وہاج کو کچھ دير پہلے ہی خبر ملی تھی کہ اس کا وہ بندہ جو ہئيروئن اور چرس کے اڈوں سے واقف تھا۔ وہ بھی اغوا ہوچکا ہے۔
“مجھے لگ رہا ہے۔ پھندہ ميری گردن کے قريب آنے والا ہے” اس کے مينجر نے جس لمحے اسے اطلاع دی اسے لگا اب وہ مرنے کے قريب ہی ہے۔
يوں اچانک بيٹے کا اغوا ہونا اور پھر اسکے ايک ايک کرکے اسکے خاص بندوں کا بھی پراسرار طور پر اغوا ہوجانا۔
يہ سب کڑياں اسی بات سے ملتی تھيں کہ وہ سب خفيہ ايجنسيوں کے ہاتھ لگ چکے ہين۔
“سر ضروری نہيں کہ خفيہ ايجنسيوں کا کام ہو۔ ہو سکتا ہے آپکے مخالفين ميں سے کسی کی حرکت ہو” اسکے مينجر نے اسے تسلی دلانا چاہی۔
“نہيں تم جو بھی کہہ لو۔ يہ يقينا ايجنسيوں کی حرکت ہے۔” اسے يقين ہو چلا تھا۔
“تم کسی بھی طرح مجھے اس ملک سے باہر نکلوا سکتے ہو؟” وہ اس لمحے بے بسی کی تصوير بنا ہوا تھا۔
“سر آپ جانتے ہيں کہ يہ ناممکنات ميں سے ہے” اس نے صاف جواب ديا۔
اب تو اسکے مينجر کو بھی اپنی فکر لاحق ہوگئ تھی۔
“تو مر جاؤں کيا؟” وہ چلايا۔
“سر ميں نے يہ تو نہيں کہا۔ انتظار کريں۔ کوئ سدباب کرتے ہيں” اس نے جھوٹی تسلی دلانی چاہی۔
“بھاڑ ميں جاؤ سارے” وہ غصے سے چلايا۔
فون کھڑاک سے بند کيا۔ ابھی فون بند کئے زيادہ دير نہيں گزری تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔
وہ يہی سمجھا کہ اس کے مينجر کا ہوگا۔
جھٹ سے فون اٹھايا۔
“کيسے ہو وہاج” اجنبی آواز اور لب و لہجہ۔
“ٹھيک تم کون؟” پہچاننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
“تمہاری موت” دوسری جانب سے ملنے والے جواب پر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگۓ۔
“کک۔۔۔ کيا مطلب؟” وہ ہکلايا۔
“موت کا مطلب موت۔۔ ويسے مجھے شہنشاہ بھی کہتے ہيں” دوسری جانب سے مسکراتی آواز ميں اپنا تعارف کروايا گيا۔
“تت۔۔ تم ميرے پيچھے کيوں پڑے ہو۔ ميں نے تمہارا کيا بگاڑا ہے” وہ خوفزدہ آواز ميں بولا۔ شہنشاہ کو کون نہيں جانتا تھا۔
بے تاج بادشاہ تھا۔ اور غنڈوں ميں ايسا غنڈہ جو اگر ايک بار کسی کے پيچھے پڑ جاۓ تو اسے موت کی آغوش ميں سلا کر ہی دم ليتا تھا۔
“ارے يار گھبراتے کيوں ہو۔ ميرے ابا کہا کرتے تھے موت سے ڈرتے وہ ہيں جو زندگی کو ہی اپنی آخری آرامگاہ مان ليتے ہيں۔ اور يہ وہ لوگ ہوتے ہيں جو زمين پر ابليس کے اصل روپ ميں ہوتے ہيں۔ اور موت سے وہ لوگ نہيں ڈرتے جنہيں اللہ اور اس کی رضا کے علاوہ حقيقت ميں کسی کا ڈر نہيں ہوتا۔
اب سوچ لو تم کن ميں ہو؟
