‘میں نے تیرے فیصلوں پر سر جھکایا ہے پروردگار۔۔ بے شک تو بہتر کرنے والی زات ہے۔۔وہ تیرے پاس حفاظت سے ہے اِس گندی دُنیا سے دور ہے۔۔ بس آج دل سے کچھ ماگنا چاہتی ہوں۔۔ اِس یقین کے ساتھ کے تو مجھے خالی ہاتھ نہیں لوٹاۓ گا۔۔’ وہ مسّللے پر بیٹھی کالی چادر اُڑھے بہت ٹوٹی ہوئ لگ رہی تھی۔۔۔
‘میں آپ سے ایک دوست ہونے کے حق سے مانگ رہی ہوں۔۔میں نے آپ کی بات مان لی نہ۔۔ آپ بھی پلیز۔۔’ اُس نے مُنہ پر ہاتھ رکھ کر خُود کو رونے سے روکا تھا۔۔
وہ خُدا سے اِس ادا سے ہمکلام تھی جیسے وہ اُس کے سامنے بیٹھے ہوں۔۔
‘بس ایک ملاقات کروا دیں اُس سے’ وہ سجدہ ریز ہوکہ بولی تھی۔۔۔
‘ایک بار ملوا دیں۔۔ بس ایک بار۔۔’ ایمان طارق رات بھر اپنی خواہش پر رَب کو آمادہ کررہی تھی۔۔
‘کیسی ہو مریم؟ تم نے بہت اچھا کیا جو آگئیں۔۔ بابا بھی چلے گۓ اب میں اور ماما اکیلے ہیں۔۔’ ایمان مریم سے گرم جوشی سے ملی۔۔
‘آپ کی یاد آگئ تو آگئ۔۔ بھئیا کے بعد اب آپ بھی نہیں آتیں۔۔شاید آپ کا رشتہ اُن کی زندگی تک ہی تھا ہم سے۔۔’ مریم افسردہ ہوکہ بولی۔۔
‘ایسا نہیں ہے میری گڑیا۔۔بس وہ بھابھی نے بتایا تھا کہ تمھارے لندن والے بھائ آۓ ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا ایسے آنا۔۔اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئ’ وہ دھیمے سے بولی۔۔
‘باسل بھئیا؟ مگر وہ تو ہمیشہ کے لیۓ آگۓ ہیں۔۔ اور وہ تو جانتے ہیں آپ کو۔۔ کیا آپ اب کبھی نہیں آئیںنگی؟ مریم کی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔۔
‘مریم مجھے ڈر سا لگتا ہے اُن سے۔۔ بلال بھی اُن کا ذکر مجھ سے نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میں اُن کی روبدار پرسنیلیٹی سے ڈرتی ہوں۔۔’ایمان وضاحت کرنے لگی۔۔
‘باسل بھئیا اور بلال بھئیا کی آپس میں بہت بنتی تھی۔۔ باسل بھئیا بہت لاڈ اُٹھاتے تھے اُن کے۔۔یہی وجہ ہے کہ اب باسل بھئیا ہمیشہ کہ لیۓ آگۓ ہیں کیونکہ وہ امّی کو ایسے نہیں دیکھ سکتے۔۔’ مریم ایمان کو سمجھتے ہوۓ بولی۔۔
‘ہاں میں آؤنگی امّی سے ملنے’ ایمان جوابٍ بولی۔۔
‘آج ایمان نے بلال کے بعد دوسری بار ابّو کو روتے دیکھا تھا۔۔
اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کس طرح اُن کا درد کم کرے۔۔ ایسا لگ رہا تھا کسی کی نظر لگ گئ تھی جیسے۔۔وہ سب کچھ ٹھیک کرنا چاہتی تھی مگر۔۔۔ بار بار اُس کو بلال کا دیا وعدہ یاد آرہا تھا۔۔۔
‘کیا ہوا امّی کو؟’ ایمان نے ہسپتال پہچتے ہی بھابھی سے پوچھا تھا۔۔
‘امّی کی حالت دن بہ دن خراب ہورہی ہے۔۔ حالت نہیں سنبھل رہی۔۔ سب کچھ کر کے دیکھ لیا مگر۔۔۔’ وہ ایمان سے گلے لگ کر رو رہی تھیں۔۔
‘اپنے ہاتھوں سے ایمان نے سوپ بنایا تھا۔۔
‘ماما میں مریم کے ہاں جارہی ہوں۔۔ شام ہونے سے پہلے واپس آجاؤنگی۔۔’ وہ عبایا پہنتے ہوۓ بولی۔۔۔
‘ٹھیک ہے جلدی آنا مگر سُنو۔۔؟ اُنھوں نے جاتے ہوۓ ایمان کو روکا تھا۔۔
‘میں نہیں چاہتی کہ اب تم وہاں جاؤ اور خُود کو تکلیف دو۔۔ لیکن بلال کی امّی کا سُن کر میں تمھیں نہیں روک رہی۔۔ میں اُن کا درر سمجھ سکتی ہوں میں بھی ایک ماں ہوں۔۔’ وہ نم آواز میں بولیں۔۔
‘ماما میں آپ سے مضبوط ہوں۔۔’ ایمان گلے لگا کر بولی۔۔
وہ خاموشی سے بلال کے کمرے میں داخل ہوئ تھی۔۔
‘بیٹی بھی کہتی ہیں اور ایسے بھی کرتی ہیں۔۔’ وہ اُن کے قدموں میں بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔
امّی خاموشی سے ایک سمت اُس کو گھور رہی تھیں۔۔۔
‘مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں کہ اب اپنی ماں کو کھو دوں۔۔’ وہ آنسو ضبط کر کے بولی۔۔
‘تم سے بہت ہمت ملتی ہے۔۔ تم بہت عزیز ہو تم بلال کی پسند ہو بیٹی۔۔’
وہ دونو گلے لگ کر جی بھر کہ روئ تھیں۔۔۔
ایمان کو لگا جیسے کوئ دیکھ رہا ہو اُس کو۔۔
وہ پلٹ کر دیکھنے لگی مگر کوئ نہ تھا۔۔۔
‘اب آپ نہیں روئنیگی۔۔’وہ سوپ پلاتے ہوۓ بولی۔۔
‘اگر تم ساری زندگی کے لیۓ میرے پاس آجاؤ تو میں نہیں رونگی۔۔’ امّی اُس کا ہاتھ تھام کر بولیں۔۔۔
‘جی امّی آپ کے پاس ہی ہوں’ وہ چونک کے بولی۔۔
‘یہ کیا ہے۔۔؟’ ایمان نے کتاب کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔
‘بلال بھئیا کی ڈائری ہے آپی۔۔ اُن کا کمرا امّی کے لیۓ صاف کرتے ہوۓ ملی تو آپ کہ لیۓ رکھ دی۔۔’ مریم نم آنکھوں سے بولی۔۔۔
‘تم نہیں جانتی تم نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے’۔۔۔وہ ڈائری دل سے لگا کر آنسوؤں سے روتے ہوۓ بولی۔۔۔
‘امّی سوگئ ہیں میں چلتی ہوں۔۔ جلد آؤنگی دوبارہ’ ایمان جاتے ہوۓ بولی۔۔۔
نجانے کیوں پہلی بار اُس کو لگا تھا کسی کی نظر ہواُس پر۔۔کوئ مُسلسل اُس کو دیکھ رہا ہو۔۔
وہ بار بار پلٹ کر دیکھتی مگر وہاں کوئ نہ تھا
بلال کی ڈائری دل سے لگاۓ وہ گھر لوٹ آئ تھی۔۔۔
‘میں چاہ رہی تھی تم اسلام آباد چلی جاؤ اپنی بہن کے پاس۔۔۔’ ماما ایمان کو چاۓ دیتے ہوۓ بولیں۔۔۔
‘نہیں ماما۔۔ آپ اکیلی ہوجائنگی۔۔ اور پھر سال ہونے والا ہے اب تو ایشعال آۓ گی۔۔’ وہ دبے لہجے میں بولی۔۔۔
‘ہاں تو اُس کے ساتھ آجانا۔۔تمھیں چینج ملےگا۔۔’ ماما سنجیدہ ہوکہ بولیں۔۔
‘نہیں ماما۔۔ دل نہیں۔۔ میں کمرے میں جاکر نماز پڑھ رہی ہوں۔۔’ ایمان کمرے کا رُخ کرتے ہوۓ بولی۔۔
نماز پڑھ کر وہ وہیں بیٹھی تھی۔۔
ڈائری سامنے میز پر رکھی ایمان کی منتظر تھی
وہ ہمت جمع کر رہی تھی اُس ڈائری کو پڑھنے کی۔۔۔
ڈائری سینے سے لگا کر وہ سر جھکا کر روئ تھی۔۔۔
‘کہاں چلے گۓ مجھے تنہا چھوڑ کر۔۔
آجاؤ واپس کہ تمھاری ایمان تھک گئی ہے۔۔’ اُس کے دِل نے صدا لگائ تھی۔۔
ڈائری کھولی تو سامنے تصویر تھی۔۔ جو ریان کے عقیقکے میں کھنچی تھی۔۔
