حسن بیرنگیست در ہر جا بہ رنگی جلوہ گر
در دل سنگ آنچہ می بینی شرر در غنچہ بو ست
کر اگر تم پتھر کو چیرو تو وہ پورا شرر ہے اے انسان اگر پتھر کی طرح ہے تو بھی اپنے پر سکون کا گمان نہ
بر خود آسوودنی گمان نبری
سنگ اگر گل کنی ہمان شرری
گل کنی یعنی چیرنا
جذبۂ شوق اگر شود پرو بال
سنگ را میتوان شرر کردن
شرر بہ چشم تغافل اشارتی دارد
کہ این بساط ہوس جای انتظار تو نیست
تیری ہستی اگر مثل شرر ہے مگر سراپا سوز اور اضطراب ہے
دنیا اس قابل نہیں کہ تو طول امل کا شکار ہو کر ، منزل مقصود بھول جائے یہ تو محض دھوکہ و فریب نظر ہے
پروفیسر ظہیراحمد صدیقی، بیدل کا اقبال سے موازنہ کرتے ہوئے ان کے حرکی تصوف کے بارہ میں لکھتے ہیں :
علامہ اقبال کی طرح بیدل بھی زندگی کے بارہ میں حرکی (Dynamic) “بیدل حرکی نظریہ رکھتے ہیں ان کے ہاں بھی علامہ کی طرح زندگی کی اعلی اقدار کا شعور ملتا ہے”
وہ اقبال کی طرح آرزو ،بلند ہمتی اور سعی و کوشش کو اعلیٰ زندگی کی اساس سمجھتے ہیں
تا ابد از ازل بتاز ملک خدا ست زندگی
غافل از سیر گداذ دل نباید زیستن
مباش ہمچو گہر مردہ ریگ این دریا
نظر بلند کن و ہمت حباب طلب
من آن شوقم کہ خود را از غبار خویش می جویم
رہی در جیب منزل کردہ ام ایجاد و می پویم
میں وہ شوق ہوں کہ اپنے غبار وجود میں خود کو تلاش کر رہا ہوں میری منزل میرے ہی قدموں کے نیچے ہے ایک راستہ ہے کہ منزل کے گریبان سے میں نے پیدا کر لیا ہے اور اسی پر گامزن ہوں مصرع
این جا کشاد چشم غیر از حیرت چیزی ندارد باید
یہاں آنکھوں کا وا ہونا محض حیرت کا پیش خیمہ ہے
نگہی نکردہ ز خود سفر ز کمال خود چہ برد اثر
برویم در پیت آنقدر کہ بہ ما زما خبری رسد
وہ نگاہ جس نے خود سے باہر سفر نہ کیا ہو اسے اپنے کمال کا عرفان کیوں کر ہوسکتا ہے ہم تیرے پیچھے
اس قدر جائیں کہ اپنا سراغ پالیں۔
تا دل از امید غافل بود تشویشی نبود
ساز استغنای ما را کرد باطل انتظار
زندگی کی تمام کشاکش امیدو انتظار کا شاخسانہ ہے جب تک دل ساز امید سے غافل و محروم رہے وہ ہر تشویش اور باک سے بے نیاز رہتا ہے جب امید اسے انتظار کی زحمت سے آشنا کرتی ہے تو اس کا راز استغنا ختم ہوجاتا ہے
جہدی کہ شعلہ ات نکشد ننگ اخگری
خاکستری برون دہ و رخت سفر بر آر
ایسا جہد کہ تیرے انگارے سے شعلہ پیدا نہ کرے باعث ننگ و عار ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ تو اپنا اصل رخت سفر بہم پہنچائے جو مجسم شعلہ کی صورت ہے اور اپنی کثافت کو خاکستر کی صورت الگ کردے
بیدل از علم و عمل گر مدعا جمعیت است
ہیچ کاری غیر بیکاری نمی آید بہ کار
اگر علم و عمل کا ماحصل جمعیت خاطر اور تسکین قلب ہے تو اس کے لئے جد و جہد کی کیا ضرورت ہے یہ تو بے کاری سے بھی حاصل ہوسکتاہے۔ دراصل شعلۂ آگہی کے لئے یہ جد و جہد کی جاتی ہے تاکہ حیات درخشاں ہوسکے
دو عالم میتوان از یک نگاہ گرم طی کردن
تگاپوی شرر نی جادہ میخواہد نہ فرسنگی
دو عالم کا فاصلہ اور سفر ایک ہی نگاہ گرم سے طے کیا جاسکتا ہے چنگاری کی تگ و پو کے نہ جادہ درکار ہے اور نہ منزل۔
