رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ فضاء میں ہلکی سی خنکی تھی۔حیدر چھت پر درمیانی دیوار سے ٹیک لگائے شفق کا منتظر تھا۔حریم نے شفق کو بروقت چھت پر حاضر ہونے کا حکم دے دیا تھا۔درمیانی دیوار کی کشادہ سطح پر چمکیلے گفٹ ریپر میں مقید گفٹ دھرا تھا۔آج صبح ہی دونوں حویلیوں میں تشریف لائیں مہمان خواتین کی آسانی کے لیے دونوں چھتوں کو جوڑتی درمیانی دیوار کا کچھ کا حصہ توڑ کر درمیان میں آہنی گیٹ نصب کردیا گیا تھا۔ نتیجتاً ایک حویلی سے دوسری حویلی میں آنے جانے کےلئے مہمان خواتین وسیع و عریض سہن کو عبور کرنے کی مشقت سے بچ گئی تھیں۔نہایت ہی شارٹ نوٹس پر یہ کام کیا گیا تھا۔چھت کے چاروں کونوں میں فانوس نصب کیے گئے تھے۔فانوس کی سفید روشنیاں بکھیرتے ہوئے روشن تھے۔وہ دونوں چھتوں میں کئے گئے ردوبدل پر غور کررہا تھا معاً قدموں کی چاپ پر وہ مڑا ۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی شفق درمیانی دیوار کے نزدیک چلی آئی۔فانوس کی روشنی اس کے چہرے پر پڑی تھی اور اس لڑکی کے چہرے کا ہر ایک نقش واضح ہوگیا۔سرخ شیشوں سے مزین ڈوپٹہ کے ہالے میں روشنی بکھیرتا معصوم و ازحدحسین چہرہ اس کے سامنے تھا۔
خان شفق نام کی پہیلی آج حل ہوگئی تھی۔ بڑی بڑی خوبصورت گولڈن کرسٹل سی چمکتی آنکھیں، سنہرے بالوں کی لٹیں جو ہوا کے دوش پر دوپٹہ کی قید سے نکل کر اس کومل چہرے کو چھونے کی جسارت کر رہی تھیں۔گلاب کی پنکھڑی جیسے نازک لب جسے وہ بے دریغ کچل رہی تھی۔
سرخ دوپٹہ کے ساتھ شیشوں سے مزین بے داغ سفید شلوار قمیص میں ملبوس نازک سی اس لڑکی کو دیکھ اسے یہ گمان ہو رہا تھا گویا کوئی سنہری پر ی آسمان سے اتر کر اس کے عین مقابل آکھڑی ہوئی ہو۔
وہ لمحے بھر کےلیے مبہوت رہ گیا۔کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے حسن کی ایک جھلک حسن کی تعریف میں لکھی ایک پوری کتاب پر بھاری ہوتی ہے۔آج حیدر آفندی کو اس جملے کی صداقت کا احساس ہوا تھا۔سونے کی گڑیا ، سنہری پری ، شہزادیوں جیسی میری شفق،اس کی تعریف میں حریم کے لبوں سے ادا ہوئے توسیفی الفاظ شفق کو مجسم اپنے عین مقابل پاکر چھوٹے معلوم ہورہے تھے۔
چند لمحے اس سحر کی نذر ہوگئے۔ دفعتاً ہوا کا ایک سرکش جھونکا آیا اور اس کے سرپر سلیقے سے اوڑھے ہوئے دوپٹہ کو اپنی جگہ سے ہٹا گیا۔ سرعت سے اس نے دوپٹہ کو تھاما تھا۔
” ۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ایکچوئیلی حریم کہہ رہی تھی مجھے تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم ۔۔۔۔۔سے مل لینا چاہیے واپسی سے قبل۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بے اختیاری پر شرمندہ ہوتے ہوئے وہ بری طرح گڑبڑا گیا ۔اس کے بے ربط جملوں کو سن کر وہ اپنی بے ساختہ مسکراہٹ کو روک نہیں پائی ۔
شفق کو مسکراتا دیکھکر وہ بری طرح خجل ہوا تھا۔اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ حریم کی چار سال پرانی دوست اور اپنی چند گھنٹے پرانی بیوی کے روبرو کھڑا وہ اس قدر نروس ہوسکتا ہے۔اس سے قبل وہ کسی لڑکی سے مخاطب ہوتے ہوئے اسقدر کانشئیس نہیں ہوا تھا۔اس کے برعکس ہمیشہ سے ڈری سہمی اور نروس رہنے والی شفق خاصی خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتی ہوئی اپنے شوہر کے چہرے پر نظریں ٹکائے مسکرارہی تھی۔
“جوں ہی بھائی تم سے ملیں گے تمہارے چہرے پر پہلی نظر پڑتے ہی تمھاری خوبصورتی ان کی آنکھوں کو خیرہ اور ذہن کو ماؤف کردے گی۔کیونکہ بھائی نے تمہیں اس سے قبل دیکھا نہیں ہے۔یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ وہ نروس ہو نگے یا نہیں مگر ناینٹی پرسنٹ چانسیس ہیں کہ ایکدم سے تم دونوں کے درمیان رشتے کی نوعیت بدل جانے سے وہ بات کرنے سے قبل نروس ہو جائیں گے۔ گھبراؤ نہیں تھوڑی دیر کے بعد وہ خود پر قابو پالیں گے۔اور ہاں ،سب سے اہم بات میرے بھائی کی طرف سے اظہار محبت کی امید قطعاً نہ رکھنا۔وہ اس معاملے میں بالکل اناڑی ہیں۔ساری دنیا باخبر ہے کہ بھائی مجھ سے کس درجہ کی محبت کرتے ہیں۔مگر آج تک بھائی نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ حریم میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔
بھائی اپنی محبت کا اظہار لفظوں سے نہیں عمل سے کرتے ہیں۔ لیکن تم ٹینشن نہ لینا ۔گفتگو کے دوران وہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کریں گے جس سے تمہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔ بس تم میرے بیچارے بھائی سے مشہور زمانہ اظہار محبت اور تین سنہری لفظوں کی توقع نہ کر لینا۔”
