سکندر صبح اٹها تو وہ اب تک بے خبر سورهی تهی اس نے اسکے پاؤں کا جائزہ لے کر اور ایک پیار بهری نظر ڈال کر واش روم کا رخ کیا
.
.
.
واپس آیا تو وہ جاگ چکی تهی اور صائمہ بیگم پریشان سی اسکے پاس بیٹهی تهی اسے آتا دیکھ کر بولیں
“سکندر بیٹا یہ سب کیا هے… مجهے جگا دیتے تم آکر میں چلتی تم لوگوں کیساتھ هاسپٹل.. حد کرتے هوتم بهی”
عنایہ نے انہیں مختصراپنے زخمی هونے کا قصہ بتا دیا اور وہ حققیقت میں پریشان هوئیں تهیں
“اٹس اوکے مما…. میں لے گیا تها اور دوا بهی لے آیا تها”
انہیں پریشان دیکهکر جلدی سے بولا
“زیادہ درد تو نہیں ہورہا نا بچے”
ممتا بهرے لہجے میں پوچها اور اسکی آنکهیں بهر آئیں بمشکل ضبط کرکے بولی
“نہیں مما میں ٹهیک هوں”
شکوہ بهری نگاہ سامنے کهڑے سکندر پہ ڈالی رات کی ساری باتیں دماغ میں گهوم گئیں جبکہ سکندر اسکی ان نظروں کا مطلب نہ سمجهه سکا اور کنفوس سا اسے دیکهنے لگا عنایہ نے نظروں کا زاویہ بدل لیا
“جب یہ شخص اسکا دل میرا نہیں تو اسے دیکهنے کا حق بهی میرا نہیں”
دکھ سے سوچا
“اچها… تم بس فریش هوجاؤ اور آرام کرنا میں تم دونوں کا ناشتہ یہیں پہ بهجوادیتی هوں اوکے”
“اوکے مما اور پلیز یہ ٹرے لے جائیں رات میں عنایہ کے لیۓ لایا تها مگر یہ سو گئی تهی”
عنایہ کے کچھ کہنے سے پہلے هی وہ ٹرے صائمہ بیگم کو پکڑاتے هوۓ بولا
اور وہ مسکراتے هوۓ ٹرے تهام کر باهر کیطرف روانہ هوگئیں
.
.
.
“کیا هوا تم ٹهیک هو نا”
صائمہ بیگم کے جانے کے بعد اسکے پاس آکر پوچها
کتنی دیر سے ضبط شدہ آنسو بہہ گئے
“عنایہ… کیا هوا رو کیوں رهی هو؟؟ درد ہو رها هے؟”
اسکی آنکهوں میں آنسو اسے کسی قیمت پہ برداشت نہیں تهے
اور عنایہ کا دل چاها کہ کہہ دے اس سے کہ “هاں بہت درد ہورها هے پاؤں سے زیادہ دل میں”
مگر یہ ساری باتیں وہ بس سوچ کہ رہ گئی
“نہیں ٹهیک هوں میں”
اٹهتے هوۓ بولی
“ارے.. کیا کر رهی هو. ڈاکٹر نے منع کیا هے نا چلنے سے…..”