عشق کی اک جست ہی نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیجراں سمجھا تھا۔
اقبال
غالب نے اسی خیال کو دوسرے انداز میں پیش کیا ہے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
غالب
چیتے کی مثال:
مردان ز غم سختی ایام گزشتند
من نیز برایں کوہ پلنگم کہ بر آیم
بیدل
چیتا دشوار گزار پہاڑیوں کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں سمجھتا اسی طرح مرد آزاد بھی زندگی کی سختیوں سے نہیں گھبراتا۔
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
اقبال
در قناعت ہمہ اسباب بہ زیر قدم است
مور این دشت نخواہد ز سلیمان مددی
بیدل
جب انسان قناعت کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو مال و اسباب دنیا خود بخود اس کے پاؤں کی ٹھوکر میں آجاتے ہیں قناعت چیونٹی کو بھی وہ سیر چشمی عطا کرتی ہے کہ وہ سلیمان کی مدد سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔
ز بزم وصل خواہش ہای بیجا می برد مارا
چو گوہر موج ما بیرون دریا می برد ما
قطرے کا وجود تو دریا میں ضم ہوسکتا ہے لیکن گوہر کا وجود دریا کا حصہ نہیں بن سکتا۔
انسان کی مثال گوہر کی ہے جو دریائے وحدت سے الگ ہوچکا ہے اب وہ کوشش کے باوجود دریا میں ضم نہیں ہوسکتا۔
حوادث عین آسائش بود آزادہ مشرب را
کہ موج بحر دارد از شکست خویش جوہر ہا
اصغر گونڈوی نے مصرع اولی سے اسی خیال کو مستعار لیا ہے۔ لیکن دوسرے مصرع کے مضمون کو گرفت میں نہیں لے سکے۔
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
شعلہ را جز تہ خاکسترش آرام کجا ست
جہد آن کن کہ تو در سایۂ خویش آسایی
شعلہ کو خاکستر اور راکھ کے نیچے سکون و قرار نہیں آتا کوشش کر کہ تو اپنے سایہ میں آسائش حاصل کر سکے۔
زندگی کی سب سے بڑی نشانی حرکت ہے بیدل حرکت اگزایش اور ارتقا کے علمبردار تھے ۔
فزودن ہا نقاب وحشت است اجزاء امکان را
نیابی جز شرر سنگی کہ بشگافی معمایش
یہ اجزائے عالم کی فزونی اور بزرگی کوئی حقیقت نہیں جب غور سے نظر کرو انکے پردہ میں ایک متحرک اور مسرور جسم کوچک موجود ہے۔ اگر پتھر کا معما چیرو تو اس میں سے شرر دریافت ہوتا ہے۔
مستقبل امید دو عالم ہمہ ماضی است
این مسئلہ بر ہر کہ رسی رو بقفا پرس
بقول آقای سلجوقی : گندم ماضی گندم مستقبل و جو آن نیز جو مستقبل است۔۔ این مشاہدہ رو بقفا بایستدو رو بقفا بپرسد و بجوید۔
ہیچ شکلی بی ہیولا قابل صورت نشد
آدمی ہم پیش ازاں کادم شود بوزینہ بود
ہر شکل اپنے سے الگ ہوکر موجودہ صورت میں ظاہر ہوئی ہے آدمی آدم کی شکل میں آنے سے پہلے بندر تھا
ہمچو کوزۂ دولاب ہر چہ زیر گردون است
یا ترقی آہنگ است یا تنزلی دارد
کہمار کے چاک پر جو جوکچھ اس گردوں کے نیچے ہے،یاتو وہ ارتقا پزیر شکل ہے یا تنزل یافتہ۔
چشمی بَگُشا منشاء پرواز ہمین است
چون بیضا شکستی دمدت بال و پر از خود
(مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن)
آنکھیں کھول پرواز تقاضا ہے کہ انڈا ٹوٹنے کے بعد ہی چوزہ کے بال و پر اگتے ہیں
