رات کے آخری پہر وہ اپنی کائنات پر نظریں جمائے بیٹھی تھی
“کائینات ” یہ لفظ کیوں اس کے ذہن میں آیا وہ سوچنے لگی ۔۔اس سے بہتر لفظ اس کو اردو لغت میں ان دونوں کے لیے لگتا ہی نہیں تھا
فودیل سے شروع اور ہاشم پر ختم ۔۔کائنات میں سیکڑوں کہکشاں پائے جاتے ہیں پر روفہ وہ سورج تھی جس کے گرد صرف دو سیارے ہی گردش کرتے تھے ۔ہاشم اور فودیل
روفہ نے لیمپ کی روشنی میں ہاشم کے سینے پر فودیل کے ہاتھ کے نیچے اپنے ہاتھ کو دھیمے سے نکالا ۔دونوں باپ بیٹا اس وقت سو رہے تھے ۔پریزنٹیشن بناتے بناتے سونے سے پہلے وہ بے اختیار ان دونوں کو دیکھا کرتی تھی
دو دن پہلے ہاشم ایک سال کا ہوا تھا۔آٹھ ماہ کا عرصہ بڑی جلدی گزر گیا تھا ۔روفہ کے نزدیک اچھا وقت ہمیشہ جلدی ہی گزرا کرتا تھا ۔یا پھر یہ ہر انسان کی دلی کیفیت ہوتی ہے جو بری وقت کو خود پر سوار کرکے طویل تر سمجھنے لگتا ہے ۔
وہ کیا تھی ۔۔ایک ٹوٹے مکان میں پل کر سموسے بیچنے والی گورنمنٹ سکول کی خستہ عمارت تلے پڑھنی والی روفہ سیف ۔جو درحقیقت روفہ عالم تھی ۔اور اب روفہ فودیل زکی
اس کے نام کے آگے کتنے نام تبدیل ہوئے تھے ۔پر سب سے خوبصورت اس کو فودیل کا حوالہ لگتا تھا ۔
وہ اکثر اس کا ایک ہاتھ تھام کر دوسرے سے اس کا گال سہلا کر رات کو گارڈن میں کافی پینے کے دوران سوال پوچھا کرتا تھا ۔
” یار تمہیں شوہر سے محبت ہوئی کہ نہیں ۔۔ہاشم کے بابا کا حوالا نا دینا ۔اب تو مجھے اس حوالے سے جلن ہونے لگی ہے ۔”
وہ آخری جملہ بڑی خفگی سے ادا کرتا تھا ۔روفہ بے اختیار ہنس دیتی ۔۔
” آہستہ آہستہ ہونے لگی ہے ۔۔”
وہ ہونٹ کا کونا دبا کر بڑی سنجیدگی سے جواب دیتی ۔۔
” تمہارے جواب کبھی سیدھے ہو نہیں سکتے ۔جس دن ہو گئے نا اس دن تاریخ میں تمہارا نام سنہری لفظوں میں لکھا جائے گا لکھ لو جا کر کہیں ۔”
وہ سر نفی میں سر ہلا کر افسوس سے اس طرح کے جواب دیتا ۔۔روفہ کندھے اچکا کر اس کی حالت سے خط اٹھاتی ۔
” میری دعا ہے ہاشم اور ہمارے فیوچر بچے تم پر نا جائیں ورنہ اب کی بار پاگل ہونے سے بچنے کے لیے مجھے گھر سے جانا پڑے گا ۔۔”
وہ مزید بے چارگی سے کوئی نا کوئی مظلومیت ظاہر کرتا جس پر روفہ ڈھیٹ بنتی مسکراتی رہتی ۔۔
” بھول گئے یہ گھر میرے نام ہے میں تو ویسے بھی آپ کو بڑی سہولت کے ساتھ نکال سکتی ہوں ۔۔”
” تمہارا دل تو میرے نام ہے اس سے مجھے نکال کر دیکھاو ۔۔۔”
وہ چیلنج کرتا بولا ۔۔روفہ سے کوئی جواب نا بن پڑا تبھی ناراضی سے لاجواب ہوتی اندر چلی گئی ۔۔
” جس دن نکالا نا اس دن آپ نے اس دنیا سے ہی نکل جانا ہے ۔۔”
وہ جاتے جاتے اس کو سلگا گئی ۔۔وہ چپ ہی رہا ۔۔جانے ان دونوں کو ایک دوسرے کو لاجواب کرکے کیا ملتا تھا ۔جو بھی تھا بند کمرے میں چاہے لڑ لیتے خفا ہو جاتے مگر گھر والوں کے سامنے مجال تھی جو وہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی برا لفظ بھی سن لیتے ۔۔
