آئمہ اور آزر جیسا چاہتے تھے انہیں ویسا ہی ملا ان کی شادی بھی ہوگئ اور اب وہ ایک ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔
یوں پھر آئمہ کا آزر کے گھر پر پہلا دن تھا اور وہ بہت خوش تھی اس نے فیصلہ کیا کہ وہ صبح جلدی اٹھ کر سب گھر والوں کے لیے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنائے گی اور ایسا ہی ہوا وہ صبح جلدی اٹھی اور نیچے کچن میں گئ اس نے الگ الگ طرح کے آملیٹ پراٹھے بنائیں وہ کھانا بھی بہت مزے کا بناتی تھی اس نے چائے بھی بنائ اور سب کے اٹھنے سے پہلے ہی اس نے ٹیبل پر ناشتہ لگا دیا آزر کی والدہ اور والد کو صبح جلدی اٹھنے کی عادت تھی وہ دونوں صبح جلدی اٹھ کر نماز پڑھتے تھے نماز سے فارغ ہو کر وہ دونوں باہر آجاتے تھے اور چائے بناکر پیتے تھے مگر اس بار جب وہ دونوں باہر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کھانے کے ٹیبل پر ناشتہ پہلے کا ہی سجا ہوا ہے یہ دیکھ وہ وہ کافی حیران ہوئے جب انہوں نے دیکھا کے آئمہ کچن سے چائے کے برتن لے کر آرہی تھی تب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ سب آئمہ نے بنایا ہیں آئمہ نے اپنے ساس اور سسر کو دیکھا اور جلدی سے برتن ٹیبل پر رکھ کر کہا: السلام و علیکم! امی ابو آپ دونوں اٹھ گئے؟؟؟
یہ سن کر آزر کی والدہ نے کہا: جی ہم تو اٹھ گئے مگر آپ ہم سے بھی پہلے کی اٹھی ہوئ ہے؟؟؟
یہ سن کر آئمہ نے کہا: جی امی!
آزر کی والدہ نے مسکراتے ہوئے ٹیبل کو دیکھا پھر آئمہ کو کہا: ماشاءاللہ یہ سب کچھ تم نے بنایا ہے بیٹا؟؟؟
آئمہ نے کہا: جی جی میں نے بنایا ہے آپ سب کے لئے۔
یہ سن کر آزر کے والد نے کہا: ارے واہ خوشبو تو بہت اچھی آرہی ہے ماشاءاللہ۔
یہ سن کر آئمہ نے انہیں ٹیبل کی کرسیوں پر بٹھایا اور کہا: آپ دونوں بیٹھے اور چائے پیجئے۔
آئمہ نے انہیں چائے ڈال کر دی۔
انہوں نے چائے پی اور کہا: واہ کیا چائے بنائ ہے۔
آئمہ بہت خوش تھی کہ انہیں اس کے ہاتھ کا ناشتہ پسند آیا۔
آزر کی والدہ اور والد دونوں ہی بہت خوش تھے۔
ابھی وہ سب باتیں کرہی رہے تھے کہ اچانک وہاں پر آزر کا بڑا بھائ اپنے کمرے سے اٹھ کر وہاں پر آگیا آزر کے بھائی کو دیکھ کر آئمہ نے انہیں سلام کیا آزر کے بھائی نے آئمہ کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا وہ اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کے جیسے آسمان پر سے کوئی پری آگئ ہو وہ آئمہ کو دیکھتے ہی جارہا تھا آئمہ نے کہا: آئے آپ بھی ہمارے ساتھ ناشتہ کرے پلیز۔
یہ سن کر اس نے اپنی آنکھیں کافی دیر بعد جھپکائ اور کہا: اوووو تھینکس۔
یہ کہہ کر وہ بھی وہاں پر بیٹھ گیا آئمہ نے اسے چائے ڈال کر دی اور کہا: لیجئے۔
وہ اس وقت بھی آئمہ کو ہی دیکھی جارہا تھا آئمہ نے پھر سے کہا: بھائ لیجیے چائے۔
پھر جا اس کو دوبارہ ہوش آئ اور کہا: آوو سوری۔
اس نے وہ چائے پکڑی اور کہا: شکریہ۔
آزر کی والدہ نے آزر کے بھائی کو مخاطب ہوتے کہا: تمہیں پتا ہے عثمان یہ سب کچھ کس نے بنایا ہیں؟؟؟
اس نے کہا: کس نے امی؟؟؟
یہ سن کر آزر کے والد نے کہا: یہ سب کچھ آئمہ نے بنایا ہے.
