یارم هرگاه در سخن می آید
بوی عجبیش از دهن می آید
این بوی قرنفل است یا نکهت گل
یا رائحهٔ مشک ختن می آید
یعنی
محبوب جب بھی بات کرتا ہے اس کے منہ سے عجیب قسم کی خوشبو آتی ہے۔ یہ لونگ(Clove) کی خوشبو ہے یا پھول کی خوشبو یا پھر مشک ختن سے رچی بسی ہوا کا کوئی جھونکا ہے ۔ یعنی بوئے دہن ِ یار،عجیب خوشبو ہے ۔
واضح رہے کہ بیدل ہندوستانی مزاج اور روایت کا شاعر ہے ، ایرانی روایات اور لب و لہجہ سے اسکا کوئی واسطہ نہیں ۔ بیدل کا کمال سبک ہندی کو کمال پر پہنچانا ہے۔ یہاں ایرانی ناقدین نے یہ غلطی کی ہے کہ انہوں نے بیدل کو ایرانی مزاج و نہج اور متداول زبان کے اصولوں پر پرکھنا چاہا اسطرح ان سے نہ صرف بیدل کو سمجھنے میں غلطی ہوئی بلکہ وہ فارسی زبان کے لہجوں کی شناخت ، متنوع اسلوب اور انکے اثاثی پہلووں کو سمجھنے سے قاصر رہے۔اسطرح فارسی زبان کی اسالیبی آفاقیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ سب جانتے ہیں کہ انگریزی زبان کے کئی مستند اسٹائل ہیں ۔ جیسے انگریزی، امریکی، ہندوستانی وغیرہ فارسی ناقدین کی یہ کج فہمی قابل تردید ہے جو زبان فارسی کے دائرہ اقبال اور وسیع تر مفاد کی راہ کی بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ۔بہر کیف ۔ بیدل نے اپنے کلام ہندوستان کے ماحول اور روایتوں کا ذکر کیا ہے۔ یہی انکا امتیازی وصف ہے ۔ اور پہچان کا تکمہ بھی۔
مثال کے طور پر ہندوستانی لوگ بطور موتھ فرشنر (Mouth Freshner) سپاری، پان، لونگ وغیرہ چبھاتے ہیں احتیاط کے باوجود ہندوستانی شہروں میں پان کی پیک سے راستے گلیاں اور لوگوں کے لباس تک آلودہ ہوتے رہتے ہیں اور بات کرتے وقت پان کی مہک چبھانے والوں کے منہ سے آتی رہتی ہے . حیرت کی بات ہے کہ بیدل نے اپنی مثنوی “کیفیت پان” میں پان کی کیفیت پر بانوے اشعار کہے ہیں ۔بات یہاں ہی نہیں ختم ہوجاتی ہے اسکے بعد “کیفیت بحث پان” کےعنوان کے تحت ایک دوسری مثنوی کہی ہے ۔۔۔اس میں ایک سو اٹھارہ اشعار کہے۔ اس طرح پان پر دو سو دس اشعار کہے ہیں۔مزید سپاری اور چونہ پر بھی مثنویاں کہی ہیں ۔ جس کا ذکر آگے ہوگا۔
چه پان انتخاب گلستان هند
همه نسخهٔ ناز سبزان هند
کیاکہنے پان باغ ہند کا چنندہ تحفہ ہے۔ ہند کے سبز جمالوں کا نسخۂ ناز ہے ۔
طراوت نگاران حسن مقال
ازو گر نویسند رنگ خیال
یہ پان طراوت نگاروں کا حسن بیان ہےاور وہ اسی سے خیال کے خانوں میں رنگ بھرا جاتا ہے
سیاهی بشنگرف گردد بدل
ورقها برآید حنائی عمل
دلوں کی سیاہی شنگرف یعنی نارنجی رنگ میں بدل جاتی ہے اور کتابوں کے اوراق حنائی عمل سے گزرتے ہیں
وگر عندلیبان معنی بیان
بباغ خیالش کنند آشیان
اگرمعنیِ بیان کی بلبلیں، خیال کے باغ میں آشیانہ بندی کریں ۔۔۔
نوائی که از طبعشان سر زند
در آئینهٔ برگ گل پر زند
اور طبع زاد نوا سرزد ہو تو آئینۂ برگِ گل میں پر لگ جائیں
زبانها ز رنگینیش برگ گل
لب از الفتش نسخهٔ جام مُل
زبانیں اسکی رنگینی سے برگ گل جیسی ہیں اور ہونٹ اسکی یعنی پان کی محبت سے شراب کے جام کی اصل کیفیت کے حامل ہیں۔
تکلم ز فیضش گل افشان راز
تبسم شفق پرور صبح ناز…۔۔
تکلم کو پان کے فیض نے راز کی گل افشانی پر ابھارا۔ اور تبسم اسی کے صبح ناز کا شفق پروردہ ہے
بهارش بهر جا رهی برده است
گلآنجا دهنهای پان خورده است
بہار نے جہاں بھی اپنا راستہ ہموار کیا ہے ( لگتا ہے کہ )پھولوں نے وہاں وہاں پان کھایا ہوا ہے
بصد نکهت گل تکلم ازو
هلال شفق را تبسم ازو
تکلم نے پان سے سو طرح کی خوشبوئیں اڑائیں اور ہلالِ شفق نے اس سے مسکراٹ پائی۔
زرنگش ز پانها عقیق یمن
ببویش نفسها نسیم ختن
عقیق یمن نے سرخی پان کے رنگ سے کی اور نسیم ختن نے اسی سے خوشبو کا فیض اٹھایا۔
چو حرف وفا آبروی بیان
چو حمد خدا نور شمع زبان….
جسطرح حمدِ خدا،نورِشمع زبان ہے،ٹھیک اسی طرح پان سے حرف وفا آبروی بیان ٹھہرا ہے ۔
زمرد سرشتی است این سبز پوش
که دارد رگ خون یاقوتجوش…
یہ سبز پوش ، زمرد سرشت ہے اسکی رگِ خون سے یاقوت رنگ جوش ٹپکتا ہے۔
زبانی درین بزم نیرنگ نیست
که چون شمع از حرف پان رنگ نیست…
اس پر فریب بزم میں کوئی بھی زبان ایسی نہیں کہ جس میں شمع کی طرح، پان کے حرف کا رنگ نہیں ۔۔۔
بااین معنی از زخم پی بردن است
لبی را که پان نیست خون خوردنست…
اس طرح جس ہونٹ نے پان کا مزہ نہیں چکھا ،زخم پانے کے درپئے ہے اور وہ حسرت کا مارا اپنا خون پئے گا ۔
سپاری پر بیدل نے مثنوی کہی ہے سپاری کو باریک کتر کر ویسے ہی یا پان کے ہمراہ چونا،کتھ الائچی ملا کر کھاتے ہیں ۔بیدل نے کیفیت بحث چونہ اور پان کے وصف کا عمدہ بیان ہے۔ اور منظر نگاری اشعار۔۔
سپاری کند تا وداع بیان
شرر کاری چونه شد پر فشان
چونہ یعنی چونا
کہ خوبی گراز لاف باشد مراد
زکوس و دہل پیش نتوان افتاد۔۔۔
اگر رنگ پان شعله در بر گرفت
ہم از پنبه ام اینقدر در گرفت۔…
مگر یابم از لعل خوبان امید
که دام امید است چشم سفید.…