ایک دن جلیس نے ہمیشہ کی طرح روفہ کو تنگ کرنے کے لیے چڑیل بول دیا جس پر فودیل نے اس کی ناک توڑ دی تھی ۔
روفہ جو دنگ ہوئی سو ہوئی ہدا نے تو پولیس میں جانے کی دھمکی بھی دے دی ۔۔جس پر ہائیسم نے بڑی مشکل سے اس کو شانت کیا ۔جبکہ جلیس ان سب کی شادیوں سے پہلے کئی بار ترتیل کی وجہ سے فودیل سے مار کھا چکا تھا ۔۔وہ بڑے آرام سے فودیل کی آنکھ نیلی کرکے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔
” مجھے لگتا ہے فودیل کل آپ کو ٹرمینیشن لیٹر مل ہی جانا چائیے ۔۔”
روفہ نے رات کو اس کی آنکھ کر برف سے ٹکور کرتے ہوئے کہا ۔۔
” چلو سہی ہے میں تم سے پیسے لیا کروں گا آخر جوب لیس ہونے کے بعد مجھے ورکنگ وائیف ہونے کا کچھ تو فائیدہ ہو ۔۔”
روفہ منہ کھول کر اس کی بے شرمی دیکھ کر رہ گئی ۔۔
” آپ کی غیرت یہ گوارہ کر لے گئی کہ بیوی کے پیسے اپنی ذات پر خرچ کریں ۔۔”
وہ تعجب سے سوال کر بیٹھی تھی ۔۔۔فودیل پر سوچ انداز میں ایک کھلی آنکھ سے اس کو دیکھنے لگا ۔
” جب ہر جھگڑے کے بعد میری بیوی مجھے بے روزگاری کی دھمکی دے گی تو میں نے ایسی غیرت کا اچار ڈالنا ہے ۔۔”
وہ ناراضی سے بول کر روفہ کو متحیر کر گیا ۔۔
” قسم سے فودیل بہت ہی فضول انسان ہیں آپ ۔۔میرا دل کر رہا ہے آپ کی دوسری آنکھ بھی نیلی کر دوں ۔۔”
وہ خود کے تاثرات پر قابو پاتے بے تاثر سی سر جھٹک کر دوبارہ اس کی آنکھ پر برف ملنے لگی ۔۔
” تو پھر میں تمہیں لال کر دوں گا ۔۔”
چھیڑنے والے انداز میں اپنا سر تکیے سے اونچا کر کے اس کی کان میں سرگوشی سے بولا ۔۔
” اس بات پر مجھے شرمانے چاہیئے تھا پر سیرسلی مجھے رتی بھر بھی شرم نہیں آرہی ۔۔”
وہ سکون سے بول کر اپنے کام میں مصروف رہی ۔۔فودیل نے ایک جھٹکے سے اس کو بیڈ پر گرا کر نرمی سے اپنی ناک اس کی ناک سے مس کی ۔۔
” وہ تو اب آئے گئی نا ۔۔”
وہ شوخ پن سے بولا۔
روفہ نے بڑا سنجیدہ ہو کر آہستہ سے اس کی نیلی آنکھ دبا دی بس پر فودیل کی چینخ اور روفہ کی ہنسی بے ساختہ تھی ۔
ہاشم کے کسمسانے پر وہ چونک کر حال میں لوٹی ۔۔پھر دلکش مسکراہٹ سے ہاشم کا قدرتی سرخ گال نرمی سے چوم کر اس کو بے بی کوٹ میں لٹایا ویسے تو یہ کام فودیل ہی کیا کرتا تھا پر شاید آج تھکن کے باعث وہ کرنا بھول گیا تھا ۔۔
روفہ نائیٹ بلب کی روشنی میں فودیل کے قریب ہو کر بیٹھی ۔۔جو تھوڑے سے ہونٹ کھول کر گہری نیند میں تھا ورنہ وہ اکثر روفہ کے اپنے ہاتھ سے ہاتھ چھڑانے یا بیڈ پر موجود نا ہونے کی وجہ سے جاگ جایا کرتا تھا ۔۔
اس نے فودیل کے بڑے بال جو اب گردن کو ڈھانپا کرتے تھے ماتھے سے ہٹا کر اس کی پیشانی چومی ۔۔وہ یہ کام اس کی نیند میں کرتی تھی ۔جس سے فودیل واقف بھی تھا ۔پر دونوں ہی نے اپنے طور پر ایک دوسرے کو انجان ہی رکھا ہوا تھا ۔۔