کتنی ہی دیر وہ اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
اُس کا ہاتھ بلال کے چہرے پہ تھا۔۔
آنسو زور قتار بہہ رہے تھے۔۔۔
کمرے میں بس ہر سو سسکیاں تھیں۔۔۔
‘میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ نہ دیکھوں اُس کو۔۔مگر اُس میں کچھ تو ہے۔۔میں دل سے مجبور ہوں۔۔’
‘آج بہت غصّہ آیا جب عیدملن میں لڑکوں نے اُس کا نام لیا۔۔ ایسا لگا کسی نے میرے عزت پر بات کی ہو جیسے۔۔مگر میں خاموش رہا۔۔ کیونکہ میں ایمان کی ذات پر انگلیاں نہیں اُٹھوا سکتا۔۔’
‘پسند نہیں مجھے کہ وہ ایسے رکشہ اور بس میں سفر کرتی ہے۔۔ دل کرتا ہے اُس کو گاڑی میں چھوڑ کر آؤ مگر وہ نہیں مانے گی۔۔۔’
ڈائری بند کر کے۔۔ منُہ پر تکیہ رکھ کر وہ چیخ چیخ کر روئ تھی۔۔۔
اُس کو وجود کانپ رہا تھا۔۔
اپنے ڈوپٹے سے آنسو صاف کر کے پھر اُس نے ڈائری کھولی تھی۔۔۔
‘آج پہلی بار ایمان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔۔ میں نہیں جانتا کہ کتنی محبت ہے۔۔ بس اتنا ہے کہ اُس کو درد میں دیکھ کر میں بےچین ہوجاتا ہوں۔۔’
‘جب وہ آنکھیں بند کر کے دُعا مانگتی ہے تو دل چاہتا ہے اُس کو دیکھتا ہی جاؤں۔۔ اُس کا ڈوپٹے میں لپٹا وجود۔۔آنکھوں میں آنسو۔۔ یا خُدا۔۔ اُس کو میرا ساتھی بنا دیں۔۔ اس دُنیا میں بھی اور اُس جہاں میں بھی۔۔۔ آمین’۔۔۔
‘اُس کی سادگی ہی اُس کا حُسن ہے۔۔ باسل سے کہتا ہوں تو کہتا ہے کڑکیاں چالاک ہوتی ہیں۔۔ اُس کو غصّہ آجاتا ہے۔۔۔’
ایمان ڈائری بند کر کے بس دیوار کو گھور رہی تھی۔۔۔ آنسو چادر سے صاف کرتے ہوۓ اُس نے ڈائری کھولی تھی۔۔
‘کیسے بتاؤں اُس کو کہ وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔ کیوں نہیں سمجھتی۔۔ کیوں اصرار کر رہی ہے۔۔پل پل اُس سے جدائ کا غم مجھے کھا رہا ہے۔۔۔ اُس کے ساتھ زندگی جینے کی دُعا تو قبول نہیں ہوئ۔۔بس یہ دُعا قبول ہو کہ وہ خوش رہے۔۔ اُس کو دُنیا کی ہر خوشی ملے۔۔۔’
‘پاگل کہتی ہے مجھ سے نکاح کرو۔۔ کیوں اُس پر بیوہ ہونے کا داغ لگاؤں۔۔ کیوں میں اُس کی زندگی کو برباد کروں۔۔ کیوں ساری زندگی کے لیۓ اُس کا مزاق بناؤں۔۔۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ جو وقت ہے تمھارے قریب سےقریب تر گزاروں۔۔ مگر دو دن کے لیۓ میں تمھیں ساری زندگی نہیں رولا سکتا۔۔ کیا کروں یار تم سے بےغرض بے ساختہ محبت کی ہے ایمان۔۔۔’
وہ زمین پر جھوک کر روئی تھی۔۔۔
رات بھر اُس کا وجود رویا تھا۔۔
ایمان طارق اپنا سب کچھ کھو کر روئی تھی۔۔
‘کب اُس کی آنکھ لگی اُس کو خبر نہ ہوئی تھی
‘میں خوش ہوں ایمان۔۔۔بس تم امّی کا خیال رکھو۔۔۔ اُن کو خوش رکھو۔۔۔ میرا سکون چاہتی ہو تو اپنا اور میری ماں کا خیال رکھو۔۔میری محبت تمھاری ساتھ ہے۔۔ میں ہر لمحہ تمھارے ساتھ ہوں۔۔’ وہ ایمان کے خواب میں آیا تھا۔۔
سُفید قمیز شلوار میں وہ کتنا پُرنور لگ رہا تھا۔۔
ایمان کی آنکھ فجر میں کھولی تھی۔۔۔
اُس کے دل نے صدا لگائ تھی۔۔
‘کاش کچھ دیر اور رُک جاتے۔۔’
پورا دِن ایمان اُسی خواب کو سوچ رہی تھی۔۔
وہ جب جب آنکھیں بند کرتی۔۔ اُس کو بلال کا وجود سامنے دیکھتا تھا۔۔
ایمان کو دلی سُکون محسوس ہورہا تھا۔۔
آنسو تھی مگر اطمینان تھا کہ وہ وہاں پُرسکون ہے۔۔۔
‘اتنے مزے کی یخنی بنائ ہے آپی’ مریم کچن میں ایمان سے ہمکلام ہوئ تھی۔۔۔
‘تم بھی پی لینا میں نماز پڑھ لوں پھر امّی کے پاس جاتی ہوں’ ایمان کمرے کا رُخ کرتے ہوۓ بولی۔۔۔
نماز پڑھ کر وہ سیدھی بھابھی کے کمرے کی جانب گئ تھی۔۔
‘صبا بھابھی کتنا شیطان ہوگیا ہے یہ’ ایمان ریّان کو گود میں لیتے ہوۓ بولی۔۔۔
‘شیطان؟ اس سے بھی آگے کوئ لفظ ہو تو وہ بولو تم’ بھابھی بےزار ہوکہ بولیں۔۔۔
‘جب سے باسل بھائ آۓ ہیں یہ انتِہا کا شرارتی ہوگیا ہے۔۔ بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں مگر دل اُن کا بچوں جتنا ہے۔۔ اُن کی شخصیت دل کو بھ جاتی ہے۔۔ غصّے کے تیز ہیں مگر دل کے صاف ہیں’ بھابھی خُود کو تعریف سے رُوک نہ پائیں تھیں۔۔۔
‘وہ اگر اتنے ویل ہیں۔۔ پڑھے لکھے ہیں۔۔ کامیاب ہیں اور ہنڈسم بھی ہیں تو اب تک شادی کیوں؟ ایمان نے سہمے لہجے میں پوچھا۔۔
‘ارے عمر تو اُن کی بس تیس سال ہے۔۔ ریّان کے بابا سے بس وہ ایک سال بڑے ہیں۔۔حلانکہ بلال سے سات سال بڑے مگر وہ نام لے کر پکارتا تھا دونوں کی بنتی بہت تھی۔۔۔’بھابھی نم آنکھوں سے بولیں۔۔۔
‘اچھا ہے اُن کی شادی ہو تو گھر کا ماحول بدل جاۓ گا بھابھی’ ایمان اُمیدی بھرے انداز سے بولی۔۔۔
‘ہاں اور تو اور امّی نے کل مجھے بتایا کہ اُنھوں نے تو لڑکی بھی ڈونڈھ لی ہے’ بھابھی حیرانی سے بولیں۔۔۔
‘واہ شُکر ہے امّی کا دیھان بدلا۔۔ بلال کو گۓ دو مہینے ہوگۓ مگر امّی کا سُن کر خوشی ہوئ کہ اُن کا دیھان دوسری جانب ہوگیا ہے’ ایمان نے آہ بھر کر کہا تھا۔۔۔
وہ پھر سے گھبرا گئ تھی جیسے کسی کی نگاہ ہو اُس پہ۔۔۔
وہ کچن جاتے ہوۓ بار بار مڑ کر دیکھ رہی تھی جیسے کوئ پیچھے ہو اُس کے۔۔۔
‘مریم تم آگئیں۔۔ زرا میرے ساتھ یہ برتن اُپر تک لے جاؤ’ وہ کہتے کہتے مُڑ کر بُری طرح چونکی تھی۔۔۔
اُس کے سامنے مریم نہیں۔۔ ایک دلکش شخصیت کا لڑکا کھڑا تھا۔۔ کالی پینٹ اور وائٹ شرٹ پہنے وہ ہاتھ باندھ کر ایمان کو گھور رہا تھا۔۔
ایمان حیران تھی۔۔ اُس کی آنکھیں بلکول بلال جیسی تھیں۔۔وہی نکش مگر نظروں میں کچھ اور تھا۔۔۔
ایمان کے ہاتھ میں ٹرے مارے کپکاپاہٹ کے ہِل رہی تھی۔۔ اُس کی ڈھرکنیں تیز ہو رہی تھی۔۔
اُس شخص کی آنکھوں میں نفرت تھی۔۔ کڑواہٹ تھی۔۔
ایمان ہمت جوٹھا کر۔۔ قدم بڑھا کر جاچکی تھی۔۔
‘دیر کردی بیٹا۔۔’ امّی اُس کی مُنتظر تھیں۔۔
