپنا تخلص رکھ لیا۔ نوجوانی میں بادشاہ شاہ جہان کا آخری دورپایا ۔ بیدل نے تصوف اور فلسفہ وغیرہ کے مبادیات مرزا ظریف سے سیکھے۔ بیدل انکی معیت میں اڑیسہ بھی گئے جہاں ان کی ملاقات شاہ قاسم ہوللہی اور کامل مرد عارف شاہ کابلی سے ہوئی اور چند اور بزرگوں سے بھی مراسم رہے۔ بیدل کچھ عرصہ فوج میں بھی رہے۔ مشہور ہے کہ اورنگ زیب کے بیٹے شہزادہ محمد اعظم شاہ نے جب اپنی مدح سرائی لکھنے کو کہا تو بیدل نے فوج کو خیرباد کہا، بیدل کئی سال تک اکبر آباد، شاہ جہان آباد، حسن آباد، لاہور، متھراوغیرہ مختلف مقامات پر ٹھکانے بدلتےرہے۔ بالآخر دہلی میں آئے اور ہمیشہ کے لئے وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ دہلی میں انہیں نواب شکراللہ خان سے تا حیات وظیفہ ملتا رہا۔ بیدل نےدہلی میں ہی وفات پائی اور اپنے رہائشی مکان میں دفن ہوئے۔ انکا مکان ہی انکا مقبرہ بن گیا جہاں باضابطہ عرس ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں نادر شاہ کے حملے کے دوران دلی کا نقشہ ہی بدل گیا اسطرح انکا آخری نشان مٹ گیا اور بھولی ہوئی ایک داستان بن گیا۔
برصغیراور افغانسان میں بیدل سبک ہندی اسلوب کے سب سے بڑے شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں ۔اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ اردو کے دو عظیم شاعر میری مراد ،غالب و اقبال انکے ریزہ چینوں میں سے سے ہیں اور مدحت سرا بھی۔خزانہ عامرہ کے مصنف مولانا آزاد بلگرانی نے خزانۂ عامرہ مطبوعہ ۱۷۷۱ھ میں صراحت سے لکھا ہے
” هندی زبانان پارسی گوی در هند بیشتر از فارسی زبان در تدویر عرس بیدل شایق بودند. میرزا اسد الله غالب شاعر شهیر هند که به فارسی هم شعر های بلندی دارد؛ یکی از پیروان و شاگردان مکتب بیدل بود. (آنندراس مخلص) هم که از پیروان مکتب بیدل بود چنین گوید: «پس از امیر خسرو دهلوی هیچ شاعری در هند ظهور نکرد تا بتواند با بیدل؛ همسری نماید”
میرزا اسدالله خان غالب بیدل را چنین می ستاید:
همچنان آن محیط بی ساحل
قلزمِ فیض میرزا بیدل
غالب
میں نے غالب جو کہ بیدل کا معنوی شاگرد تھا کے محولہ بالا شعر سے اس کتاب کا نام محیط بی ساحل تجویز کیا ہے ۔ غالب کے دل و دماغ پر بیدل کا سحر ایسا چلا کہ وہ زندگی بھر انکے رنگ سخن کو سراہتے رہے ۔
اسد ہر جا سخن نے طرح تازہ دالی ہے،
مجھے طرز بہار ایجادئی بیدل پسند آیا
غالب
غالب نے بیدل کی استادی پر ناز کیا اوراقبال نے بھی بیدل کی عظمت کے جھنڈے لہرائے ۔ اقبال کے مطابق شنکر آچاریہ کے بعدبیدل ہندوستان کے سب سے بڑے فلسفی ہیں انکا نظریہ وحدت الوجود ابن العربی سے ملتا جلتا ہے۔ بیدل نے ہر صنف شاعری میں اشعار کہے اور خوب کہے ،بالخصوص غزل مثنوی رباعی اور قصیدہ میں،بیدل ید طولٰی رکھتے تھے۔
