“کہاں جا رہے ہیں آپ” رانی نے اسکی تیاری دیکھ کر پوچھا جو سفید قمیض شلوار میں مہرون شال کندھے پر رکھے نک سک سا تیار کھڑا تھا
“شہر جارہا ہوں ” وہ خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا ایک بھر پور نظر رانی پر ڈالی
“خیریت” رانی اسکے پاس آکر کھڑی ہو گئی
“ہاں ایک کام ہے” وہ مسکرا کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولا جو سرخ ہو رہی تھیں
” یہ آنکھوں کو کیا ہوا طبعیت ٹھیک ہے؟؟” اسے تشویش ہوئی
“جی میں ٹھیک ہوں آپ فکر مت کریں” اسنے ٹالا
” اچھا بتاؤکیا لاؤں تمہارے لیے” وہ اب مکمل اسکی طرف متوجہ تھا رانی نے مسکرا کر نفی میں سر ہلادیا
“کیوں بھئی کیوں نہ لاوں “وہ اسے سات لگاتے ہوۓ محبت سے پو چھنے لگا
“بس ویسے ہی کب تک آئیں گے آپ ”
“شام تک آ جاؤں گا تم پریشان مت ہونا کھانا ساتھ میں کھائیں گے ….ہوں ”
“جی ٹھیک ہے ”
“چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا خدا حافظ” وہ اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے باہر نکل گیا اور وہ اپنے پریشان دل کو سنبھلاتی اسکے خیریت سے پہنچنے کی دعا کرنے لگی
*********
“یہ سب سجاول نے کہا ہے ” آملہ بیگم نے حیرت سے پوچھا ماہا کے سر ہلانے پر ان کہ آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ گئی
“ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہا اس نے “وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکاتے ہوئے مطمئن سی بولیں تو ماہا نے جھٹکے سے سر اٹھایا
“کیا مطلب ؟؟”
“اس نے ٹھیک کہا ہے اگر تم اپنی محبت پانا چاہتی ہو تو ـ ـ یہاں تو راجہ ایسا ہونے نہیں دیں گے “وہ اسے مزید اکسا رہی تھیں راجہ سے بدلہ لینے کا انہیں اس سے بہترین موقع نہیں مل سکتا تھا
“کیوں نہیں ہونے دیں گے انہوں نے بھی تو ایک غریب لڑکی سے محبت کی شادی کی ہے تو میں کیوں نہیں ” وہ بپھر اٹھی
“بھئی مجھ پر کیوں غصہ کر رہی ہو میرا کیا قصور “ان کے جتانے پر وہ ڈھیلی پر گئی
“تمہیں پتا ہے راجہ نے یہ محل رانی کے نام کر دیا ”
“یہ کیسے ہو سکتا ہے ” اسکی آنکھیں حیرت سے پوری کھل گئیں
” ایسا ہو گیا ہے وہ اپنی محبت میں اتنے اندھے ہو گۓ ہیں کہ انہیں کچھ نظر ہی نہیں آرہا وہ یہ تک بھول گئے کہ اس محل پر سب سے پہلا حق ہمارا ہے مگر بہت جلد ان کی آنکھیں کھل جائیں گی ”
“یہ تو بھیا نے بہت غلط کیا “وہ دکھی ہوئی
“اگر تم مجھے وہ فائل لا دو حو راجہ نے رانی کو دی تو میں تمہاری سجاول سے شادی کروا سکتی ہوں “انہوں نے معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے کہا ماہا نے بے یقینی سے انہیں دیکھا
* * ** * * * * * *
“میں تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں سجاول ” ماہا کی بات پر وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا
“تم سچ کہہ رہی ہو “وہ بے تحاشا خوش ہوا
“ہاں تم جب کہو میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں ” اسنے یقین دہانی کروائی