یہ سن کر عثمان نے کہا: ارے واہ۔
آئمہ نیچے منہ کرکے مسکرا دی عثمان نے چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور ہنستے ہوئے کہا: ارے واہ یہ تو بہت اچھی چائے ہے مزہ آگیا۔
آئمہ مسلسل شرماتے ہوئے نیچے منہ کرکے ہنس رہی تھی پھر آئمہ نے کہا: اچھا میں اوپر سے آزر کو اٹھا کر لاتی ہو تاکہ وہ بھی آکر ناشتہ کرلے۔
یہ سن کر آزر کی والدہ نے کہا: ہاں بیٹا جاؤ بلا لاؤ۔
جواب سنتے ہی وہ اوپر چلی گئ جبکہ عثمان آئمہ کو سر سے پاؤں تک دیکھتا ہی رہا اس نے اس سے خوبصورت لڑکی آج تک نہیں دیکھی تھی۔
اصل میں جب آزر کی شادی تھی تب وہ وہاں موجود نہیں تھا وہ ملک سے باہر تھا کام کی وجہ سے اور وہ کل رات کو ہی واپس آیا تھا کام میں زیادہ مصروفیات کی وجہ سے وہ شادی اٹینڈ نا کرسکا جب وہ کام سے فارغ ہوا تھا اسی دن وہ اپنے ملک واپس آگیا مگر تب تک آزر کی شادی ہوچکی تھی اور آزر اپنی دلہن کیساتھ کمرے میں تھا اسی لئے اس کا اس وقت آزر سے ملنا مناسب نہیں تھا اسی لئے اس نے اس وقت صرف اپنے ماں باپ سے ہی ملاقات کی تھی۔
خیر جب آئمہ اوپر آزر کو جگانے گئ تو پیچھے سے عثمان نے اپنے ماں باپ سے کہا: امی کیا یہی ہے آزر کی دلہن آئمہ۔
اس کی والدہ نے کہا: ہاں یہی ہے۔
عثمان نے کہا: اوووو اچھا.
اس کے والد نے کہا: ویسے عجیب بات ہے تم اپنے بھائ کی شادی پر ہی نہیں آئے دیکھ لو۔
عثمان نے کہا: ابو کام ہی بہت تھا اب جو ہی مجھے ٹائم ملا میں آگیا آپکو کل رات سے بتا رہا ہو۔
یہ سن کر اس کے والد نے کہا: شادی پر سب پوچھ رہے تھے مجھ سے۔
عثمان نے کہا: آپ بتا دیتے کے میں کام کی وجہ سے نہیں آسکا۔
اس کے والدہ نے کہا: اچھا چلو چھوڑو دیکھو آزر اگیا۔
عثمان نے آزر کی طرف دیکھا جبکہ آزر نے بھی اپنے بھائی کو دیکھ لیا اور بھاگتے ہوئے جا کر اپنے بھائ کو گلے سے لگایا اور کہا: بھائ آپ آگئے شکر ہے۔
عثمان نے کہا: ہاں آگیا دیکھ لو۔
سب دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
آزر نے کہا: بھائی آپ نے تو حد ہی کردی آپ اپنے ہی بھائی کی شادی پر نہیں آئے۔
عثمان نے کہا: ارے یار سوری قسم سے بہت کام تھا جوہی موقع ملا میں اگیا۔
یہ سن کر آزر نے کہا: اوووو اچھا۔
تھوڑی دیر بعد سب نے بیٹھ کر ناشتہ کیا اور خوب باتیں کی آئمہ ان سب میں خوب گھل مل گئ جبکہ عثمان مسلسل آئمہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
آزر نے مکمل آئمہ کا تعارف اپنے بھائ کو کروایا۔
آئمہ نے پہلے کا ہی عثمان کو دیکھا ہوا تھا آزر نے اپنے بھائی کی تصویر شادی سے پہلے ہی آئمہ کو سینڈ کی ہوئ تھی اسی لیے آئمہ نے اتنا نہیں پوچھا۔
عثمان مسلسل آئمہ کو گھور رہا تھا اور یہ بات آئمہ بھی نوٹ کررہی تھی مگر وہ سب کے سامنے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
