آئینہ :
آئینہ بیدل کا معروف استعارہ ہے بنیادی طور پر بیدل اسے تحیر یا حیرت کی کیفیت کے اظہار کے لئے استعمال کرتے ہیں بیدل کے یہاں نیچے دیے گئے اشعار میں آئینہ ،شعری تلازمہ ہے لیکن ہر شعر میں معنویت کا جداگانہ عالم ہے اسی لئے بیدل کو ابوالمعانی کہا جاتا ہے۔ بیدل نے آئینہ پر بہت اشعار کہے ہیں۔۔ چند مثالیں
مثال۱
بیدل سخنت نیست جز انشا تحیر
کو آیینه تا صفحهٔ دیوان تو باشد
بیدل تیری شاعری، تحیر کاری کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کوئی ایسا آئینہ نہیں جو تیری شاعری کے صفحہ جیسا ہو۔
مثال ۲
آن بہ کہ برق غیرت بنیادِ ما بسوزد
آئینہ ایم و مارا تاب نظر نباشد
یہی بہتر ہے کہ غیرت کی بجلی میری بنیاد کو جلا کر خاکستر کر ڈالے میں آئینہ ہوں اور مجھ میں تاب نظر نہیں۔
اسی خیال کو غالب نے یوں پیش کیا ہے
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتہ،
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا
غالب
مثال ۳
ای بسا آئینہ کز درو تغافل ہائے حسن
ریشہ داری از زمین یاس سر بالا نکرد
آئینے میں استعداد موجود ہےلیکن اگر حسن ہی تغافل کرے تو کوئی صورت نہیں کہ اس کی استعداد ظاہر ہوسکے۔
مثال ۴
درین محنت سرا آئینۂ اشک پریشانم
کہ در بی دست و پائی مرا باید دوید اینجا
اس محنت سرا میں میں اشک پریشاں کا آیینہ ہوں بے دست و پا ہونے کے باوجود مجھے دوڑنا ہوگا۔
مثال ۵
وحدت سرای دل نشود جلوہ گاہ غیر
عکس است تہمتے کہ بر آئینہ بستہ اند
دل کی وحدت سرا میں غیر کی جلوہ گاہ نہیں آئینے پر عکس کی تہمت لگی ہوئی ہے۔
یعنی ہر طرف اسی کی تجلی ہے۔
مثال ۶
بسکہ دارد ناتوانی نبض احوال مرا
بازگشتن نیست از آئینہ تمثال مرا
میری نبض احوال میں اس قدر ضعف و ناتوانی ہے کہ آئینہ سے میرے عکس کی واپسی کی امید نہیں۔
نہایت لطیف خیال ہے
مثال ۷
شد حاجتِ ما پردہ براندازِ عنایت
سائل ہمہ جا آئینہ از رازِ کریم است
ہماری حاجت، کریم کی عنایت سے پردہ سرکانے والی ہے کیونکہ جہاں بھی سائل ہوتا ہے وہ کریم کے راز کا آئینہ ہوتا ہے۔یعنی ظا ہر کرنے والا یا عکاس
مثال ۸
بیدل اندر جلوہ گاہ حسن طاقت سوز او
جوہرِ حیرتِ زبانِ عذر خواہ آئینہ را
محبوب کے حسنِ طاقت سوز کے جلوے میں جوہرِ حیرت آئینہ کے لئے ایک عذر خواہ زبان ہوگئی۔
مثال ۹
تفاوت در نقاب و حسن جز نامی نمی باشد
خوشا آئینۂ صافی کہ لیلیٰ دہد محمل را
حسن اور پردہ میں برائے نام فرق ہے لیلی کے جلوہ نے، محمل کو کیا خوب آئینہ صافی تھمایا ہے۔ یعنی محمل میں لیلی اس طرح موجود ہے اور جسطرح آئینہ میں عکس۔محمل پردہ تھا لیکن لیلیٰ کی موجودگی نے اسے آئینہ بنادیا۔
سر سوزن :
ما عاجزان ز کوی تو دیگر کجا رویم
در پای رشتهها سرِ سوزن شکستهاند
ہیدل
ہم عاجز تیرا کوچہ چھوڑ کر کہاں جائیں گے۔ رشتوں کے پاؤں میں سوئی کی نوکیں ٹوٹ گئی ہیں
