’’یا اللہ…‘‘ اس کی چیخ بے ساختہ تھی۔
’’ہائے امی جی…‘‘ وہ زمین پر اپنا پائوں تھامے دہائیاں دے رہی تھی۔
خاور بھائی جو ابھی ادھر آئے تھے، وقار، آمنہ اور عمر کے ساتھ صحن میں بیٹھے تھے اس کی بے ساختہ چیخ اور دہائیاں سن کر وہ چاروں اوپر کو بھاگے تھے۔
’’یا اللہ…‘‘ تکلیف کی شدت سے وہ سخت کراہ رہی تھی۔
’’کیا… کیا ہوا؟‘‘ آمنہ نے فوراً بیٹھ کر اس کا کندھا تھاما۔
’’نظر نہیں آ رہا گر گئی ہوں… ہائے میرا پیر… ہائے امی جی…‘‘ عمر نے ایک گہرا سانس لیا جبکہ خاور بھائی اسے شدت سے کراہتے دیکھ کر پریشان ہو گئے۔
’’لگتا ہے کافی چوٹ آئی ہے۔‘‘ اس کے بازو اور کہنیاں بُری طرح چھل چکی تھیں۔ خون کی بوندیں سفید ہوقمیص پر فوراً نشان چھوڑ چکی تھیں۔
’’بلی کی طرح ادھر سے ادھر کودنے والی تمہاری عادت اسی طرح ہے۔ اسی طرح کسی دن ٹانگ تڑوا کر لولی لنگڑی ہو کر بیٹھو گی۔‘‘ عمر بھی کہے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ پہلے ہی درد سے بے حال ہو رہی تھا اسے خونخوار کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ آنسو بھری نگاہیں، ایک پل کو عمر سٹپٹایا تھا۔
’’آپ کو کیا تکلیف ہے، ٹانگ تڑوائوں یا بازو۔ میرے معاملے میں بولنے کی ضرورت نہیں، بڑے آئے کہیں کے۔ ہائے امی جی…‘‘ انتہائی غصے سے روتے اس نے جواب دینا بھی فرض سمجھا تھا۔
’’عمر بھائی سے کیوں خفا ہو رہی ہو، اُٹھو نیچے چلو۔ نیچے چل کر دیکھتے ہیں پائوں میں موچ آ گئی ہے، امی کو کہتی ہوں کچھ باندھ دیں گی۔‘‘ وہ پھسکڑا مارے چھت پر بیٹھی ہوئی تھی، دونوں سلیپر اِدھر سے اُدھر گرے ہوئے تھے۔ آمنہ کے سہارے سے اس نے اُٹھنے کی کوشش کی۔
’’دھیان سے اتنی اونچائی سے گری ہو، ہو سکتا ہے پائوں ٹوٹ نہ گیا ہو۔ کمزور سا پائوں یہ من بھر کا وزن بھلا کیسے سہار پائے گا۔‘‘ عمر نے پھر چھیڑا۔ اس کی بھیگی بھیگی پلکیں عجیب انداز میں اٹریکٹ کر رہی تھیں۔
’’آپ میرے معاملے میں مت بولیں۔‘‘ اس نے بدتمیزی سے کہا، وہ ہنس پڑا۔
’’بُری بات مریم! ایسے نہیں بولتے۔ عمر بھائی تم سے بڑے ہیں۔‘‘ وقار نے بھی اس کا بازو تھام کر کہا۔
’’بڑے ہیں تو بڑے بن کر رہیں۔ کسی دن میری زبان کھل گئی تو بہت پچھتائیں گے۔‘‘ وہ اسی شخص سے بچ کر نکلی تھی اور اب یہ مصیبت مول لے چکی تھی۔ عمر پر جتنا بھی غصہ کرتی کم تھا۔ وہ دونوں کے سہارے چلتی نیچے آئی تو امی اسے دیکھ کر چونکیں۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’یہ ساتھ والی دیوار سے گری ے۔ لگتا ہے پائوں ٹوٹ گیا ہے۔‘‘ عمر ہی بولا تھا۔
’’اللہ نہ کرے۔‘‘ اس نے ایک دم دہل کر کینہ توز نظروں سے عمر کو دیکھا۔