اس کے ٹھنڈے ہونٹ پیشانی پر محسوس کرکے وہ جاگ تو گیا پر ہلا نہیں ۔۔یہ محبت اس کو ہاشم کے سونے کے بعد ہی تو روفہ سے مل پاتی تھی جس کو وہ مصنوعی نیند دکھا کر بھر پور انداز میں محسوس کرتا تھا ۔۔
روفہ آہستہ سے پیچھے ہٹ کر اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے اس نے ایک نظر ہر روز کی طرح ان پر ڈالی تھی ۔۔فودیل نے اس کے جانے کے بعد گہری سانس لے کر اپنی پیشانی چھوئی ۔۔وہ جانتا تھا جس دن اس نے روفہ کو یہ بتا دیا کہ وہ اس کی رات میں کی جانے والی حرکت کے بارے میں جانتا ہے اگلے دن سے ہی یہ عمل بند ہو جائے گا ۔۔
اور یہ غلطی تو وہ کبھی نا کرتا ۔۔روفہ چائے پی کر سونے کی عادی تھی ۔اور اب وہ چائے پی کر ہی آنے والے تھی ۔۔
فودیل نے روفہ کے سرہانے پر اوندھے منہ سر رکھ کر گہری سانس بھری ۔۔بستر سے آتی یہ خوشبو اس کے نزدیک کسی پھول کے عطر سے بڑھ کر معطر تھی ۔۔
لاونج سے گزرتے روفہ ٹھٹک کر رکی ۔۔ہائیسم کے کمرے سے بچے کے رونے کی باریک سی آواز وقفے وقفے سے آرہی تھی ۔۔جس کے ساتھ کبھی ہائیسم کا قہقہہ گونجتا تو کبھی ترتیل کی غصے بھری آواز سنائی دیتی ۔۔
ترتیل اور ہائیسم کی زندگی میں صائم نامی چھوٹا سا یہ اضافہ ایک ماہ پہلے ہی ہوا تھا ۔۔
جو نا مکمل ہو کر بھی ماں باپ کے لیے مکمل تھا اور ایسا کیوں تھا ؟؟ روفہ کیچن میں چائے بناتے ہوئے ایک ماہ پہلے کا وقت یاد کرنے لگی ۔۔
رات کے تین بجے ترتیل کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ہائیسم بوکھلاتے ہوئے اسے ہسپتال لے گیا تھا ۔۔اوپریشن آرام سے ہوا تھا ۔اس کے کیس میں کوئی پیچیدگی نہیں تھی ماں اور بچہ صحت مند تھے ۔۔ڈاکٹر کے کہنے پر وہاں موجود سب نے فرد جن میں فودیل روفہ عالم اور ہائیسم شامل تھے سکون کی سانس بھری تھی جو کہ وقتی ہی ثابت ہوئی تھی ۔۔ہدا کے ہاں بھی بیٹے کی ولادت ہوئی تھی اور وہ لوگ واپس اسلام آباد چلے گئے تھے ۔۔فضا ہدا کی طبیعت خرابی کی وجہ سے وہاں تھیں ۔۔
ترتیل بالکل ٹھیک تھی ۔۔پر صائم کا پاوں قدرتی طور پر مڑا ہوا تھا ۔ترتیل کا خدشہ صحیح ثابت ہوا تھا ۔۔ڈاکٹر کے اس انکاشف پر ہائیسم کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا ۔۔وہ ربورٹ کی طرح ٹکر ٹکر ڈاکٹر کو دیکھنے لگا ۔۔
” بچے کا پاوں قدرتی طور پر ٹیڑھا ہے ہائیسم صاحب ۔۔پر آپ کو گبھرانے کی ضروت نہیں ہے ۔ایسا یقینی طور پر کزن میرج کی وجہ سے نہیں ہوا ۔۔ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کی کزن میریج نا ہونے کے باوجود بچے جسمانی طور پر صحت مند نہیں ہوتے ۔۔