‘جی وہ یخنی گرم کر رہی تھی۔۔’ ایمان سرد لہجے میں بولی۔۔
‘کیا بات ہے ایمان ہاتھ کیوں ٹھنڈے ہورہے ہیں؟’
امّی نے پاس بیٹھی ایمان کا ہاتھ تھامتے ہی پوچھا تھا۔۔
‘کچھ نہیں امّی آپ چلیں یہ یخنی پی لیں ورنہ مریم ساری چٹ کر جاۓ گی’ ایمان نے خُود کو نارمل کرتے ہوۓ بولا۔۔
‘میں تم سے کچھ ماگنا چاہتی ہوں ایمان’ امّی ایمان کا ہاتھ پکڑ کر آہستگی سے بولیں۔۔
‘جی امّی آپ حکم کریں۔۔ میں آپ کو نہ کیوں کہوں گی۔۔’ ایمان نے اپنا ڈر چھپا کر جوان دیا۔۔
‘ایمان تم میرے اُس بیٹے کی پسند ہو جو میرے سب سے قریب تھا۔۔وہ دُنیا کے لیۓ مر گیا ہوگا مگر میں آج بھی اُس کا لمس اپنے وجود میں محسوس کرتی ہوں۔۔آج بھی لگتا ہے کسی کونے سے ہنستا بھگتا میرے پاس آکے مجھ سے لیپٹ جاۓ گا۔۔ میں جب جب تمھیں دیکھتی ہوں مجھے بلال کا چمکتا چہرا نظر آتا ہے۔۔ وہ تم سے بے حد محبت کرتا تھا ایمان۔۔’ امّی اُس سے گلا لگ گئ تھیں۔۔۔
وہ دونوں سِسک کر رو رہی تھیں۔۔۔
‘تمھیں دیکھ کے لگتا ہے میرا بیٹا واقعی زندہ ہے۔۔ میں جانتی ہوں میں تم سے بہت بڑی قربانی مانگ رہی ہوں۔۔ مگر تم بیٹی ہو میری۔۔ میرا یقین ہے تم مجھے مایوس نہیں کروگی۔۔’ وہ گلے لگاۓ روتے ہوۓ ایمان کو بول رہی تھیں۔۔۔
ایمان کا وجود کانپ رہا تھا۔۔
اُس کے ہاتھوں کی گرفت کمزور پڑ رہی تھی۔۔
اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
‘ایمان۔۔ ہمیشہ کے لیۓ اِس گھر میں آجاؤ۔۔ میری بیٹی ہو میرے پاس آجاؤ۔۔ میرے باسل کی دُلہن بن کر اِس گھر میں آجاؤ’۔۔۔ امّی نے ایمان کو ماتھے پہ بوسہ دیا تھا۔۔۔
ایمان ساخت بیٹھی تھی۔۔
لفظ ہلک میں دب گۓ تھے۔۔۔
وہ بمشکل بول پائ تھی۔۔۔
‘مجھ سے میری زندگی مانگ لیں میں اُف تک نہیں کہوں گی۔۔ مگر یہ نہ مانگیں۔۔ میں۔۔۔ میں زندہ درگور ہوجاؤ گی۔۔’ایمان ہاتھ جوڑ کر اُن کے قدموں میں بیٹھ کر لرز کے بولی تھی۔۔
‘بیٹی۔۔۔ بیٹی۔۔’ امّی سر تھامے پیچھے کی جانب گر گئ تھیں۔۔۔
‘امّی۔۔ امّی۔۔۔
بھابھی۔۔ مریم۔۔’ ایمان سُرخ آنکھوں سمیت بھگتی ہوئ کمرے سے نکل کر چلّائ تھی۔۔۔
‘کیا ہوا تھا کمرے میں ایمان؟ بھابھی ہسپتال میں ایمان کے پاس آکر بولیں جو بے سود زمین پر بیٹھی تھی۔۔۔
اُس کو حوش نہیں تھا۔۔ بار بار بلال سامنے آرہا تھا۔۔۔
‘پتہ نہیں امّی۔۔ مجھ سے بات۔۔ اچانک بس۔۔’ اُس کے آنسو اُس کے لفظوں کو روک رہے تھے۔۔
‘میں زرا نماز۔۔’ وہ بمشکل یہ بول کے اٹھی تھی۔۔۔
بکھرا وجود لیۓ۔۔ آنکھوں میں آنسو اور ہزاروں سوال لیۓ۔۔ ڈوپٹہ زمین پر کھنچے وہ بےسود آگے کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔اس بات سے بےخبر کے باسل اُس کا پیچھا کر رہا تھا۔۔۔
وہ نماز روم تک پہنچی ہی تھی کہ۔۔۔
‘کیا چاہتی ہو تم۔۔؟ مقصد کیا ہے آخر تمھارا۔۔؟ وہ چیخ کر ایمان کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔۔۔
وہ شخص غصّے سے کانپ رہا تھا۔۔
‘کیوں ہماری خوشیوں کی دوشمن بن گئ ہو۔۔؟ وہ ایک بار پھر چلّایا تھا۔۔۔
‘میں۔۔؟ ایمان بھری آنکھوں سے حیران کھڑی بس اُس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کی نظروں میں ایمان طارق کے لیۓ بےتہاشا حقارت تھی۔۔۔
وہ ایک ہی سمت اُس کو دیکھ رہی تھی جو حالات کا زمہ دار ایمان کو سمجھ رہا تھا۔۔
‘پہلے تم نے میرے بھائ کو ہم سے دور کردیا اور اب میری ماں۔۔ کیا بگاڑا ہے ہم نے تمھارا۔۔۔ہاں؟؟؟’ کیوں برباد کر ہی ہو ہمیں۔۔؟ یاد رکھنا اگر میری ماں کو کچھ ہوا تو میں تمھیں بھی برباد کردونگا۔۔’ وہ بول کہ جا چکا تھا۔۔
مگر ایمان۔۔ وہ وہیں کھڑی بےساختہ رو رہی تھی۔۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُس کے وجود پہ کانٹے برسا دیۓ ہوں۔۔
وہ جاۓنماز پر بیٹھ گئ تھی۔۔
‘میرا امتحان کب تک لیں گے آپ؟ وہ بُری طرح ٹوٹ گئ تھی۔۔۔
اُس نے سب کچھ کھویا بھی تھا۔۔
اُس کی زات پر اُنگلیاں بھی اُٹھی تھیں۔۔
‘ترس ہی کھا لیں مجھ پر۔۔ میرا تو وجود چھّلی ہوگیا ہے۔۔ مجھ سے میری کائنات چھین لی آپ نے میں مے صبر کیا۔۔ مگر یہ۔۔ یہ نہیں ہوگا مجھ سے۔۔ اُسی گھر میں۔۔ اُسی گھر والوں کے ساتھ میرا مان میری عزت بلال نے کروائ تھی۔۔
مجھے اپنے سر کا تاج بنا کر سب کے سامنے سجایا تھا۔۔ میں اب اُس ہی کے بھائ۔۔؟
نہیں خُدایا۔۔ میری زندگی بددُعا بن جاۓ گی۔۔
اللّلا پلیز۔۔ نہیں۔۔ یہ مت کریں۔۔’ وہ بآواز سجدہ ریز ہوکہ روئ تھی۔۔۔
آپی۔۔؟ مریم کی آواز نے اُس کو چونکایا تھا۔۔
‘آپی امّی کو ہوش آگیا ہے اور بار بار وہ بس آپ کا نام پکار رہی ہیں۔۔’ مریم نم آنکھوں سے بولی۔۔۔
نماز روم سے آئ سی یوں کا سفر طویل تھا۔۔
سر پر ڈوپٹہ اور آنکھوں میں آنسو لیۓ۔۔
وہ تیز قدم بڑھا رہی تھی۔۔۔ اُس کے اندر ایک ہی شخص گونج رہا تھا۔۔
‘میری ماں کا خیال رکھنا۔۔’۔۔۔
‘ایمان۔۔ جاؤ اپنی ماں کو واپس لے آؤ۔۔
اُس کو لے آو۔۔ میں ایک اور جنازہ نہیں اُٹھا سکتا بیٹا۔۔’ ابّو ابدیدہ ہوکہ بولے۔۔
اندر جاتے ہوۓ اُس کی نظر باسل پر پڑی۔۔
جو نفرت کی نگاہیں اُس پر جماۓ کھڑا ہوا تھا
‘امّی۔۔ امّی۔۔’ وہ بے سختہ سر امّی کے ہاتھ پر رکھ کر روئ تھی۔۔۔
‘میں نہیں برداشت کرسکتی اب۔۔’ وہ درد سے بولی۔۔۔
امّی اُس کی جانب خاموشی سے دیکھ رہی تھیں
بنا کچھ بھی کہے بس آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔
اپنی وجود کو صبر اور ہمت کی چادر میں لپیٹ کر۔۔
گہری سانس کے کر ایمان طارق نے اپنی ہار کا اعتراف کیا تھا۔۔
‘آپ جیسا کہیں گی ویسا ہی ہوگا امّی’ وہ بول کے سر جھکا کر بیٹھ گئ تھی۔۔۔
جواباٍ امّی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔
گھر لوٹ کر وہ بکھری ہوئ لگ رہی تھی۔۔۔
دو نوالے کھانا کھا کر وہ کمرے کی جانب جا چکی تھی۔۔۔
دماغ سُن تھا۔۔۔
وہ بستر پر لیٹ گئ تھی۔۔۔
رات بھر اُس نے چھت کو ایک ہی سمنت دیکھا تھا۔۔۔
‘کیا بات ہے ماما خوش لگ رہی ہیں۔۔؟’ ایمان صبح کی چاۓ پیتے ہوۓ بولی۔۔
‘ہاں کل ایشعال آرہی ہے ایک مہینے کے لیۓ’ ماما گرم جوشی سے بولیں۔۔۔
‘اچھا ہے آجاۓ۔۔’ ایمان چاۓ کا گھونٹ لیتے ہوۓ بولی۔۔۔
‘اچھا آپ کباب بنا لیں میں کمرے میں جارہی ہوں۔۔ کچھ کام ہو تو آواز دے دجیۓ گا۔۔’ ایمان جاتے ہوۓ بولی۔۔۔
‘امّی کو کہہ تو دیا ہے مگر آگے کیا ہوگا۔۔۔ وہ واپس گھر آجائیں تو میں اُن سے بات کرونگی’ وہ دل میں اُمید لگا کر بولی۔۔۔
‘کون ہے بھئ اِس وقت’ ماما دروازہ کھولتے چڑ کر بولیں۔۔۔
‘ماما’ ایشعال گرم جوشی سے گلے ملی تھی۔۔۔
‘ارے تم لوگ تو کل صبح آنے والے تھے۔۔ اِس وقت کیسے۔۔۔؟ ماما اب تک کنفیوز تھیں۔۔
‘آپ دونوں کو سرپرائز دینا تھا اِن کا پلان تھا’
ایشعال احمد کی جانب اِشارہ کرتے ہوۓ بولی
‘کیسی ہے میری ایمان؟’ ایشعال کی انکھیں بھر آئ تھیں۔۔۔
‘ٹھیک ہوں اچھا ہوا احمد بھائ بھی آگۓ۔۔ بہت اچھا لگ رہا ہے مجھے’ ایمان احمد کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔
‘وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ تمھیں کیا ہوا ہے۔۔؟ اتنی کمزور اور رنگ بھی گر گیا ہے۔۔۔مجھے اتنا یاد کیا تم نے۔۔؟ احمد قہقہہ لگا کر بولا۔۔۔
‘ایسے آۓ ہو تو اب کھانے میں دال چاول اور شامی کباب ہی ملینگے۔۔’ ماما کچن میں جاتے ہوۓ بولیں۔۔۔
‘میں تو چلیں جیسی بھی ہوگئ یہ آپ کی بیگم کو کیا ہوا ہے بھینس بن گئ ہے’ ایمان مُسکرا کے بولی۔۔
‘سوچو کتنا اچھا ہوں جانور نُما بیوی پال رہا ہوں’ دونوں نے قہقہہ لگایا تھا۔۔
‘اِس بکواس سے بہتر ہے میں ماما کی مدد کر لوں’ ایشعال کرسی سے اُٹھتے ہوۓ بولی۔۔۔
‘اچھا ہوا تم بھی آگۓ احمد۔۔ ایمان بھی خوش ہے تمھارے آنے سے۔۔’ ماما کھانے کی ٹیبل پر بولیں۔۔
‘جی خالہ آنا تو تھا اور میرا بچپن کا دوست بھی آیا ہوا ہے تو اُس سے بھی ملنا تھا’ احمد خوش دلی سے بولا۔۔۔
رات کھانے کے بعد ایشعال چھت پر آئ تھی۔۔۔
‘احمد کے سامنے میں نے بولا نہیں مگر اپنی حالت دیکھی ہے تم نے۔۔؟ تم سے مقابلہ ہوتا تھا میرا کے کون گورا ہے یاد ہے؟؟ اور آج۔۔ کتنی کمزور۔۔ کتنی بکھری ہوئ ہوگئ ہو۔۔’ ایشعال کی آنکھیں نم تھیں۔۔
‘تمھاری بہن ٹوٹ گئ ہے ایشعال۔۔ میرا زخم ناسور بن کر مجھے ختم کر رہا ہے۔۔’ وہ کڑکی اپنی بہن سے لیپٹ کر روئ تھی۔۔۔
‘میں کیسے اُس گھر میں رہ سکتی ہوں۔۔؟ میں کہاں سے لاؤ وہ دل جو بلال کی جگہ کسی اور مرد کا سوچ سکے؟’ایمان کی آواز میں گلا تھا۔۔
‘ہاں جانتی ہوں اور میں کبھی تمھارے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دونگی تم فکر نہیں کرو میں آگئ ہوں نہ’ ایشعال نے ایمان کو بوسہ دیتے ئوۓ کہا۔۔۔
‘کیسی ہیں بھابھی؟ ایمان نے بھابھی کو فون ملایا تھا۔۔
‘شُکر ہے سب ٹھیک ہیں امّی تو پہلے جیسی ہوگئ ہیں۔۔’ وہ خوشی سے بولیں۔۔
اچھا۔۔ میرا سلام بول دیجئے گا۔۔ رکھتی ہوں بھابھی’ اُس کو امّی کا دیا وعدہ یاد آیا تھا۔۔
وجود ایک بار پھر کانپا تھا۔۔۔
اُس لڑکی کو اب تنہائ سے ڈر نہیں لگتا تھا۔۔
وہ موقع تلاش کرتی تھی کہ کب اُس کی زات اکیلی ہو۔۔۔ جہاں اُسے کوئ ڈھونک یہ ڈرامہ نہ کرنا پڑے۔۔۔ جہاں وہ صرف بلال کی ایمان بن کر سوچے۔۔۔
کتنا آسان ہوتا ہے کہہ دینا کہ بھول جاؤ۔۔
جانے والا چلا گیا۔۔ کیوں دُنیا وقت نہیں دیتی۔۔
کیوں وہ سب پہلے جیسا چاہتی ہے۔۔؟
دُنیا کو کس طرح سمجھائیں کہ وہ محز ایک شخص نہیں ہوتا۔۔
اُس نے میری پہچان کروائ۔۔ اب کیسے بھول جاؤں۔۔؟ وہ مُستقل بالکونی میں بیٹھی باہر کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔
آنسو اُس کے درد کی عکاسی کر رہے تھے۔۔۔
ہزار سوال۔۔۔ ہزار کاش۔۔۔
جواب بس بلال۔۔۔ اُس کا خواب۔۔اُس کا پیغام۔۔
‘کیسی رہی شاپنگ؟ ایمان نے سب کے آتے ہی پوچھا تھا۔۔
‘اچھی تھی۔۔ میں اور ماما ہی لگے رہے۔۔ احمد کے تو فڑانڈ مل گۓ تھے تو اِن کو پھر کسی کا حوش نہیں رہتا۔۔’ ایشعال غصّے سے بولی۔۔
‘ہاں تو اتنے عرصے بود ملا ہے۔۔’ احمد پانی پیتے ہوۓ بڑبڑایا۔۔
‘جو بھی ہو تھا بہت تمیزدار اور اچھا۔۔ اتنی عزت سے ملا۔۔’ماما اپنئیت سے بولیں۔۔
‘جی خالہ باہر سے آنے کے بعد یہاں بھی کچھ ہی مہینوں میں کامیاب بزنس مین ابن گیا ہے۔۔’احمد نے وضاحت کرتے ہوۓ بولا۔۔
‘کل ہم سب کو انوائٹ کیا ہے ڈنر پر۔۔احمد مزید بولا۔۔
‘آپ دونوں جائیں مزے کریں’ ایمان اُٹھتے ہوۓ بولی۔۔
‘جی نہیں آپ جارہی ہیں۔۔ یہ تع مجھے لفٹ نہیں کراتے دوست کے سامنے تمھیں جانا ہی ہے’ ایشعال ضد کرتے ہوۓ بولی۔۔
‘کتنی پیارے لگ رہی ہو ایشعال’ ایمان نے دل سے تعریف کی تھی۔۔
‘پھر بھی تم سے کم۔۔ میں دس کلو کا میک اپ کر کے پیاری لگتی ہوں۔۔مگر تم۔۔ تم کچھ نہ کر کے بھی حسین لگتی ہو’ وہ اپنئیت سے بولی۔۔۔
وہ سادہ مگر بےحد حسین لگ رہی تھی۔۔۔
نیلے رنگ کا جوڑا پہنے۔۔ ہلکی سی چوٹی باندھے۔۔۔ ایک کاندھے پہ شال اُڑھے۔۔
گلابی رنگ کی لیپ سٹک لگاۓ وہ کھوئ کھوئ مگر پُرنور لگ رہی تھی۔۔۔
‘واہ واہ۔۔ تمار ہوتی نہیں مگر ہوجاؤ تو غضب کردیتی ہو’ احمد ایمان کے آنے پر بولا تھا۔۔۔
‘میں خوش ہوں آج بہت تمھیں ایسے دیکھ کر۔۔
جاؤ میرے بچی۔۔ خُدا تمھیں بہت خوشیاں دیں’ ماما ایمان کو دیکھ کے خوشی سے نم انکھوں سمیت بولیں تھیں۔۔۔
ریسٹورنٹ پہچ کر تینوں اندر کی جانب بڑھے تھے۔۔۔
‘کہاں ہے یار تو’ احمد نے اندر جاتے ساتھ فون ملایا تھا۔۔۔
‘چلو اُپر بیٹھا ہوا ہے’ فون رکھتے ہی اُس نے ایشعال کو اشارہ کیا تھا۔۔