یعنی کانٹے ٹوٹ گئے ہیں ظاہر پے پاؤں میں کانٹے ٹوٹ جائیں تو چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔
حباب:
درین دریا کہ عریانیست یکسر ساز امواجش
حباب ما بہ پیراہن رسید از چشم پوشیدن
زندگی کے دریا میں موجیں برہنہ ہو کر ظاہر ہورہی ہیں
میری حباب، آنکھیں بند کرکے یعنی ہستی مٹاکر دوبارہ اصلی وجود یعنی سمندر تک پہنچ گئی ۔
در طلب گاہ دل چون موج و حباب
منزل و جادہ ہر دو را سفر است
دل کی طلب گاہ میں منزل اور جادہ دونوں موج و حباب کی طرح ابدی سفر میں ہیں۔
آبلہ
بر ہمیں آبلہ ختم است رہ کعبہ و دیر
کاش می کرد کسے سیر مقام دل ما
بیدل
اسی ایک آبلہ یعنی دل پر دیر و کعبہ کا راستہ ختم ہوجاتا ہے کاش کوئی ہمارے دل کے مقام کی سیر کرتا۔
میر نے بتے دھڑک یہی خیال اپنے نام کر لیا
دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا
ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا
میر تقی میر
ہر گل کہ دیدم آبلہ خون چکیدہ بود
یا رب چه خار در دلِ گلشن شکستہ اند
ہر پھول کو میں نے خون ٹپکاتا ہوا آبلہ دیکھا
یارب اس گلشن دنیا کے دل میں کیسا کانٹا چبھا ہے؟
مینا:
جلوہ از شوخی نقاب حیرتے افگندہ است
رنگ صہبا در نظر ہا کار مینا می کرد
نقاب کی شوخی سے جلوہ حیرت میں پڑگیا ہے،شراب کا رنگ ہماری نظر میں مینا کا کام کرتا ہے۔
نزاکت ہا ست در آغوش مینا خانۂ حیرت
مژہ برہم مزن تا تشنگی رنگِ تماشا را
حیرت کے شیش محل میں بڑی نزاکتیں ہیں پلکیں مت جھپک۔۔۔۔ اسطرح اندیشہ ہے کہیں یہ رنگ تماشا ختم نہ ہوجائے۔
مطلب دنیا کی نیرنگیاں اس قدر دل چسپ ہیں کہ آنکھ جھپکنا بھی لطف نظارہ میں مخل ہوتا ہے۔
وحشت:
عالمی را وحشت ما چون سحر آوارہ کرد
چین فروشِ دامن صحرائے امکانیم ما
دنیا کو ہماری وحشت نے (سحر) صبح کی طرح آوارہ کردیا اور دامن صحرائے امکان کو ہم نے کشادہ کردیا۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
غالب
غبار:
بہ فسردنم ہمہ تن الم ،بہ تردد آبلہ در قدم
چون غبار داغ نشستنم چو سرشک ننگ روانیم
فسردگی کے لحاظ سے یکسر درد و الم ہوں اور چلنے میں بالکل آبلہ پا ہوں اس لئے کیا میرا بیٹھنا اور کیا میرا چلنا یعنی اگر بیٹھوں تو غبار ہوں چلوں تو آنسو
کہنے کا مطلب غبار کی طرح بیٹھنا دراصل بیٹھنے کی توہین ہے اور آنسو جو سست رفتار ہوتا ہے اسکی طرح چلنا رفتار کے باعث عار ہے۔
آن شوقم کہ خود را در غبار خویش می جویم
رہے در جیب منزل کردہ ام ایجاد و می پویم
بیدل
میں وہ شوق ہوں اپنے ہی غبار میں ڈھونڈ رہا ہوں ،اپنے گریبان میں ایک راستہ ایجاد کیا ہے اسی پہ چل رہا ہوں۔
گریبان:
ہر صبح چاک پیراہن تازہ می کند
یارب بدست کیست گریبان آفتاب
ہر صبح نئے سے سے اپنا گریبان چاک کرتا ہے۔ اے خدا اس خورشید کا گریبان کس کے ہاتھ میں ہے
