کیچن کاونٹر پر چولہے کے ایک جانب ترتیل بیٹھی ہائیسم کو نوڈلز بناتے ہوئے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔صبح کے واقع کے بعد ترتیل ہائیسم سے ڈر گئی تھی ۔اس لیے آج سارا دن چپ چپ سی تھی ۔
” کیا دیکھ رہی ہو سویٹی ۔۔”
اسکی نظریں محسوس کرکے مسکرا کر نرمی سے پوچھا ۔۔ تیار نوڈلز کو باول میں ڈال کر پین کو سنک میں رکھ کر دھونے لگا ۔
” آج صبح کو آپ نے بھائی کو کیوں مارا ؟؟ اور روفہ بھائی کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی ؟؟۔میں نے چھوٹی ماما سے پوچھا بھی مگر وہ بس روئے ہی جارہی تھیں کچھ بتایا ہی نہیں ۔”
جھجھک کر نظریں جھکا کر پوچھا ۔۔پین دھوتے ہائیسم کے ہاتھ ایک پل کو رکے تھے ۔۔
” روفہ کا سفر اس گھر میں شاید اتنا ہی تھا ۔وہ جانے کے لیے ہی آئی تھی ۔تمہارا بدنصیب بھائی میری بختوں والی بہن کی قدر نا کر سکا ۔”
اس کے الفاظ کے اندر چھپا دکھ ترتیل کو اپنے اندر محسوس ہوا ۔
” مگر وہ کیوں چھوڑ کر چلی گئی ۔اگر لڑائی ہوئی تو بات چیت کرکے صلح کر لیتے ۔روفہ کے بغیر یہ گھر بہت خالی سا ہو گیا ہے ۔بھائی بھی دوبارہ پتا نہیں کہاں چلے گئے ۔”
” یہ ہی تو مسئلہ ہے ان کی لڑائی نہیں ہوئی بس فیصلہ ہو گیا ۔”
ضبط سے بولتے ترتیل کو اپنے بازوں میں اٹھا کر کاونٹر کے پاس پڑی چئیر پر بٹھایا ۔۔
” منہ کھولو ٹھنڈے ہوگئے تو سٹیکی ہو جائیں گے ۔۔”
کانٹے پر نوڈلز رول کرکے پھوک مار کر اس کے ہونٹوں کے پاس کیے ۔۔
” بھائی آپ کی طرح روفہ کا خیال بھی نہیں رکھتے تھے ۔میں نے اکثر رات کو اسے پول سائیڈ پر اداس بیٹھے دیکھا تھا ۔آپ روفہ کو واپس لے آئیں نا بھائی منا لیں گے اسے ۔”
ہائیسم نے اس کے کہے کو نظرانداز کرکے نوڈلز پھر سے اس کے منہ میں ڈال دئیے ۔
” آپ مجھے بتا کیوں نہیں رہے روفہ کدھر ہے جب آپ کو اچھی طرح پتا ہے میں بھائی کے بغیر نہیں رہ سکتی اور فادی بھائی روفہ کے بغیر نہیں رہنا چاہتے ۔”
” وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گی ۔۔”
اذیت سے دھیما سا بول کر ترتیل کے ہونٹوں کو ٹیشو سے صاف کیا ۔
” مگر کیوں ۔مجھے نہیں پتا آپ بتائیں مجھے ۔آپ کو نظر نہیں آتا چاچو اور چھوٹی ماما کتنا پریشان ہیں ۔”
ہائیسم کے بازو کی آستین کھینچ کر بضد ہوئی ۔۔
” ترتیل اگر تم میرا دل ہو تو وہ میرا خون ہے ۔تم دونوں مجھے ایک جتنی عزیز ہو ۔میں نے تمہیں اپنی بہن کی وجہ سے نہیں چھوڑا اسی طرح تمہارے اور فودیل کی وجہ سے میں اب پنی بہن کو اذیت بھی نہیں دوں گا ۔وہ جہاں ہے بالکل ٹھیک ہے ۔مگر دوبارہ مجھ سے اس کے بارے میں مت پوچھنا ۔میں تم پر غصہ نہیں کرنا چاہتا ”
اس کے بے جان ہاتھ کو چوم کر تحمل سے سمجھانے لگا ۔ترتیل ہائیسم کے مضبوط ہاتھ میں قید اپنے سفید ہاتھ کو دیکھنے لگی ۔