اس کے ذہن میں حریم کی آواز گونجی تھی وہ مسکرا دیں۔ ایک دوسرے کو کتنا بہتر سمجھتے تھے وہ دونوں۔حسب توقع وہ بری طرح نروس ہو رہا تھا۔
“اوکے ، ٹھیک ہے۔ پہلے میں تمھیں” ‘تم’ “کہہ کر مخاطب کرتا تھا تو اب بھی اسی طرح مخاطب کروں گا کیونکہ میں اسی میں کمفرٹیبل محسوس کروں گا۔حریم کہہ رہی تھی جانے سے قبل مجھے تم سے ملاقات کر لینی چاہیے۔میں اس کی بات سےمتفق تھا۔تمہارا بہت شکریہ کہ تم نے آنے کے لیے رضامندی دے دی۔ورنہ جس دن سے تمہارے بھائیوں کے رویوں میں تبدیلی آئی ہے تم تو گویا چھت پر آنا ہی بھول گئی اور میں احمق محض چند دنوں میں حریم کی دوست سے باتیں کرنے کا عادی ہو گیا۔میں آتا رہا ہوں چھت پر مگر تم ایک دفعہ بھی نظر نہیں آئی۔”
وہ جتانے والے انداز میں بولا۔لہجہ عام سا تھا۔مگر اس کے وہ چند الفاظ خان شفق کو خاص بنا گئے۔ پل بھر میں اسے اپنا آپ معتبر محسوس ہونے لگا۔اسے لگا جیسے فانوس کی روشنیاں ایک دم سے بڑھ گئیں ۔گویا رات کے اندھیرے میں صبح ہو گئی۔ٹھنڈی ٹھنڈی باد صبا یک لخت معطر محسوس ہونے لگی۔ جیسے آسمان سے فرحت بخش شبنم کے قطرے برس کر اسے پورا کا پورا بھگو گئے۔حریم ٹھیک ہی کہتی تھی اپنے بھائی کے متعلق۔ اپنی محبت کا یقین دلانے کے لیے وہ شخص تین لفظوں کا محتاج نہیں تھا۔وہ تو لفظوں کا جادو گر تھا۔ساحر تھا ۔مقابل کو اپنی باتوں کے سحر میں جکڑ لینے والا۔اور فی الوقت شفق انہی لفظوں کے سحر میں گرفتار تھی۔اسے اب مزید کسی اعتراف محبت کی ضرورت نہیں تھی۔اس کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔ کیونکہ اس کے بعد شفق کو اس کے چند لفظوں کے سامنے ہر اعتراف چھوٹا اور کمتر معلوم ہونا تھا۔اس شخص کی منکوحہ بن جانے کے بعد پہلی ہی ملاقات میں اس نے اسے رلا دیا۔یک لخت اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
“میں آیاکرتی تھی چھت پر۔ آپ کا انتظار بھی کرتی تھی۔ کچھ گھنٹے انتظار کر لینے کے بعد امید و ناامیدی کے درمیان ڈولتے میرے دل پر ناامیدی کے جذبات ایک دم سے حاوی ہو جاتے اور میں نیچے چلی جاتی۔لیکن مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔آپ کے حوالے سے غلط فہمی کو اپنے دل میں پناہ گیزیں ہونے نہیں دینا چاہیے تھا ۔آپ اوروں سے مختلف ہے لہذا آپ کے کسی عمل پر میرا ردعمل بھی اوروں سے مختلف ہونا چاہیے تھا۔مجھے آپ کا مزید انتظار کرنا چاہئے تھا پھر چاہے ساری رات ہی کیوں نہ بیت جاتی ۔مجھے آپ کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔
خیر میرے یہ سب کہنے کا مقصد یہی ہے کہ مجھے بھی حریم کے بھائی سے باتیں کرنے کی عادت ہو گئی تھی۔وہ عادت جو چین نہیں لینے دیتی ۔پیچھا نہیں چھوڑتی۔وہ عادت جسے ہم دونوں تو عادت گردانتے ہیں مگر حریم اسے محبت کہتی ہے۔”
اس کے چہرے پر نظریں جمائے شفق نے مستحکم لہجے میں کہا۔ایک پل کو حیدر شفق کی دیدہ دلیری اور صاف گوئی کی داد دیے بنا نہ رہ سکا۔
اس کی شخصیت میں خاصا بدلاؤ آیا تھا۔اب وہ پہلے والی ڈری سہمی، خود ترسی میں مبتلا خانزادی نہیں رہی تھی۔وہ بڑی آسانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔اس کے برخلاف حیدر بار بار اپنی نگاہیں اس کے چہرے سے ہٹارہا تھا گویا حسن و معصومیت کے مجسمے کو مستقل دیکھنے کی تاب نہ لا پارہا ہو۔ اس لمحے شفق کا اعتراف سن کربے اختیار دل نے ایک قلابازی کھائی تھی۔اپنی بے ساختہ مسکراہٹ اور ازحد خوش گوار تاثر کو چھپانے کی سعی میں حیدر نے فوراً درمیانی دیوار پر رکھا ہوا تحفہ اس کے سامنے پیش کردیا۔
“وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حریم بضد تھی کہ مجھے تمہیں کوئی تحفہ دینا چاہیے۔حریم میرے ساتھ نہیں آئی۔ مجبوراً مجھے ہی اپنی پسند سے تمہارے لیے گفٹ خریدنا پڑا امید کرتا ہوں تمہیں پسند آئے گا۔ ”
وہ قدرے ہچکچاتے ہوئے بولا۔
“تم اسے کھول سکتی ہو۔۔۔۔۔۔”
اسے گفٹ ہاتھ میں تھامے دیکھ کر وہ بولا۔
شفق نے حکم کی تعمیل کی اور گفٹ کو ریپر سے آزاد کرتے ہوئے باکس سے نہایت ہی خوبصورت ونڈ چائم برآمد کیا۔ کھوٹے سے پکڑ کر ونڈ چائم کو اوپر اٹھاتےہی ڈارک پرپل میٹل کی پلیٹ سے سنہری چھوٹی بڑی تاروں کی مدد سے لٹکے ہوئے کرسٹل کے نمونے سترنگی روشنی بکھیرنے لگے۔سفید فانوس کی روشنی میں مختلف رنگ گھل گئے۔ شفق نے ونڈ چائم کو بازو اونچا کرکے اپنے قد سے اوپر اٹھا لیا نتیجتاً چھوٹی بڑی سنہری تاروں سے نتھی اوپر نیچے لٹکے دو تیلیاں اور تین ستارے واضح ہوئے تھے ۔
“ماشا اللّٰہ ، بہت خوبصورت ہے”۔
اس خوبصورت تحفہ پر نظر پڑتے ہی شفق کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔
“سمجھ نہیں آ رہا تھا تمہیں کیسا تحفہ دوں۔حریم نے کہا تھا کہ اس کی پسند کو ذہن میں رکھ کر تمہارے لئے گفٹ خریدوں۔اس لحاظ سے اگر حریم کی پسند بات کی جائے تو پرفیومس کے بعد سب سے زیادہ ونڈ چائمز عزیز ہے اسے ۔ مختلف ڈیزائنز اورمختلف طرح کے ساز پیدا کرنے والے ونڈ چائیمز اس کے کمرے کے ہر کونے کی زینت بڑھا رہے ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ تمہیں تحفہ پسند آیا”۔
اس کے لبوں کا احاطہ کرتی خوبصورت مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے حیدر نے سلسلہ کلام جوڑا۔وہ پر شوق نگاہوں سے ونڈ چائم کو دائیں بائیں گھما کر دیکھتی معاً کسی ستارے کو انگلی سے ذرا سی جنبش دیتی نتیجتاً سارے کرسٹل کے نمونے ایک دوسرے سے ٹکراتے اور مدھم سی مدھر آواز فضا میں گونج اٹھتی۔
“آپ کا بہت شکریہ مجھے بہت پسند آیا یہ تحفہ”۔وہ چہکی۔
“ونڈ چائمز تو بہت سے دستیاب تھے مگر اس ونڈ چائم کی دریافت میں خاصا وقت لگ گیا۔
میں تمہیں کوئی ایسا تحفہ دینا چاہتا تھا، جس میں ستارے ہو ،تتلیاں ہو اور روشنی ہو۔
ستارے جو اندھیرے میں چمکتے ہیں۔جو آسمان کی بلندی پر ہوتے ہیں جو آسمان کی سیاہ چادر کو خوبصورت بناتے ہیں۔اب چونکہ تم تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہو تو تمہیں اس معاشرے کا حصہ بننا ہوگا۔ یقیناً اتنے سالوں بعد گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر ایک دم سے اس معاشرے کی دوسری لڑکیوں جیسا بننا آسان نہ ہوگا۔عین ممکن ہے کہ شروعات میں تم نا امیدی کا شکار جاؤ ۔ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاؤ۔اس مشکل وقت میں تم ان ستاروں کی طرف دیکھ لینا اور یاد رکھنا کہ ستارے اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں۔جب تک تم گھر کے باہر کی زندگی جینا نہیں سیکھوگی حویلی کے باہر کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونا نہیں سیکھوگی ۔ تمہاری شخصیت میں نکھار اور ٹھہراؤ نہیں آئے گا۔ جب تم خود کو کمزور محسوس کرنے لگو تب ان دھاگوں سے بندھی تتلیوں کو دیکھنا یہ تمھیں حوصلہ دینگیں۔ اس قدر نازک اور بےضرر ہونے کے باوجود یہ تتلیاں زمین سے اوپر ہوا میں اڑتی ہیں۔ انہیں گرنے کا خوف نہیں ہوتا۔میں چاہتا ہوں تم بھی اونچی پرواز کا ارادہ کرو۔تتلیوں کی مانند اڑو۔ بے خوف وخطر۔”
اپنی باتوں کے درمیان لحظہ بھر کو وہ رکا اور شفق کے چہرے کی طرف دیکھا سترنگی ستاروں اور تیتلیوں سے پھوٹتی روشنی منعکس ہوکر اس کے از حد حسین و معصوم مسکراتے چہرے پر پڑ رہی تھی۔وہ اب بھی ونڈ چائم کو دیکھ رہی تھی حیدر کے اچانک رک جانے پر وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔حیدر نے فوراً نگاہوں کا زاویہ بدلا۔گردن کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔
“اور میں چاہتا ہوں کہ روشنی کے یہ چھوٹے چھوٹے منبع رات کی تاریکی میں تمہارے کمرے کو روشن کر دیں۔ آج کے بعد تم کبھی تاریکی میں نہ رہو ،ایک پل کےیے بھی نہیں اور جب کبھی تمھاری نظر اس پر پڑے یہ روشنی بکھیرتی تیتلیاں یہ جھلملاتے ستارے تمھیں میری یاد دلائیں۔”
وہ مسکراتا ہوا گویا ہوا۔وہ ایک ٹک اس شخص کے چہرے کو دیکھے گئی جو جانے اتنا اچھا اور غیر معمولی کیوں تھا۔ ۔
اس کی بات کے جواب پروہ لب کشائی کی جرات نہیں کر سکی۔ کہنے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ شفق کو براہ راست اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ بے طرح سٹپٹا گیا اور اپنی خجالت مٹانے کے لیے فورا بولا۔
“یہ سولر ونڈ چائم ہے۔تم اسے اپنی بالنکی یا کھڑکی میں ٹانگ دینا تاکہ دن بھر اسے سورج کی روشنی ملتی رہے اس میں آٹومیٹک سینسر لگے ہیں رات ہوتے ہی یہ اپنے آپ جل اٹھتے ہیں۔”
گو یہ بات اس موقع پر کرنے والی قطعاً نہیں تھی لیکن حیدرکو لگا فی الوقت ایسا کہنے سے ماحول کا بوجھل پن قدرے کم ہوجائےگا مگر وہ اب بھی بنا پلک جھپکے ساکت و جامد سحر زدہ سی اسکے چہرے کو تکے جارہی تھی شاید اسی لیے اسے احساس تک نہیں ہوا کی اسکی بھوری غزالی آنکھوں کے پیالوں سے ایک آنسو چھلک کر رخسار پر آرکا تھا۔
کل صبح میری واپسی ہے اسی لیے اللّٰہ حافظ۔
انشا اللّٰہ فون پر رابطہ ہوتا رہے گا۔”
اسے جواب نہ دیتا پاکر حیدر نے سلسلہ کلام جوڑا الوداعی کلمات ادا کرتے ہی سرعت سے رخ موڑ گیا۔جانے کیوں اس کا دل یکدم سے بوجھل ہورہا تھا۔اس کا نہیں خیال تھا کہ اپنی چند گھنٹے پرانی منکوحہ کو الوداع کہنے کا مرحلہ اسقدر تکلیف دہ واقع ہوگا۔
“آپ کی واپسی کب ہوگی؟”اس کو مڑتا دیکھ شفق سحر سے باہر نکلی۔