عثمان اصل میں پہلے کا ہی شادی شدہ تھا مگر شادی سے 2 سال بعد ہی اس کی بیوی کینسر کی بیماری کی وجہ سے خدا کو پیاری ہوگئی عثمان نے بھی اپنے پسند کی ہی شادی کی تھی وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا لیکن جب اس کی بیوی فوت ہوگئی تو وہ بلکل اکیلا ہوگیا اسے اس کے گھر میں اپنی بیوی کی یاد بہت ستاتی تھی اسی لئے وہ اپنی بیوی کی یاد سے نکلنے کے لئے اس نے ملک سے باہر جوب کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسی وجہ سے پھر اس نے باہر نوکری کرنا شروع کردی اس کی عمر 40 کے قریب ہوگئ تھی اسی وجہ سے اس نے کوئی شادی ہی نہیں کی اس کے ماں باپ نے بھی بہت رشتے ڈھونڈے مگر ہر بار انہیں ناکامی کا سامنا ہوا کیونکہ عثمان کی عمر کافی ہوگئ تھی اور کوئ بھی اڈے اپنی بیٹی دینے پر راضی نہیں تھا پھر عثمان نے خود ہی اپنے ماں باپ کو منع کردیا کہ وہ اب کسی سے بھی اس کی شادی کے لئے رشتہ نہیں مانگے گے یہ سن کر وہ دونوں بھی راستے سے ہٹ گئے یوں پھر عثمان ایک سادہ زندگی گزارنے لگا لیکن ایک بار پھر سے اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ پھر سے اپنی زندگی جی لے ایک بار پھر اس کا دل کرہا تھا کہ وہ اپنی زندگی کو بے رنگ سے رنگ میں تبدیل کردے کیونکہ جب سے اس نے آئمہ کو دیکھا تھا وہ دن رات اس کے ہی بارے میں سوچنے لگا اس کی آنکھوں کے سامنے سے آئمہ کی شکل ہٹتی ہی نہیں تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس پر کسی نے جادو کردیا ہو۔
رات ہوگئ تھی آزر اور آئمہ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے آزر نے آئمہ سے کہا: آئمہ میں سوچ رہا تھا کہ کل ہم کہی گھومنے جائے سب گھر والے کیا خیال ہے؟؟؟
جب آزر نے آئمہ کی طرف دیکھا تو آئمہ کسی گہری سوچ میں گم تھی آزر نے آئمہ کے منہ کے پاس جا کر چٹکی بجائی جس سے آئمہ یک دم سوچ کی دنیا سے باہر آئ اور آزر کی طرف دیکھنے لگی۔۔
آزر نے کہا: کیا ہوا اتنا گہرا کیوں سوچ رہی ہو سب ٹھیک ہے نا۔
آئمہ اصل میں آزر کے بڑے بھائی عثمان کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ وہ اسے اتنے تیز اور گہرائیوں والی نظروں سے کیوں گھور رہا تھا اسے اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔
آئمہ آزر کو بتانے کی لگی کہ وہ اصل میں کیا سوچ رہی تھی مگر ایک لمحے کے لئے رک گئ اور سوچنے لگی کہ اگر وہ آزر کو اس بارے میں بتائے گی تو آزر کا اس پر سے اعتماد اٹھ جائے گا کہ میں اس کی بڑے بھائ پر الزام لگارہی ہو اور ویسے بھی دونوں بھائ ایک دوسرے سے بہت محبت بھی کرتے تھے تو یہ سب کچھ آئمہ کو آزر کو بتانا مناسب نا لگا۔
آزر نے یک بار پھر آئمہ کو ہلایا اور کہا: ارے کیا ہوگیا ہے اتنا کیا سوچ رہی ہوں ???is everything ok
آئمہ نے کہا: ہاں ہاں سب سب ٹھیک ہے وہ میں امی کے بارے سوچ رہی تھی انکی طبیعت کافی خراب رہتی ہے نا تو مجھے انکی فکر ہورہی ہے۔
یہ سن کر آزر نے کہا: ارے یار بس اتنی سی بات ایسا کرتے ہے ہم دونوں کل ہی انکل آنٹی سے ملنے جائے گے۔
یہ سن کر آئمہ مسکرا دی اور کہا: آپ بہت اچھے ہے۔
آزر نے کہا: یہ کونسی بڑی بات ہے پلیز شرمندہ مت کرو۔
یہ سن کر آئمہ پھر سے مسکرا دی۔
صبح پھر جلدی اٹھ کر آئمہ نے فجر کی نماز ادا کی اور نیچے کچن میں چلی گئ سب کے لئے ناشتہ بنانے۔
حالانکہ گھر میں کافی نوکر تھے اور کھانا بنانے والی کوکر بھی موجود تھی مگر آئمہ نے سوچا کہ سب کے لئے ایک بار پھر ناشتہ بناکر پھر وہ اپنے امی ابو کہ گھر جائے گی۔
