برگساں کے مطابق حقیقت مسلسل پیش قدمی کرنیوالی تخلیقی حرکت کا نام ہے۔ حقیقت ایک مسلسل بہاو اور ایک مسلسل اور دائمی تکوین کا نام ہے اور
خارجی اشیا محض وہ خطوط شوق ہیں جو ہمارا ذہن اس بہاؤ کے اوپر کھینچ دیتا ہے دوسرے لفظوں میں اصل حقیقت حرکت ہے اور اشیا کی خارجی شکل ہمارے
ریاضیاتی ذہن کی اس پر لگائی ہوئی روک ہے۔ بیدل کا نظریہ برگسانی افکار میں کافی مطابقت ملتی ہے۔۔ اقبال کامضمون بیدل و برگساں بہت مشہور ہے اوربڑی اہمیت کا حامل ہے۔اقبال نے اپنے دوست بمل پرشاد شاد کو دیوان بیدل چھاپنے پر ابھارا اور تاکید کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے اقبال بیدل کا زبردست مداح تھا اقبال نے بیدل ان لائٹ آف برگسن مشہور مضمون لکھا ہے جسکے دیباچہ میںڈاکٹر تحسین فراقینے اقبال کے حوالہ سے لکھا ہے ۔ اقبال کہتے ہیں “میرا ماننا ہےہیگل گوئٹے ، مرزا غالب، عبدالقادر بیدل اور ورڈزورتھ سے میں نے اکتساب فیض کیا ہے پہلی اور دوسری شخصیت یعنی ہیگل اور گوئٹے نے مجھے دل دوروں کی طرف متوجہ کیا۔اور تیسری اور چوتھی شخصیت نے مشرقی فلسفہ کی جانب راغب کیا۔ اور اخری شخصیت یعنی ورڈزورتھ مجھے فطرت کے انکار سے بچایا”
بیدل، برگساں کی روشنی میں سے ماخوذ پیرا ۔ترجمہ
اقبال کہتے ہیں ” بیدل اور برگسان دونوں کے نزدیک حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ وجدان ہے جو فکر کی ایک عمیق ترین شکل ہے ” نیز بیدل ہمیں غیر حقیقی زمان کے تصور سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔
زموج پردہ بروے حباب نتواں بست
تو چشم بستہ اسے بے خبر نقاب کجاست
موج دریا کے چہرہ پر پردہ نہیں ڈال سکتی تونے اپنی آنکھ بند کر رکھی ہے
پردہ کہاں ہے۔
موج و کف مشکل کہ گردد محرم قعر محیط
عالمے بیتاب تحقیق است و استعداد نیست
موج اور جھاگ دریا کی گہرائی سے محرم نہیں ہوسکتی ایک دنیا تحقیق کے
درپے ہے لیکن اس میں صلاحیت موجود ہی نہیں، یعنی دنیا اس کی کن پانے سےعاجز ہے۔
دریں دریا کہ عریانیست یکسر ساز امواجش
حباب مابہ پیراہن رسیداز چشم پوشیدن
یہ دریا موجوں کے ساز سے عریاں ہے میرے حباب نے اپنی آنکھ بند کے لباس یعنی جسم حاصل کر لیا ہے۔
یک دو نفس خیال باز رشتہ شوق کن دراز
تاابداز ازل تباز ملک خدات زندگی
ایک دو پل خیال محو کر، شوق کے دھاگے کو لمبا کر، تاکہ تو ازل سے ابد تک ملک خدا میں پھیلے۔
حائے نیست بجولانگہ معنی، شدار
خواب پادر رہ ماسنگ نشاں می باشد”
اس شعر کی تشریح ڈاکٹر علامہ اقبال نے کچھ یوں کی ہے :
“In the race-course of Reality there is no obstruction; even the
benumbed foot (i.e. arrested motion) serves along this path as a
milestone”.
In this verse, Bedil employs the very metaphor (i.e. milestone) which
some of the Bergsonian writers have employed to illustrate their
meaning. The poet means to say that the heart of Reality is perpetual
movement; what appears to arrest or obstruct this motion serves only,
as milestone directing further movement.
BEDIL IN THE LIGHT OF BERGSON
(An unpublished article of Iqbal) Published by Dr. Tehsin Faroqi
گر تغافل می تراشد گاہ نیرنگ نگاہ
جلوہ را آءینہ ماسخت رسوا کردہ است”
“It is our mirror (i.e. intelligence) which tells scandulous tales
about the nature of Reality!