اور جہاں تک تمہارے پيچھے پڑنے کا سوال ہے تو ميرے چيونٹے۔۔۔ تو نے بہت لوگوں کی زندگی کو بلاوجہ موت کی نيند سلا دیا۔ صرف اپنے عہدے۔ رتبے اور اپنی جاگير اور جاگيرداری کو بچانے کے لئے۔ اب مکافات عمل تو ہونا ہی ہے نا۔۔ تو بس خاموشی سے انتظار کر اپنی باری کا” وہ اسے چمکارتے ہوۓ بولا۔ وہاج کے ماتھے پر شديد پسينہ آگيا۔
“تم۔۔ تم خود ايک گناہگار۔۔ اللہ کی باتيں کرتے اچھے نہيں لگتے” وہاج اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر اس کا مذاق اڑانے والے لہجے ميں بولا۔
“اےےےےے۔۔۔ زبان کو لگام دے۔۔ شہنشاہ نے کبھی کسی بے گناہ کو نہيں مارا۔ بلکہ ہر قصوروار کا سر کچلا ہے۔ جتنی بھی فرار کی راہيں اختيار کرنی ہيں کرلے۔ مگر ياد رکھنا۔ شہنشاہ تجھے دنيا کے کسی بھی کونے سے ڈھونڈ نکالے گا۔ ابھی بہت سے بے قصوروں کا حساب نکلتا ہے تيری طرف۔۔ بس چند دن آزادی کی سانس لے لے۔۔ پھر تيری گردن سے پکڑوں گا تجھے” غصے سے پھنکارتا شہنشاہ وہاج کو دم سادھنے پر مجبور کرگيا۔
کھٹ سے فون بند ہونے کی آواز آئ۔
وہاج کو لگا کوئ بھيانک خواب ختم ہوا ہے۔
_________________
رات ميں کھانے سے فارغ ہوکر نائل اور يماما لان ميں واک کرنے کے لئے بيرونی حصے کی جانب بڑھے۔
مہک نے بے حد محبت اور ستائشی نظروں سے ان کی جانب ديکھا۔
“آپ کو نہيں لگتا ۔۔ جب سے يہ لڑکی آئ ہے۔ ہمارا نائل کچھ بدلا بدلا سا ہے” مہک اپنے سے چند انچ کے فاصلے پر بيٹھے شمس کی جانب ديکھ کر بوليں۔ جو بظاہر ٹی وی ديکھنے ميں مگن تھے۔ مگر مہک کی آنکھوں کی زبان پڑھ چکے تھے۔
“کيا مطلب؟” جان بوجھ کر انجان بنے۔
“افوہ۔۔ شمس اب اتنے بھی آپ بچے نہيں کہ ميرا مطلب نہ سمجھيں۔
بھئ مجھے لگتا ہے کہ نائل کنزہ کو پسند کرنے لگا ہے” مہک نے اب کھل کر اپنے خيالات کا اظہار کيا۔
“ارے نہيں۔ وہ تو بس مہمان ہونے کے ناطے اسے کمپنی دے رہا ہے” شمس نے جان بوجھ کر بات کو کوئ اور رنگ ديا۔
“ارے بھئ۔ اگر وہ اسکے آنے سے بدل بھی جاۓ تو کيا برا ہے۔ ميری کب کی خواہش پوری ہوجاۓ گی۔” مہک شمس کی بات پر بدمزہ ہوئيں۔
“کون سی خواہش؟” وہ پھر سے انجان بنے۔ يہ ديکھنے کے لئے کہ مہک کا ان دونوں کو يوں ساتھ ساتھ ديکھنا انہيں روايتی ماؤں کی طرح برا نہ لگے۔
“بھئ نائل کی شادی کی۔۔۔بس ميں زندگی ميں ہی اسکی سب خوشياں ديکھنا چاہتی ہوں۔ مرتے ہوۓ يہ اطمينان تو ہو نہ کہ ميرے نائل کا مجھ سے بھی زيادہ خيال رکھنے والی کوئ موجود ہے” ان کے لہجے سے نائل کے لئے ممتا اور محبت ہی محبت ٹپک رہی تھی۔
“ان شاءاللہ ہم جلد ہی وہ دن ديکھين گے۔ اللہ کی ذات سے مايوس نہيں ہونا چاہئيۓ۔ وہ بہتر سے بہترين کی جانب ہی لے کر جاتا ہے” شمس نے انہيں تسلی دلائ۔
“ان شاءاللہ” مہک نے صدق دل سے نائل کی خوشيوں کی دعا کی۔