آئمہ نے کوکر سے کہا: آپ ایسا کرے کہ آج چھٹی کرلے میں سب سنبھال لو گی مجھے امی کے گھر بھی جانا ہے اور وہاں سے واپسی کے وقت میں اور آزر بازار سے کھانے کے لئے لے آئے گے آپ بے فکر ہوکر گھر جائے۔
کوکر نے لاکھ کہا مگر آئمہ نا مانی اسی وجہ سے کوکر کو مجبوراً وہاں سے جانا پڑا۔
یوں پھر آئمہ اپنے کام میں لگ گئ اچانک کچن میں آزر کا بڑا بھائی عثمان اپنے کمرے سے اٹھ کر کچن میں پانی پینے کے لیا آیا تھا جب وہ کچن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ کچن میں آئمہ موجود ہے جبکہ آئمہ نے عثمان کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ اس کا منہ دوسری طرف چولہے پر تھا
عثمان آہستہ آہستہ آئمہ کے قریب گیا اور ٹھیک اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور آئمہ کے بالوں کی مہک کو سونگھنے لگا مہک اس قدر حسین تھی کہ وہ کسی اور دنیا میں ہی چلا گیا اچانک آئمہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پیچھے کوئی کھڑا ہے اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو پیچھے سے عثمان کو اپنے اتنے قریب کھڑا پاکر وہ گھبرا گئ آئمہ نے کہا: ارے آپ آپ یہاں پر کیا کرہے ہے۔
عثمان نے کہا: وہ میں کچن سے پانی پینے آیا تھا۔
یہ سن کر آئمہ نے فرج سے پانی کی بوتل نکالی اور ایک گلاس میں پانی ڈال کر گلاس عثمان کی طرف کرتے ہوئے کہا: یہ لیجئے۔
عثمان نے گلاس کیساتھ ساتھ آئمہ کے ہاتھوں کو بھی چھوا اور اس کے ہاتھوں سے گلاس لے کر پانی پینے لگا آئمہ کافی گھبرا گئ کیونکہ اس وقت وہ وہاں پر اکیلی تھی آئمہ نے چولہے کی طرف دیکھا جہاں پر پراٹھا جل رہا تھا اس نے جلدی سے پراٹھا چمٹے کی مدد سے اتارا اور چولہا بند کردیا تاکہ توا تھوڑا ٹھنڈا ہوجائے۔
عثمان ابھی بھی وہی کھڑا تھا آئمہ کافی ڈر رہی تھی مگر وہ خود کو کسی کام میں مصروف کرنے کی کوشش کرہی تھی تاکہ عثمان وہاں سے چلا جائے اچانک عثمان نے کہا: ویسے آپ بہت خوبصورت ہے۔
یہ سن کر آئمہ کو تو جیسے کرنٹ لگ گیا ہو اس نے عثمان کی طرف دیکھا اور ڈرتے ہوئے کہا: وہ وہ مجھے لگتا ہے آزر اٹھ گیا ہوگا میں اسے اٹھا کر لاتی ہو یہ کہہ کر وہ وہاں سے جانے ہی لگی کہ عثمان نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور مسکراتے ہوئے کہا: ارے بھابھی آپ ڈر کیوں رہی ہے میری بات کا جواب تو دے۔
آئمہ کو شدید غصّہ آیا اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور کہا: میرے پاس ایسے فالتو سوالوں کے کوئ جواب نہیں ہے اور آئندہ آپ نے مجھے ہاتھ بھی لگایا تو میں سب کچھ آزر کو بتا دو گی۔
یہ سن کر عثمان نے کہا: کیا بتاؤ گی تم آزر کو بولو۔
آئمہ نے کہا: وہی جو آپ کر رہے ہے۔
عثمان نے کہا: کیا کرہا ہو میں پیار ہا ہا ہا ہا۔
یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر مسکرانے لگے پڑا
عثمان نے کہا: دیکھوں میری بات سنو مجھے تم بہت خوبصورت لگتی ہو اور قسم سے مجھے تم سے محبت ہورہی ہے صرف ایک رات کے لئے۔۔۔۔
ابھی اس نے اتنا ہی کہا کہ آئمہ نے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔
عثمان نے اپنا منہ پکڑا اور غصے سے آئمہ کی طرف دیکھنے لگا۔