پر آپ کا بچہ صحت مند ہو سکتا ہے ۔دو سرجری کروانے کی ضروت ہے ۔جس کے بعد بچے کا پاوں بالکل ٹھیک ہو جائے گا ۔۔میں نے وہ بچے بھی صحت یاب ہوتے دیکھیں ہیں جن کے دونوں پیر ٹیڑھے ہوتے ہیں ۔۔جیسے ہی بچہ ایک ہفتے کا ہو گا آپ سر جری کروا لیں ۔۔”
ہائیسم خود کو تو ڈاکٹر کی تسلی سے مطمئین کر لیتا مگر ترتیل کو کیا جواب دیتا ۔۔جس کا ہر خدشہ صحیح ثابت ہوا تھا ۔۔
یہ خبر کسی بم کی طرح ہی ترتیل کے سر پر پھوٹی تھی ۔۔وہ ہوش میں آنے کے بعد کتنی ہی دیر بے یقینی سے روفہ کے بتانے پر کچھ بول ہی نا سکی ۔۔نا روئی نا کوئی لفظ کہا ۔۔اس جیسی جذباتی بات بات پر دل چھوڑ کر رونے والے لڑکی سے کسی کو بھی ایسے رویے کی امید نا تھی ۔۔
فودیل کی تسلی روفہ کے متاثر کن الفاظ ۔عالم کی دعائیں کچھ بھی اس پر اثر نا کیا ۔۔ہائیسم البتہ اس سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا ۔مگر ایک دھڑکا سا ضرور اس کو بے چین کر رہا تھا ۔۔
گھر آنے ک بعد ترتیل نے بچے کو اٹھانے یہاں تک کے اس کو دیکھنے سے بھی انکار کر دیا ۔۔اس کا ردعمل اتنا شدید ہوگا اس کی تو کسی کو بھی امید نا تھی خاص طور پر ہائیسم کو تو بالکل نہیں تھی ۔
غصہ تو اس کو بہت آیا پر ضبط کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا ۔۔
” ٹھیک ہے مت پالو تم ۔۔میں خود اپنے بیٹے کو پال لوں گا ۔اگر ایک معذور بیوی سے محبت کر سکتا ہوں اس کے لیے دنیا کی پرفیکٹ سے لے کر حسین لڑکیوں کو ٹھکرا کر بیس سال تک اس سے خاموش محبت کرسکتا ہوں تو اپنی معذور اولاد بھی پال سکتا ہوں ۔۔یہ تو پھر میرا اپنا خون جسم کا حصہ ہے ۔۔
مگر ایک بات میں تمہیں بتا دوں میرا بیٹا سرجری کے بعد بالکل صحت یاب ہو جائے گا ۔۔پھر اس صورت بھی تمہیں میرے بیٹے کو اٹھانے کی ضروت نہیں ہے ۔۔”
اس کے غصیلی آواز میں ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر ترتیل زخمی نگاہوں سے روتے ہوئے اسے دیکھ کر منہ پھیر گئی ۔۔
فودیل اور روفہ اس وقت ان کے کمرے میں ترتیل کو سمجھانے ہی آئے تھے ۔۔
تب فودیل کو پہلی بار ہائیسم سے کسی بات پر اتفاق ہوا تھا ۔۔آج اس کو اپنی بہن کے ساتھ یوں سب کے سامنے ہائیسم کا برہمی سے بات کرنا بھی بجا لگا ۔۔
” جب میں موجود ہوں تو تم کیوں پالو گے ۔۔یہ میرے لیے میرا دوسرا ہاشم ہی ہے ۔۔جہاں ایک بیٹا پال رہی ہوں وہاں دوسرا بیٹا بھی پال سکتی ہوں ۔۔ترتیل تمہیں تو گھر والوں نے ہمیشہ سپورٹ کیا پر افسوس کے ساتھ تم ظالم زمانے کی طرح ماں ہو کر بیٹے کو اس کے حق سے محروم کر رہی ہو ۔۔ایسے کتنے لوگ ہیں جو بے اولادی کے روگ میں دن رات جلتے ہیں اور تم اس نعمت کو خود سے ٹھکرا رہی ہو ۔۔”
روفہ نے آگے بڑھ کر ہائیسم کی گود سے سوئے ہوئے صائم کو پکڑا ۔۔وہ گل گوتھنا دو دن کا بچہ جس نے ابھی تک اپنی آنکھیں بھی پوری طرح نہیں کھولی تھیں نیند میں اپنی محرومی سے بے خبر مسکرا رہا تھا ۔۔روفہ بے ساختہ پیار آنے پر اس کی ہلکی لووں والی پیشانی چوم گئی ۔۔