ایمان وہیں روک گئ تھی۔۔
اُس کو اپنی انکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔
وہ وہیں ساخت کھڑی رہ گئ تھی۔۔۔
سامنے اور کوئ نہیں۔۔ باسل تھا۔۔۔
بو گرم جوشی سے احمد اور ایشعال سے مل رہا تھا۔۔۔
اُس کی نگاہیں مستقل ایمان پر تھیں۔۔۔
مگر ایمان۔۔ وہ بےجان کھڑی بس دیکھ رہی تھی
‘ ارے ایمان۔۔ ادھر آؤ۔۔ یہ میری ون اینڈ اونلی سالی ایمان ہے۔۔ میری دوست بھی ہے۔۔ خالہ کی بیٹی بھی۔۔’ احمد نے ایمان کا ہاتھ پکڑ کر سامنے لا کر تعارف کرایا تھا۔۔۔
جوابٍ باسل صرف مُسکرایا تھا۔۔
‘آپ نے اتنا اہتمام کیا۔۔ بہت شکرایا۔۔’ایشعال شکرانہ انداز میں بولی۔۔
‘نہیں آپ تو فیملی ہیں بھابھی۔۔ اس سب سے ہیار بڑھتا ہے۔۔’ وہ نگاہیں ایمان پر جماۓ ایشعال سے ہمکلام تھا۔۔۔
وہ لڑکی کچھ نہ بول پائ تھی۔۔۔
وہ بس نظریں جھکاۓ اپنی ہتیلی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
‘ایشعال میں زرا واش روم سے آتی ہوں’ ایمان کہہ کر جا چکی تھی۔۔
شیشے کے سامنے کھڑے ہوکہ وہ خود کو دیکھ رہی تھی۔۔
آنسو جو نجانے کب سے روکے ہوۓ تھے اب بہہ رہے تھے۔۔
گہری سانس لے کر وہ واپس آئ تھی۔۔
‘اپ سب کے آنے کا بےحد شُکریہ’ باسل گلے ملتے ہوۓ بولا۔۔
‘آپ بھی گھر آئیۓ گا بھائ’ ایشعال خوش دلی سے بولی۔۔
‘جی کیوں نہیں۔۔ ضرور آؤں گا۔۔’ ایک بار پھر اُس نے ایمان کو اپنے انکھوں کے حصار میں لے کر جواب دیا تھا۔۔
گھر واپسی کے راستے میں ایشعال مسُلسل باسل کی تعریفیں کر رہی تھی۔۔
‘احمد گاڑی ہسپتال کی جانب لیں’ ایشعال پیچھے ایمان کو بے حوش دیکھ کر چلّائ تھی۔۔
پریشانی کی بات نہیں اِن کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا تھا۔۔ کوشش کریں کہ یہ خوش رہیں۔۔ ایسی ہی رہا تو آگے مسئلہ ہوسکتا ہے۔۔’ ڈاکٹر کہہ کے جاچکا تھا۔۔
‘شُکر ہے تم آگۓ تھے ورنہ مجھے تو اب راستے یاد بھی نہیں رہے۔۔’ احمد نے ساتھ کھڑے باسل کو مُخاتب کیا تھا۔۔
وہ جو خاموش کھڑا تھا۔۔
بس وارڈ میں پڑی بے سود ایمان کو ایک ہی سمت دیکھ رہا تھا۔۔
وہ خود بھی پریشان ہوا تھا۔۔۔
اُس کی نظروں میں آج نفرت نہیں۔۔ہمدردی تھی
وہ ایشعال کی سسکی پر چونکا تھا۔۔
‘بھابھی وہ احمد آپ کی ماما کو لینے نکلا ہے۔۔
آپ پلیز ایسے مت روئیں ایمان آب ٹھیک ہیں۔۔ وہ ایشعال کو سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔
‘میری بہن ایسی نہیں تھی باسل۔۔ ایمان کو دیکھ کر جینے کا دل کرتا تھا۔۔ زندگی سے بھر پور تھی میری بہن مگر۔۔’ ایشعال روتے ہوۓ بولی
‘مگر’۔۔۔؟ باسل اُس کے قدموں میں بیٹھا تھا جیسے وہ یہی تو جاننا چاہتا تھا۔۔۔
‘ایمان نے ایک شخص سے سچی محبت کی تھی۔۔ پروردگار کو اُس کی ادا اتنی پسند آئ کہ انہوں نے اُس شخص کو اپنے پاس بولا لیا۔۔قسمت نے میری بہن کو ایسا غم دے دیا جو اُس کو کھا رہا ہے باسل۔۔
بلال کے ہاں جاتی ہے تو برف کی چٹان بن کر۔۔
مضبوط بن کر۔۔ تاکہ اُس کے گھر والے خوش رہیں۔۔ مگر میری بہن۔۔’ ایشعال چیخ کر روئُ تھی۔۔۔
مگر باسل۔۔۔
وہ کچھ نہ بول پایا تھا۔۔
دلاسے کے چند بول بھی نہیں۔۔۔
بس خاموشی سے جا چکا تھا۔۔۔
‘چلو یہ سیب کھاؤ’ ماما سیب کاٹھتے ہوۓ بولیں
‘مجھے گھر جانا ہے گھر چلیں’ ایمان چڑ کر بولی۔۔۔
‘شُکر کرو احمد اور باسل صیح وقت پر تمھیں لے آۓ تھے۔۔۔’ ایشعال کی بات سُن کر ایمان چونکی تھی۔۔
‘مجھر گھر جانا ہے آپ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے میرا دم گھوٹ رہا ہے یہاں’ ایمان چلّائ تھی
وہ باسل کو دیکھ کر خاموش ہوئ تھی۔۔
مگر آنسو صاف کرنا بھول گئ تھی۔۔۔
‘آو بیٹا۔۔’ ماما نے حیران کھڑے باسل کو اندر بولایا تھا۔۔
وہ پریشان لگ رہا تھا۔
‘جی بس میں ایک کام کے سلسلے میں آیا تھا یہیں تو سوچا پوچھتا ہوا جاؤں’ اُس نے ایمان کو دیکھتے ہوۓ جھوٹ بولنے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔۔
باسل کی نگاہوں میں افسوس تھا۔۔
شرمندگی تھی۔۔ ہمدردی تھی۔۔
‘احمد کو ابھی میں نے بیھجا گھر آرام کے لیۓ مگر اگر آپ لوگوں کو جانا ہے تو میں ڈراپ کر دیتا ہوں’ باسل نے ایمان کی ضد سُن لی تھی۔۔
ایمان کے لیۓ راستہ بے حد طویل تھا۔۔
جب کہ باسل۔۔ اُس کی نگاہیں ایمان کے آگے جھک گئ تھیں۔۔
بار بار وہ پیچھے بیٹھے ایمان کو دیکھ رہا تھا
جو گہری سوچ میں گم تھی۔۔
اِس بات سے انجان کے وہ ایک شخص کی نظروں کے حصار میں تھی۔۔۔
‘ک ک کیا۔۔؟؟؟’ ایشعال بُری طرح چانکی تھی۔
‘ہاں۔۔ باسل بلال کا بڑا بھائ ہے۔۔ اور امّی اسی سے ہی۔۔’ وہ کہتے کہتے روک گئ تھی۔۔۔
‘میرے خُدایا’ ایشعال سر پکڑ کر بیٹھی تھی۔۔۔
‘لیکن ایمان۔۔ تم اللّلا کے زیادہ قریب ہو۔۔ جانتی ہوں مشکل ہے مگر وہ زات بہتر کرتی ہے۔۔
کچھ فیصلے اور باتیں وقت پر اور خُدا کی زات پر چھوڑ دینا چاہیے ایمان’ ایشعال اپنئیت سے بولی
‘میں تمھیں سمجھا سکتی ہوں فورس کبھی نہیں کرونگی۔۔ ایمان باسل اچھا لڑکا ہے۔۔ ہاں تمھارے لیۓ آسان نہیں ہوگا مگر تم سوچ کو۔۔’ وہ مزید بول کے باہر جانے کے لیۓ اُٹھی تھی۔۔۔
‘سنو۔۔ تم ماما کو یہ سب بتا دو’ ایمان نے دبے لفظوں میں ہامی بھری تھی۔۔۔
‘بڑی بہن آئ تو چھوٹی بہن کو بھول گئ آپ’ مریم نے فون کرتے ہی گلا کیا تھا۔۔
‘نہیں تم تو جان ہو۔۔ بس کچھ طبعیت ٹھیک نہیں تو اِس وجہ سے۔۔’ ایمان دھیمے سے بولی۔۔۔
‘ہاں تو اب آہ ٹھیک ہو جائیںنگی کل ہم سب پکنک پر جارہے ہیں۔۔’ مریم خوشی سے چلّائ۔۔
‘تم لوگ جاؤ مزے کرو میں پھر کسی دن چلی جاؤں گی’ ایمان بے دلی سے بولی۔۔
‘میں فون رکھ رہی ہوں امّی نے آج آپ کی ماما کو فون کر کے بتا دیا ہے۔۔ کل ملتے ہیں’ وہ ہنس کے فون رکھ چکی تھی۔۔
..