مثنویات میں بیدل نے محیط اعظم مثنوی کوفصوص الحکم کے انداز میں لکھا ہے۔ بیدل انسان کو مست مئے الست اور ذات مطلق کو اس کا میخانہ قرار دیتے ہیں ۔ طلسم حیرت، مثنوی انسانی معراج کا سفر ہے ۔جبکہ طور معرفت میں مظاہر قدرت پر گہری نظر رکھتے ہوئے حقیقت کا اظہارکیا ہے۔ بیدل کی شہکار مثنوی “عرفان” ہے اس میں داستانی اندازمیں وحدت الوجودی نظریات بیان کئےہیں ۔ چہار عنصر بیدل کی خود نوشت سوانح ہے ۔بیدل قطعات ادبی و تاریخی اہمیت رکھتے ہیں ۔ نثر ونظم سے مترکب رقعات کے علاوہ نثری کتاب نکات بیدل انکے معتقدات نظریات اور اخلاقیات کی حامل ہے۔ بیدل نے مناقب و قصائد بہت کم لکھے ۔ تصوف پر”تنبیہ المہوسین” کاذکر آیا ہے ۔ لیکن یہ کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔
یہ سب تخلیقات کا سلسلہ اپنی جگہ مسلم لیکن میرے خیال میں بیدل کا سب سے بڑاکارنامہ انکادیوان غزلیات ہے جس میں کم وبیش پچاس ہزار اشعار شامل ہیں۔ یاد رہے ۔غزلیات کے دفتر نے انکو دنیا کے عظیم شعرا کی صف میں لاکر کھڑا کردیا ہے، غزل کو انہوں نے روایتی گل وبلبل اور شمع و پروانہ کی شاعری سے باہر نکالا جس طرز شاعری کے بیج بابا فغانی نے بوئے تھے اس نو تردد فصل کو بیدل نے نلوایا، سینچا، کاٹا، بتوارا،گاہا ، پھٹکایا ،گوڑا اور پھر اس مہکتے ہوئے سونے کو کٹھلیوں اور کھتّوں میں بھر دیا ۔
بی شک بیدل کا سکہ ہرجگہ دلوں کے جہاں میں چلتا ہے بیدل نے ہمیں ایرانی عشقیہ و بیانیہ شاعری کے اکہرے پن سطحیت اور پایاب شاعری کی روایت سے باہرنکالا ۔ بیدل نے تصوف کے اسرار کے دفاتر لکھ دیے ہیں ۔ شاعری میں وجدان ، عقلی استدلال اور حسن تعلیل کے طرز کو نوبام پر پہنچایا۔کہاں عطار و سعدی کا پندنامہ و کریما اور کہاں بیدل کا شعری استدلال اور تشبیہاتی نظام ۔
چہ نسبت خاک را بہ این عالم پاک
نمونہ کلام بیدل:
فرصتی داری زگرد اضطراب دل برآ
همچوخون پیش ازفسردن از رگ بسمل برآ
اگر فرصت ہے تو دل سے بے چینی کی گرد جھاڑ کر باہر آجا اس سے پہلے کے لہو کی طرح بہے رگ بسمل سے آپ ہی باہر آجا
ریشهٔ الفت ندارد دانهٔ آزادی ات
ای شرر نشو و نما زین کشت بیحاصل برآ
محبت کے رگ و ریشے میں آزادی کا بیج نہیں، اس لئے اے نشو و نما کی شرر، کشت بے حاصل سے باہر آجا۔
از تکلف در فشار قعر نتوان زیستن،
چون نفّس دل هم اگرتنگی کند از دل بر آ
اگر تکلف نے فشار قعر یعنی پانی کے نیچے دباؤ جیسی حالت اور گھٹن محسوس ہوتی ہے تو سانس کی طرح سینے سے باہر آجا
قلزم تشویش هستی عافیت امواج نیست
ساحل بر آ مشت خاکی جوش زن سرتا قدم
تشویش کے دریا میں موجوں سے زندگی کو خطرہ ہے ۔اے مشت خاک انسان جوش مار اور بے خطر ساحل ہو جا