“چند ماہ بعد”۔اس نے گردن موڑ کر جواب دیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا زینے اترگیا۔
“فی امان اللّٰہ”۔
بھرائی ہوئے لہجے اور مدھم آواز میں کہے گئے الفاظ شاید ہی حیدر کی سماعت میں اترے ہونگے۔شفق کا دل پکے پھوڑے کی مانند دکھنے لگا۔فانوس کی روشنی ایکدم سے مدھم پڑ گئ۔ٹھنڈی ٹھنڈی معطر بادصبا اپنا رخ بدل گئی۔اس تحفے کو دوبارہ باکس میں رکھکر کسی قیمتی اثاثہ کی طرح اسے سینے سے لگائے وہ بوجھل قدموں کے ساتھ چھت کی دہلیز عبور کرگئ۔
*******
رات کا ایک بج رہا تھا۔مگر نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔دل تھا کہ دکھے جارہا تھا۔کل حیدر پردیس لوٹ لا رہا تھا۔ اپنے والد کی ڈانٹ پر وہ بادل ناخواستہ حیدر کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آئی تھی ورنہ اسکا تو ارادہ تھا کہ ساری رات وہ دونوں محو گفتگو رہیں۔ایسا پہلی دفعہ نہیں تھا۔ گزشتہ ایک سال میں جب کبھی چھٹیوں کے بعد حیدر کی واپسی ہوتی وہ اتنی ہی شدت سے روتی اور اسے اتنی ہی تکلیف ہوتی تھی۔ وہ کیا کرتی ،بعض صورت حال کا انسان کبھی عادی نہیں ہوتا۔وہ اس معاملے میں بے بس تھی۔ وہ بےسدھ لیٹی تھی جب اس کے اسمارٹ فون پر میسج موصول ہوا۔
“کیا تم چھت پر آ سکتی ہو ؟ پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔ حمزہ”۔
ایک سطر پر مشتمل اس پیغام کو پڑھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ دس منٹ اچھی طرح سوچ لینے کے بعد بڑی ہمت کرکے وہ متذبذب سی رات کی تاریکی میں چھت پر چلی آئی۔چہار سو رات کا سناٹا تھا۔ فضا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔اپنے وجود کو شال میں اچھی طرح چھپائے ہوئے وہ چھت کی ریلینگ کے نزدیک آگئی۔اپنی چھت کی ریلینگ سے ٹکیک لگائے سفید کرتا اور بلیو جینس میں ملبوس وہ اسی کا منتظر تھا۔
“بہت شکریہ رات کے اس پہر چھت پر آنے کےلئے”۔
وہ مسکرا کر سر کو خم دیتا گویا ہوا ۔ایسا کرنے پر اس کے سنہرے بال ماتھے پر آرکے تھے۔اسکی مسکراہٹ پہلے سے زیادہ دل فریب ہو گئی تھی۔ فانوس کی روشنی میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔گزرے ماہ و سال نے اسے مزید جاذب نظر بنادیا تھا۔حریم نے فوراً اپنی نظر اس کے چہرے سے ہٹالی۔
” میرے نزدیک رات کے اس پہر کسی کو نیند سے جگا دینا، گناہ صغیرہ ہے”۔وہ بری طرح نروس ہو رہی تھی۔
حریم آفندی کو اپنے آپ سے یہ توقع نہیں تھی ۔ وہ پارتھ سکسینا جو ماضی میں اس سے نظریں تک نہیں ملا پاتا تھا،اسے عین مقابل پا کر بھاگ کھڑا ہوتا تھا۔چند سالوں بعد اسقدر بارعب شخصیت کا مالک بن گیا تھا کہ اب وہ اس سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی۔اپنے نروسنیس اور گھبراہٹ کو چھپانے کی سعی کرتے ہوئے اس نے مصنوعی خفگی سے کہا۔دل تھا کہ پوری رفتار سے دھڑک رہا تھا۔وہ شکر ادا کر رہی تھی کہ ان دونوں چھتوں کے درمیان کچھ انچوں کا فاصلہ تھا۔خدانخواستہ یہ چھتیں بھی خان حویلی اور آفندی حویلی کی چھتوں کی مانند باہم جوڑی ہوتیں تو اس کا دل حلق کے راستے اچھل کر باہر آجاتا۔غیر یقینی تھی مگر حقیقت یہی تھی کہ بلا کے بااعتماد حریم اور حیدر آفندی اپنے اپنے ہمسفر کے روبرو بری طرح نروس ہو رہے تھے۔اور اس معاملے میں بھی وہ دونوں بالکل ایک جیسے تھے۔
“پھر تو میں اس گناہ صغیرہ کا مرتکب نہیں ہوا۔کیونکہ مجھے یقین ہے تم جاگ رہی ہو گی۔حریم آفندی کا عزیز ترین جوڑواں بھائی کل اس سے دور جا رہا ہے ایسے میں وہ پرسکون نیند کیسے سوسکتی ہے۔اداسی ، اضطراب اور غم اسے سونے جو نہیں دینگے”۔وہ پر یقین لہجے میں گویا ہوا ۔
“جب آپ کو اندازہ تھا کہ میں کن جذباتی کیفیات سے دوچار ہوں تو آپ کو مجھے اس وقت چھت نہیں بلانا چاہیے تھا”۔وہ نروٹھے پن سے بولی۔
“ملنا ضروری تھا۔میرا خیال تھا کہ جانے سے قبل ایک دفعہ اپنی نو سال پرانی محبوبہ اور چند گھنٹے پرانی منگیتر سے ملاقات کرلینی چاہیے”۔ وہ سابقہ لہجے میں گویا ہوا۔
“جانے سے قبل ؟ آپ کہاں جا رہے ہیں، اور کب؟”
وہ بے ساختہ مستفسر ہوئی۔مگر حمزہ کے چہرے کا احاطہ کرتی مسکراہٹ کو دیکھ اسے اپنی بے اختیاری پر افسوس ہوا تھا۔
“سعودی، کل دوپہر۔ میرا سارا بزنس وہی سیٹل ہے۔سب کچھ یہاں منتقل کرنے میں چند ماہ لگ جائیں گے۔کل تک یہ میرے لیے محض ایک خواب تھا کہ میں واپس تمہیں اپنی منگیتر بناکر لوٹوں گا۔آج حیدر کا نکاح تھا میں نے امی سے کہا بھی تھا کہ آج رشتہ لے کر نہ جائیں یہ نامناسب ہے مگر امی بضد تھیں کہ خوشی کا ماحول ہے اگر آفندی خاندان کی طرف سے رشتہ کو منظوری مل گئی تو ان کی خوشیاں دگنی ہو جائیں گی۔اگر کچھ روز قبل مجھے ذرا برابر بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یوں آناً فاناً میری منگنی ہو جائیگی تو میں جانے کا پروگرام ملتوی کردیتا مگر اب یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ خیر جانے سے قبل تم سے ملاقات کا شوق پریشان کرنے لگا تو رات کے اس پہر چھت پر چلا آیا۔