” تم دونوں ہی انیس سال بعد میری زندگی میں آئی ہو ۔میں بیوی کی مان کر بہن سے زیادتی کرکے خود کو جوروں کا غلام نہیں کہلوانا چاہتا نا ہی بہن کو چن کر تمہارے حق میں ناانصافی کرنا چاہتا ہوں ۔فودیل نے اچھا تو نہیں کیا مگر میں اپنی بہن کا نصیب سمجھ کر خاموش ہوں ۔ویسے بھی میری بہن ایسی ہے کہ کوئی بھی اس کا ساتھ خوشی خوشی قبول کرے گا ۔”
آہستہ سے ترتیل کو اپنے کندھے سے لگا کر اس کی کمر کے گرد حصار کھینچا۔ خود میں بھینج کر اس کے چھوٹے سے ماتھے کو لبوں سے چھوا ۔۔
” یہ جو بکواس تم نے ابھی کی ہے اس کا کیا مطلب تھا ؟؟”
دروازے پر کھڑا فودیل لمبے لمبے ڈاگ بھرتا ان دونوں کے سر پر چینخا ۔ترتیل بری طرح ڈر کر ہائیسم کی گرفت سے نکلی مگر اپنا ہاتھ نہیں چھڑا پائی ۔۔
” وہی ہے جو تم سمجھے ہو ۔ننھے کاکے تو نہیں ہو جو اب تمہیں مطلب بھی سمجھانے پڑیں آخر کو پاکستان کے نامور اینکر پرسن ہو ۔”
ہنوز کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے زہرخند مسکراہٹ سے بولا ۔۔
” میں تمہارا منہ توڑ دوں گا ہائیسم ۔تمہیں کوئی حق نہیں ہے میرے اور روفہ کے بیچ آنے کا ۔وہ ابھی بھی میری بیوی ہے اور ہمیشہ وہی رہے گی ۔”
ہائیسم کی بات پر اس کو پتنگے لگے تھے ۔ترتیل منہ پر ہاتھ رکھے دھڑکتے دل سے اپنے بھائی کے غصے کو دیکھنے لگی ۔
” پر زیادہ دن تک رہے گی نہیں ۔کل کاغذات تمہارے ہاتھ میں ہوں گے ۔اب اپنی دو کوڑی کی شکل لے کر نکلو یہاں سے ۔”
فودیل نے آپے سے باہر ہو کر ایک مکا ہائیسم کے گال پر جڑ دیا ۔۔ترتیل کی چینخ پورے کیچن میں گونجی ۔ہائیسم اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا تبھی کرسی سے فرش پر گر پڑا ۔
” ہے وہ میری بیوی ۔اور ہمیشہ وہی رہے گی ۔کبھی ستخط نہیں کروں گا ۔تم ہوتے کون ہو میری زندگی کا فیصلہ کرنے والے ۔اگر میری روفہ کو مجھ سے دور کرنے کا سوچا بھی تو ترتیل کی شکل دیکھنے کو بھی ترسو گے تم ۔”
ایک کے بعد ایک مکا مارتے ہوئے فودیل مسلسل دھاڑتے ہوئے بولا ۔ترتیل زور زور سے فودیل کو اپنے ایک بازو سے پیچھے کرنے کی کوشش میں روتے ہوئے ہانپنے لگی تھی۔
” سالے کمینے تجھ سے یہ ہی امید ہے مجھے اب تو میری بھی ضد ہے روفہ کی تجھ سے طلاق بھی کرواں گا اور ترتیل کے سائے سے بھی محروم کردو گا ۔”
اپنے سوجھے خون بہتے چہرے کی پرواہ کیے بنا فودیل کو زمین پر گرا کر اس کو پیٹنے لگا ۔۔بھائی اور شوہر کو لڑتے دیکھ ترتیل وہاں سے بھاگ کر عالم کے کمرے کی جانب دوڑی ۔۔
” کیا جاہلانہ پن ہے یہ ۔ہائیسم چھوڑو اسے ۔میں کیا کہہ رہا ہوں چھوڑو ۔۔”
تھوڑی دیر بعد عالم کی گرج دار آواز سے دونوں چونک کر ایک دوسرے پر سے ہٹے ۔فودیل کو مخاطب کرنا بھی عالم نے گوارا نہیں کیا تھا ۔