______________________
“آنٹی کيا سوچ رہی ہون گی ميرے بارے ميں؟” نائل نے جس لمحے اسے کھانے کی ميز سے اٹھ کر باہر واک پر چلنے کی پيشکش کی۔ اور پھر جس طرح مہک نے اسے ديکھا۔
يماما کو بہت شرمندگی سی ہوئ۔
“کچھ نہيں سوچتيں يار۔۔ بلکہ ممی بہت خوش ہورہی ہوں گی” نائل نے اسے شرمندگی سے نکالا۔
“وہ کيوں؟ خوش کس بات پر؟” وہ حيران ہوئ۔
“اسی لئے کہ ممی بہت عرصے سے پيچھے لگی تھيں کہ کوئ اچھی لڑکی ديکھ کر شادی کرلو۔ مگر اس دل کا کيا کرتا جہاں ہر لمحہ تم بسی تھيں۔ اور تو اور ميں جانتا بھی تھا کہ تم زندہ ہو۔ مگر تمہارے بہتر مستقبل اور خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک ميں تمہاری ذمہ دار نہيں لے سکتا تھا۔
اسی لئے اب جب مجھے محسوس ہوا کہ تم وہ سب بن گئ ہو۔ جس کی کبھی تمہيں خواہش تھی۔ اور ميں تمہاری ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہوچکا ہوں تو ميں نے تمہيں اپنے پاس بلا ليا۔” نائل نے اسے مفصل جواب ديا۔
“اسی لئے تم پريشان نہ ہوں۔ ممی نے بہت خوش ہو کر اس لمحے تمہيں ديکھا تھا۔ اور ميں جان بوجھ کر يہ سب اسی لئے کررہا ہوں تاکہ ممی کا تمہارے حوالے سے رویہ جان سکوں۔ تاکہ جب انہيں بتاؤں کا جس لڑکی کو آپ يہ سوچ رہی ہيں کہ ميں نے اب پسند کيا ہے۔ وہ اصل ميں برسوں سے ميرے نام ہوچکی ہے” نرم گھاس پر واک کرتے اور پورے چاند کی روشنی ميں اسے يوں ہی محسوس ہورہا تھا جيسے کوئ اس پر مسلسل رحمتوں اور عنايتوں کی برسات کررہا ہو۔
“اور اب مجھے يقين ہوگيا ہے کہ ممی تمہيں ميری منکوحہ کی حيثيت سے آرام سے قبول کرليں گی” نائل نے ايک نظر ساتھ ّچلتے وجود پر ڈالی جو نائل کی باتوں پر بلش کررہی تھی۔
“بس يہ سرتاج اور وہاج والا کيس ختم ہوجاۓ پھر ممی کو سب حقیقت بتانی ہے” نائل اب سامنے ديکھتے چل رہا تھا۔
“آپ جانتے ہيں نا کہ مجھے ان لوگوں کے خلاف لڑ کر انہيں جيل کی سلاخوں کے پيچھے ديکھنے کی شديد خواہش تھی۔ مگر آپ نے اغوار کروا کر مارنے والا کام کرکے مجھے بالکل ہی مفلوح کرديا ہے” نائل کے وہی موضوع چھيڑنے پر وہ بھی اپنی دل کی بات کہنے سے رہ نہ سکی۔
“ميری جان تمہارا جتنا کام تھا اس کہانی ميں تم نے کيا۔ ان کے گرد گھيرا اتنا تنگ ہوچکا ہے کہ وہ بچ کر نکل ہی نہيں سکتے۔ اور دوسری بات۔ انہيں سزا دلوانے سے کہيں زيادہ ميرے لئے يہ ضروری تھاکہ ميں تمہاری حفاظت کرتا۔ تم سے بڑھ کر مجھے کسی سے کوئ بدلہ لينا نہيں تھا۔
تمہاری يہ جيت کم نہيں کہ سرتاج کو تم نے اندر کروايا۔ اب رہ گۓ ان کے خاندان کے باقی لوگ۔ تو وہ بھی جلد اندر ہوں گے۔” نائل کے محبت بھرے لہجے نے اس کے شکوے مٹا دئيے۔