‘کل تیار ہوجانا بڑی زبردست قسم کی پکنک رکھی ہے باسل نے۔۔’ احمد آتی ہوئ ایمان کو بولا تھا۔۔۔
‘ایمان تم جاؤ گی۔۔؟ میں تو کہتی ہوں چلو چینج ملے گا’ ایشعال آہستگی سے بولی۔۔
‘کیوں نہیں جاۓ گی۔۔ عجیب بات کرتی ہو بیگم’ احمد سنجیدہ ہوکہ بولا۔۔
وہ بنا کچھ کہے چھت پر جا چکی تھی۔۔
‘یا پروردگار۔۔ میرا وجود تھک گیا ہے۔۔
میں آپ پر یقین رکھتی ہوں۔۔ بس میرا ہاتھ مظبوطی سے پکڑ کر میرے ساتھ رہیں۔۔ مجھے کچھ نہیں بس آپ کی قربت چاہۓ۔۔’ اسمان کی جانب دیکھ کر اُس نے صدا لگائ تھی۔۔۔
مغرب کی نماز پڑھ کر وہ وہیں جاۓ نماز پر بیٹھی تھی۔۔
‘یہ کیسا اتفاق ہے۔۔ دُنیا کبھی کبھی کتنی چھوٹی ہوجاتی ہے۔۔ میری اتنی مجال نہیں کہ آپ کے آگے کچھ کہہ سکوں خُدایا مگر۔۔۔
وہ شخص آج بھی روح میں گردش کر رہا ہے کہ اُس کو گۓ مہینے ہوگۓ۔۔ وہ آج بھی مجھ میں زندہ ہے۔۔’ ایمان نم آنکھوں سے تارے بھرے آسمان کو دیکھ رہی تھی۔۔
‘دیکھو بلال۔۔ سب کی خوشی میں ایمان نے خُود کو مار دیا۔۔ میں جیتی جی مر گئ۔۔۔ میں مر گئ کیونکہ میں نے دوسرے شخص کو اپنا مُقدر مان لیا ہے۔۔ اور میرے امتحان کی نئویت تو دیکھو۔۔ میری بدنصیبی تو دیکھو۔۔
وہ اور کوئ نہیں۔۔ تمھارا بھائ ہے۔۔۔
‘دُنیا کہتی ہے تم دور چلے گۓ ہو۔۔ کیا کبھی کسی نے میرے اندر جھانکا ہے۔؟ ‘ وہ خُود سے ہمکلام ہوئ تھی۔۔۔
‘تم ایک میٹھی یاد بن کر ہمیشہ میرے دل میں رہو گے بلال۔۔ تمھارا گھر آج بھی میرے وجود میں ہے۔۔ بس خالی ہوگیا ہے۔۔’ وہ سجدہ ریز ہوئ تھی۔۔۔
‘وہ محبت کے اُس مقام پر تھی جہاں کسی اور کے بارے میں سوچنا اُس کو گناہ لگتا تھا۔۔
اُس کی محبت کی انتہا یہ تھی کہ وہ تہّجد کے وقت خُدا سے اُس کے موضوع پر باتیں کیا کرتی تھی۔۔
دُنیا سے انجان وہ گھنٹوں لگی رہتی تھی۔۔۔
اُس کو اچھا لگتا تھا خُدا سے اپنی محبت کا تزکارہ کرنا۔۔
کیوں کے اُس کو یقین تھا کہ وہی زات ہے جو اُس کے دل کو، اُس کو سمجھ سکتی ہے۔۔۔
صبح نماز پڑھ کر وہ چھت سے اُتری تھی۔۔
‘چلو میڈم سات بجے ہمیں باسل کے ہاں پہچنا ہے’ احمد نے ایمان کو دیکھ کر کہا۔۔
‘تیار ہوجاؤ ایمان۔۔ اتنی دیر کیا کیا مانگتی رہتی ہو۔۔؟’ ماما ایمان کو پیار کرتے ہوۓ بولیں۔۔
‘صبر’ ایمان خاموشی سے واش روم کی جانب بڑھ گئ تھی۔۔
‘کالی شرٹ اور جینز کی پینٹ میں وہ بے حد دلکش لگ رہی تھی۔۔۔
جیسے باربی ہو کوئ۔۔
دورانِ سفر ایمان کو صرف ایک بات پریشان کر رہی تھی۔۔۔
باسل کی موجودگی۔۔۔
مگر وہ انجان تھی اِس بات سے کہ جس شخص کی نگاہوں میں نفرت تھی۔۔
اب کچھ اور تھا۔۔
‘دیر کردی یار’ باسل نے آتے ہی احمد سے کہا تھا۔۔
‘چلو سب بس میں بیٹھ گۓ ہیں۔۔’ باسل نے گاڑی کی جانب دیکھا تھا۔۔
اُس کی نگاہیں تلاش کر رہی تھی ایمان کو۔۔
‘میں زرا یہ سامان رکھ کر آتا ہوں’ احمد ایشعال اور ماما کے ہمراہ بس کی جانب گیا تھا۔۔۔
‘یا خُدا۔۔ میں آپ کا ساتھ چاہتی ہوں۔۔ میں اب آپ کے فیصلے پر چلونگی۔۔’ آنکھوں بند کیۓ وہ دُعا مانگ رہے تھی جب گاڑی کا دروازہ کھولا تھا
کتنی حسیِن لگی تھی وہ باسل کو۔۔
انکھیں بند کیۓ۔۔ لبوں سے کچھ التجا کرتے ہوۓ۔۔
‘چلیں۔۔؟’ باسل نے مُسکرا کر اُس کو گاڑی سے نکلنے کا راستہ دیا تھا۔۔۔
ایمان مریم کے ساتھ پیچھے جاکر بیٹھ گئ تھی
‘آپی ہم بہت انجواۓ کریں گے۔۔’ مریم گرم جوشی سے بولی۔۔۔
‘آپی۔۔؟؟’ مریم نے ایمان کو جھنجوڑا۔۔
‘ہو ہاں۔۔’ کیا۔۔؟ وہ گہری سوچ سے نکل کر بولی
‘میں نے کہا ہم بہت مزے کریں گے۔۔’ وہ زور سے چلّائ۔۔۔
‘ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔’ وہ دھیمے سے بولی۔۔
‘آپ کو امّی آگے بولا رہی ہیں’ باسل نے ایمان کو مُخاتب ہوکہ بولا۔۔۔
وہ خاموشی سے اُٹھی ہی تھی جب بس کا بریک لگا تھا۔۔۔
بےساختہ باسل نے اُس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔
‘فکر نہیں کریں۔۔ گرنے نہیں دونگا’ وہ مُسکرا کر بولا تھا۔۔
ایمان نظریں جھکاۓ آگے کی سمت بڑھ چکی تھی۔۔
‘واہ کیا جگہ ہے ٹو گوڈ بھئیا’ مریم اُترتے ہی بولی۔۔۔
میں اور ایشعال ریّان اور مریم کو پانی کے پاس لے کر جارہے ہیں’ بھابھی خوشی سے چلاّئیں۔۔
سب مرد حضرات فٹ بال کھیل رہے تھے۔۔
مریم ریّان کے ساتھ لہروں میں کھیل رہی تھی۔۔
اور ایمان۔۔۔
وہ اکیلی بیٹھی لہروں کو دیکھ رہی تھی۔۔
اُس کو بلال نظر آرہا تھا۔۔
جو ٹوٹ کر انہی لہروں میں گر کر رویا تھا۔۔
انہی لہروں میں اُس نے ایمان کو کھونے کا ڈر ظاہر کیا تھا۔۔ یہی اُس نے محبت کا یقین دلایا تھا۔۔۔
انہی لہروں میں ایمان نے اُس کو تھاما تھا
وہ بےسود رو رہی تھی۔۔
پانی میں ہاتھ ہلاتے۔۔اُس کا دل رو رہا تھا۔۔
‘تم خوش ہونا۔۔؟ ایمان آسمان کی جانب دیکھ کر بلال سے ہمکلام ہوکہ بولی۔۔
‘دیکھو بلال۔۔ دونوں گھرانے ایک ہوگۓ ہیں۔۔ آج تم خوش ہوگے نہ۔۔؟’ اُس کے آنسو چمکتی دھوپ میں چہرے کو مزید نکھار رہا تھا۔۔۔
‘اور آپ۔۔؟’ باسل کو اپنے پاس دیکھ کر وہ چونکی تھی۔۔۔
نجانے کیوں۔۔ وہ باسل کو دیکھ کر سہم جاتی تھی۔۔۔
اپنے پاس باسل کو دیکھ کر اُس کا دم نکل گیا تھا۔۔۔
‘سُنو۔۔،’ باسل نے تیزی سے جاتی ایمان کو روکا تھا۔۔۔
باسل کے بڑھتے قدم ایمان کی سانسوں کی رفتار کو بڑھا رہے تھے۔۔
‘اۓ ایم سوری’ وہ ایمان کے قریب ہوکہ یہ کہہ کر اُس کے جانب حسرت کی نگاہ ڈال کر جا چکا تھا۔۔۔
جب کہ ایمان حیران تھی۔۔ حیران کھڑی اُس کو جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔
دوپہر کا وقت ہوگیا تھا۔۔
بڑے سے دسترخوان پر بہت قسم کے کھانے سجاۓ ہوۓ تھے۔۔۔
‘ابّو آپ نیچے نہیں بیٹھیں آپ کو تکلیف ہوگی پیر میں’ ایمان حیرانگی سے بولی۔۔۔
‘نہیں بیٹا۔۔سب کے ساتھ کھانے میں برکت ہوتی ہے۔۔’ وہ مسُکرا کے بولے۔۔۔
‘وہ جو گھرانہ میز پر کھانا کھاتا تھا
آج سب کے ساتھ مل کر کھانا کھا رہے تھے۔۔