حضور وحدتم جز در دلِ محرم نمی گنجم
مئے مینائی تحقیقم بظرف کم نمی گنجم
میں وحدت کے حضور پہنچ چکا ہوں، دلِ محرم کے سوا کہیں اور نہیں سماسکتا ہوں۔
مئے مینائی تحقیق کی تشریح
مینائی یعنی روغنی برتن جسمیں شراب رکھی جاتی ہے یعنی چینی صراحی( Ceramics orChinese ware)
میری تحقیق کی اجلی اور انوکھی شراب میں نہیں سما سکتی۔
باین وحشت کہ دارد گرد تمثال جنون من
بہشتم گر شود آئینہ چون آدم نمی گنجم
اسقدر وحشت زدہ ہوں کہ اگر میں بہشت میں جاوں تو آدم کی طرح وہاں نہ ٹھہر سکوں۔
گہے صد آسمان در چشم موری می کنم جولان
گہے در صد محیط آغوش یک شبنم نمی گنجم
کبھی چیونٹی کی آنکھ میں سو آسمانوں کو گردش میں لاتا ہوں۔ کبھی میں شبنم کی آغوش میں نہیں سماسکتا۔
گہے زان رنگ میکاہم کہ سر در ذرہ می زدم
گہے زان شوق می بالم کہ در خود ہم نمی گنجم
کبھی تو ذرے میں سر چھپاتا ہوں اور کبھی شوق کے پر اگاتا ہوں اور خود سے باہر نکل جاتا ہوں۔
بیدل نہایت حساس الطبع شخص تھے انہوں نے عام زندگی کے واقعات اور مناظر فطرت سے تعلیل کے طریقے سے شعری دلائل منتج کئے ہیں۔ انکی اس مخصوص منطق کا کوئی جواب نہیں ،اردو میں غالب پہلا عظیم شاعر ہے جس نے طرز بیدل کو فروغ دیا بلکہ اس کی طرز کی آمیزش سے ایک نئی طرز ایجاد کی ، بیدل اور میرزا دونوں اپنی اپنی طرز کے موجد بھی ہیں خاتم بھی ۔بیدل تخیلاتی جہاں میں رہتے ہوئے بھی زمینی علائق اور صداقتوں سے غافل نہ تھے۔ انکے کلام کی خامیاں دراصل سبک ہندی کے سب شعرا کی مشترک خامیاں ہیں یعنی اسلوبیاتی نوعیت کی ہیں ۔ ورنہ ان کے یہاں کمال ہی کمال ہے۔ اقبال کے یہاں مزدور دنیا کا ذکر بیدل سے ملتا جلتا ہے، البتہ بیدل نے اسے پر پیچ اسلوب میں پیش کیا ہے جبکہ اقبال کے یہاں سطحی بیانیہ کا زور و اجبار ہے اور جزبات کا شور وشغب ۔
بیدل نے مزدوراور مظلوم لوگوں کے درد کو اپنے سینے میں محسوس کیا اور لازوال اشعار کہے۔
بترس ازآہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از درِ حق بہر استقبال می آید
بیدل
مظلوموں کی آہ سے ڈر کہ جب وہ دعا کرتے ہیں توخدا کی بارگاہ سے اجابت انکے استقبال کے لئے آتی ہے ،
چہ شد اطلس فلک قبا کہ درید آ ملکی ردا
کہ تو در زیان کدۂ فنا پی یک دو گز کفن آمدی
بیدل
میر نے یہی خیال یوں پیش کیا ہے
منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھے تو کیا
اس رند کی بھی رات کٹی جو کہ عور تھا
میر
اے قطرہ گہر شدہ نازم بہ ہمتت
کز یک گرہ پل از سر دریا گزشتہ ای
اے قطرہ تیری ہمت پر گوہر کو ناز ہے تو نے اپنی ایک گرہ کو سرِ دریا پل بنایا اور اپنی منزل پالی۔
با الفاظ دیگر