“چلو ابھی چلتے ہیں سجی بھی ہمارے ساتھ جائے گا ”
“وہ کیوں ؟؟” ماہا حیران ہوئی
“کیونکہ میں بھی یہاں نہیں رہنا چاہتا “سجی نہ جانے کہاں سے نکل کر سامنے آگیا
“پھر کب چلنا ہے “سجاول کے سوال پر سجی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اشارہ کیا
“ماہا جانے سے پہلے ایک کام کرو گی” سجاول نے آنکھوں میں محبت سمو کر کہا
“کونسا ”
“سجی جانے سے پہلے رانی سے ایک بار ملنا چاہتا ہے ”
“لیکن کیوں ؟؟؟ اور میں اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہوں” وہ دونوں کو دیکھ کر پوچھنے لگی
“کیا اب تم اتنی سی مدد بھی نہیں کر سکتی تم جانتی تو ہو تمہارے بھائی نے ان دو نوں کے ساتھ کیا کیا ہے ” اسکے لہجے میں دکھ بول رہا تھا وہ کچھ سوچنے لگی
“آملہ چچی کا ایک کام ہے وہ ہماری مدد کریں گی اگر میں ان کا کام کردوں ”
“کیسا کام ؟؟” سجاول فورا متوجہ ہوا
“وہ بس ہے ایک کام ” وہ ٹالتے ہوے بولی
“مجھے بھی نہیں بتاو گی ” وہ جذباتی ہوا
“وہ بھیا نے رانی کو ایک فائل دی ہے وہ انہیں لے کر دینی ہے ”
“کیا ہے اس فائل میں ” سجی بھی متجسس ہوا
“محل رانی کو دے دیا ہے بھیا نے ” ماہا کے انکشاف پر دونوں کو جھٹکا لگا مگر جلد ہی دونوں نے اپنی کیفیت پر قابو پا لیا کچھ سوچ کر سجی کی آنکھیں چمک اٹھیں
“اور وہ فائل تمہاری چچی کو کیوں چاہیے ؟؟”
“پتہ نہیں ” ماہا نے لاعلمی کا اظہار کیا
“تم وہ فائل لے کر یہاں آو گی ” سجاول نے اسے نئی راہ دکھائی
“مگر کیوں ”
“یہ سب میں تمہیں بعد میں بتاوں گا ” وہ بہت دور کی سوچ رہا تھا
“مگر چچی ” ماہا نے کچھ کہنا چاہا
“انہیں کچھ مت بتانا ” وہ الجھی مگر کچھ ہی دیر میں سجاول نے اسے قائل کر لیا
* * * * * * * * * *
دستک پر رانی نے دروازے کی طرف دیکھا “آجاو”اجازت ملنے پر ماہا اندر آئی
“ارے ماہا تم ” رانی حیران ہوئی
“ہاں میں ،،کیوں میں نہیں آسکتی ” وہ مسکرائی
“نہیں ایسی بات نہیں آؤ بیٹھو ” رانی خوش اخلاقی سے بولی ماہا نے بغور رانی کو دیکھا مہرون شلوار قمیض میں بلیک شال لیے بغیر میک اپ کے بھی اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن تھا وہ دل ہی دل میں اس کے حسن کی معترف ہوئی
“بھیا یونہی تو دیوانے نہیں ہوئے “وہ ہولے سے بڑبڑائی جو کہ رانی نے بخوبی سن لی
“کیا مطلب ”
“مطلب واضح ہے کچھ تو تمہارا بھی ہاتھ ہو گا بھیا کی دیوانگی میں ” اسکا طنز واضح تھا
“تم یہ بات کرنے آئی ہو یہاں “رانی نے اکھڑے لہجے میں پوچھا کچھ دیر پہلے والی نرمی اب مفقود تھی
“نہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو پوچھنے آئی ہوں ” وہ کمرے میں چکر لگاتے ہوئے بولی
“مثلاً کون سی باتیں ؟؟” رانی الجھی
“مثلاً تم نے بھیا سے شادی کیوں کی ؟؟تم بے سجی کو کیوں چھوڑا ؟؟تم نے اس محل پر قبضہ کیوں کیا ؟؟اور ”
“بس خاموش ہو جاو “رانی کا ضبط جواب دے گیا وہ بات کاٹ کر بولی “جاو یہاں سے میں تمہارے کسی سوال کا جواب دینے کی پابند نہیں ہوں ”