‘سب ساتھ بیٹھے ایک دوسرے سے باتوں میں مشغل تھے۔۔۔
‘یہ احمد اور باسل کہاں ہیں۔۔؟ امّی تفشیش سے بولیں۔۔۔
‘انٹی آپ پریشان نہ ہوں۔۔ باسل کو کھیلتے ہوۓ زرا چوٹ لگ گئ تھی میں نے پٹّی کردی ہے وہ کمرے میں ہے’ احمد نے بیٹھتے ہوۓ امّی کو اطمینان دلایا۔۔
ایمان برتن کچن لے کر گئ تھی۔۔۔
‘کھانا بہت لزیز تھا رحیم بابا’ ایمان مسُکرا کر بولی۔۔
‘ارے بابا یہ خون کیسا۔۔؟ آپ کو چوٹ لگی ہے کیا۔۔؟ ایمان فرش کو دیکھ کر گھبرائ تھی۔۔
‘نہیں بیٹی۔۔ وہ باسل بابا آۓ تھے چاۓ کا بولنے تو میں نے چاۓ کا پانی رکھ دیا مگر یہ صاف کرنا بھول گیا’ بابا برتن دھوتے ہوۓ بولے۔۔
‘آپ دھو لیں برتن میں چاۓ بنا لیتی ہوں’ ایمان چولہے کی جانب بڑھی۔۔
‘نہیں نہیں میں کر کرلونگا آپ جائیں’ بابا برتن چھوڑ کر بولے۔۔
‘آپ فکر نہیں کریں۔۔ آپ اپنے باسل بابا کو نہیں بتائیگا’ وہ پانی میں دودھ ڈالتے ہوۓ بولی۔۔
‘آپی چلیں نہ باہر’ مریم ایمان کا ہاتھ تھام کر بولی۔۔۔
‘ہاں ہاں تم چلو میں بس ابھی آئ’ ایمان چاۓ کپ میں ڈالتے ہوۓ بولی۔۔۔
‘واہ بابا آج تو چاۓ بہت پرفیکٹ بنائ ہے’ باسل چاۓ کا گھونٹ لیتے ہی بولا۔۔
‘جی بس ایمان بیٹی۔۔’ بابا کی بس اتنے بولنے پر باسل چونکا تھا۔۔
‘کیا۔۔؟ بابا کیا کہا۔۔؟ کیا یہ چاۓ ایمان؟ وہ حیرات سے مسُکرایا تھا۔۔
‘جی بابا میں برتن دھو رہا تھا تو ایمان بیٹی نے بنا دی۔۔’ بابا شرمندہ ہوکر بولے۔۔
کچھ تو تھا اُس لڑکی میں۔۔
جس نے باسل جیسے شخصیت کو بدل دیا تھا
شائد اُس کا صبر۔۔ اُس کا ظرف ہی باسل کو پسند آیا تھا۔۔۔
شام سب تھکے گھر لوٹے تھے۔۔
‘چلو یار پھر کسی دن میں تمھارے آفس آؤں گا’ احمد باسل سے گلے لگ کر بولا۔۔
‘ہم سب اتوار کو آپ کے گھر آئیں گے ‘ امّی الودہ کہتے ہوۓ ماما سے بولیں۔۔
‘جی ضرور آئیں۔۔ بہت خوشی ہوگی۔۔ باسل بیٹا آپ بھی آنا۔۔’ ماما باسل کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولیں۔۔
‘جی اسی کے لیۓ تو آئیں گے ہم۔۔ آس کو آپ کا بیٹا بنانا ہے ہمیں’ امّی مسُکرا کر بولیں۔۔۔
‘یہ ایمان کہاں رہ گئ’ ایشعال نے گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔۔
‘بھابھی وہ ریّان کو لیٹانے گئ تھیں میں دیکھتا ہوں جاکر’ باسل نے گھر کی جانب رُخ کیا تھا
ریّان کو بیڈ پر لیٹا کر وہ ڈوپٹہ سمیٹ رہی تھی جب باسل اندر آیا تھا۔۔۔
وہ پھر گھبرائ تھی۔۔
‘باہر گاڑی میں سب انتظار کر رہے ہیں’ باسل ایمان کو راستہ دیتے ہوۓ بولا۔۔۔
‘ایمان۔۔’ باسل کی پکار نے ایمان کے قدم روک دیۓ تھے۔۔
‘چاۓ بہت اچھی تھی۔۔’ وہ مسُکرا کر نکل گیا تھا۔۔۔
اتوار کے دن ایمان کا دل دہل رہا تھا۔۔
‘سب تیار کردیا ہے ماما۔۔ میں زرا تیار ہوجاؤں’ ایشعال کچن سے نکل کر کمرے کی جانب گئ تھی۔۔۔
‘یہ آپ کیوں اِس قدر خوش ہورہے ہیں۔۔؟ ایشعال کمرے میں احمد کو دیکھ کر بولی۔۔
‘میں بہت خوش ہوں۔۔ اتنا اچھا رشتہ آرہا ہے آج۔۔ ایمان کے لیۓ باسل سے اچھا رشتہ ہو ہی نہیں سکتا’ احمد اُس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔۔۔
‘دیکھتے ہیں ماما بابا کیا فیصلہ کرتے ہیں۔۔ ورنہ واقعی رشتہ ہے تو اچھا۔۔’ ایشعال بال بناتے ہوۓ بولی۔۔۔
‘جلدی اُٹھو کب سے جاۓ نماز پر بیٹھی ہو۔۔ یہ لو تیار ہوجاؤ’ ایشعال جوڑا رکھتے ہوۓ بولی۔۔
‘آپ میری زندگی میں بلال کو لاۓ۔۔
آپ ہی نے اُس کی محبت کو میرے وجود میں ڈالا
آپ نے اُس کو اپنے پاس بولا لیا۔۔
میں آج دل سے کہتی ہوں۔۔
مجھے ہمت دیں۔۔ حوصلہ دیں۔۔’ دعا کر کے وہ بےجان سی اُٹھی اور تیار ہوئ۔۔
‘مجھے آپ کی بیٹی سے ایسی محبت ہے جیسے ایک ماں کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔۔ بہت صابر ہے ایمان۔۔ بہت کم عمر ہونے کے باوجود بہت سُلجھی ہوئ ہے۔۔’ امّی کمرے میں آکے ایمان کو پیار کرتے ہوۓ اُس کی ماما سے بولیں۔۔۔
‘خُدا جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔۔ میرا زخم آج بھی تازہ ہے۔۔ جوان بیٹے کو قبر میں دیکھنے کا درد خُدا کسی کافر ماں کو بھی نہ دے۔۔ مگر یہ سچ ہے کہ ایمان نے ہم سب کو سہارا دیا۔۔’ بلال کی امّی لاکھ چاہنے کے باوجود آنسو نہیں روک پائیں تھیں۔۔
‘میں ایمان کو اپنانا چاہتی ہوں۔۔ ایمان کو مجھے سونپ دیں’ امّی ہاتھ جوڑ کر ایمان کی ماما سے التجائیا لہجے میں بولیں۔۔
‘آپ ایسے ہاتھ نہیں جوڑیں۔۔ میں ایمان اور اِس کے بابا سے بات کر کے آپ کو جواب دونگی۔۔ اِس کے بابا ویسے بھی آنے والے ہیں۔۔ ‘ ماما اپنئیت سے بولیں۔۔۔
‘آپ سب باہر آجائیں۔۔ چاۓ تیار ہے’ ایشعال کمرے میں داخل ہوکہ بولی۔۔
باہر نکلتے ہوۓ امّی پیچھے مُڑیں۔۔
اُن کے قدم بےسود اُس لڑکی کے جانب بڑھے جو بہت دیر سے خاموش بیٹھی تھی۔۔
‘ابھی تمھیں یہ فیصلہ صیح نہیں لگ رہا ہوگا
مگر۔۔ میں دُنیا کی ہر خوشی دونگی تمھیں۔۔
تمھارے ہر زخم کا مرہم بنے گا باسل۔۔’ امّی ایمان کو گلے لگا کر بولیں۔۔۔
وہ جو کب سے ضبط کر کے بیٹھی تھی۔۔
ہار گئ تھی۔۔
اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کر کے وہ زور و قتار روئ تھی۔۔
‘بس رو لو آج۔۔ جتنا رونا ہے رو لو۔۔
باہر خوشیاں تمھارا انتظار کر رہی ہیں۔۔ امّی اُس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولیں۔۔
‘ایسے پکوڑے تو میں روز کھانا چاہونگا۔۔ ایمان ابھی چلو ہمارے ساتھ کیوں بھابھی؟ابّو ایمان کے سر ہر ہاتھ رکھ کر ماما کو بولے۔۔
‘جی بھائ صاحب بس ایمان کے بابا آجائیں اگلے ہفتے تو’ ماما مسُکرا کے بولیں۔۔۔
‘کیوں ایمان چلوگی نہ ساتھ۔۔ روز شام میں ہم دونوں پکوڑے کھائیں گے اور قرآن کا مطالعہ کیا کریں گے’ ابّو کی بات پر ایمان شرمائ تھی۔۔
یہ احساس کے کسی کی نگاہیں مُسلسل اُس پر ہیں۔۔ اُس کو بےسکون کر رہا تھا۔۔