آتا ہے صبح اٹھ کر تیری برابری کو
کیا دن لگے ہے دیکھو خورشید خاوری کو
خان آرزو
در عبارت است یکسر عرض ترکیب سجود
تا درین صورت دمی سوئے گریبان خم شوند
عبادت میں ترکیب سجود کا مقصد یہ ہے لوگ اس طرح اپنے گریبانوں میں جھانک لیں
خاموشی:
تا خموشی نگزینی حق و باطل باقی است
رشتہ را کہ جمع نسازد دوسرا است
جب تک خاموشی نہیں اختیار کرتا حق و باطل کی بحث باقی رہے گی، دھاگے کو جب تک گانٹھ نہیں دی جاتی اسکے دوسرے رہتے ہیں۔
نالہ ہا در شکن دام خموشی داریم
خفتہ پرواز در آغوش شکستِ پر ما
ہمارے نالے خاموشی کے دام کی شکنوں میں پڑے ہوئے ہیں ہماری پرواز ہمارے ٹوٹے ہوئے پروں میں خوابیدہ ہے
رنگ:
بیدل مباش غرۂ سامان اعتبار
ہر چند رنگ بال ندارد پرندہ است
بیدل دنیا کے ساز و سامان سے دھوکہ نہ کھا نا، اگر چہ رنگ کے بال و پر نہیں لیکن رنگ پرندہ ہے۔
ہر کجا نکہت گل پیرہن رنگ درید
نییست پوشیدہ کہ از خود سفری می خواہد
بقول نیاز فتحپوری
پھول کو پیراہن رنگ کہنا اور نکہت کو گل کی جامہ دری حسن تعبیر کی وہ حد جہاں نظیری کی رسائی ہے نہ حافظ کی اور از خود سفری می خواہد تو وہ انداز بیان ہے جسے بہت سے مغربی بھی ناواقف ہیں۔
بنیاد اظهار بر رنگ چیدیم
خود را به هر رنگکردیم رسوا
بیدل
ہم نے اپنے اظہار کی بنیاد رنگ پر رکھی اور ہر رنگ میں خود کو رسوا کیا
پر فشانی / بال وپر/ بال:
درین گلشن چو گل یک پر زدن رخصت نمی باشد
مگر از رنگ یابی نسخۂ بال افشانی مارا
اس باغ عالم میں پھول کی طرح پر مارنے کی بھی فرصت نہیں بس ہمارے رنگ اڑنے کو ہی ہماری پر افشانی کہہ لو۔ رنگ اڑنے کی رعایت سے پرفشانی استعمال کیا ہے کیا کہنے
بر پر افشانی نہ تنہا تنگی می کند
بال و پر ہم بر ہجوم بیضہ خواہد تنگ شد
یہ کنج قفس انڈے کی طرح تنگ پیرہن ہے اس کی پرافشانی کی راہ میں یہی لباس رکاٹ بنا ہوا ہے۔
اس لئے کنج قفس سے نئی زندگی پاکر رہانی ہونے کی کوشش کر رہا ہے ۔
بیضہ آسا تنگ پیراہن ہے یہ کنج قفس
از سر نو زندگی ہو گر رہا ہو جائیے
غالب
درین گلشن چو گل یک پر زدن رخصت نمی باشد
مگر از رنگ یابی نسخۂ بال افشانی مارا
اس باغ عالم میں پھول کی طرح پر مارنے کی بھی فرصت نہیں ۔ بس ہمارے رنگ اڑنے کو ہی ہماری پر افشانی کہہ لو۔ رنگ اڑنے کی رعایت سے پرفشانی استعمال کیا ہے کیا کہنے۔
بیدل از بال و پرے بستہ نیاید پرواز
غنچہ تا وا نشود جلوہ نہ بخشد بو را
بیدل بال و پر ہی پرواز کے لئے کچھ شرط نہیں۔
غنچہ کب وا ہوتا اگر خوشبو کی جلوہ سامانی نہ ہوتی۔
گر همه رنگیست موقوف بهار جلوه ایست
ور همه بوئیست بی گل بال شوخی وا نکرد
اگر کوئی سراپا رنگ ہی کیوں نہ ہو اسکا جلوہ پھر بھی بہار پر ہی موقوف ہے. اور اگر کوئی سراپا خوشبو ہی کیوں نہ ہو تو بھی اسکی شوخی کے پر، پھول کے بغیر وا نہیں ہو سکتے..
