بیدل کی شاعری عالمی شاعری کے ہر پیمانے پر پوری اترتی ہے بیدل نہ صرف مغل عہد کا آخری بڑا شاعر ہے بلکہ وہ دنیا کے عظیم شعرا میں سے ہے۔بیدل کی شاعری انسانی شعور کوجلا بخشتی ہے اور رگوں میں بجلی بن کر دوڑنے لگتی ہے۔ بیدل کی شاعری میں فکر و دانش کے موتی بھی جابجا ملتے ہیں اور عشق و محبت دلآویزیاں دامن دل کو جھنجھوڑتی ہیں ۔ بیدل کی شاعری چمنستان حیات ہے اور انکے اشعار انکے مزاج کی بوقلمونی و رنگا رنگی کے آئینہ دار ہیں تفلسف و حکمت پر مبنی اشعار بھی بکثرت مل جاتے ہیں۔اور تصوف و عرفان کی باتیں نہایت جوبصورت پیرایہ میں بیان کی ہیں بیدل کے اشعار زندگی کا مقصد تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اسمیں گلہ و شکوہ بھی ملتا ہے اور مانی و بہزاد کی رنگینیاں اور نازک خیالیاں بھی ۔ بیدل بنیادی طور پر استعجاب و حیرت کا شاعر ہے ۔ سرمست مئے توحید نے اسرار کی بیشمار گتھیاں کھولی ہیں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے بیدل کی شاعری محیط بی ساحل ہے ۔ غالب نے بیدل کو اسی لقب سے ملقب کیا تھا بی شک بیدل محیط بی ساحل بھی ہے اور قلزمِ فیض بھی۔
همچنان آن محیط بی ساحل
قلزمِ فیض میرزا بیدل
غالب
بیدل کی شاعری انسانی دماغ کے بند دریچوں کو کھولتی ہے اور مضراب زندگی کی رگوں کو چھیڑی ہے اسکے سرمدی نغمے ہمارے عقل و شعور کو بلند کرتی ہے ۔
زخم بالیدہ ہوئے داغوں پہ جوبن آگیا
پرورش پایا گیا جو زیر دامن آگیا
(نسیم دہلوی)
ہر نغمہ کہ مضراب زندگی رگی نیست منام است
تیغی کہ بہ خون رنگ نگردیدہ نیام است
بیدل
ہر وہ نغنہ جو زندگی کی رگ کو نہیں چھیڑتا( وہ نغمہ نغمہ نہیں بلکہ) سراپا خواب ہے . ہر وہ تیغ جو خون کے رنگ سے آلودہ نہیں ہوتی ( وہ تیغ تیغ نہیں بلکہ) نیام ہے ۔
چشمی کہ ندراد نظری حلقۂ دام است
ہر لب کہ سخن سنج نباشد لب بام است
بیدل
وہ آنکھ کہ جس میں نظر یعنی بصیرت نہیں وہ(آنکھ آنکھ نہیں بلکہ) زنجیر کی کڑی ہے . ہر وہ ہونٹ کہ جو سخن سنج نہیں (وہ ہونٹ ہونٹ نہیں بلکہ) لب بام یعنی چھجا ہے مراد بے حس شے۔
به هرکجا ناز سر برآرد نیاز هم پای کم ندارد
توو خرامی و صد تغافل، من و نگاهی و صد تمنا
جہاں کہیں تیرا ناز ظاہر ہوتا ہے وہیں نیاز بھی اپنا پاوں رکھتا ہے۔ تیری خرام یعنی مستانہ چال ہے غفلت شعاری و بے اعتنائی اور میں ہوں ، میری مشتاق آنکھیں ہیں اور تیرے دیدار کی سو سو تمنائیں!