ترتیل عالم کا بازو پکڑے روتے ہوئے ان کے پھٹے گریبان اور چوٹوں سے بھرے چہرے دیکھنے لگی ۔
” آپ مجھے روک رہے ہیں جانتے بھی ہیں یہ ذلیل انسان کیا بکواس کر رہا تھا ۔اگر اس نے میری بہن اور بیوی کو مجھ سے دور کرنے کا سوچا بھی تو اس کو مارنے میں دیر نہیں لگاوں گا میں ۔”
” ہاں میں تو جیسے تیرے مارنے کے اتنظار میں ہوں ۔تو بھی میری بہن اور بیوی کو مجھ سے دور کرنے کا سوچ پھر میں تجھے اپنا اصل روپ دکھاوں گا ۔”
ہائیسم کی دھمکی پر فودیل کی سلگتی آواز گونجی ۔
” اور کتنا گھٹیا پن کرنے کا ارادہ ہے ۔روفہ وہی ہے جس کو اپنے نکاح میں لینا تمہیں اپنی شان کے خلاف لگتا تھا ۔وہ اب بھی وہی میڈل کلاس غریب محلے سے آئی ہوئی روفہ ہے ۔نا بدلی ہے ناکبھی بدلے گی تو جا کر ردا جیسی الٹرا موڈرن لڑکی سے شادی کر جو بالکل تیرے جیسے نیچ معیار پر پورا اترتی ہے ۔”
اس قدر ہتک آمیز رویے اور ردا کا نام اپنے نام سے جڑنے پر فودیل اس کا منہ توڑنے کو آگے بڑھا جب بیچ میں عالم آگئے۔
” اگر ہاتھ جوڑ لوں تو کیا یہ تماشا ختم کر دو گے تم ۔اب جاو یہاں سے ۔میں پہلے ہی بیٹی کی جدائی میں نڈھال ہوں مزید کوئی بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں ہے ۔”
ان کے کمزور لہجے پر دونوں ہی اپنی اپنی جگہ رک کر ایک دوسرے کو سالم نگلنے والی آنکھوں سے گھورنے لگے ۔۔
” ترتیل میرے ساتھ جائے گی ۔ جاکر اپنا سامان پیک کرو دو منٹ ہیں تمہارے پاس۔”
تینوں نے چونک کر فودیل کے حکم بھرے انداز کو دیکھا ۔
” وہ کہیں نہیں جائے گی ۔میں تو تمہیں اس کی شکل بھی نا دیکھنے دوں۔تم اس کو اپنے ساتھ لے جانے کی خوش فہمی میں ہو ۔”
تمسخر سے کہتے ہائیسم نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا۔
” اس کا فیصلہ ترتیل کرے گی ۔تم زیادہ اس کے باپ مت بنو۔بتاو ترتیل میرے ساتھ جاو گی یا نہیں ۔؟ اگر آج تم میرے ساتھ نہیں گئی تو میں کبھی اپنا چہرہ تک تمہیں نہیں دکھاوں گا ۔۔”
اس سے پہلے ہائیسم کچھ کہتا فودیل کی بات پر چپ کرکے ترتیل کو دیکھنے لگا شاید وہ بھی منتظر تھا آج وہ کس کو چنتی ہے ۔
ترتیل کی سانس سینے میں اٹک کر رہ گئی ۔بے جان ہاتھوں پیروں سے کبھی شوہر کو دیکھتی تو کبھی بھائی کو ۔دونوں ہی امید لیے اسے دیکھ رہے تھے وہ فیصلہ نا کرپائی ۔
” اگر آج تم اپنے بھائی کے ساتھ گئی تو واپس کبھی نہیں آسکو گی ۔جو بھی بولنا سوچ سمجھ کر بولنا ۔”
ہائیسم کے الفاظ پر اس کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی ۔وہ مفت میں ہی پیس گئی تھی ۔
ایک طرف سگا بھائی تھا تو دوسری طرف وہ شوہر جس سے محبت کے ساتھ ڈیڑھ ماہ میں جان لیوا عادت بھی ہوگئی تھی ۔
” چلو یہاں سے ۔جب تک یہ لوگ روفہ کا پتا مجھے نہیں دیں گے تب تک تم میرے پاس رہو گی ۔میں جانتا ہوں تم بھائی کو ہی فوقیت دو گی ۔”