Now it reveals Reality as inattention (i.e. extension) now as vision”
اقبال نے برگساں کے نطریات کا پرتو بیدل کے اشعار میں بجا طور دیکھا ہے
اور اسکی اصطلاحوں (Pure Duration) اور (spatialised time. Real) کا بیدل کے شعروں سے جواز مہیا کیا ہے ۔ یہ مضمون مختصر مگر نہایت جامع اور از حد دلچسپ ہے۔
این جملہ دلائل کہ ز تحقیق تو گل کرد
در خانۂ خورشید چراغاں نجوم است
بیدل
اقبال کے مطابق بیدل ابن العربی سے متفق ہیں اس مقام پر اقبال بیدل سے الگ ہوجاتے ہیں اور ان کےتصوف میں
مانویت Manichaeanism فلسفۂ تنزلات نور مطلق کے دھندلانے یا مکدر ہوجانے کا نام ہے بیدل کے خیال میں خدا حرکت حیات سے مشخص ہے وہ الٰہ فی الزمان ہے گاڈ ان ٹائم (God in Time٘) کہتے ہیں ۔
بقول بیدل
بہ اثباتش جگر خوردم بہ نفی خود دل افشردم
زمعنی چون اثر بردم نہ او آمد نہ من رفتم
یعنی ایک عمر خدا کے اثبات اور خودی کی نفی میں خون جگر کھایا اورجب عالم من و تو میں وہ مقام آیا کہ معنی حق سے آگاہی حاصل ہوئی تو خداکے قدم خدائی نے روک لئے اور میری خودی نے مجھے آگے بڑھنے سے روک دیا۔اقبال نے اسی خیال کو یوں پیش کیا ہے۔
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
خرم آن جوی فرومایہ کہ از ذوقِ خودی
در دل خاک فرورفت و بہ دریا نرسید
بیدل
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی
اقبال
در فکر خودم معنی او چہرہ گشا شد
خورشید بروں ریختم از ذرہ شگافی
بیدل
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
اقبال
برون دل نتوان یافت ہر چہ خواہی
کدام گنج کہ در خانۂ خراب تو نیست
بیدل
حسن کا گنج فرومایہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل
اقبال
باہر کمال اندکی دیوانگی خوش است
گیرم کہ عقل کل شدہ ای بی جنون مباش
بیدل
لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اقبال
سیر چشمی ذرہ از مہر قناعت بودنست
پیش مردم اندکی در چشم خود بسیار باش
بیدل
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نی بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اقبال
در مزاج خلق بیکاری ہوس می پرورد
غافلان نام فضولی را تصوف کردہ اند
بیدل
شاہین جرات و ہمت اور غیرتمندی و جانبازی کا استعارہ ہے اقبال نے غلام قوم کو جگانے کے لئے استعمال کیا
پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا،
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
نہیں قصر سلطانی کے گنبد پر تیرا نشیمن
توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے درو دیوار ہلا دو
اقبال
بازار ظلم گرم است از پہلوی ضعیفان
آتش بہ عزم اقبال دارد شگون ز خسہا
بیدل
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوٰی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اقبال
جہد مردان دیگر است و سعی مردم دیگر است
لمۂ خورشید دیگر تاب انجم دیگر است
بیدل
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اقبال
در طلب باید گزشت از ہر چہ پیش آید بہ پیش
گر ہمہ سر منزل مقصود باشد جادہ است
بیدل
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
جد و جہد پر بیدل کے لازوال اشعار
بی خون شدن سراغ دلت سخت مشکل است
انگور می نگشتہ بہ مینا نمی رسد
بلندی ہا بہ پستی متہم شد از تن آسانی
بہ راحت گر نپردازد زمین ہم آسمان دارد
درا عالم میتوان از یک نگاہ گرم طی کردن
تگا پوی شرر نی جادہ میخواہد نہ فرسنگی
بیدل
عشق کی اک جست ہی نے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسمان کو بیکراں سمجھا تھا میں
اقبال
من نمی گویم زیان کن یا بہ فکر سود باش
ای ز فرصت بی خبر در چہ باشی زود باش
بیدل
گرم فغاں ہے جرس اٹھ کہ گیا قافلہ
وائے وہ رہرو کہ ہے منتظر راحلہ
اقبال
بر طبع ضعیفاں ز حوادث المی نیست
خاشاک کند کشتی خود موج خطر را
بیدل
سفینۂ برگ گل بنائے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزاروں موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا کے پار ہوگا
اقبال
در سواد فقرگم شو زنده جاوید باش
در همین خاک سیاه آب بقا پوشیدهاند
بیدل
مِرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر
اقبال
در قناعت ہمہ اسباب بہ زیر قدم است
مور این دشت نخواہد ز سلیمان مددی
بیدل
جب انسان قناعت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو مال و اسباب دنیا خود بخود
اس کے پاؤں کی ٹھوکر میں آجاتے ہیں۔ قناعت چیونٹی کو بھی وہ سیر چشمی عطا
کرتی ہے کہ وہ سیمان کی مدد سے بیاز ہوجاتی ہے۔
نگاہ فقر میں چان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے۔