‘اگر تم راضی ہو تو ہی میں تمھارے بابا سے بات کرونگی ایمان۔۔کسی بھی دباؤ میں فیصلہ مت کرنا بیٹا’ ماما سب کے جانے کے بعد ایمان سے مخاتب ہوئیں۔۔
‘ہاں ایمان تم اپنا فیصلہ خُود لو۔۔ زندگی تم گزارو گی۔۔ تمھاری خوشی اور تمھارا سُکھ سب سے اہم ہے’ احمد نے ایمان کو آہستگی سے بولا
‘آپ ابّو سے بات کر لیں ماما’ وہ دبے لہجے میں بول کر کمرے کا رُخ کر چکی تھی۔۔
‘تم زندہ تھے تب بھی تمھارے فیصلے کے آگے سر جُھکا دیتی تھی۔۔ تم نہیں ہو آج بھی تمھاری چاہ پر زندگی قربان کردی’ وہ وضو کر کے سجدہ ریز ہوکہ خُود سے ہمکلام ہوئ تھی۔۔
‘میں نہیں جانتی پروردگار۔۔ میں اس حرکت سے دوزخ میں جاؤں گی یہ کیا۔۔ مگر۔۔ میرے دل میں ہمیشہ بلال رہے گا۔۔ ایک میٹھی یاد بن کر۔۔
ہاں میں کبھی آپ کو مایوس نہیں کرونگی۔۔ میں ایک وفادار بیوی بنونگی۔۔ آپ سے بہتر مجھے کوئ نہیں جانتا۔۔مجھے معاف کر دجیۓ گا’ وہ دُعا کر کے وہیں سو گئ تھی۔۔
‘کیسی ہو ایمان’ بھابھی نے فون پر ایمان سے پوچھا تھا۔۔
‘شُکر ہے الّللا کا بہت بھابھی آپ سُنائیں’ ایمان اطمینان سے بولی۔۔
‘ایک بات کہنی تھی ایمان’ بھابھی دبے لہجے میں بولیں۔۔
‘جی بھابھی کہیں’ وہ جواباٍ بولی
‘ایمان باسل بھائ تم سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔۔ میں نے اُن سے کہا تھا کہ تمھارا نمبر لے لیں مجھ سے مگر تم تو جانتی ہو اُن کی نیچر کو۔۔ انھوں نے کہا تم سے پہلے اجازت لوں پھر اُن کو نمبر دوں’ بھابھی سنجیدہ ہوکہ بولیں
‘جی بھابھی جو آپ کو بہتر لگے’ ایمان نے کہہ کر الودہ کہہ دیا تھا۔۔
وہ خاموش آنکھیں بند کیۓ کمرے میں لیٹی بیتے لمحے یاد کر رہی تھی۔۔۔
‘کتنا حسین تھا وہ دن جب تم مجھے بتاۓ بغیر گھر لے کر گۓ تھے۔۔ کتنا پاکیزہ تھا تمھارا پیار
کتنا خوش تھے تم۔۔۔ میرے آنسوؤں کو دیکھ کر کتنا غصّہ تھے تم۔۔
وہ تمھارا بار بار مسُکرانہ۔۔ امّی کے سامنے مجھے چیڑنا۔۔ اُس دن دُعا پر کتنے دل سے آمین کہا تھا تم نے۔۔
وہ جو مجھ سے دور جانے سے ڈرتا تھا۔۔
آج کتنا دور چلا گیا تھا اپنی ایمان سے’ وہ سوچوں میں گم تھی۔۔
‘جاتے جاتے مجھے اتنا کچھ دے گۓ تم’ وہ سِسک کر روئ تھی۔۔
‘میرا کتنا خیال کتنی پرواہ تھی تمھیں۔۔
اسکول سے یونورسٹی تک تم ہر قدم میرے مُحافظ رہے۔۔ میری عزت تمھاری عزت تھی۔۔’ وہ منُہ پر ہاتھ رکھ کر خُود کو رونے سے روک رہی تھی مگر ایسا کہاں مکمن تھا۔۔
‘تھک گئ ہوں بلال۔۔ ایمان بہت تھک گئ ہے۔۔
یاالّللہ! مجھے ہمت دینا کہ میں ایک اچھی بیوی بن سکوں۔۔ میں تیری گناہ گار نہیں بننا چاہتی۔۔
‘کین آۓ کال یو؟ باسل خان۔۔۔
ایمان میسج دیکھ کر بیڈ سے اُٹھی تھی۔۔
‘جی’ وہ بس اتنا ہی جوب دے پائ تھی۔۔
اُس کا دل تیز دھڑک رہا تھا۔۔
نظریں موبائل پر تھیں۔۔
اُس نے پوری ہمت کے ساتھ فون کو اُٹھا کر کان پر لگایا تھا۔۔
کچھ دیر تک خاموشی تھی۔۔
لفظوں کا محتاج باسل بھی تھا۔۔۔
جو پہلے ایمان کو حالات کا قصوروار سمجھ رہا تھا۔۔
آج اسی کے ہر زخم کو سینہ چاہتا تھا۔۔
‘ایمان میں تم سے ملنا چاہتا ہوں’ وہ سنجیدہ ہوکے بولا۔۔
‘مگر میں’ وہ بولتے بولتے روکی تھی۔۔۔
‘جانتا ہوں تم مجھ سے نہیں ملنا چاہتیں۔۔مگر میں اکیلے بس پہلی اور آخری بار تم سے ملنا چاہتا ہوں۔۔’ وہ اطمینان سے بولا۔۔
‘میں نے تمھاری ماما سے اجازت لی ہے اسی لیۓ تم سے بات کر رہا ہوں۔۔ وہ بھی چاہتی ہیں کہ میں تم سے مل کر بات کرلوں۔۔۔ کل شام پانچ بجے تیار رہنا۔۔ خُدا حافظ’ وہ کہہ کر فون رکھ چکا تھا۔۔
جب کہ ایمان رات بھر نہیں سو پائ تھی۔۔۔۔
‘میں تم سے کہہ رہا ہوں’ احمد نے ایمان کو گہری سوچ سے نکالا تھا۔۔
‘جی احمد بھائ۔۔ سُن رہی ہوں’ ایمان چاۓ کا گھونٹ لیتے ہوۓ بولی۔۔
‘وہ لفظوں کے چناؤ میں سخت ضرور ہے مگر زندہ دل ہے۔۔ لندن میں بہت کامیاب تھا مگر اپنے بھائ کی موت کے بعد اپنی ماں کے لیۓ یہی رہ گیا۔۔کیونکہ وہ رشتوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے’ احمد وضاحت کرتے ہوۓ بولا۔۔
جبکہ ایمان۔۔ پریشان تھی۔۔
بار بار اُس کی نظر گھڑی پر پڑھ رہی تھی۔۔
‘میں آپ سب کی خوشی میں خوش ہوں احمد بھائ’ وہ کہہ کر جا چکی تھی۔۔
کمرا بند کر کے وہ جاۓ نماز پر خُدا سے ہمکلام ہوئ تھی۔۔
اُس کا خُدا کی زات سے عام تعلق نہیں تھا۔۔
وہ اُس کے واحد دوست تھے۔۔
ایمان ہر بات۔۔ ہر دل کا درد بس اُس زات کو دیکھاتی تھی۔۔ وہ خُدا کو ہر لمحہ اپنے پاس محسوس کرتی تھی۔۔
‘کیا بتاؤں لوگوں کو۔۔ کہ میں نے زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا ہے جو مجھ سے نفرت کرتا ہے۔۔’ وہ جاۓ نماز پر بیٹھی ہاتھ اُٹھاۓ الّللا سے ہمکلام تھی۔۔
‘صرف ملنا اتنا مشکل ہے۔۔ یہ زندگی کیسے گزرے گی۔۔۔ میں نے دل سے اُس گھر کے ہر فرد کو عزت دی۔۔ سب کا ساتھ دیا۔۔اُس وقت جب میں اذیت کی انتہا پر تھی۔۔۔
آپ تو سب جانتے ہیں نہ۔۔
ساری زندگی محبت کا درس دیا بلال نے۔۔۔
محبت کرنا۔۔ محبت نبھنا سیکھئ مجھے۔۔
اور نصیب میرا ایسے شخص کے ساتھ لکھ دیا گیا جو مجھ سے نفرت کرتا ہے۔۔۔’ ایمان طارق لرز گئ تھی۔۔
اپنا دل ہلکا کرنے کے بعد اُس نے واش روم کا رُخ کیا تھا۔۔۔
ایمان کو گیٹ سے نکلتا دیکھ کر باسل نے اُتر کر گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔۔
کالے رنگ کے لباس میں۔۔
گلابی چادر اُڑھے۔۔
ایشعال کے زبردستی میک اپ میں وہ دلکش لگ رہی تھی۔۔
وہ نازک سی لڑکی۔۔سر ڈھنپے۔۔نظریں جھکاۓ۔۔ بہت سہمی ہوئ تھی۔۔
‘اسلام علیکم’ وہ دھیمے سے کہہ کر آگے بیٹھ گئ تھی۔۔۔
‘ولیکم اسلام’ باسل نے مسُکرا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔
‘مانا کہ بُرا انسان ہوں مگر اتنا بھی نہیں’ باسل نے ایمان کو کہا جو گاڑی کے باہر مسُلسل دیکھ رہی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...