ایک دوسرے شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ آئینہ سے اگر حسن تغافل کرے تو کوئی نقش اس کے اندر ابھر نہیں سکتا اسی طرح اگر بادل نہ برسے تو ایک بھی بیج کے شجر ہونے کی استعداد کو بروئے کار نہیں لا سکتا..
مطلب یہ ہے کہ استعداد کے ساتھ مناسب اسباب کے بغیر جوہر کا ظہور ممکن نہیں
ساحل:
از تلاش عافیت گذر در دریائے عشق
ہر کجا بیدست و پائی جلوہ گر شد ساحل است
دریائے عشق میں عافیت کی تلاش نہ کر ہر کجا جہاں بے دست و پائی ہوتی ہے وہیں ساحل جلوہ گر ہوتا ہے۔
اصفر گونڈوی کا مشہور ترین بھی بیدل کے شعر کا چربہ ہے ۔ اردو میں حقیقی اور سچی شاعری بہت کم ہوئی اس کی وجہ یہی ہے اردو شعرا کے سامنے جو معیار اور مخرج یا منبع فارسی شاعری کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا اس لئے میر غالب اور کہیں کہیں اقبال بھی انہی کی خوشہ چینی کرتے رہے اقبال قدرے وسیع المطالعہ تھے اس لئے انہوں مغربی سے سوفسطائیت کے بیج اردو میں بودیے۔ خودی اور شاہین وغیرہ بدنام ےرین مستعبدوں کی یادگاریں ہیں۔
یہاں کوتاہئی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
اصغر گونڈوی
ساحل کہ اصل طینتش از جوش تشنگی است
دریاست در کنار و کبش تر نمی شود
ساحل کی سرشت میں فقط جوشِ تشنگی ہے وہ دریا کے اور اس کی لہروں کی آویزش میں رہتے ہوئے بھی وہ کبھی تر ہونہیں سکتا۔
نمک:
بحرف آمدی و زخم کهنه ام نو شد
بحیرتم چہ نمک بود گفت گوئے ترا
تونے بات شروع کی، کہ میرا پرانا زخم ہرا ہوگیا .حیران ہوں تیری بات میں کسقدر نمک بھرا ہوا ہے۔ نمک کلام کی تاثیر کا استعارہ ہے
ناخن:
از کف بی مائگان، کار کشائی مخواہ
دست چو کو تہ شود، ناخن پا می شود
بے مایہ لوگوں کی ہتھیلی سےکسی کی حاجت روائی نہیں ہوسکتی ہاتھ جب چھوٹا ہوجاتا ہے تو وہ ناخن کا پاوں ہوجاتا ہے، ناخن کے پاوں سے عقدہ کشائی ممکن نہیں۔ ناخن پا بے مائگی کا زبردست استعارہ ہے.
موج نفس:
بہ معنی محیط و بہ صورت نمی
ز موجِ نفس، در قفس عالمى
انسان حقیقت میں (روحانی طور پر ) سمندر ہے اور ظاہری طور پر ایک قطرہ ہے۔ سانس کی لہروں سے اس کے کالبد میں ایک جہان متلاطم و موجزن ہے۔ موج نفس زندگی کے تموج اور تحرک کا زبردست استعارہ ہے.
