طرز بیدل میں ریختہ کہنا۔
اسد اللہ خاں قیامت ہے
غالب
اردو ادب کے عظیم شاعر غالب نے طرزبیدل کا جن الفاظ میں ذکر کیا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے ہوئے نہیں ۔غالب جیسا نابغہ،عرصہ دراز تک، بیدل کے سحر سے باہر نہیں نکل سکا تھا۔ وہ بیدل کے کلام جسے حیرت زار بھی کہاجا جاتا ہے نےغالب کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ غالب اپنے پیش رو بیدل سے سخت متاثر ہوئے۔ غالب نے کہا تھا : گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل دراصل انکا یہ کہنا بھی مغل عہد کے آخری دور کے شعرا جنہیں سبک ہندی کے ائمہ سمجھا جاتا ہے کا تتبع یا پیروی ہے۔ یہی نہیں بلکہ نے بیدل کے سینکڑوں مضامین بھی مستعار لئے ہیں کہیں کہیں توانہیں من و عن پیش کردیا ہے اور کہیں بیدل کے خیال کو منقلب کر کے پیش کیا ہے اساتذہ کے یہاں اس قسم کے اخذ و عطا کا سلسلہ روا تھا میں غالب کے اس عمل کو سرقہ یاتضمین نہیں کہتا کیونکہ اس فعل شنیع کے مرتکب چھوٹے شعرا ہوتے ہیں بڑے شاعر تو ڈاکہ ڈالتے ہیں اور وہ بھی دن دہاڑے۔
وہ دوسرے شعرا کی زمینیں ہڑپ کرلیتے ہیں اور اقلیم خیال میں تصرف کرکے یا بصورت دیگر قبضہ کر لیتے ہیں اور اپنے مخصوص انداز سے مستعار کلام کو رتبۂ اعتبار بلکہ پہلے سے ذیادہ معتبر بنادیتے ہیں ۔ غالب کی اس ڈکیٹی کی کو ان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
عنقا متقدمین نے موہوم پرندے کا ذکر کیا ہے بیدل نے اسے اپنے خیال کی بلندی کے اظہار کے لئے استعمال کیا تھا
در جستجوئے ما نہ کشی زحمتِ سراغ
جائے رسیدہ ایم کہ عنقا نمی رسد
بیدل
آگہی دامِشنیدن جسقدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
غالب
مطلبم از مے پرستی تر دماغیہا نہ بود
یک دو ساغر آب دارد گریۂ مستانہ را
بیدل
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے
غالب
تاکہ زخلق پردہ برد افگنی چوخضر
مُردن بہ از خجالت بسیار زیستن
بیدل
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں رو شناسِ خَلق
نہ تم کہ چور بنے عمرِجاوداں کے لئے
بیدل
ایسے اشعار جن میں غالب نے بیدل کا مضمون لے کر اپنے طرز کا ٹھپّالگا دیا ہے کی مثالوں اور بھی بہت ہیں ۔ یہاں مزید کچھ مثالیں ایسے اشعار کی پیش کرتا ہوں جن غالب نے بیدل کے خیال کو رد و بدل کر کے پیش کیا ہے۔ اور بیدل کے خیال کو وسعت اور بلندی عطاکی ہے یا پھر بیدل کے خیال سے ٹکرؤ کی صورت میں دوسرا نفیس خیال پیدا کیا ہے۔
گُلها به خنده هرزه گریبان دریدهاند
من حرفی از لبِ تو به گلشن نگفتهام
بیدل
کیا بیہودگی ہے کہ پھولوں نے ہنسی میں اپنے گریباں پھاڑ ڈالے
میں نے تو چمن میں اپنے ہونٹوں سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا ۔
یہ پورا خیال غالب نے اردوی قالب میں یوں ڈھالا ہے۔
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستان کھل گیا
بُلبُلیں سن کر میرے نالے غزل خواں ہو گئیں
غالب
پر طاؤس تاکی بالشِ راحت بگل گیرد
خیال افسانۂ خوابت نمی آید بکار امشب
بیدل
تھا خواب میں کیا جلوہ پرستارِ زلیخا؟
ہے بالشِ دل سوختگاں میں پرِ طاؤس
غالب
اگر از دہر وارستیم شوق کعبہ پیش آمد
تگ و پوی نفس یا رب کجا ہا میبرد مارا
بیدل
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
غالب
مدعا دل بود اگر نیرنگ امکان ریختند
بہر این یک قطرۂ خون رنگ طوفان ریختند
بیدل
حسن کا گنج گرانمایہ تجھے مل جاتا
تونے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل
غالب
چہ خوش است اگر بوَد آنقدر ہوسِ بلندئِ منظرت
کہ برآن چوں قدم نہی خم گردشے نخورت سر
سر خوردن چکرانا۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے مکاں اپنا
غالب
یہاں بلندی۔۔منظر ۔۔۔مکاں حروف بھی بیدل سے مستعار ہیں ثابت یہ ہوتا ہے غالب نے اپنی شاعری کا وافر حصہ بیدل کی شاعری کو ذہن میں اور اپنے سامنے رکھ کر کہا ہے۔ غالب کی شاعری میں بیدل کے نقوش جا بجا ملتے ہیں۔
تا کے ز خلق پردہ برو افگنی چو خضر
مُردن بہ از خجالتِ بسیار زیستن
بیدل
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے
غالب
زهد و تقوا همخوش است اما تکلف بر طرف
درد دل را بندهام دردسری در کار نیست.