برسوں سے میرے دل پر 12 سالہ حریم آفندی پوری شان سے قبضہ کیے ہوئے تھی۔ مجھے اپنی محبت پر ناز تھا۔ گزشتہ سالوں میں ایک پل کےلیے بھی میں تمہیں فراموش نہیں کرسکا ، مگر کل شام تمہارا چھت پر موجود ہونا کسی نعمت غیرمرتقبہ سے کم نہیں تھا۔تمہارے چہرے پر پہلی نظر پڑتے ہی گویا تم میرے دل میں اتر گئی۔ اور بارہ سالہ حریم کل مجھ سے خفا ہوگئی اس نے میری محبت کا مذاق اڑایا کہ کیسی محبت تھی یہ جو اکیس سالہ حریم آفندی پر نگاہ پڑتے ہی رخصت ہوگئی۔میں اسے کیسے سمجھاتا کہ محبت کی شدت میں فرق آیا ہے مگر میری محبت اول روز سے ایک ہی شخص وابستہ رہی ہے ۔ پارتھ سکسینا کی محبت میں وہ شدت نہیں تھی جو حمزہ آفریدی کی محبت میں ہے”۔
وہ اس کے خوبصورت چہرے پر نگاہ جمائے بولا۔گزرے ماہ و سال نے اسے مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔ رنگت مزید شہابی ہوگئ تھی ۔ آنکھیں گہری جھیل سی ، خوبصورت سلکی بالوں کی پونی دائیں کندھے پر آگے کی طرف ڈالی ہوئی تھی۔
” آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ گذشتہ کچھ سالوں سے آپ میری محبت میں گرفتار ر ہے ہیں، تو اب تک کہاں تھے آپ ؟ یہ تو آپ کی خوش قسمتی تھی کہ ابھی تک میری شادی نہیں ہوئی اور بیگم نوراں نے اپنی حویلی آپکو فروخت کردی ورنہ میرا بھائی میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں کبھی نہیں دیتا۔ اتنے سالوں تک آپ اسقدر مطمئن اور بےفکر کیسے رہے؟اگر میری شادی کہیں اور ہو جاتی تو کیا کرتے آپ؟”
اس کی گہری جھیل سی آنکھوں پر شکوہ دکھائی دینے لگی۔
“اب اتنا بھی بےفکر نہیں تھا میں ۔ پوری خبر رکھتا تھا کہ میری محبت کسی کے ساتھ رخصت نہ ہوجائے ۔ اور اتنے سالوں تک تم سے دور رہنا میری مجبوری تھی۔مجھے انڈیا واپس آنے سے خوف آتا تھا۔پارتھ سکسینا اس نام سے خوف آتا تھا۔
میں چاہتا تھا تم پارتھ سکسینا کو بھول جاؤ۔حمزہ بن کر جب میں تمہارے سامنے آؤں تو تمہارے ذہن میں بزدل ، ڈرپوک اور خود ترسی میں مبتلا پارتھ سکسینا کی کوئی یاد باقی نہ رہے۔وہ پارتھ سکسینا تمہارے قابل نہیں تھا۔تم نہیں جانتی گزشتہ سالوں میں میں نے خود کو تمھارے قابل بنانے کے لئے کتنی محنت کی ہے۔ اس دوران بارہا ایسے مواقع آئے جب میں ہمت ہار جاتا۔حمزہ پر پارتھ حاوی ہوجاتا اس وقت مجھے تمہاری سیاہ آنسوؤں سے لبریز آنکھیں یاد آتیں۔وہی آنکھیں جو بھیڑ میں بھی پارتھ سکسینا کو ڈھونڈ نکالتی تھیں۔ یوں سمجھ لو تمہاری نظریں سالوں پر محیط ہوگئیں۔ میں تمھاری ان نگاہوں کے پیچھے چھپے جذبات کو بدلنا چاہتا تھا۔میں چاہتا تھا حریم آفندی مجھے ترحم بھری نگاہوں سے نہیں محبت بھری فخریہ نگاہوں سے دیکھے۔ ۔تمھاری وہ نظر مجھے حوصلہ دیتی اور میں مزید جوش کے ساتھ آگے بڑھتا۔”
وہ آسمان کی طرف سر اٹھائے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے بولا۔اس کے لب ولہجہ میں زمانوں کی محبت بولتی تھی۔حریم نے بمشکل اپنی آنکھوں کے پیچھے ٹھاٹھے مارتے جذبات کے سمندر کو نمکین پانی کی صورت میں بہہ نکلنے سے روکا تھا۔
“اگر آپ چاہتے تھے کہ میں پارتھ سکسینا کو فراموش کر دوں تو یوں سمجھ لیں آپ کی اتنے سالوں کی ریاضت رائیگاں گئی کیونکہ میں نے پارتھ سکسینا کو بھولنے کی کوشش ہی نہیں کی۔وہ ہمیشہ سے میرے دل کے کسی گوشے میں چھپا رہا ہے۔ میں ایک بار کسی کو اپنے دل میں جگہ دے دوں تو دوبارہ کبھی اسے اپنے دل سے نہیں نکالتی۔ میں نے جس پارتھ سکسینا کو اپنے دل میں جگہ دی تھی وہ بزدل یا ڈرپوک نہیں تھا وہ تو بس بےسکون تھا ،پریشان تھا۔اسے راستہ نہیں مل رہا تھا ۔وہ منزل کا تعین نہیں کر پارہا تھا۔ وہ خود کو پتھر سمجھتا تھا جبکہ درحقیقت وہ تو ایک نایاب ہیرا تھا جسے تراشے جانے کی ضرورت تھی ۔ آپکی طرف دیکھتی میری آنکھوں میں ہلکورے لیتے جذبات ترس وہمدردی کے نہیں تھے۔وہ تو میری معصوم محبت تھی جو اپنے محبوب کی ناقدری پر بس آنسو بہانا جانتی تھی۔ اس اسکول کے ہجوم میں میری آنکھیں آپکو اسی لیے ڈھونڈ لیتی تھی کیونکہ شاید میں واحد تھی جسے اس ہیرے کی چمک بار بار اپنی طرف متوجہ کرتی تھی۔