آمنہ اور امی اب تسلی سے اس کے پائوں کا جائزہ لے رہی تھیں، فوزیہ اس وقت گھر کے دوسری طرف بنی اکیڈمی میں ہوتی تھی ابو جی آفس میں۔ خاور بھائی وقار اور عمر ارد گرد کھڑے کوئی نہ کوئی لقمہ دے رہے تھے۔
’’ہزار مرتبہ کہا ہے کہ سیدھے رستے سے آیا جایا کرے، مگر میری یہاں سنتا کون ہے؟‘‘ سات آٹھ فٹ اونچی دیوار کودنے پھلانگنے کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘ امی اب خفا ہو رہی تھیں اور وہ آنسو بہا رہی تھی۔ پائوں کی تکلیف ایک دم بڑھ گئی تھی۔
’’کیا بہت زیادہ چوٹ لگی ہے؟‘‘ اس کے رونے سے ان کا دل پسیجا تو اس کا پائوں تھاما جو خاصا سوج گیا تھا۔
’’لگتا ہے ہڈی انجرڈ ہو گئی ہے، ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا۔‘‘ خاور بھائی بھی بولے تو اس کے رونے میں مزید اضافہ ہوا۔
’’اللہ خیر کرے، اس وقت اس کے ابو بھی گھر پر نہیں، واقعی کوئی ہڈی وڈی ٹوٹ گئی تو؟‘‘ وہ پریشانی سے گویا تھیں اور مریم بی بی پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو گئی تھیں۔ تکلیف سے زیادہ اب ہڈی ٹوٹ جانے کا خوف رُلا رہا تھا۔ عمر کا دل ایک دم پسیجا۔
اس کی آنکھوں کی نمی تو ویسے ہی برداشت نہیں ہو رہی تھی اب تو اور پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
’’چچی جان! ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں بائیک ہے میرے پاس۔‘‘ فوراً آفر کی اس نے تڑپ کر سر اُٹھایا۔
’’میں نہیں جا رہی کہیں… کسی بھی بائیک پر۔‘‘
’’تو تمہارے لیے کوہ قاف سے شاہی سواری منگوائیں۔‘‘ امی نے طنز سے گھورا۔
’’عمر تم بائیک نکالو، پائوں بہت سوج گیا ہے آمنہ کوئی کپڑا باندھ دو، اس پر اس لڑکی کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ بیٹھے بٹھائے مصیبت کھڑی کر دیتی ہے۔‘‘
’’اونٹنی جو ہوئی۔‘‘ عمر کے اس نے لمبے قد پر چوٹ کی۔ اس نے لب بھینچ لیے آمنہ نے بھاگ کر اندر سے لان کا دوپٹہ لا کر اس کے پائوں پر باندھا۔
’’آمنہ! میری چادر اور پرس لا دو۔ وقار سہارا دے کر باہر لائو اسے۔‘‘ امی نے گویا حکم جاری کیا تھا۔
’’میں نہیں جا رہی کسی بائیک پر۔‘‘ اس نے آنکھیں صاف کرتے انکار کیا تو عمر نے اسے دیکھا، وہ تکلیف کے باوجود خاصی سنجیدہ تھی۔
’’گاڑی گھر پر ہی ہے، میں لے چلتا ہوں، چچی جان!‘‘ خاور بھائی نے اس کے انکار پر فوراً کہا تو اس نے فوراً سر ہلایا۔ عمر کی نسبت گاڑی کا سفر آرم دہ تھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’میں گاڑی نکالتا ہوں آپ لے آئیں۔‘‘ خاور بھائی کہہ کر چلے گئے تو اس نے اپنی طرف خاموشی سے تکتے عمر کی جانب سے منہ موڑ لیا۔
’’میری چادر لا دو آمنہ!‘‘ امی نے اندر کی طرف منہ کر کے آمنہ کو کہا۔