ابھی وہ اس ہی کشمکش میں تھی جب فودیل نے اس کا ہاتھ پکڑ کر مان اور امید سے کہا ۔ہائیسم بے تاثر نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھے گیا ۔
ترتیل کی نظریں بھی اسی پر تھیں ۔جب فودیل اس کے بے جان بازو کو تھام کر کیچن سے نکلا ۔
ہائیسم کے دل میں ایک دم چبھن ہوئی ۔تکلیف سے لب بھینج کر وہ بھی ان کے پیچھے گیا تھا ۔
” بہت اچھا فیصلہ کیا تم نے ترتیل ۔اب واپس مت آنا کبھی۔ خود تو یہ اپنا گھر بسا نہیں سکا ساتھ میں ہمارا گھروندا بھی اجاڑ دیا ۔مگر مجھے تم سے یہ ہی امید تھی آخر کو بہن تو تم فودیل زکی کی ہونا ۔میں ہی پاگل تھا جو اپنے کھرے جذبات تم پر لٹاتا رہا ۔بدلے میں محبت تو کیا تم نے اپنا اعتبار تک نہیں بخشا مجھے ۔جب چاہوں گی روفہ کے ساتھ تمہارا بھی فیصلہ کر دوں گا ۔”
مٹھیوں کو زور سے بند کرکے ٹوٹے لہجے میں بولا ۔ترتیل نے ایک جھٹکے سے فودیل سے بازو چھڑا کر مڑ کر دیکھا مگر تب تک ہائیسم لاونج پا کرکے گلاس ڈور کھول چکا تھا ۔فودیل نے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام کر دہلیز سے قدم آگے بڑھا دیئے ۔
عالم نم آنکھوں سے ان چاروں کو اجڑتا ہوا دیکھ رہے تھے ۔شاید وہ غلط فیصلہ کر بیٹھے تھے ۔روفہ کے انجام کی تو پھر بھی یہ توقع تھی مگر ہائیسم کے ساتھ ہونے والی کاروائی ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی ۔
فضا پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہو گئی تھیں اب ہائیسم کا پتا چلتا تو پتا نہیں خود کے ساتھ کیا کر بیٹھتیں ۔
گاڑی کے ایک جھٹکے سے رکنے پر ترتیل نے چونک کر اردگرد نگاہ کی ۔سامنے ہی ماڈل ٹاون میں بنے ملک ہاوس کا بڑا گیٹ چوکی دار کھول رہا تھا ۔گاڑی کا ہارن سن کر سراج بھی باہر لان میں آگئے تھے۔ ترتیل کو فودیل کے ساتھ دیکھ کر نانا حیران ہونے کے ساتھ کسی انہونی کے تحت پریشان بھی ہوئے ۔اپنے نواسے سے کسی اچھے کی امید کم ازکم فل حال تو انہیں بالکل نہیں تھی ۔
نانا کو دیکھ کر ترتیل کو جیسے تیز دھوپ میں گھنا سایہ مل گیا تھا ۔فودیل سے بائیں ہاتھ کی مدد سے اپنا بے جان دائیاں بازو چھڑا کر بھاگ کر نانا کے سینے سے جالگی ۔۔
” تالی ۔میرے بچے کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہو اس طرح ”
اس کے بری طرح ہچکیوں سے رونے پر نانا تو بوکھلا ہی گئے ۔اب تو شک یقین میں بدل گیا ۔ضرور کچھ بہت غلط ہوا تھا ۔
” پانی پیو اور بیٹھو ادھر ۔بیٹا رونا تو بند کرو ۔آپ تو میری سب سے پیاری معصوم بیٹی ہو نا تو کیوں اس طرح نانا کو پریشان کر رہی ہو ۔فادی کے ساتھ کیوں آئی ہو ؟بتاوں مجھے ”
اندر لاونج میں صوفے کے پاس اس کو بیٹھا کر اپنے بازو کے حلقے میں لے کر نرمی سے پوچھنے لگے ۔تب تک فودیل بھی آگیا تھا ۔