حنائے قناعت:
دنیا اگر دہند نہ جنبم زجائے خویش
من بستہ ام حنائے قناعت بپائے خویشتن
اگر مجھے دنیا بھی دیں تو بھی میں اپنی جگہ سے متزلل نہیں ہو سکتا، میں نے قناعت کی حنا اپنے پاؤں پر باندھی ہوئی ہے۔یعنی میں کسی کے پاس حاجت لے کر جا ہی نہیں جاسکتا۔ حنا بندی قناعت کا استعارہ ہے۔
ایجاد گندم :
ہر کجا باشد قناعت آبیار اتفاق
پہلوی از نان تہی، ایجاد گندم می کند
قناعت اتفاق کی آبیاری کرتی ہے جو پہلو روٹی سے خالی ہوتا ہے وہی گندم اگاتا ہے۔ یعنی ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔
عنان:
دلِ آسودۂ ما شور امکان در نفس دارد
گہر دزدیدہ است این جا موج عنانِ دریا را
ہمارا دلِ آسودہ شور کائنات کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔جیسے گوہر کے اندر دریا کی موج کھینچ لی گئی ہے۔ یعنی روک لی گئی ہے اور اسکی رفتار و روانی بند ہونے اس نے موتی کی شکل اختیار کر لی ہے یہی کیفیت ہمارے دل مطمئن کی ہے ۔ موتی، دل آسودہ کا استعارہ ہے۔
عصا:
چون یقین منخرف افتاد دلائل بالید
راستی رفت که ممنون عصایم کرد
جہاں دلائل زیادہ ہوں وہاں یقین منحرف ہوچکا ہوتا ہے۔لاٹھی، دلیل بازی و حجت آرائی کا نادر استعارہ ہے بینائی و راستی کا جانا لاٹھی کے سہارے کا محتاج کرتا ہے۔
از رہ تقلید نتوان صاحب معنی شدن
ژالہ پیش از یک دو دم بر خود نچیند گوہری
کسی شاعرکی پیروی کرکے کوئی شاعر صاحب معنی نہیں بن سکتا اولہ موتی کی نقالی ایک دو لمحے سے زیادہ نہیں کرسکتا اولہ ظالم کا استعارہ ہے جو دوسرے کو بردباد کرکے خود بھی تباہ ہوجاتا ہے
تا خموشی داشتیم آفاق بی تشویش بود
موج این بحر از زبان ما طلاطم کردہ است
جب تک ہم خاموش تھے تو بے فکر بیٹھے ہوئے تھے اس سمندر کی موج نےمیری زبان کے ہلنے سے ہلچل مچادی ہے۔ تکلم انتشار کا استعارہ ہے۔
خندہ گل:
تبسم کہ بہ خون بہار تیغ کشد
کہ خندہ بر لبِ گلِ نیم بسمل افتادہ است
تبسم ایک قاتل ہے اس نے بہار ریزی کے لئے تلوار کھینچی اس نے خندۂ گل پر وار کیا اور وہ نیم بسمل ہو کر رہ گیا
خندہ گل تبسم کا استعارہ ہے۔
دام :
مقیدان تواز لذت گرفتاری
زچشم خویش چو نظارہ دام بر دوشند
تیرے پابند نظر لوگوں کی لذت گرفتاری دیکھئے کہ نظارہ کی طرح یہ اپنی آنکھ کا جال لئے پھر رہا ہے، یہاں تشبیہاتی نظام نہیات لطیف ہے ۔ دام ںظارہ کا استعارہ ہے
گم شدن:
سراپا محو شو تا جملہ آگاہی شوی بیدل
بقدر گم شدن ہا ہر کس این جا رہنما دارد
پورے انہماک کی ضرورت ہے۔ تا کہ پوری آگہی میسر ہوجائے جسقدر فکر گہراہوگی ۔ اسی قدر رہنمائی بھی کرے گی۔ گم شدن انہماک کا استعارہ ہے
زبان :
تاخموشی داشتیم آفاق بی تشویش بود
موج این بحر از زبان ما تلاطم کردہ است
جب تک خاموشی چھائی ہوئی تھی ہر چیز بے خلل تھی زندگی کے سمندر میں لہریں انسان کی زبان کے ہلنے سے پیدا ہوگئیں۔زبان موجوں کا استعارہ ہے ۔ خاموشی، آسودگی وسکون اور تلاطم، پریشانی کا استعارہ ہے۔