بیدل
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
هر چند دستگاه بود پیش حرص بیش
از موجبحر تشنه لبی می کشد زبان
بیدل
ہوا وصال میں شوقِ دلِ حریص زیادہ
لبِ قدح پہکفِ بادہ جوشِ تشنہ لبی ہے
غالب
غنچہ گر دیدم ق گلشن در گریباں ریختم
عشرتِ سر بستہ از دلہای خونین بودہ است
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
غالب
چو سیل بیخودانہ سوئی بحر میرویم
آگہ نہ ایم دست کہ دارد عنان ما
غالب نے یہی خیال یوں پیش کیا ہے
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
غالب
سیر ایں گلشن غنیمت دان کہ فرصت بیش نیست
در طلسم خندۂ گل بال و پر دارد بہار
اس گلشن کی سیر کے لئے جتنا بھی وقت ملے اسے غنیمت سمجھنا چاہئے، کیونکہ خنددۂ کے طلسم میں بہار کے پر ہیں ۔ یعنی بہار جلد ہی رخصت ہوجاتی ہے
وقت کم ہے سیر گلشن کو غنیمت جانئے
خندۂ گل موسم گل کا پر پرواز ہے
غالب
عالمی را وحشت ما چون سحر آوارہ کرد
چین فروش دامن صحرائے امکانیم ما
بیدل
دنیا کو ہماری وحشت نے سحر کی طرح آوارہ کردیا ہے۔ ہم نے دامن صحرا کو کشادہ کیا۔
غالب نے ہوبہو اسی خیال کو یوں باندھا ہے
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
غالب
سر بازئ عشاق بہ بزم تو تماشا است
ہر چند نہ باشد بمیان پائے تغافل
بیدل
ہم نے ماناکہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
غالب
غریق بحر ز فکر حباب مستغنی است
رسیدہ ایم بجائے کہ بیدل آنجا نیست
بیدل
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں ہے
غالب
غزلیات کے علاوہ مثنویواں کی بحور سے لیکر کرافٹ تک غالب نے بیدل کا تتبع کیا۔ نیچے دیے اشعار کے تقابلی مطالعہ بیدل اور غالب میں مطابقت اور مسابقت کے بہت سے پہلو نمایاں ہوجاتے ہیں ۔
بیدل کی طور معرفت سے اشعار
طپش فرسود شوق نالۂ تمثال
زتحریک نفس وا می کند بال
طپش نے نالۂ تمثال کے شوق کی مالش کی
سانس کی تحریک سے اس کے بال و پر وا ہوگئے
کہ خاموشی نوا ساز است امروز
غبار سرمہ آواز است امروز
آج خاموشی نے صدا پیدا کی ہے اور غبار سرمہ آواز بن گئی ہے
بہر عضوم تبِ سودا شرر کاشت
زہر مویم دلی فریاد برداشت
میرے ہر عضو پر میرے سودا نے چنگاری کاشت کی میرے ہر بال سے دل نے فریاد سنی
کف ہر خار صد گلشن در آغوش
سرِ ہر خارش از سبزی بہشتی
ہر خار کی ہتھیلی سو چمن اپنی آغوش میں لئے ہے اور ہر کانٹے کی نوک سبز رنگ کی وجہہ سےرشک بہشت ہے۔ ہر کانٹا پہلے مرحلے میں سبز ہوتا ہے ور بہشت گل و گلزار اور سبزہ زار ۔لہذا بیدل نے وجہہ تشبیہ مرتب کی ہے
اگر چشم است بہ غیرش نظر نیست
وگر پا از خودش بیروں سفر نیست
آنکھ ہے تو غیر پر نظر نہیں پڑتی پاؤں ہیں تو اپنے وجود سے پاؤں باہر نہیں نکلتے۔
چون سیلابت شتاباں میتواں رفت
بیاباں در بیاباں میتواں رفت
سیلاب کی طرح جلدی جلدی جانا چاہئے، بیاباں بیاباں میں جانا چاہئے
غالب اپنی مثنوی کعبۂ ہندوستان جو انہوں نے بنارس میں قیام کے دوران لکھی تھی۔ بہت مشہور ہے مثنوی کی بحر اور اسلوب بالکل بیدل جیسا ہی ہے ۔زور بیاں میں بیدل کے پایہ کو پہنچتی ہے بعض اشعار
نفس با صور دمساز است امروز
خموشی محشر راز است امروز
آج سانس صور اسرافیل کے ساتھ ہم نوا ہے
اور خاموشی محشر کا راز ہو گئی ہے ۔
رگِ سنگم شراری می نویسم امروز
کف خاکم غباری می نویسم امروز
پتھر کی رگ سے شرارے لکھ رہا ہوں مشت خاکی سے غبار لکھ رہا ہوں ۔
کہیں کہیں تو غالب نے بیدل کے الفاظ اور تراکیب کو معمولی رد و بدل کے ساتھ جوں توں لکھ دیا ہے۔
من کفِ خاک او سپہرِ بلند
برد خاک بر سپہر کمند
غالب نے اسکا پہلا مصرع جوں کا توّ رہنے دیا ہے
غالب کا شعر
من کف خاک او سپہر بلند
خاک کے رسد بچرخ کمند
غالب
شادم کہ فطرتم نیست تریاکی تعین
وہمی کہ می فروشم بنگ است و گاہ گاہ است
میں خوش ہوں ہوں کہ بنگ کانشہ کو تریاق سمجھ کر اس کا عادی نہیں ہو ں بلکہ اسے کبھی کبھار کرلیتا ہوں
غالب نے اسی خیال کو یوں پیش کیا ہے
غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں
غالب
در جستجوئے ما نہ کشی سراغ
جائے رسیدہ ایم کہ عنقا نمی رسد
بیدل
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
غالب