” بھائی نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ ۔کسی نے اچھا نہیں کیا ۔ہائیسم نے بھی ۔مجھے کچھ کہنا کا موقع تک نہیں دیا ناناجی ۔۔ان دونوں کو اپنی اپنی لڑائی اور ضد میں میرا احساس تک نہیں ہوا ۔میں اس سے پہلے کچھ کہتی فادی بھائی مجھے وہاں سے لے آئے مجھے تو اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ہائیسم نے بھی سمجھا میں اپنی مرضی سے آئی ہوں ۔”
ہچکیوں کے بیچ کہتی وہ ایک بار پھر ان کے سینے سے لگ کر رو دی جبکہ نانا کے پلے ایک بات بھی نا پڑی۔
” کیا کہہ رہی ہے یہ فادی ۔کیا کر کے آئے ہو اور خدا کا واسطہ ہے کوئی نیا چاند نا چڑھا دینا ۔پہلے ہی بہت ہو گئی ہے تمہاری طرف سے”
” اب جو ہوا ہے صحیح ہوا ہے وہ ہوتا کون ہے میری اور میری بیوی کی زندگی کا فیصلہ کرنے والا اب اس کی بیوی بھی تب ہی جائے گی جب میری بیوی میرے پاس آئے گی ۔ایسے تو پھر ایسے ہی سہی۔”
وہ جو خود پر قابو پاکر اپنی پیشانی مسل رہا تھا نانا کے کہنے پر زخمی نگاہوں سے ان کو دیکھ کر بولا
” آپ کتنے خود غرض ہو رہے ہیں بھائی اپنی غلطیوں کی سزا میرے خاطے میں کیوں ڈال رہے ہیں ۔خود تو اپنا گھر بسا نہیں سکے مجھے بھی اجاڑنے پر تل گئے ہیں ۔”
ترتیل کے بدلحاظی سے چلا کر بولنے پر فودیل صدمے میں اس کو دیکھنے لگا ۔۔
” آج تک کیا کچھ نہیں کیا میں نے تمہارے لیے اور آج جب مجھے ضرورت پڑی تو یوں الزام دے رہی ہو ۔کیا تم خود غرض نہیں ہو رہی ۔”
شکوا کرتے وہ اب بھی ترتیل کے انداز پر بے یقین تھا۔
” آج تک جو آپ نے کیا آپ کا فرض تھا کوئی احسان نہیں کیا مجھ پر ۔ہر بھائی اپنی بہن کے لیے کرتا ہے ۔مگر جو ہائیسم نے میرے لیے اس ڈیڑھ ماہ میں کیا وہ آپ انیس سال میں بھی نہیں سکے ۔مجھے جینا سکھایا اس انسان نے ۔مجھ سے بے لوث بغیر کسی صلے کے محبت کی ۔میں تو جلیس کے ٹھکرانے پر ٹوٹ گئی تھی ۔اس انسان نے ہی سنبھالا مجھے جو آج آپ کو اپنا سب سے بڑا دشمن لگ رہا ہے ۔”
فودیل ساکت سا ترتیل کو سن رہا تھا ۔نانا نے بھی اس کو بولنے سے نہیں روکا ۔آج اس کا بولنا ہی بہتر تھا ۔
” وہ آپ کی طرح خودغرض نہیں ہیں ۔اگر وہ چاہتے تو اپنی بہن کے لیے مجھے چھوڑ دیتے مگر وہ دونوں بھائی بہن اس قدر کھرے اور بہترین ہیں کہ ہم دونوں ان کو ڈیزوو نہیں کرتے تھے ۔
آپ اب بھی صرف اپنا سوچ رہے ہیں اگر وہ نہیں رہنا چاہتی آپ کے ساتھ تو چھوڑ دیں اسے ۔کیوں اس کی زندگی خراب کر رہے ہیں ۔ہر بار آپ کی مرضی نہیں چلے گی جب چاہا چھوڑ دیا اور دل کیا تو اپنا لیا ۔
میں ہائیسم سے بہت محبت کرنے لگی ہوں بھائی ۔اس بات کا احساس شاید مجھ اتنی جلدی نا ہوتا اگر آپ یوں مجھے ان سے دور کرکے نہیں لاتے ۔ جلیس سے محبت صرف چھوٹی عمر کا خمار تھا ایک غلطی تھی جس کو میں بھول چکی ہوں۔میں نہیں رہ سکتی ہائیسم کے بغیر ۔میں آپ کی طرح ناشکری کرکے پچھتانا نہیں چاہتی ۔