خاور بھائی اسے حافظ آباد کے مشہور ہڈی جوڑ والے کے پاس لے کر آئے تھے۔ وہ جو سب کو ڈر تھا کہ پائوں کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اس سے خاصی بچت رہی تھی۔ ہڈی تو نہیں ٹوٹی تھی تاہم پائوں کی جلد اندر سے خاصی گہری پھٹ گئی تھی۔ ہڈی جو اسپیشلسٹ نے پائوں کا معائنہ کر کے تین چار جھٹکے دئیے تو اس کی چیخیں نکل گئیں۔ اس کے بعد پائوں پر لکڑی کی سلائٹزر (پھٹیاں) جوڑ کر اوپر پٹی باندھ کر دوائی دے کر چند دن بیڈ ریسٹ کی تاکید کے ساتھ رُخصت کر دیا تھا۔
آج کل مریم صاحبہ مکمل طور پر بیڈ ریسٹ پر تھیں۔
صبا اسی شام آ گئی تھی، ایک دو دن عیادت کرنے والے آتے رہے، آج اسے بستر پر دراز چوتھا دن تھا۔
وہ خاصی بیزار اور اُکتائی ہوئی تھی اس سزا سے۔ امی جی نے ٹی وی اس کے کمرے میں رکھوا دیا تھا۔ موبائل فون کے علاوہ اس کے بستر پر رسالوں میگزینز کا ایک ڈھیر لگ چکا تھا مگر آخر کب تک ان چیزوں سے جی بہلاتی۔ وہ بہت زیادہ اُکتا گئی تو صبا کو بلوا لیا۔ وہ اس دن سے کئی بار آ چکی تھی اور جب بھی آتی تھی ضرور چھیڑتی تھی۔ اب بھی اندر داخل ہوتے ہی وہ نان سٹاپ شروع ہو چکی تھی۔
’’اور عمر بھائی سے بچ کر بھاگتیں۔ لگتا ہے بڑے دل سے بددُعا دی تھی انہوں نے۔ جو ڈائریکٹ باریاب ٹھہری۔ اب وہ محترم جب بھی آئیں گے تمہارے دیدار کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ محترمہ سامنے ہی بستر پر دراز ملیں گی۔ پیاری آنکھیں دید سے سیراب ہوں گی۔‘‘
’’شٹ اپ!‘‘ اُس نے ہاتھ میں پکڑا رسالہ کھینچ مارا۔
’’ہائے ظالم مار ڈالا… یہ تو وہی بات ہوئی۔‘‘
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا
وہ آنکھوں میں بے پناہ شرارت لیے اس کے پاس ہی بستر پر ٹک گئی۔
’’ہم مابدولت کو کیوں بلوا لیا شہزادی صاحبہ نے۔‘‘
’’اگر تم نے یہ ساری بکواس کرنی ہے تو ایک منٹ میں دفع ہو جائو۔‘‘ اس نے انگلی اُٹھا کر وارن کیا۔
’’خوا مخواہ…‘‘ اس نے ہاتھ سے مکھی اُڑائی۔
’’اللہ تم جیسی ظالم دوست کسی دشمن کو بھی نہ دے۔ اتنا نہیں کہ میرے زخموں پر مرہم رکھو، اُلٹا نمک پاشی کرنے لگیں۔ میں ہی کم فہم تھی جو تمہیں اصل بات بتا دی۔ ایک وہ ردا صاحبہ ہیں جب بھی فون کرتی ہیں میرے کان کھا جاتی ہیں۔‘‘
’’ویسے ان تین چار دنوں میں کتنی دفعہ چکر لگا چکے ہیں تمہارے عزت مآب عمر صاحب!‘‘ وہ کہاں ہارنے والی تھی اس بکواس پر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا سوائے رسالوں اور میگزینز کے کوئی بھاری چیز نظر نہ آئی۔
’’اگر تم نے مزید اس شخص کا ذکر کیا تو میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی۔‘‘ انداز پھاڑ کھانے والا تھا۔