شرار سنگم و در فکر کار خویشم میسوزم
بہ چشم بستہ شمع انتظار خویش میسوزم
میں سنگ سے پیدا ہونے والی چنگاری ہوں جو اپنے اپنے مقصد وجود کی تلاش کی آگ میں جل کر بھسم ہوجاتی ہے ۔ شمع تو ایک آنکھ رکھتی ہے جس سے کہ محفل امکاں کو دیکھتی ہے مگر میں تو اپنی بند آنکھوں سے ہی شمع انتظار جلاتا ہوں۔ اور اسی کے شعلے میں جل جاتا ہوں ۔
فسردہ گان امکان را محال است آتش دیگر
چون برق از جرأت بی اختیار خویش میسوزم
عالم امکان تب و تاب اور حرارت سے فسردہ یعنی خالی ہے اگر اس سرد خانہ میں کوئی گرمی کا سامان ہے تو تو انسان کی خودی کی۔
نگاہ شوق پیدا کن تماشا کن تماشا کن
دو عالم جلوہ است و بی بصر دشواری می بیند
بیدل
بیدل کے مطابق نگاہ شوق کے بغیر تجلی کو زیر دام نہیں لایاجاسکتا۔ وہ موج کی طرح سراسییمگی اور ہرزہ سرائی پسند نہیں کرتا بلکہ وہ گرداب کا تحرک اور کشش چاہتا ہے۔
مباش ہمچو گہر مردہ ریگ این دریا
نظر بلند کن و ہمت حباب طلب
بیدل موتی کو ریگ مردہ کہتا ہے اور متحرک حباب کو نظر بلند کا استعارہ قرار دیتا ہے کیونکہ حباب دریا کے اوپر اوپر تیرتی ہے۔ اور دریائی زندگی کا مشاہدہ کرتی ہے۔
بحر طوفان جوشی و پرواز شوخی موج تست
ماندہ افسردہ و لب خشک چون ساحل چرا
بیدل ساحل کو لب خشک کہتا ہے اور افسردگی کی علامت قرار دیتا ہے اور موج کو زندگی کے ٹموج کے مترادف سمجھتا ہے ۔یاد رہے بیدل حرکی نظریہ المبردار تھا۔ اسکے شاعری عزم و ولولہ اور عالی ہمتی اور جوانمردی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بیدل ایسی عاجزی جو انسان کو پستی کی طرف لے جاتی ہے کو ذلت سمجھتا ہے ۔اور صبر کو نار ۔ رسائی ۔۔غننچہ کو کنجوسی اور تنگدامنی کی علامت کہتا ہے۔
صبر اگر باشد دلیل نارسایہای جہد
تابہ مقصد چون ثمر بی رنج پایی می رسی
صبر جہد کی نارسائی کی دلیل ہے جب پھل کچا ہوتا تو صبر سے اسکے پکنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔
بے خون شدن سراغ دلت سخت مشکل است
انگور می نگشتہ بہ مینا نمی رسد
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
اقبال
سبکتاز است عمر ای دیده ترک سر گرانی کن
نگه را اندکی روشن سواد جلوه خوانی کن
بیدل
اے آنکھ عمر بڑی کم فرصت ہے اب غفلت سے اس فرصت کو غارت نہ کر نگاہ کو تھوڑا روشن کر اور اندھیروں میں جلوہ خوانی کر۔
درون بیضه جز افسردگی دیگر چه می باشد
چمنها وقف پرواز است سعی پر فشانی کن
بیدل
اے طائر بیضہ،بیضہ کے اندر افسردگی کے سوا کچھ نہیں تیری پرواز کے لئے چمن وقف کئے جاچکے ہیں اس لئے سعی پر فشانی کر
رنگہا در پردۂ تحریک مژگان خفتہ است
ہر چہ می خواہد دلت زین خامہ بہزاد ریز
نئے نئے رنگ مژگانوںوں کے پردہ کی جنبش میں سوئے ہیں جس کو کام میں لاکر بہزاد و مانی کی دنیائے ہنر کی سیر ممکن ہے۔
در ہستی و عدم ہمہ جا سعی مطلبی است
از تیشہ زیر خاک تلاش ثمر نرفت
نہ صرف ہستی و عدم میں بھی روح انسانی کی سعی و کاوش جاری رہتی یے بلکہ سعی کا تیشہ عدم میں بھی تلاش ثمر نہیں چھوڑتا.