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد رنگ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک
غالب
زمین دار اور کسان کے معاملہ کو یوں پیش کیا ہے:
جز بہ ہم چیدن کسی را با تصرف کار نیست
گندم انبار است ہر سو لیک قحط آدمیست
بیدل
ہر طرف گندم کے ڈھیر ہیں لیکن زمینداریا مالکان اراضی کے علاوہ اسے اٹھانے والا کوئی ( کاشکار یا کسان ) نہیں۔
سر بہ غفلت مفرازید زآہے مظلوم
برق خفتیست بفوارہ ی آہی خشکش
لاپرواہی اور تکبر سے اپنا سر اوپر نہ اٹھا کیونکہ مظلوم کی ایک خشک اور پُر سوز آہ، میں بجلی چپھپی ہوئی ہوتی ہے ۔
ندانم این ہمہ کوشش برای چیست کہ چرخ
زانجم آبلہ دارست چوں کفِ مزدور
سمجھ میں نہیں آتا یہ حیلہ سازی کس لئے ہے ، مزدور کی ہتھیلی آبلوں سے اس طرح پُٕر ہے جیسے کہ آسمان ستاروں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے درودیوار کو ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اسکے ہر خوشہء گندم کو جلا دو
اقبال
بیدل کاکمال نہ وجدانیت ہے نہ تصوف، نہ تفلسف، نہ ہی حکمت، بلکہ وہ اسکا زبردست تشبیہاتی نظام ہے اور حسن تعلیل ۔ بیدل کی نازک خیالیاں اور اس کی معنی آفرینی حساس قاری کو تخیل کی ان بلندیوں تک لے جاتی جہاں سبک ہندی کا کوئی دوسرا شاعرنہیں لے جاسکتا۔ ہندوستان میں بیدل کے بعد بڑی شاعری فقط امیر خسرو نے کی ہے تمثیلی رنگ کے شاعر ملا طاہر غنی کا نام بھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ بیدل کی طرز مخصوص کے بعض نمائیندہ اشعار:
موج ما یک شکن از خاک نجوشید بلند
بحر عجزیم که در آبله طوفان کردیم
ہماری موج زرا بھر بھی خاک سے باہر نہ بلند ہوئی۔ ہم خاکساری کے دریا تھے اور آبلہ کے اندر ہی طوفان برپا کردیا۔
غیر وحشت نشد از نشئهٔ تحقیق بلند
می به ساغر مگر از چشم غزالان کردیم
جس نے ہمارے کلام میں معانی کی تلاش کی تحقیق وہ مستوش ووحشت زدہ ہوا کیونکہ ہم نے غزالوں کی آنکھوں کے پیالوں میں مے انڈیل دی ہے۔
رهزنی داشت اگر وادی بی مطلب عشق
عافیت بود که زندانی نسیان کردیم
وادی عشق میں رہزنی سے خائف نہیں ہوں ہے بلکہ میں عافیت سے ہوں کیونکہ مجھے اسکی یاد تک نہیں یعنی اس کو طاق نسیاں کر چکا ہوں۔
غالب نے اسی خیال کو برجستگی و صفائی سے پیش کیا ہے
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
غالب
حاصل از هستی موهوم نفس دزدیدن
اینقدر بود که بر آینه احسان کردیم
چند سانسیں ،زندگی سے اتنا ہی تمتع پایا ماجرا یہ ہے کہ ہم نے آیینہ پر احسان کیا۔
دیده را باز به دیدار که حیران کردیم
که خلل در صف جمعیت مژگان کردیم
آنکھیں دیدار کے لئے کھلی تھیں کہ مژگانوں کی جمعیت نے خلل ڈال دیا۔ یعنی جھپکنا حائل نظارہ ہوگیا۔