’’اللہ رحم کرے مجھ ناتواں پر… ویسے یہ تم عمر بھائی کے ذکر سے اتنا بدکنے کیوں لگتی ہو۔‘‘
وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی مریم نے آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔ صبا اس کے انداز پر ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔
’’اوکے یار! یہ صرف مذاق تھا، تمہیں تنگ کر رہی تھی یار! سمجھا کرو۔‘‘ اس نے ایک سنجیدہ سی نگاہ اس پر ڈالی۔
’’ویسے میرے پاس ایک بڑی فنٹاسٹک سی خبر ہے۔ اگر سنو تو تمہیں بھی ہزار والٹ کا جھٹکا لگے گا۔‘‘
’’کیسی خبر…؟‘‘
’’مجھے پتا چل گیا ہے کہ خاور بھائی کس لڑکی کو پسند کرتے تھے بلکہ ابھی بھی کرتے ہیں اور وہ کون ہستی ہیں جس کی وجہ سے ان کی مسلسل امی جی سے ناراضی چل رہی ہے۔‘‘ وہ مزے سے بتا رہی تھی اور مریم کے کان کھڑے ہو گئے۔
’’کیا… واقعی…؟‘‘
’’جی جناب! سو فیصد یقین کے ساتھ…‘‘ اس نے فرضی کالر اکڑائے۔
’’کون ہیں وہ… اور تمہیں کیسے علم ہوا؟‘‘ پل میں تمام خفگی ہوا ہو گئی تھی۔
’’وہ ہستی کوئی اور نہیں فوزیہ آپی ہیں۔‘‘ اس نے مزے سے انکشاف کیا تھا اور مریم وہ تو حیرت سے ساکت رہ گئی تھی۔
’’کیا؟ مجھے یقین نہیں آ رہا۔‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’شروع میں تو مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا اور پھر جب غور کیا تو سب واضح ہوتا چلا گیا۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتا چلا؟ کیا خاور بھائی نے اپنے منہ سے فوزیہ کا نام لیا تھا۔‘‘
’’نہیں… بہت گہرے ہیں بھائی۔‘‘
’’تو پھر تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘
’’یہ بھی ایک قصہ ہے… کہانی کچھ یوں ہے کہ تم فون پر مجھ سے مسلسل رابطہ کیے ہوئے تھیں، آپی فوزیہ کے لیے آنے والے چند ایک پروپوزلز کا جو تم نے مجھے بتایا تھا ایک دن خاور بھائی کی کال آئی تو سرسری سا تم لوگوں کا ذکر کیا تو فوزیہ آپی کا بھی ذکر چل نکلا یونہی باتوں ہی باتوں میں فوزیہ آپی کے سلسلے میں آنے والے پروپوزلز کا بتا دیا۔ وہ ایک دم پریشان ہو گئے یکسر خاصے گھبرا گئے پھر لگے اُلٹے سیدھے سوال کرنے، میں اُلجھ گئی، جو مجھے علم تھا کہہ سنایا… ساتھ یہ بھی کہا، ہو سکتا ہے میرے گھر واپس جانے تک کہیں بات فائنل ہو چکی ہو۔‘‘ اس نے سناتے ہوئے ذرا توقف کیا۔
’’تو پھر…؟‘‘ مریم کا تجسس سے بُرا حال تھا۔