نانا مجھے ابھی جانا ہے اپنے گھر اپنے شوہر کے پاس یہاں نہیں رہنا ۔ایک منٹ بھی نہیں ۔اگر وہ مجھ سے بدگمان ہوکر ناراض ہوگئے تو سہہ نہیں پاوں گی ”
سر جھکائے بیٹھے فودیل کے کانوں میں ترتیل کے الفاظ صور کی طرح پڑے تھے ۔اچانک ہی اسے اپنی آنکھوں میں نمی سے محسوس ہوئی ۔دل میں تکلیف اس قدر بڑھ گئی تھی کہ آنکھوں کی باڑ بےساختہ ہی نم ہوگئی مگر فودیل زکی نے ان کو عارضوں پر بہنے کی اجازت نہیں دی ۔تبھی اٹھ کر بغیر ان دونوں کو دیکھے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔
” نانا ڈرائیور سے کہیں مجھے چھوڑ آئے پلیز ۔اور بھائی کو میری طرف سے سوری بھی بول دیں گے نا میں نے ان کا دل دکھا دیا ۔”
فودیل کے یوں چلے جانے پر اس کو اپنے لفظوں کی سختی کا احساس ہوا ۔
” آپ نے جو بھی کہا صحیح کہا ۔مگر دوبارہ یوں بغیر سوچے سمجھے اپنے گھر سے مت چلی آنا ۔اگلی بار اپنے نانا کے گھر اپنے شوہر کے ساتھ آنا ۔”
وہ سمجھ کر سر ہلا گئی ۔۔
” اس ہی شوہر کے ساتھ جو میری بیٹی کو بہت پیارا اور عزیز ہوگیا ہے۔بلکہ محبت بھی ہو گئی ہے ۔کیا یاد کروادیا بچے نانی یاد آگئی آپ کی مجھے۔”
رحمت کی یاد پر سراج نے سرد آہ بھری ۔۔ترتیل محبت سے اپنے خوبرو نانا کو دیکھنے لگی ۔
” چلو اب آنکھیں صاف کرو شاباش اور باہر آو میں خود آپ کو چھوڑنے جاوں گا ۔”
وہ کہہ کر باہر کی جانب چلے گئے۔ترتیل بھی ہائیسم کا سامنے کرنے کے لیے دل مضبوط کرتی نانا کی پیروی کرنے لگی ۔۔
” نانا اندر نہیں آئیں گے ”
عالم ہاوس کے باہر گاڑی سے نکل کر ترتیل نے سراج کو سوالیہ انداز میں کہا ۔
” نہیں بیٹے رات بہت ہو گئی ہے اب آپ بھی جاو اور پریشان نہیں ہونا زیادہ ۔ہائیسم نے اگر کچھ کہا یا غصہ کیا تو مجھے بتانا میں اسے ساری بات اپنے طریقے سے بتا کر سمجھاو گا ۔”
ہائیسم کے ذکر دل پھر دھڑکا تھا ۔نانا کو الواع کہہ کر اللہ کا نام لیتی اندر کی طرف قدم بڑھائے ۔
چوکی دار کو دیکھ کر گہرا سانس بھرا جو اس کے اچانک چلے جانے اور پھر واپس آنے پر سر سے پیر تک اس کو دیکھ رہا تھا ۔
پورے گھر میں سناٹا پھیلا ہوا تھا ۔جہاں کچھ دیر پہلے شور شرابا اور لڑائی ہو رہی تھی اب خاموشی تھی۔
اللہ کانام لے کر ترتیل نے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا مگر لاک دروازہ اس کو منہ چڑھا رہا تھا ۔دو تین بار اس نے آہستہ سے ناک بھی کیا مگر جواب ندارد تھا تبھی مایوس ہوتی اپنے پہلے کمرے میں چلی گئی ۔ہائیسم کی غلط فہمی اب صبح ہی دور کی جاسکتی تھی ۔
ترتیل کو چھوڑ کر سراج اپنے کمرے میں آئے تو سامنے ہی فودیل اپنے کمرے کی بجائے ان کے بیڈ پر اوندھے منہ بے سدھ پڑا تھا ۔
” فادی بچے ۔۔سیدھے ہو کر لیٹو ۔”