آئمہ نے کہا: شرم نہیں آرہی آپکو یہ بات کرتے ہوئے بولیں اپنے ہی سگے بھائ کی خوشیوں کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہے انسانیت نام کی کوئ چیز بھی ہے آپ میں شرم کرے۔
آئمہ کی آنکھیں لال پڑگئ تھی اتنا غصّہ اسے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔
آئمہ نے پھر سے کہا: میں آپکو آخری دفعہ سمجھا رہی ہو اگر آپ اپنی حرکتوں سے باز نا آئے تو۔۔۔۔
ابھی آئمہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ عثمان نے اسے اس کا بازوؤں کو مظبوطی سے پکڑ لیا اور کہا: تووو تو کیا کرو گی تم بولوووو کیا کرو گی۔
آئمہ کو تکلیف ہورہی تھی کیونکہ اس نے آئمہ کو بڑے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا تکلیف اتنی ہورہی تھی کہ آئمہ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے آئمہ نے روتے ہوئے کہا: اااا پلیز چھوڑو مجھے خدا کا واسطہ ہے۔
عثمان نے دیکھا کہ وہ رو رہی ہے تو اس نے اسے چھوڑا۔
آئمہ جونہی چھوٹی تو اس نے عثمان کو ایک زور دار دھکا دیا جس کی وجہ سے وہ گر گیا آئمہ بجلی کی سی رفتار سے اوپر اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور کمرے میں پہنچ کر جلدی سے دروازہ لوک کردیا۔
آئمہ کی بری حالت تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ اس کیساتھ ہوا کیا ہے وہ نیچے زمین پر بیٹھ کر رو رہی تھی اس نے سامنے دیکھا تو سامنے آزر سویا ہوا تھا
وہ اٹھ کر آزر کو اٹھانے ہی لگی کے دروازے کی دوسری طرف سے عثمان نے کہا: دیکھوں آئمہ اگر تم نے آزر کو اٹھا کر اسے سب کچھ بتایا تو تمہاری عزت دو ٹکے کی نہیں رہنے دو گا میں آئ سمجھ آزر مجھ پر اندھا اعتبار کرتا ہے اور اگر آزر نے پھر بھی مجھ سے پوچھا تو میں اسے یہی کہو گا کہ تم نے مجھے اپنی طرف مائل کیا تھا اس کی وجہ سے تمہاری عزت کہی نہیں رہے گی۔
وہ دروزے کیساتھ منہ کرکے بول رہا تھا جس سے آوازیں صاف اندر جارہی تھی اور آئمہ سن رہی تھی۔
جبکہ آزر سو رہا تھا اس تک آواز نہیں پہنچ پارہی تھی صرف دروازے کے پاس کھڑی آئمہ ہی وہ آواز رہی تھی۔
یہ سب کچھ سن کر آئمہ کافی ڈر گئ تھوڑی دیر تک عثمان بھی وہاں سے چلا گیا آئمہ کا پورا جسم کانپ رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے عثمان کی باتیں سن کر وہ کافی ڈر گئ تھی اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔
کچھ دیر تک آزر بھی اٹھ گیا آزر نے اپنے سامنے آئمہ کو کھڑے دیکھا تو وہ اٹھ کر آئمہ کے پاس گیا اور آئمہ کے بازوں سے پکڑ کر کہا: آئمہ کیا ہوا تم دروازے کے پاس کھڑی کیا کرہی ہو ارے تمہیں تو بہت پسینہ چھوٹ رہا ہے۔
آئمہ نے آزر کی طرف دیکھا پھر روتے ہوئے آزر کو گلے سے لگایا اور کہا: آزر مجھے امی کے پاس لے چلو پلیز۔
آزر نے کہا: اچھا اچھا چلتے ہیں مگر تمہاری یہ حالت کیسے ہوئ۔
آئمہ نے کہا: آزر مجھے امی کے بارے میں بہت برا خواب آیا تھا پلیز مجھے لے چلو امی کے پاس۔
آزر نے اسے چپ کرایا اور تھوڑی دیر بعد وہ اسے وہاں سے لے کر اس کی امی کے گھر لے گیا۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...