اسے اٹهتا دیکھ کر بولا
“مجهے فریش هونا هے اور میں بالکل ٹهیک هوں”
اسے اسکے ہمدردی دکهانے پہ الجهن هونے لگی
“نہیں هو تم ٹهیک…. اور چلو میں تمہیں واش روم لے کر چلتا هوں”
اسکے لاکھ نہ نہ کرنے کے باوجود بهی سکندر نے آگے بڑھ کر اسے گود میں اٹها لیا
“اچهے سے هاتھ منہ دهو لو…. پهر مجهے آواز دے دینا میں باہر هی کهڑا هوں اوکے”
عنایہ نے ناچاهتے هوۓ بهی سر هلا دیااور پهر وہ اسے واپس بهی اسی احتیاط سے اٹها کر ڈریسنگ ٹیبل تک لایا عنایہ سمجھ نہ سکی یہ ہمدردی هے یا کچھ اور
” چلو اب جلدی سے ریڈی هوجاؤ میں ابهی آتا هوں”
اسے آئینے کے سامنے بٹهاتے هوۓ بولا اور مسلسل چیختے هوۓ موبائل فون کو اٹهاۓ باهر نکل گیا
عنایہ نے ایک نظر خود کو سامنے لگے شیشے میں دیکها رونے کی وجہ سے اسکی آنکهیں سوج گئیں تهیں بهر بهی اسکا سوگوار سا حسن ماند نہیں پڑا تها
“نہیں…. میں ایسا چہرہ لے کر امی بابا کے سامنے نہیں جاؤں گی… انکو کبهی احساس تک نہیں هونے دوں گی ان کے غلط فیصلے کا… کبهی بهی نہیں… عنایہ اسد تم اس شخص کے لئے ناپسندیدہ هو مگر اس بات کا احساس میں اپنے امی بابا کو کبهی هونے نہیں دوں گی”
آنکهوں میں آۓ آنسو بدردی سے رگڑتے هوۓ سوچا.. اور برش اٹها کر میک اپ کے نیچے اپنے درد کو چهپا لیا
بالوں کو سلجها کے فارغ هی هوئی تهی کہ سکندر مسکراتا هوا موبائل فون هاتهه میں لئے اندر داخل هوا…
موبائل فون اور اسکی مسکراهٹ عنایہ کو بہت کچھ سمجها گئی
جبکہ سکندر اسے دیکھ کر فریز سا هوگیا
ریڈ کلر کے ڈریس میں لائٹ سا میک اپ کئے بالوں کو کهولے وہ اسکے ایمان کو آزمائش میں ڈالے هوۓ تهیتبهی دروازے پہ دستک هوئی سکندر نے چونک کر دروازے کی سمت دیکها جہاں ملازمہ ناشتے کی ٹرے سجاۓ کهڑی تهی
“صاب جی یہ ناشتہ…”
“هاں یہ… وهاں رکھ دو”
اور وہ ٹرے رکهه کر خاموشی سے پلٹ گئی
اور وہ عنایہ کو اٹهانے کے لئے آگے بڑها
“میں خود چل سکتی هوں”
ایک دم سے پیچهے هوتے هوۓ بولی
“شیور؟؟؟”
“هاں.”
اور وہ تکلیف ضبط کرتی ایڑیوں پہ چل کر بیڈ تک پہنچی
“چلو…. اب جلدی سے ناشتہ کرو پهر میڈیسن بهی کهانی هے”
وہ اسے ایک بچے کی طرح ٹریٹ کر رها تها اور عنایہ کو اسکے اس انداز سے الجهن هونے لگی
ناشتے کے دوران مسلسل اپنے چہرے پہ نظروں کی تپش محسوس کرتی رهی مگر ایک بار بهی نظر اٹها کر نہ دیکها
بلاشبہ وہ خوبصورت تها مردانہ وجاهت کا مکمل شاہکار….
مگر اسکا نہ تها تو کس حق سے دیکهتی
“حق تو اسکا تها جس سے ابهی کچھ دیر پہلے گفتگو کرکے آیا تها”.
