اقبال فارسی کی متعدد شعرا سے متاثر ہوئے جن میں عرفی، رومی کانام اکثر لیا جاتا ہے بی شک اقبال کے عشق و جنوں کا تصور رومی اور شعری ڈکشن عرفی سے ملتی جلتی ہے اور اور اقبال نے ان شعرا سے اکتساب فیض کیا جسکے بہت سے شواہد ہمارے پاس موجود ہیں ۔ شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ غالب کی طرح اقبال نے بھی بیدل سے حریت پسندی اور رد تقلید کا تصور اخذ کیا ہے۔ اقبال اور بیدل دونوں ہی شعرا راسخ العقیدہ تھے بیدل کی روش اختیار کرتے ہوئے اقبال نے اپنی شاعری عقل و خرد کا امتزاج قائم کرنے کی سعی کی اقبال بیدل کے معتقد تھے ۔ اقبال کا حرکی نظریہ بیدل کی توسیع ہے ۔
اسی فکری مناسبت اور شباہت طرز کی بنیاد پر ایران کے ملک الشعراء بہار نے اقبال کی بابت سچ ہی کہا ہے
بیدلے گر رفت اقبالے رسید
بیدلان را نوبت حالے رسید
(ملک الشعرا بہار)
یعنی بیدل کے جانے کے بعد اقبال آئے اور بیدلوں کے حال کی نوبت لائے۔
باہر کمال اندکی آشفتگی خوش است
ہر چند عقل کل شدہ ای بے جنوں مباش (بیدل)
کمال کے ساتھ آشفتکی اور عقل کے ساتھ جنوں کا یہ تصور اقبال کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اس تصور کو کچھ یوں اردوی قالب میں ڈھالا ہے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے (اقبال)
ملتِ اضدادِ خلق اوج و حضیض فطرت است
زین سبب ہا بو لہب خصم پیمبر بودہ است
بیدل نے ابولہب کی پیغمبر اسلام علیہ السلام سے دشمنی کو اضداد خلق اور اوج فطرت و حضیض پستی سے تعبیر کیا تھااور جیسا کہ حق کی تمیز کے لئے باطل کا پہلو ہونا بھی لازمی ہے۔ نور کا وجود ظلمت کے تصور کے بغیر نامکمل ہےبیدل کے اس زبردست خیال کو اقبال نے خوبصورت الفاظ مگر قدرے سطحی شعر میں پیش کیا ہے۔
ستیزہ کار ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار ابولہبی (اقبال)
اقبال نے نرگس کی بی نور کا تصور بالیقیں بیدل سے اخذ کیا ہے
دمیدہ است چو نرگس درین تماشا گاہ
ہزار چشم و یکی را نصیب دیدن نیست۔ (بیدل)
ہزراروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اگر غور سے دیکھا جائے تو میر تقی میر کا مشہور شعر بھی اس نیچے دیے گئے شعر میں باندھے گئے خیال کی صدائےبازگشت ہے :
ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش آدمی
اے بہار نیستی از قدر خود آگاہ باش ( بیدل)
یعنی دونوں جہانوں کو خاک ہونا پڑتا ہے تب کہیں جاکر آدمی کا نقش تیار ہوتا ہے اسطرح نقش آدمی کو بیدل، نیستئ عالمین کی بہار یعنی حاصل سمجھتا ہے ۔ یہ بیدل کا اوریجنل خیال ہے جیسا کہ اوپر بیان کر چکا ہوں اقبال اور مزید میر تقی میر نے پیکر بدل کر اسے یوں بنا دیا
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب کہیں خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
(میر تقی میر)
حرص ہر سو می برد بر سیم و زر تار نگاہ
زاہد از فردوس ہم مطلوب جز دنیا نیست (بیدل )
اقبال نے اسی خیال کو ڈھیلے ڈھالے پیکر میں یوں پیش کیا لیکن بیدل کاسا زور بیان اور استعجاب کی کیفیت نہیں پید کرسکے
زاہد کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے (اقبال)
بیدل بحصول رزق آمادہ بسر
سگ چاکرِسگ نہ گشت خر بندۂ خر (بیدل)
بیدل حصول رزق کے لئے آدمی آدمی کی غلامی کرتا ہے۔ حیرت کی بات ہے میں کسی کتے کو دوسرے کتے کا نوکر نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی گدھے کو دوسرے گدھے کا غلام دیکھا ہے
بیدل ہر قسم کی غلامی اور تقلید کے سخت خلاف تھے اقبال نے بیدل کا تتبع کرتے ہوئے کہا :
غلامی
آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد
یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد
ہیچ کس نیست زبان دان خیالم بیدل
نغمۂ پردۂ دل از ہمہ آہنگ جدا است
بیدل
کوئی زباداں اور ہم زباں ہے ہی نہیں جو میرے خیال کوسمجھے (کیونکہ) میرے ساز دل سے پیدا ہونے والے نغمے کا آہنگ کچھ اور ہے۔
غالباً حالی نے اسی خیال سے یوں استفادہ کیا ہے :
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
میر، غالب، اور اقبال اردو کے تنیوں بڑے شعرا بیدل کے معتقد اور خوشہ چین تھے بالخصوص غالب نے بیدل سے متاثر ہوئے اور اپنی اعلی اردو شاعری کے منفرد انداز بیان کی طرح ڈالنے میں کامیاب ہوئے غالب نے بیدل سے استفادہ کا پورا حق ادا کیا اور اپنی ذہانت اور کمال استعداد سے اردو شعرو شاعری کو دنیا کی عظیم شاعری کی صف میں لا کر کھڑا کردیا ۔
بوئے گل، نالۂ دل، دُودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزم تو برخاست، پریشان برخاست
(بیدل)
بوئے گل، نالۂ دل، دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
(غالب)