” اچھی طرح سوچ لو۔۔تالی روفہ اپنے قول کی کس قدر پکی ہے یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ ایک بار وہ اس کمرے سے باہر چلی گئی تو پھر یہ تمہاری بھول ہے کہ تم صائم کو کبھی دیکھ بھی پاو گی ۔۔”
فودیل نے اس کے پہلو میں بیٹھ کر سرگوشی میں کہا ۔۔ہائیسم نڈھال سا سپاٹ چہرے کے ساتھ سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔
ترتیل نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر فودیل کو دیکھا جو بے حد سنجیدہ تھا ۔پھر اس نے تیر کی تیزی سے کمرے سے باہر جاتی روفہ سے جھپٹ کر صائم کو لیا ۔۔جو اس افتاد پر چینخ کر رونے لگا تھا ۔۔
اس کو سینے میں بھینج کر رو تو ترتیل بھی رہی تھی ۔۔ہائیسم حیران ہوتا کبھی ترتیل کو دیکھتا تو کبھی سکون سے بیٹھے فودیل کو ۔۔
فودیل اٹھ کر ہونق پن سے اپنے خالی بازو دیکھتی روفہ کے پاس آیا ۔جو اب تیکھے چتونوں سے اسے گھورنے لگی تھی ۔۔
” چلو معاملا سلجھ گیا ہے اب ہم بھی باہر چلتے ہیں ۔”
وہ اس کا ہاتھ تھام کر باہر لے آیا ۔۔روفہ نے جاتے ہوئے پلٹ کر زمین پر بیٹھ کر روتی ترتیل کو دیکھا جو اب روتے روئے بلکتے صائم کو پیار کر رہی تھی ۔۔
” یہ کیسے کیا آپ نے ۔۔”
وہ بے حد حیران ہوئی تھی ۔۔البتہ پوچھا اس نے عام سے لہجے میں تھا ۔۔جانے اس کو اپنے تاثرات چھپا کر کون سا انعام ملتا تھا فودیل بے ساختہ سوچنے لگا ۔۔
” تمہارا ڈراوا دیا میں نے اس کو ۔۔تمہیں نہیں پتا وہ کتنا ڈرتی ہے تم سے ۔۔”
روفہ نے آنکھیں کھما کر ناک سے مکھی اڑائی تھی ۔۔فودیل ہنس کر اس کے کندھے پر پیچھے سے دونوں ہاتھ رکھ کر کمرے میں لے گیا۔۔
ہائیسم شکر کا سانس بھر کر ماں بیٹے کو روتا ہوا دیکھتا رہا ۔۔یہ منظر اس کو تکلیف نہیں دے رہا تھا ایک انجانی سی خوشی سے نواز رہا تھا ۔۔
ترتیل نے اس رات پہلی بار صائم کو فیڈ کروایا تھا ۔۔وہ ہائیسم کی نظریں خود پر محسوس تو کر رہی تھی پر اس کا سامنا کرنے میں اب شرمندگی سی ہو رہی تھی ۔۔۔
ترتیل نے پیٹ بھر کر سوئے صائم کو کیری کوٹ میں لٹایا ۔۔پھر ہنوز سر جھکائے صوفے پر بیٹھے ہائیسم کے کندھے پر سر رکھ کر بے ساختہ رونے لگی ۔۔
ہائیسم اس کے شرمندگی تکلیف بھرے آنسو پر اس کی سسکیاں سنتا رہا ۔۔نا اس نے چپ کروایا نا وہ چپ ہوئی ۔۔
” ہائیسم ۔۔”
وہ بھرائی آواز میں بیٹھے ہوئے گلے سے بولی ۔۔
” آپ بہت ناراض ہیں نا مجھ سے ۔۔میں جانتی ہوں اب بات بھی نہیں کریں گے اگنور کریں گے ۔۔ہمیشہ کی طرح جیسے آپ خفگی میں کرتے ہیں ۔۔”