دکھ سے سوچا
دوسری طرف سکندر اسکی اس خاموشی کا مطلب نہ سمجهه سکا
اپنی خوشی میں وہ اپنے بولے گئے الفاظ بالکل بهول چکا تها اب الجها الجها سا اسکا رویہ سمجهنے کی کوشش کررها تها
“عنایہ…. کیا بات هے تم خوش نہیں هو کیا”
اسکا نازک سا مہندی سے سجا ہاتھ تهامتے هوۓ بولا”یہ سوال آپ خود سے پوچهیں تو آپکو آپکے سوال کا جواب خود هی مل جاۓ گا”
نظریں بددستور نیچے چبهتے هوۓ لہجے میں بولی
سکندر نے کچھ کہنے کے لئے منہ کهولا هی تها کہ دروازے پہ دستک هوئی
“عنایہ…”
دروازہ کهلا اور فائزہ بیگم کا چہرہ نموار هوا
“کیا هوا میری جان…. ٹهیک هو نا تم”
بیٹی کی ماں تهی آخر
“امی میں بالکل ٹهیک هوں آپ پریشان مت هوں… بابا نہیں آۓ کیا؟”
تسلی دیتی هوئی اسد صاحب کا پوچها
“آۓ هیں تمهارے بابا بهی. باہر هیں”
“اسلام و علیکم آنٹی”
سکندر بولا
“ارے وعلیکم سلام.. بیٹا معاف کرنا اسکا سن کر پریشان هو گئی تهی دهیان هی نہیں رہا کیسے هو تم”
اسکے سر پہ پیار سے ہاتھ پهیرتے هوۓ بولیں
“میں ٹهیک هوں اور آنٹی آپ بالکل بهی ٹنشن نہ لیں اسکی میں هوں نا”
سعادت مندی سے بولا عنایہ نے اس دوغلے انسان کو حیرت سے دیکها
“جیتے رهو خوش رهو…”
اسے دل سے دعا دی
“اچها آنٹی آپ بیٹهیں میں انکل کو بهی یہیں بهیج دیتا هوں”
اسے دیکهتا هوا بولا جبکہ فائزہ بیگم نے سر هلا دیا
.
.
اور پهر سب خوشی خوشی اس سے مل واپس گئے وہ سب سے اپنے جذبات احساسات اور دکھ چهپانے میں کامیاب رهی تهی…..
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
تین دن بعدولیمے کا فنکشن بهی تها ولیمے کا انتظام گهرکے وسیع و عریض لان میں کیا گیا تها
اورنج کلر کا هلکے سے کام والا فراک نازک سی جیولری لائٹ سا میک اپ اور سلیقے سے سیٹ کیۓ گئے دوپٹہ کے ساتھ شاندار اسٹیج پہ بیٹهی وہ هر دیکهنے والے کو دوسری نظر ڈالنے پہ مجبور کر رهی تهی جبکہ اسکے برابر بیٹها سکندر تهری پیس سوٹ میں ملبوس مردانہ وجاهت کا پیکر لگ رها تها
دونوں کی جوڑی حققیقی معنوں میں چاند سورج کی جوڑی لگ رهی تهی
فائزہ اور صائمہ بیگم دونوں آتے جاتے دونوں کی بلائیں لے رهی تهیں
شادی جتنی سادگی سے هوئی تهی اب ولیمہ اتنا هی شاندار تها شہر بهر سے بڑے بڑے بزنس مین مدعو تهے
سکندر کسی کام سے جونہی اٹهه کرگیا آس پاس کهڑی عنایہ کی سکول سٹاف فرینڈز اسکے پاس پہنچ گئیں
“بہت بہت مبارک هو یار بہت پیاری لگ رهی هو”
فرح نے کہا پهر باری باری سب نے سچے دل سے اسکی تعریف کی اور اسے مبارک باد دی
“واہ…. آنی تم تو بڑی سوشل هو اتنی ساری فرینڈز”
صالحہ نے آکر کہا تو سب کے ساتهه ساتهه عنایہ بهی مسکرادی اوراس سے کچهه فاصلے پہ کهڑے سکندر کو اپنے اردگرد بہار سی محسوس هوئی
“یہ میری آپی هیں صالحہ”
سب سے اسکا تعارف کرایا
“اور آپی یہ سکول سٹافهے میرا”
اور پهر اس نے باری باری سب کا تعارف کرایا
“چلو بهئی تم لوگ باتیں کرو میں ابهی آئی”
یہ کہہ کر اسٹیج سے اترگئیں
“سو سوئیٹ نا”
نگہت نے کہا
“ہاں یار تمهاری پوری فیملی بہت کیوٹ هے یار”
رفعت کہاں پیچهے رهنے والی تهی
“تهینکس”
عنایہ مسکرادی
“ویسے همارے سر بهی بہت سوئیٹ کیوٹ اور ڈیشنگ هیں. کیوں عنایہ ٹهیک کہا نا”
رمشا نے آنکهه مار کر کہا اس بات پہ سب هنس دیں جبکہ عنایہ خجل سی سب کو دیکهے گئی
اور پهر اسکی نظر سکندر پہ پڑی جو اپنے دوستوں کے ساتھ کهڑا کسی بات پہ مسکرا رها تها
دکهه سے اس دوغلے آدمی کو دیکها جس کے دل میں کچھ اور تها اور چہرے پہ کچهه اور
. . . . . . . . . . . .