پارتھ سکسینا سے نفرت مت کریں حمزہ، کیونکہ اسی کی ہمت اور حوصلے نے آپ کو حمزہ بننے پر مجبور کیا تھا۔اپنے ماضی سے نفرت مت کریں ، کیونکہ اسی ماضی نے مجھے آپ سے ملایا تھا۔اسی ماضی نے میری محبت آپ کے دل میں ڈالی تھی۔اسی ماضی میں آپ نے پارتھ سے حمزہ بننے کا عہد کیا تھا۔مت بھولیں کے ماضی کی بنیادوں پر ہی مستقبل کھڑا ہوتا ہے۔سالوں پہلے مجھ میں اتنی سمجھ نہیں تھی کہ اپنے ننھے سے دل میں امڈتے جذبات کو معنی پہنا پاتی اسی لیے آج میں پورے دل سے اعتراف کرتی ہوں کہ معصوم صورت ، دلفریب مسکراہٹ اور خوبصورت دل رکھنے والا پارتھ سکسینا سے مجھے محبت تھی ۔اور آپ کی شخصیت میں ظاہری طور پر چاہے جتنا تغیر آجائے،مجھے فرق نہیں پڑتا کیونکہ شخصیت چاہے پارتھ سکسینا کی ہو یا حمزہ آفریدی کی مجھے تو بس ان دونوں شخصیات کے سینے میں دھڑکتے دل سے مطلب ہے۔ مجھے اس دل سے پہلے بھی محبت تھی اور اب بھی ہے کیونکہ شخصیت چاہے بدل جائے دل نہیں بدلا کرتے۔”
وہ صاف گوئی سے بولی۔جذبات کی شدت سے اس کی رنگت میں سرخی گھل گئی تھی۔
اس کی بات پر وہ طمانیت سے مسکرا دیا۔اس کا اعتراف دل کو چھو لینے والا تھا۔وہ آج بھی اسے سحر زدہ کرنے کی طاقت رکھتی تھی۔
“خیر بہت شکریہ محبت سے لبا لب بھرے اپنے دل میں آپ نے مجھ ناچیز کو جگہ دی۔رسم دنیا بھی ہے موقع بھی دستور بھی ہے کہ مصداق مجھے تمہارے لئے کوئی گفٹ لے کر آنا چاہیے تھا۔بہت غور و فکر کرنے کے باوجود مجھے کچھ نہیں سوجھا سو میں نے تمہیں تمہاری ہی چیز لوٹانے کا فیصلہ کیا۔یہ رہا تمہارا گفٹ”۔
اس نے سرخ اور ہلکے نیلے گلاب کے پھولوں سے مزین سفید سوتی تہہ شدہ رومال اپنی جیب سے بر آمد کر اسکی سمت بڑھایا۔اس رومال کو ہاتھ میں لیتے ہی
سالوں قبل پارتھ سکسیناکے ساتھ اس کی واحد براہ راست ملاقات کا منظر پوری جزئیات کے ساتھ حریم کی آنکھوں میں جاگ اٹھا۔
وہ راہداری میں کھڑا اپنے ماتھے سے نکلتے خون کو سفید شرٹ کی آستین سے صاف کر رہا تھا۔ دفعتاً قدموں کی چاپ پر وہ دائیں طرف متوجہ ہوا۔گہرے نیلے اور سفید رنگ کی یونیفارم میں ملبوس دو چوٹیاں کندھوں پر ڈالے حریم تیز تیز قدم اٹھاتی اس کے نزدیک چلی آئی۔اس کے ایک ہاتھ میں سیاہ فریم والا ٹوٹا ہوا چشمہ تھا۔جماعت میں اسکی طرف پھینکی گئی چیزوں میں سے ایک قدرے موٹی کتاب کا کونہ اس کے ماتھے سے ٹکرایا تھا نتیجتاً اسکی عینک زمین بوس ہوئی اور کتاب کا سخت کونہ اس کے ماتھے کی جلد ادھیڑ گیا۔
“یہ لو تمہارا چشمہ اور اس رومال سے تمہارا خون صاف کرلو۔اگر تم آستین سے خون کو پوچھو گے تو تمہاری یونیفارم خراب ہو جائے گی”۔
اس کے مقابل اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلائے وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی۔اس کے دائیں ہتھیلی پر ٹوٹی ہوئی عینک جبکہ دوسری ہتھیلی پر سرخ اور ہلکے نیلے رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھولوں سے مزین سفید رومال رکھا تھا۔پارتھ نے سرعت سے اپنی ٹوٹی عینک اٹھا لی۔ تاہم وہ رومال کی طرف دیکھنے سے تک گریزاں تھا۔اس کے اس ردعمل پر حریم نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھاوہ اپنی ٹوٹی عینک پینٹ کی جیب میں ڈال رہا تھا۔ ایک قدم اٹھا کر وہ اس کے نزدیک چلی آئی۔ رومال ہاتھ میں اٹھائے اپنا ہاتھ اسکی پیشانی کی طرف لے گئی۔اس سے قبل کے وہ اس کے ماتھے سے بہتے خون کو صاف کرتی چھیننے کے انداز میں پارتھ نے رومال اس کے ہاتھ سے جھپٹا اور تقریباً بھاگتا ہوا اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ایک آنسو پلکوں کا بند توڑ کر اس کے کومل رخسار پر پھیل گیا۔وہ شکستہ دل کے ساتھ اپنی جماعت کی طرف بڑھ گئی۔
“یہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ رومال آپ نے اب تک سنبھال کر رکھا ہے”۔
وہ بھرائے لہجے میں گویا ہوئی۔
الفاظ گویا حلق میں آنسوؤں کے ساتھ پھنس رہے تھے ۔
“ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ رومال میرے پاس تمھاری امانت جو تھی۔سنبھال کر کیسے نہیں رکھتا۔تم نہیں جانتی میں نے کیا کچھ سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔تمہاری یادیں ، تمھاری باتیں ، تمھاری آنکھیں اور تم”۔
حریم کا دل جیسے سکڑ کر پھیلا تھا ۔یہ شخص اس سے اس درجہ کی محبت کیوں کرتا تھا۔