” نہیں تو ۔۔پہلے میں ہونا چاہتا تھا پھر میں نے خود کو تمہاری جگہ پر رکھ کر سوچا تو تم مجھے حق بجانب لگی ۔۔جس انسان نے معذوری کی زندگی جی ہو وہی اس کی اذیت جانتا ہے میں تو شاید تصور بھی نہیں کر سکتا ۔۔پر میں وعدہ کرتا ہوں صائم سر جری کے بعد انشااللہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا ۔۔”
وہ اس کی کمرے کے گرد بازو حمائل کرکے اس کے کالے بالوں کو چوم کر بولا ۔۔دھیرے دھیرے دوسرے ہاتھ سے اس کا سر محبت سے تھپکنے لگا تھا ۔۔۔
” اگر خداناخواستہ ہماری اگلی اولاد بھی ایسی ہوئی تو تم ایسا رویہ مت رکھنا تالی ۔آزمائیش تو زندگی کا حصہ ہے کسی کی زندگی پرفیکٹ نہیں ہوا کرتی بالکلہ زندگی لفظ پر پرفیکٹ کا لیبل ہی غلط ہے ۔۔
ضروی تو نہیں زندگی کا اختتام خوشحال ہو ۔مگر اس کو خوشحال بنانے کی ہم کوشش تو کر سکتے ہیں ۔۔”
وہ اس کے سینے میں مزید سر بھینج کر سمجھ کر سر ہلا گئی ۔۔
” اگر آپ کا ساتھ میرے ساتھ رہے گا تو کوئی آزمائیش مجھے نہیں آزمائے گی ۔۔”
وہ ہلکا سا بڑبڑائی تھی ہائیسم مسکرا کر اس کی پیشانی چوم کر اس کی پوزیشن میں بیٹھ کر بیڈ پر لیٹے صائم کو دیکھنے لگا ۔۔
” دیکھو میرے سالے جیسا ہے صائم ۔۔”
وہ اس کا موڈ بحال کرنے کی غرض سے بولا ۔۔
” یہ “سالہ ” کا ہوتا ہے آپ نام نہیں لے سکتے میرے بھائی کا ۔۔”
وہ اس کے سینے سے سر اٹھا کر خفگی سے بولی ۔۔وہ یوں ہی ہر بار اس کو فودیل کے حوالے سے تنگ کیا کرتا تھا ۔۔اور وہ تنگ ہو جاتی تھی ۔۔بہنیں ہمیشہ سے بھائیوں کے لیے جذباتی ہوا کرتی ہیں اگر ترتیل بھی تھی تو یہ ہائیسم کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں تھی ۔۔
ان کی لڑائی سے صائم احتجاج کرتا رو پڑا تھا ۔وہ شاید اپنے بیٹے کی موجودگی فراموش کرکے لڑنے لگے تھے ۔۔
دنوں ایک ساتھ بوکھلا کر صائم کی طرف بڑھے ۔۔جو ہاشم کی طرح ایک خاموش کم تنگ کرنے والا بچہ ہر گز بھی نہیں تھا ۔۔
پھر ایک ہفتے کے بعد صائم کی سرجری ہوئی تھی اور دوسری ایک ماہ کے بعد ہوئی تھی ۔۔
اس کی دوسری سرجری کو آج دوسرا دن تھا ۔۔تبھی وہ پلاسٹر کی وجہ سے ساری ساری رات ماں باپ کو جگایا کرتا تھا ۔۔
چائے کے ابلنے پر روفہ چونک کر حال میں لوٹی ۔۔پھر گہری سانس خارج کرکے کپ میں چائے انڈیلنے لگی ۔۔
صائم کی دونوں سر جری کامیاب ہوئی تھیں اس بات پر روفہ نے اپنی طرف سے گھر میں ہاشم کی سالگرہ کے ساتھ دعوت بھی رکھی تھی ۔۔
ترتیل کا خدشہ تو صحیح ثابت ہوا تھا پر اس کے اثرات ان کی زندگیوں پر پڑنے سے بچ گئے تھے ۔۔صائم صحت یاب ہو چکا تھا ۔۔اور اب ترتیل آہستہ آہستہ بات بات پر خود پر ضبط کھونا بھی چھوڑنے لگی تھی ۔۔
ہر عورت کی طرح اس میں بھی ماں کے رتبے پر فائیض ہونے کے بعد بہت سی تبدلیاں رو نما ہو رہی تھیں ۔۔اب یہ شاید ہائیسم کی خوش قسمتی ہی تھی کہ وہ مثبت تبدلیاں تھیں ۔۔
روفہ لاونج کے صوفے پر بیٹھ کر چائے پینے لگی ۔۔نظریں اس کی سامنے کی دیوار پر ۔فش ایکویریم پر تھیں ۔۔