رات سکندر روم میں آیا تو وہ سوچکی تهی پورا دن بہت بزی گزرا
کتنے هی لمحے وہ اس لڑکی کو دیکهتا رها جو نجانے کب اسکی دل کی منڈیر پہ براجمان هوگئی تهی اور حسین اتفاق کہ اسکی ه
ہم سفر بهی بن چکی تهی
ایک بات وہ اب تک نہیں جان پایا تها کہ وہ اس سے اتنی کهنچی کهنچی اور دور دور کیوں رهتی هے…
. . . . . . . . . . .
اگلے کچھ دن دعوتوں کا سلسلہ چلتا رها….
اس وقت بهی وہ دونوں ملحیہ اور صالحہ کے گهر دعوت پہ مدعو تهے
“بہت مزیدارکهانا تها ضرورت سے زیادہ هی کهالیا میں نے تو”
کهانے سے فارغ هوکر سب لاونج میں آکر بیٹهے تو سکندر نے کہا
“بهئی هماری بیگم کهانا هی اتنا ٹیسٹی بناتی هے”
ارسلان نے ملحیہ کیطرف دیکهتے هوۓ کہا
“ایکسکوز می ارسلان بهائی…. میری محنت بهی شامل تهی”
صالحہ اس ناانصافی پہ چلا اٹهی
اس انداز پہ بولنے پر وهاں موجود لوگ هنس دیئے
“هاں بهائی میری وائفی بهی بہت اچها کهانا بناتی هے”
سلمان اپنی بیوی کی سائیڈ لیتا هوا بولا
“اچها بابا… دونوں کے هاتهوں میں بہت ذائقہ هے اب خوش”
ارسلان نے دونوں کی تعریف کی
“هاں یہ هوئی نا بات”
صالحہ بولی
“ویسے سکندر بهائی آپ اس کے هاتهوں کی چاۓ ضرور پینا بہت اسٹرونگ چاۓ بناتی هے”
صالحہ نے معی خیز نظروں سے عنایہ کو دیکها جبکہ اس نے بے چینی سے پہلو بدلا
اور سب نے صالحہ کیطرف دیکها
“سچی؟؟؟”
سکندر نے عنایہ کیطرف دیکهکر کہا
“آپو پلیز نا”
ملتجی لہجے سے بولی مگر وہ صالحہ هی کیا جو باز آجاۓ
چاۓ کا پورا قصہ سنادیا اور پورا لاونج قہقوں سے گونج اٹها جبکہ عنایہ خجل سی نظریں جهکاۓ بیٹهی رهی سکندر پورا ٹائم اسے نظروں کے حصار میں لئے بیٹها رها
اور پهر کچھ وقت مزید گزار کر وہ دونوں گهر کیجانب روانہ هوگئے
پورا راستہ وہ آنسو ضبط کرتی رهی اجکل نجانے کیوں بات بات پہ اسکی آنکهیں بهیگ جاتیں تهیں
شاید اپنی بے وقعتی کا احساس تها جو کانچ بن کر اسکے دل اور آنکهوں میں چبهتا رهتا تها
¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...