“سوری اس روز تمھارے ساتھ روڈلی بی ہیو کرنےکے لیے اتنے سالوں بعد آخری ملاقات پر تمھارے ساتھ بدسلوکی کرنے پر معذرت طلب کرنا عجیب سا لگ رہا ہے لیکن اور میں کر بھی کیا سکتا ہوں کبھی تو اس بوجھ سے آزاد ہونا تھا سالوں سے یہ سوری پیںڈنگ جو چلی آرہی ہے،اس روز ہاتھوں میں رومال اور آنکھوں میں آنسو لیے میری مدمقابل کھڑی لڑکی پوری دنیا میں وہ واحد شخصیت تھی جس کا سامنا کرنے سے میں گریزاں تھا۔جس کی ہمدردی مجھے سکون کے بجائے تکلیف دیتی تھی ،اسوقت فوراً سے پیشتر تمھاری نظروں سے اوجھل ہوجانا ہی میرے حق میں بہتر تھا۔ کیونکہ اپنے دل کا حال اس لڑکی کو نہیں سنا سکتا تھا میں ۔البتہ اس روز کے بعد مجھے تمھاری وہ ہمدردی اتنی تکلیف نہیں دیتی تھی کیونکہ اسی بہا نے حریم آفندی سے منسلک کوئی شئے میرے پاس آگئی تھی۔اور یہ رومال میرے لیے کسی قیمتی اثاثہ سے کم نہ تھا۔یہ رومال میں تمھیں لوٹا رہا ہوں اس کا یہ مطلب مت اخذ کرلینا کہ اب جب اس رومال کی مالکن خود میرے پاس آرہی ہےتو اس کی مجھے ضرورت نہیں رہی یا اب یہ مجھے عزیز نہیں رہا۔یہ کپڑے کا ٹکڑا اب بھی میرے لیے اتنا ہی اہم جتنا پہلے ہوا کرتا تھا اور میں اسے تمھیں واپس اسی لیے لوٹا رہا ہوں کیونکہ میں تمھیں کوئی ایسا گفٹ دینا چاہتا تھا جو ازحد قیمتی ہو،انمول ہوجسے میں اپنی ساری دولت لٹا کر بھی نہ خرید سکوں۔”
سالوں قبل خود سے سرزد ہوئی اپنی بچکانہ لغزش پر معذرت طلب کرتے ہوئے اس نے رخ موڑ کر حریم کی طرف دیکھا۔
” ارے یہ کیا تم تو رو رہی ہو مجھے لگا تھا تمھیں یہ گفٹ پسند آئےگا۔پہلے میں رویا کرتا تھا اب تم رو رہی ہو میرا خیال تھا جب ہم دونوں ساتھ ہونگے تو خوب ہنسیگے۔”
حریم کے رخسار پر بہتا آنسو اسے اپنے دل پر گرتا محسوس ہوا تھا۔
“مجھے بہت پسند آیا یہ گفٹ ۔ دنیا کا کوئی تحفہ اتنا قیمتی نہیں ہوسکتا میرے لیے۔آٹھ سال قبل یہ رومال آپ کو دیتے ہوئے مجھے ذرا بھی احساس نہیں تھا کہ یہ عام سا رومال اتنے سالوں بعد اسقدر خاص بنکر میرے پاس واپس آجائے گا۔میں رو نہیں رہی بس ایکدم سے تقدیر پر اتنا پیار آیا کہ آنکھیں بھیگ گئی خدا کے تشکر کے احساس سے۔ میں وعدہ کرتی ہوں آپ سے جب ہم دونوں ساتھ ہونگے تو خوب ہںنسیگے اتنا کہ ہمارے درمیان آنسوؤں کی گنجائش ہی باقی نہیں رہےگی۔ ”
اس رومال کو عقیدت کے ساتھ دونوں ہاتھوں میں اٹھائے اس نے سینے سے لگایا۔
اسکے ردعمل کو دیکھ حمزہ کے دل میں یک گونہ سکون اتر گیا۔رات ڈھائی بجے کی قریب وہ اپنے کمرے میں واپس آئی تھی۔نیند اب بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔بیک وقت دو عزیز ترین افراد کی جدائی کا احساس سونے نہیں دے رہا تھا۔
میں تجھے قافیے کی طرح مکمل کردوں
تو میرا ساتھ نبھا یار ردیفوں جیسا
******
صبح کے نو بج رہے تھے۔صبح کی سنہری دھوپ دونوں حویلیوں کی چھتوں پر پڑرہی تھی۔خلاف معمول وہ دونوں علی الصبح چھت پر موجود تھیں۔ اور آفندی حویلی کے چھت پر ایستادہ جھولے پر براجمان تھیں۔اس پہر دونوں کی چھت پر موجودگی کی وجہ تھی دونوں کی اداسی۔ حیدر اور حمزہ فجر کے وقت ہی پردیس کےلیے روانہ ہو چکے تھے۔ ہمیشہ کی طرح ایکدوسرے کا غم غلط کرنے کے لیے دونوں سہیلیاں چھت پر آ گئی تھیں۔منظر پہلے جیسا ہی تھا، دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کی دل جوئی کی غرض سے چھت پر موجود تھیں البتہ اس دفعہ دونوں ہی کو پکڑے جانے کا خوف لاحق نہیں تھا۔کیونکہ اب دونوں کے درمیان رشتے کی نوعیت بدل گئی تھی ، حالات بدل گئے تھے ، تقدیریں بدل گئی تھیں۔
علی الصبح اپنی شفق پھوپھو کو چھپ پر جاتا دیکھ اُس کے سارے بھتیجے بھتیجیاں بھی اس کی تقلید میں چھت پر آ گئے تھے اور اب دونوں چھتوں کے وسیع و عریض احاطے کو پلے گراونڈ تصور کرتے ہوئے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔
“واہ ! حریم تمہاری کہانی سن کر تو مجھے تمہاری تقدیر پر رشک آنے لگا۔حمزہ بھائی کا اتنے سالوں بعد معجزاتی طور پر تمہاری زندگی میں واپس لوٹ آنا۔بچپن کی محبت کا ایک ناقابل یقین اور خوشگوار انجام کو پہنچ جانا۔یقین جانو تمہاری کہانی تو کسی فیری ٹیل سے کم نہیں معلوم ہوتی۔کتنی گھنی ہو تم ، آج تک تم نے مجھے بھی بھنک نہیں لگنے دی کہ تمھارے دل میں حمزہ بھائی براجمان تھے اتنے سالوں سے۔ اور تم مجھے اپنی دوست کہتی ہو۔کیا دوست سے اتنی بڑی حقیقت مخفی رکھنا جائز ہے”۔
اس کا دھیان بٹانے کی غرض سے شفق نے موضوع گفتگو بدل کر مصنوعی خفگی سے کہا۔
“یہ کیسی بات کررہی ہوں تم شفق ؟کوئی فیری ٹیل یا بچپن کی محبت و حبت نہیں تھی۔بس ایک یاد تھی۔ اتنے سالوں تک پارتھ سکسینا مجھے یاد رہا اور کچھ نہیں۔جب محبت کا معاملہ تھا ہی نہیں نہ ہی اس کے یوں اچانک لوٹ آنے کا امکان تھا تو میں کیوں یہ قصہ پارینہ لے کر بیٹھتی تمہارے سامنے”۔
اس نے اپنا دفاع کیا۔