قدرت کی طرف سے اس کے بخت میں لکھے گئے بہت سے اتاو چڑھاو آئے تھے ۔کبھی زندگی ایک طرف سے ڈگمگا جاتی تو کبھی دوسری طرف سے ۔۔اعتدال پر آتے آتے بہت وقت لگ گیا تھا ۔۔
ابھی تو آنے والے زندگی میں بھی بہت سی چیزوں کا سامنا کرنا تھا ۔پر اب اس کے ساتھ فودیل بھی تھا ۔۔ایک مرد کا ساتھ بھی تھا جس نے یقینی طور پر ست رنگی قوس قضا اس کے بخت میں بھر دی تھی ۔۔
فودیل نیند میں آنکھیں ملتا ہوا سیڑھیاں اتر کر اس کی جانب آ رہا تھا ۔۔روفہ چائے پیتے ہوئے اس کو جمائی روکتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔
” یار یہ تم نشیوں کی طرح چائے پینا کب چھوڑوں گی ۔۔رات کو بھی مگ بھر بھر کر پینا ضروری ہے ۔۔”
وہ صوفے پر اس کی گود میں سر رکھ کر آنکھیں موندے ہی خمار آلود آواز میں بولا ۔۔روفہ نے گرم مگ اس کے بازو پر رکھ دیا جس سے وہ بلبلا ہی اٹھا تھا ۔۔
کہا تو اس نے کچھ نہیں پر اس کا کپ چھین کر سنک میں ضرور گرا دیا ۔۔
” چلو آو سونے چلتے ہیں ۔۔”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی سیڑھوں کی طرف بڑھ گئی ۔۔وہ اس کی سپاٹ چہرے سے جان گیا تھا روفہ ناراض ہو گئی ہے ۔۔اب تو آہستہ آہستہ وہ اس کو جان رہا تھا ۔۔اور بڑی حد تک جان بھی گیا تھا ۔۔
کسی کو سمجھنا مشکل تو نہیں بشرطیہ ہم اس کو سمجھنا چاہیں ۔۔کوئی شخص پہیلی نہیں ہوتا ۔اگر ہوتا بھی ہے تو اس دنیا میں ایسا کوئی سوال نہیں جس کا جواب موجود نا ہو ۔۔فودیل اب اس کو جان رہا تھا تو اس پہیلی کا جواب بھی پرت در پرت اس کے سامنے آ رہا تھا ۔۔
” اب تو میں اسلام آباد ٹرانسفر کروا ہی لوں گی ۔۔”
ہمیشہ کی طرح روفہ کی طرف سے دھمکی کا وار ہوا تھا ۔۔جس پر فودیل تیزی سے اس کے پیچھے آیا ۔۔
” تم کروا کر تو دیکھاو مجھے ۔۔میں بھی پھر چینل چھوڑ کر تمہارے گھر ہی آوں گا ۔بالکہ تم مجھے اس شہر سے باہر جا کر دیکھانا میں نے ناکے نا لگوا دئیے تو میں روفہ کا شوہر نہیں ۔۔”
روفہ نے آنکھیں کھما کر مصنوعی پن سے اس کو تالی مار کر داد دی ۔۔
” اور ہاں تمہارے دفتر میں کیمرے بھی لگواں گا تمہارا کیا پتا ہے میرے پیچھے ہی تم ٹرانسفر کر والو ۔۔”
” یہ آئیڈا اب آیا ہے آپ کو میں تو پچھلے تین ماہ سے آپ کے آفس میں کیمرے لگا چکی ہوں اور اس سے آپ کو مونیٹر کر رہی ہوں ۔۔”
روفہ نے ہمیشہ دو ہاتھ اس کے آگے ہی ہونا تھا یہ بات تو وہ ثابت کرتی رہتی تھی ۔۔
اس کے سکون سے بولنے پر فودیل اس کو دیکھ کر رہ گیا ۔۔
” روفہ تمہیں اللہ پوچھے ۔۔”
وہ جیسے کراہ پڑا تھا ۔۔
سیڑھیوں پر جاتے ان کی ہلکی پھلکی میٹھی بحث جاری تھی ۔۔سوال و جواب کا یہ کھیل ان کی ازدواجی زندگی کی خوبصورتی تھی ۔۔
ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