’’ٹھٹک تو میں گئی تھی، خاور بھائی جو امی سے ناراض تھے، امی کے بار بار کہنے پر بھی گھر نہیں لوٹ رہے تھے۔ اگلے دن ہی گھر فون کرنے پر مجھے اطلاع ملی کہ وہ گھر آ گئے ہیں تو میں نے بھی فوراً واپس آنے کا پروگرام بنا لیا مگر ماموں کی مصروفیت کی وجہ سے ایک دو دن لیٹ ہو گئی اور گھر آتے ہی خاور بھائی نے لائن حاضر کر لیا۔ میں جو پہلے ہی ٹھٹک گئی تھی اب مکمل طور پر متوجہ ہوئی وہ مجھے ڈانٹ رہے تھے کہ میں نے غلط بیانی کیوں کی۔ ان کی کہیں کوئی بات طے نہیں ہوئی۔ بس اس سارے غصے سے میں نے یہی اخذ کیا کہ وہ فوزیہ آپی کو پسند کرتے ہیں مگر امی کی وجہ سے چپ ہیں۔ ہو سکتا ہے امی بھی بھائی کی پسندیدگی سے باخبر ہوں۔‘‘
مریم کو اس دن خاور بھائی کی گفتگو، آنٹی کا رویہ، خاور بھائی کو دیکھ کر فوزیہ کا بطور خاص حوالہ دے کر طنزیہ گفتگو کرنا، یاد آیا… تو یہ سلسلہ تھا اس نے گہرا سانس لے کر سرہانے سے کمر ٹکائی۔
’’چلو یہ بات مان بھی لیتی ہوں کہ وہ فوزیہ کو پسند کرتے ہیں مگر اب کیا ہو سکتا ہے، تمہاری والدہ صاحبہ کی گردن میں سریا فٹ ہے، دولت نے خاصا مغرور بنا ڈالا ہے۔ دوسرا یہ کہ خاور بھائی کی منگنی ہو چکی ہے اب اس انکشاف کا کیا فائدہ؟‘‘
اپنی ماں کے بارے میں مریم کے منہ سے اتنے نادر خیالات سن کر اس نے مریم کو گھورنا چاہا مگر وہ اس طرح سنجیدہ چہرہ لیے بیٹھی رہی تو اس نے تبھی گہرا سانس لیا۔
’’یہی تو رونا ہے امی کے خیالات خاصے اونچے ہیں۔ وہ اونچے گھر کی امیر کبیر حُسن و جمال میں بے مثال بہو لانا چاہتی ہیں جبکہ ابو اور بھائی کے خیالات یکسر مختلف ہیں۔‘‘ اس نے ذرا وقفہ کیا۔
’’اگر ابو کو بھائی کی پسند کا پتا چل جائے نا تو وہ سب سنبھال لیں گے۔‘‘ اگلے ہی لمحے کچھ پُرجوش ہو کر اس نے کہا۔
’’مگر تمہاری والدہ صاحبہ کے خیالات تو نہیں بدلیں گے۔ مجبوراً تمہارے ابو اور بھائی کے کہنے پر وہ فوزیہ کے لیے راضی بھی ہو جائیں تو بھی میری والدہ صاحبہ ان کے غرور کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گی۔ ان میں بھی بلا کی اَنا اور ضد ہے اور تمہاری والدہ صاحبہ گاہے بگاہے جس طرح طنزیہ گفتگو فرماتی رہتی ہیں وہ سب بھی ہمیں بھولا نہیں۔‘‘ اس نے اسے فوراً آئینہ دکھایا۔ صبا کا منہ بن گیا۔
’’تو پھر تم ہی کوئی آئیڈیا دو نا۔ امی کی بھانجی کرشمہ بی بی مجھے قطعی پسند نہیں۔ شکل و صورت میں بس بیوٹی بکس کا کمال ہے یا دولت کی چکا چوند ہے۔ یار! ہمیں ایک سلجھی، سلیقہ مند اور وفا شعار لڑکی چاہیے نہ کہ ماڈل۔‘‘ اس نے منہ بنا کر اپنا مسئلہ کہا۔ مریم نے کندھے اچکا دئیے۔
’’ایم سوری ہمیں اپنی عزت بہت پیاری ہے اور تمہاری والدہ صاحبہ سدا کی ہلاکو خان۔ میں تو خیر منہ پر جواب دے آتی ہوں مگر فوزیہ اور آمنہ میں یہ عادت نہیں ہے۔ ہمیں تو بی بی معاف ہی رکھو، ایک خاور بھائی کی وجہ سے اپنی نازوں پلی پیاری بہن کو کنویں میں نہیں دھکیلنا ہمیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...