بهبوی ریحان مشکبارت بهخویش پیچیدهام چوسنبل
ز هررگ برگگل ندارم چو طایررنگ رشته برپا
سنبل کی طرح میں نے تیری (یاد کی )خوشبو دار گلِ ریحان بیل کو اپنے دل کے ارد گرد لپٹا ہوا ہے۔ میری رگوں میں پھول کی پتیاں نہیں کہ وہ پرندوں کو اپنی طرف ملتفت کریں ۔ یعنی میں تیرے عشق میں گرفتار ہوں یہی میری بہار ہے۔ جو دوسروں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔
ہیچ شکلی بی ہیولا قابل صورت نشد
آدمی پیش ازان کادم شود بوزینہ بود؟
کوئی بھی شکل بغیر ہکسی پہلے ست موجود ہیولا یا کسی شبہ یا تصور
کے ظہور میں نہیں آتی ۔ انسان بھی انسانی شکل میں ظہور سے پہلے بوزنہ(Ape) تھا؟ یہ استفہامیہ لہجہ ہے ۔
ارتقائی سفر پر کہا گیا یہ یہ شعر بیدل کے فکری بلندی کا پتہ دیتا ہے یاد رہے یہ شعر بیدل نے ڈارون سے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیدل اپنے زمانے کا افلاطون تھا۔ اسی نوعیت کا ایک اور شعر دیکھیں ۔
تمثال بغیر از اثَرِ شخص چہ دارد ؟
خوش باش کہ خود را تُو نمودی ہُنَرِاوست
ہر تمثال اپنے خالق کی ذاتی صفات کی آئینہ بردار ہوتی ہے اے انسان خوش ہو جا! کہ تو اپنے خالق کے ہنر یعنی Art کا نمونہ ہے۔۔ سبحان اللہ بیدل نے احسن تقویم کی کیا شرح کی ہے
نہ دیکھنا کبھی آئینہ بھول کر دیکھو
تمہارے حسن کا پیدا جواب کر دے گا
بیخود دہلوی
کی بے سبب مارا چنین از خاک پیدا کردہ ای
بہر شناسای خود این فتنہ برپا کردہ ای
کس لئے تونے بے سبب مشت خاک میں عشق کی تجلی یعنی اپنی روح پھونکی اور
اپنی پہچان اور معرفت کے لئے آزمائش میں مبتلا کردیا۔
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے
میر تقی میر
شب تاریک وبیم موج وگردابی چنین حایل
کجا دانند حال ما سبکباران ساحل ها
اس شب تاریک میں لہر در لہر خوف موجزن ہے ہمارے درمیاں ایک بھنور حایل ہوچکا ہے جو لوگ کنارے پر بوجھ اتار کر آرام کر رہے ہیں وہ ہمارے حال کو کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟
مانی کائی ازم (Manichaeism)
تیسری صدی کا مزہب ہے جس کے پیش رو مانی تھے مانی نے مذہبی عبارتوں کی توضیح تصاویر سے کی آموزش بصری Visual Teaching کا موجد مانا جاتا ہے بیدل نے مانی کا نام بڑی عقیدت سے لیا ہے
با مصور بهزاد نقش مانی رنگ
کہ کلکش از رگ گل کردہ گلشن اظهاری
بیدل
مانی دو گانہ نظریات پر زور دیا گیا فزیکل ورلڈ اور مادہ کو شر کہا۔ اسلام میں خیر و شر قدیم نہیں مانا جاتا بلکہ حادث تسلیم کیا گیا ہے مانی کے عقائد زرتشت سے زیادہ مائل بہ ثنائیت تھے وادی جہنم اور چنوات یعنی پلصراط کا عقیدہ بھی سب سے پہلے زرتشت نے دیا تھا ۔۔جس کے مطابق زہدو فقر اور ریاضت و مرتاضی کے ذریعہ مادی جسم سے روحانی قوت پیدا کی جاتی ہے ۔
مانی کے پہلے اور بعد کے تقریباسب مزاہب کی اساس یہی ہے عبادت کی فارم میں اختلاف ہے البتہ سب کےیہاں سپرٹSpirit ایک ہی ہے مانی کا مذهب تو شاید دنیا میں نہیں رہا لیکن مانی کی اصلی شہرت کا راز اسکا مو قلم ہے Brush of Mani جو کہ آج بھی ضرب المثل ہے بی شک مانی مینیاتور دانشکده نقاشی کا باوا آدم ہے.جبکہ بہزاد یعنی کمال الدین بہزاد پندرھویں سولویں صدی عیسوی کا اسلامی مینیاتور (Maniature)کا مشہور نقاش ہے۔ اور اسے بہزاد کہا جاتا ہے ۔فارسی ادب میں مانی و بہزاد کی شہرت مثالی ہے بیدل اپنے طرز کلام کو بیدل کی نقاشی جیسا دلپزیر اور جاذب نظر کہتاہے۔ مانی سے رنگینی طرز اور بداعت و جدت طرازی ہے ۔ بقول آقای جعفر چنگیز میرزا حسابی :
مانی در ادبیات فارسی از شهرت بسزایی برخوردار است. شاعران و نویسندگان از دو جنبه این
شخصیت را بیشتر مورد توجه و اقبال قرار دادهاند: نخست به واسطۀ مهارت در هنر و دیگر
،بدعت که تأثیر هریک از این دو وجه در ادبیات ایرانی و سرودههاي شاعران دوران گوناگون
ـ در بیش از دویست بیت شعر ـ انعکاس یافته است که میتواند به عنوان منبعی براي
شناخت و معرفی این شخصیت از آنها بهره گرفت. در این مجال به اختصار به برخی از این
نمونهها اشاره میشود.