“يماماتم ميرے لئے سب کچھ ہو۔ يہ سب جو ميں آج ہوں۔ صرف اس وجہ سے اور يہ عزم لے کر کہ مجھے اپنی يماما کو ايک ادھوری اور بزدل زندگی نہيں دينی۔ مجھے نہ صرف اسے مضبوط بنانا ہے بلکہ اس کے لئے ايک مضبوط قلعہ بننا ہے۔ کہ کوئ وہاج اور سرتاج تمہيں ميلی آنکھ سے ديکھ نہ سکيں۔” نائل يکدم رک کر يماما کی جانب مڑا۔
جو اسکے چہرے کی جانب ديکھنے کی ہمت نہيں کرسکی۔
جانتی تھی۔ محبتوں کا جہان لئے وہ اسے ديکھ رہا ہے۔ ابھی تو نائل کے ہونے کو ہی پوری طرح محسوس نہيں کرپائ تھی۔
اس کی محبتوں کی شدتوں کو خود ميں سمونے کی ہمت کہاں سے لاتی۔
“ماضی کے وہ اوراق آپ کب پلٹيں گے جن ميں ميرے زندہ ہونے کو آپ جانتے تھے؟” يماما کی بے صبری بے جا نہ تھی۔
“وہ داستان يوں کھڑے کھڑۓ سنانے لگا۔ تو آج رات ہم يہيں کھڑے رہيں گے۔ ميری بھولی سی ممی کہيں يہ نہ سمجھيں کہ ميں تمہاری محبت ميں اتنا گوڈے گوڈے ڈوب چکا ہوں کہ اب ساری رات لان ميں کھڑے ہوکر تمہارے لئے چلے کاٹ رہا ہوں” نائل کے يوں پہلو تہی کرنے پر يماما نے ناراض نظروں سے اسے ديکھا۔
“اچھا بابا خفا مت ہو۔ کل ممی کسی سيمينار کے سلسلے ميں شہر سے باہر جا رہی ہيں اور پرسوں واپس آئيں گی۔
کل کی ساری رات تمہارے نام” نائل نے اس قدر بے ساختگی سے کہا کہ يماما کے گال لال ہوگۓ۔
“کيا فضول بات ہے” يماما نے تيز نظروں سے اسے ديکھا۔ اور پھر سے قدم واک کرنے کے لئے بڑھا دئيے تھے۔ مطلب واضح تھا کہ وہ اس کی بات کا اثر زائل کرنا چاہتی ہے۔
“بھئ ميں نے تو نہايت معقول بات کی ہے اب تم اسے کسی فضول ٹريک کی جانب لے جاؤ تو ميرا کيا قصور۔ ميرا مطلب تھا۔ کہ ساری رات باتيں کريں گے۔ اور ميں تمہيں ماضی کی وہ سب حقيقتيں بتاؤں گا۔ جن سے تم ناواقف ہو۔
ميں جانتا ہوں تم اتنی جليبی کی طرح سيدھی نہيں کہ تمہارے ملتے ہی ميں اپنی زندگی کو رومانٹک مووی بنا ڈالوں۔ تم نکاح کے ہونے کے بعد بھی ميری شدتوں کو ايسے ہی اگنور کرتی تھيں۔
جيسے کہ اب گھورياں ڈال کر کر رہی ہو” نائل کی باتوں پر وہ مسکراہٹ بڑی مشکل سے چھپا سکی۔
“تمہيں عملی رومانس کے ٹريک تک لانے کے لئے بڑۓ پاپڑ بيلنے پڑيں گے” نائل کی بے باکياں شروع ہوچکی تھيں۔
“اچھا پھر کل بات کريں گے” يماما نے وہاں سے بھاگنے کے لئے پرتولے۔
“سلسلہ يہيں سے شروع کريں گے نا؟” نائل نے بڑی معصوميت سے جاتی ہوئ يماما کو پکار کر کہا۔
“بے حد معصومانہ سوال ہے۔ مگر اس کا جواب بے حد جابرانہ ہے۔ اور وہ يہ کہ ۔۔۔”نہيں”۔۔” يماما نے مڑ کر مسکراتے ہوۓ اسے صاف جواب ديتے ہوۓ اسکی کيفيت کا حظ اٹھايا۔
“خير اب تو يہيں ہو۔ ديکھتا ہوں کب تک ہاتھ نہيں آتيں” نائل نے بڑے انداز سے گردن ہلائ۔ يماما مسکراہٹ اچھالتی اندر کی جانب بڑھ گئ۔
_____________________