“اچھا جی۔۔۔۔۔۔ تو ثابت ہوا کہ تمہاری اور حمزہ بھائی کی نہایت ہی غیر متوقع منگنی محض ایک یاد کی بنیاد پر اور میرے اور تمہارے بھائی کا نکاح ایک عادت کی بنیاد پر پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔ خدا کا شکر ہے ان چاروں فریقین میں سے کسی کو بھی محبت کا مرض لاحق نہیں ہے”۔
شفق نے طنز کا تیر پھینکا۔
“اللّٰہ اللّٰہ ، شفق یہ کیا ہوتا جارہا ہے تمہیں۔تم بھائی کے ساتھ مل گئی ہو کیا جو اپنی عزیز ترین دوست کو یوں زچ کئے دے رہی ہو۔ایک تو بھائی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔بے مثال عشق ، لازوال محبت ،بچپن کا پیار باآواز بلند ان الفاظوں کو دہرا کر وہ مجھے خجل کرکے چھوڑتے ہیں۔اور اب تم بھی۔۔۔۔۔
ابھی ان کی گفتگو جاری تھی کہ آسمان میں بادلوں کو چیرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوائی جہاز کی آواز فضا میں گونجی تھی۔
بے ساختہ دونوں کی گردنیں آسمان کی طرف اٹھیں۔چند لمحے وہ دونوں ہوائی جہاز کو بادلوں کے ہجوم میں گم ہوتا دیکھتی رہیں۔چھت پر بھاگتے بچے رک کر آسمان کی طرف سر اٹھائے ہوائی جہاز پر نظریں جمائے الوداعی انداز میں ہاتھ ہلانے لگے۔چند ساعتیں گزر جانے کے بعد دونوں سہیلیوں نے آسمان سے اپنی نظریں ہٹالیں۔ تبھی دونوں کی نگاہیں ملیں اور اپنی بےاختیاری اور بچکانہ حرکت پر وہ دونوں مسکرادیں۔آج صبح سے یہ تیسرا ہوائی جہاز تھا جسے وہ دونوں حسرت و چاہت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں اور جانے اپنی منزل کی طرف رواں دواں کتنے ہوائی جہاز کے مسافروں کو آنکھوں سے الوداع کہنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
حریم کو ایک دفعہ پھر اداس ہوتا دیکھکر شفق نے سرعت سے اپنے نزدیک جھولے پر دھرا ہلکے گلابی رنگ کا لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔
“یہ تو وہی خط ہے نا جو میں نے تمھاری سولہویں سالگرہ کے روز تمہیں گفٹ کیا تھا “۔
ہلکے گلابی رنگ کے لفافےسے زرد رنگ کا تہہ شدہ خط بر آمد ہوا تھا۔تین سال قبل جب حریم نے یہ خط شفق کو دیا تھا تب یہ کا غذ بے داغ سفید تھا لیکن اب اس کی سفیدی میں قدرے زردی گھل گئی تھی۔حریم نے خط کو کھولا ۔ اندر کے خط کے مخالف سمت کے کونوں پر سرخ گلاب کے پھول چھپے تھےتاہم کنارے سنہرے تھے۔زرد کاغذ پر سیاہ روشنائی سے تحریر الفاظ کو دیکھ حریم خوشگوار احساس سے گھر گئی۔
“ہاں یہ خط تم نے مجھے اپنے ہاتھوں سے لکھ کر دیا تھی۔تمھاری دعائیں قبولیت کا درجہ پاگئی۔مجھے زندگی کی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ اور اب میں تمہیں یہ دعا دینا چاہتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ تمہارے ماضی کی مانند مستقبل بھی روشن خوبصورت اور خوشیوں سے بھرا ہو”۔
وہ صدق دل سے اعتراف کر رہی تھی ۔اپنی اس عزیز ترین دوست کو دعادےرہی تھی جو خان شفق کی زندگی کی تمام نعمتوں اور خوشیوں کی موجب تھی ۔
شفق کی بات پر اس کی حسین ترین چہرے پر رقصاں مسکراہٹ کو دیکھ پتہ نہیں کیوں حریم کو پندرہ سالہ شفق یاد آئی تھی جو چارسال قبل حزن وملال کی زندہ تصویر بنی اسے خان حویلی کی چھت پر نظر آئی تھی۔ اس لمحےغیر ارادتاًہی اسکےذہن نے چارسال قبل والی خان زادی شفق اور آج اسکے ساتھ بیٹھی شفق حیدر آفندی کے چہروں کا موازنہ کیا تھا۔ میٹھی ہرفکر سے آزاد مسکراہٹ کے ساتھ چھت پر کھیلتے بچوں کی طرف متوجہ اپنی دوست کے چہرے کو دیکھ یک بیک اس کا دل سکون و طمانیت کےاحساس بھر گیا اور ایک بے ساختہ مسکراہٹ حریم کے چہرے کا احاطہ کر گئی۔
اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کاغذ پر تحریر دعائیہ اشعار پر نظر ڈالی۔
جو خوشی تمھارے قریب ہو ،
وہ صدا تمھارے نصیب ہو
تجھے وہ خلوص ملے کہ جو،
تیری زندگی پہ محیط ہو
جو معیار تجھ کو پسند ہو ، جو
تمھارے دل کی امنگ ہو
تیری زندگی جو طلب کرے،
تیرے ہمسفر کا وہ رنگ ہو
جو خیال دل میں اسیر ہو ، ہر
دعا میں ایسی تاثیر ہو
تیرے ہاتھ اٹھتے ہی یک بیک،
تیرے آگے اسکی تعبیر ہو
تجھے وہ جہاں ملے جدھر ،
کسی غم کا کوئی گذر نہ ہو
جہاں روشنی ہو خلوص کی ،
اور نفرتوں کی خبر نہ ہو۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے کندھوں میں ہاتھ ڈالے دائیں بائیں جھولتی ہوئی باآواز بلند لہک لہک کر دعائیہ اشعار پڑھتی دکھائی دیتی تھیں۔اطراف میں دوڑتے بچے ان دونوں کے گرد دائرہ سا بنائے تالیاں بجا رہے تھے۔آخری فقرا بچے بھی بآواز بلند کورس میں دہرانے لگے۔
جہاں روشنی ہو خلوص۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نفرتوں کی خبر نہ
ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***** ختم شد*****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...