شاعران به هنگام وصف زیباییهاي منظرهاي و یا تعریف نگاري و یا گفتگو از توانمندي
و چیرهدستی نگارگري، متوجه مانی، نقاشیهاي او و کتاب مصورش ارژنگ می شود۔
سعدي شیرازي نیز با پذیرش و باور هنر مانی در مقام قیاس از وي یاد میکند:
گرچهاز انگشت مانی بر نیاید چون تو نقش
هردمانگشتی نهدبر نقش مانی روي تو
عطار نیشابوري نیز با باور هنرمندي مانی میآورد:
نگارینی کہ من دارم اگر برقع براندازد
نماید زینت و رونق نگارستان مانی را
بحوالہ مانی در آیینه هنر و ادبیات ایرانی ، از جعفر چنگیز میرزا حسابی
بیدل نے اپنے کلام کو مانی و بہزاد کی مصوری سے تشبیہہ دی ہے ۔ ورنہ مانوی فکر و فلفسفہ سے بیدل کا کوئی خاص تعلق نہیں ۔
بی نشان رنگیم و تصویر خیالی بستہ ایم
حیرت آئینہ نقش خامۂ بہزاد نیست
جسطرح مانی نے اپنی عبارت کی توضیح کے لئے خوبصورت تصویریں بنائی تھیں یا پھر بہزاد نے اپنے فن کا اظہار کیا ٹھیک اسی طرح بیدل نے اپنے کلام میں رنگ رنگ پیکر تراشیاں کی ہیں انکی یہ لفظی مصوری بیمثال ہے.بیدل رعشہ زدہ ہاتھ میں جب قلم پکڑتے ہیں اور یہ مو قلم پھٹتا ہے تو ہزار نقش بہزاد رقم ہوتےجاتے ہیں ۔ بقول بیدل
بنقش تحقیق رعشه دستم خطاست ترکیب رنگ بستم
دمی که این خامه در شکستم هزار بهزاد می نگارم
بیدل
میں نے سابقہ سطور میں کہا تھا کہ بیدل نے اپنے کلام کو مانی و بہزاد کی نقاشی کی بوقلمونی و حیرت انگیزی اور نیرنگی و فریب کے مترادف ٹھہرایا ہے۔بیدل کا کلام واقعی طور پر نہایت عمیق تہہ دار اور دقیق ہے ۔ بیدل گرداب اور گرہیں بنانے میں ماہر ہیں وہ خیال کی ڈور کو سلجھانے کے الجھائے رکھتے ہیں اور خیال کے بحر بیکران سے تیر کر ساحلِ معنی تک پہنچنے کے بجائے غواصی گرداب کو ترجیح دیتے ہیں۔وضاحت کرنے بغیر ہی اچھی تصویر کی طرح محظوظ کرتا ہے۔
چونکہ اعلی نقاشی یا بڑے آرٹ میں بھی میں بھی کئی ایسی مستور باریکیاں اور مخفی لطافتیں ہوتی ہیں جنہیں ہر آدمی اپنے ذہنی اپج کے مطابق سمجھنےکی کوشش کرتا ہے۔ بعینہ جو شعر ہر کسی کو سمجھ آجاتا ہے دراصل وہ شعر ہی کیا ہوا بلکہ وہ تو چشمہ پایاب ہے۔ بقول بیدل
چه نقشها که نیست آرزو به فکر وصال
خیال بستن من بی تو کلک مانی بود
بیدل
یہ کیسے نقش ہیں کہ جن کی دھن میں کسی کے وصال کی آرزو نہیں تیرے فراق میں میری مضمون بندی ، گویا مانی کی قلم سے ٹپکنے والے نقوش ہیں
تیرے جلووں کو کہیں عام نہ کر دیں اے دوست
اس لیے مانی و بہزاد سے ڈر لگتا ہے
مشیر جھنجھانوی
بیدل ، مانی کی ہنر مندی کو کارگاہ فطرت کہتا ہے
به آن صفا بیخته ست رنگم که مانی کارگاه فطرت
قلم به آیینه پاک سازد دمی که تصویر من برآرد
جنون کو “مانی آرزو” کہا ہے جس سے ارژنگ کامرانی کا رنگ چھلکتا ہے ۔
مانی آرزو جنون انگیخت
رنگ ارژنگ کامرانی ریخت
بیدل معنوی طور پر مانی کی اقلیم فطرت کا دعویدار ہے اور نقش رنگ و بو کے اظہار میں بہزاد جیسی قدرت کا مدعی ۔
به معنی مانی اقلیم فطرت
به نقش رنگ و بو بهزاد قدرت
به عالمی که خیال تو نقش می بندد
نفس نمی کشد از شرم خامهٔ مانی
تیرے خیال کی بندش دیکھ کر تو مانی کا قلم سانس لینا بھول جاتا ہے سانس بھولنا، قلم کے نہ چلنے کا استعارہ ہے
مو گشته ایم و نقش خیال تو مشق ما است
حیران صنعت قلم مانی خودیم
میں موقلم ہو چکا ہوں تیرا خیال میری مشق سخن ہے
میں اپنی مانی صفت قلم کی صنعت و کاریگری دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں
بیدل