عزم چون افتاد صادق راہ مقصد بستہ نیست
اشک در بیدست و پاییہا بہ سر غلطیدہ رفت
عزم صادق کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی آنسو ہاتھ پاوں اور حرکت سے محروم ہوتا ہے لیکن عزم راسخ سے سر کے بل چلتا ہے۔
فسردن گر ہمہ گوہر بود بی آبرو باشد
بکن جہد آن قدر کز خاک برداری توکل را
اگر افسردگی موتی ہو تو بھی بے آبرو ہے کوشش کرکے توکل کو خاک نشینی سے نکال کر بلند مقاصد کا راستہ دکھایا جاسکتا ہے
اگر از دیر وارستیم شوق کعبہ پیش آمد
تگ و پوی نفس یارب کجا ہا می برد مارا
زندگی تگا پوئے نفس کا دوسرا نام ہے جو کسی بھی منزل سے مطمئن نہیں ہوتی اگر دیر سے پیچھا چھڑائے تو کعبہ سامنے آجاتا ہے۔ زندگی انسان کو خوب سے خوب تر کی تلاش میں مشغول رکھتی ہے
نُہ فلک آغوش شوق انتظار آمادہ است
کای نہال باغ بیرنگی ز آب و گل برا
نو آسمان اپنی آغوش کو شوق انتظار سے آمادہ کئے ہیں اے باغ بیرنگی یعنی لاہوت کے نہال تو آب و گل سے دل چھڑا کر باہر آجا
بہ قدر سعی دراز است راہ مقصد ما
وگرنہ در قدم عجز منزل افتاد است
بیدل کے نزدیک عجز ۔۔درماندگی اور پاشکستگی ہے
ز خود برا تا رسد کمندت بہ کنگر قصر بی نیازی
بہ نرد بانہای چین دامن کسی رہ آسمان نگیرد
اہنے آپ سے باہر آ یعنی نفس کے بہکاوے اور خواہش کے غلبہ سے بچ کر قصر بے نیازی یعنی الوہیت تک پہنچ آرام طلب لوگ یا چین دامن یعنی سلوٹوں کی فرضی سیڑھیان چڑھنے والے لوگ کبھی آسمانوں کا راستہ نہیں پاسکتے
طاؤس از پیکر حیرت چمن این طاوس
نشکست پری کہ رنگ آیینہ نبست
یعنی فطرت آدمی کی نیرنگیوں کا حال ایسا ہے کہ جیسے طاؤس کے رنگوں سے ایک حیرت کا چمن کھلا ہوا ہو ااور اس کے پیکر کوئی پر ایسا نہیں ٹوٹتا جو آپ اپنی جگہ آئینے کی طرح ایک جہان تماشا اور عالم حیرت کا حامل نہیں بن جاتا
صد گل بہار دارد این غنچہ در شکستی
صحبت ازین گریبان یک چاک اگر بر آید
اگر چاک گریبانی کے مرحلہ سے گذر جائے تو یہ غنچہ شکستہ ہوتو تو سو گل بہار بننے کی قدرت رکھتا ہے۔
نہ بچا بچا کے تو رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
اقبال
مرغ لاہوتی چہ محبوس طبائر ماندی ای
شاہباز قدسی و بر جیفہ ای مائل چرا
بیدل
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی
اقبال