“کیوں نہیں ہو بلکہ یوں کہو کہ تمہارے پاس کسی سوال کا جواب ہی نہیں ہے وہ سجی کبھی دیکھا اسے جسے دولت کی خاطر چھوڑ آئی ہو مارا مارا پھرتا ہے تمہاری بے وفائی کا روگ لیے ” ماہا نے تیز لہجے میں سچ جھوٹ ملا کر کہا
“خاموش ہو جاو تم کچھ نہیں جانتی ماہا “وہ چیخی
“میں سب جانتی ہوں تمہیں یہ بتانے آئی ہوں کہ سجی یہا ں سے جا رہا ہے وہ آخری بار تم سے ملنا چاہتا ہے انکار مت کرنا آخری ملاقات کر لو اس سے ” وہ ا سے مناتے ہوئے بولی
“نہیں میں نہیں جا سکتی “اس نے انکار کیا
“کیوں اگر تمہیں ڈر ہے کہ کوئی دیکھ لے گا تو اس کی ٹینشن مت لو میں دھیان رکھوں گی تم جاو “ماہا نے اسکی الجھن سمجھ کر نرمی سے کہا
“مگر ـ ـ ـ ”
” سوچنے میں دیر مت کرو وہ چلا جائے گا اور تم ساری زندگی پچھتاتی رہنا جاؤ جلدی آنا ”
رانی کچھ دیر سوچتی رہی پھر سر ہلا کر باہر نکل گئی اور یہی اسکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی ـ اس کے نکلتے ہی ماہا نے اس کے کمرے کی تلاشی شروع کر دی
* * * * * * * * * *
“کہا ں جا رہے ہو “راجہ کو کمرے میں جاتے دیکھ کر آملہ بیگم نے کہا
“کمرے میں “وہ خوش اخلاقی سے بولا
“ہونہہ مگر جس کے لیے جا رہے ہو وہ تو کمرے میں نہیں ہے “پل بھر میں اسکی مسکراہٹ سمٹی تھی
“کیا مطلب کہاں ہے وہ “اسے تشویش ہوئی
“اپنے یار سے ملنے گئی ہے وہ “انہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا وہ ماہا اور رانی کی باتیں سن چکی تھیں اور یہ بات انہیں آگ لگا گئی کہ ماہا انہیں دھوکہ دے کر فائل لے گئی
“کیا بکواس ہے یہ “راجہ یکدم طیش میں آیا
“ٹھیک کہہ رہی ہوں اور تمہاری بہن بھی اپنے یار کے ساتھ بھاگ گئی “ایک اور انکشاف
“نہیں یقین تو ندی کے کنارے جا کر دیکھ لو ” انہوں نے اس کے غصے کو مزید ہوا دی اور پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئیں
* * * * * * * * * * * *
” کیوں بلایا ہے یہاں “رانی کی آواز پر سجی یکدم کھڑا یوا
“تم آگئی مجھے یقین تھا تم ضرور آو گی “وہ خوشی سے چہکا
“آؤ بیٹھو ”
“نہیں بس ٹھیک ہے تم بتاؤ “اس کے کہنے پر وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا
” میں جا رہا ہوں رانی ”
“کہاں ”
“بہت دور مجھے پتا ہے تم ناراض ہو مجھ سے میں تمہیں منانا چاہ رہا تھا مگر موقع ہی نہ مل سکا لیکن جانے سے پہلے تمہیں ایک بار دیکھنا چاہتا تھا ” وہ اسکے چہرے پر نظر جماتے دکھی لہجے میں بولا
“یہ جدائی تم نے خودچنی تھی “وہ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے چین ہوئی
“ہاں مگر میں مجبور تھا کیا کرتا مجھے معاف کر دو رانی ” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا
“میں نے تمہیں معاف کیا سجی مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ” وہ صاف گوﺉ سے بولی
“سچ تم بہت اچھی ہو رانی چلو میرے ساتھ ہم دونوں دور چلتے ہیں ” وہ اسکا ہاتھ تھامے کہہ رہا تھا عین اسی لمحے گاڑی رکنے کی آواز پر دونوں گھبرا کر پلٹے راجہ کو گاڑی سے نکلتے دیکھ کر سجی فوراً بھاگ گیا جبکہ رانی کو زمین آسمان گھومتے محسوس ہوئے