اس کے یوں لیٹنے پر ٹوکا ۔نانا کی آواز پر وہ آہستہ سے سیدھا ہو کر لیٹ گیا ۔
” ہیٹر بھی نہیں چلایا ۔کمرہ کتنا ٹھنڈا ہورہا ہے ۔”
اپنے کندھے پر پڑی شال اتار کر ہیٹر اون کیا ۔۔اس سال سردی تو جیسے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑنے پر تلی ہوئی تھی ۔
” فادی پھر داتا دربار پر دھمال ڈالنے کب جارہے ہو ۔کل جمعرات ہے ویسے ۔دونوں نانا نواسا ساتھ چلیں گے کیا خیال ہے ۔”
اس کے چہرے کی ویرانی کو دیکھ کر موڈ ٹھیک کرنے کو مذاقا بولے ۔۔
” نانا باہر سے جن ون تو نہیں چمٹ گئے آپ کو ۔عجیب ہی بول رہے ہو یار ۔”
اس وقت وہ روفہ کو سوچ رہا تھا ۔اس کا خیال پوری طرح عصاب پر حاوی تھا ۔تبھی نانا کی بات پر چڑ کر بولا ۔
” اپنے پوری گردن تک آتے بال اور یہ دوفٹ لمبی مونچھیں دیکھو ۔اس کھاس کو کٹوانے کا ارادہ نہیں ہے تو میں نے سمجھا شاید تم داتا دربار پر قفیروں کی طرح دھمال ڈالنے کا سوچ رہے ہو۔ ”
” اگر ایسا کرنے سے روفہ واپس آ جائے تو بھرے چوک میں دھمال بھی ڈال لوں ۔”
اس کے درد سے بولنے پر نانا کے مسکراتے لب ایک دم سکڑ گئے ۔
” ہمت کرو یار ۔کبھی تم نے ایک چھوٹی سی چونٹی کو بھی گرے اور چوٹ کھائے بغیر اپنے گھروندے میں جاتے دیکھا ہے ۔ہم تو پھر اشرف المخلوقات ہیں ۔اگر تمام مخلوق سے برتر ہیں تو امتحان بھی تو بڑے ہی دینے پڑے گے۔شدید حبس برداشت کیے بغیر بارشوں کا ٹھنڈا موسم نہیں آتا ۔”
” ہاں مگر اپنی زندگی کا ویلن میں خود ہی بن گیا نانا ۔میرے اور روفہ کے بیچ کوئی اور نہیں میرے خود کا وجود تھا ۔یہ بات بہت تکلیف دیتی ہے ۔”
آنکھیں میچے وہ کھوکھلے لہجے میں بولا ۔روفہ کا دھیمے سے مسکرانا ، پڑھتے وقت پین کو ہونٹوں میں دبانا ، کسی الجھن میں اپنے بالوں کو انگلی میں لپیٹنا سب نگاہوں سے آگے کھوم رہا تھا۔
” نانا پچھتائے بغیر ہمیں اپنی کوتاہی کا احساس وقت رہتے کیوں نہیں ہوجاتا ۔یا پھر ایسا صرف میرے ساتھ ہی ہوتا ہے ۔”
نڈھال سا وہ نانا کے سامنے سراپائے سوال بنا ۔
” شاید اس لیے کہ ہم وہ غلطی دوبارہ کبھی نا دھرائیں ۔اگر کسی عمل کی سزا بھگتنی پڑے تو ہم مر کے بھی وہ دوبارہ نہیں کریں گے ۔”
نانا نرمی سے بولے ۔فودیل نے آگے بڑھ کر ان کی گود میں سر رکھ لیا ۔نانا اس انداز پر تبسم سے اس کے سر ہر ہاتھ پھیرنے لگے۔
” میں اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا ۔چھوڑ ہی نہیں سکتا ۔جاتنا ہوں بہت غلط کردیا مگر احساس بھی ہوگیا ۔پتا نہیں کہاں چھپ کر بیٹھ گئی ہے ۔سامنے بھی نہیں آرہی نا کوئی بتا رہا ہے ۔کیا کروں ؟؟”
کسی معصوم بچے کی مانند حل پوچھنے لگا ۔نانا ہنس پڑے ۔فودیل نے خفگی سے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں ۔
” آپ نے بھی روکا نہیں مجھے ۔اگر آپ روکتے تو شاید میں رک جاتا ۔وہ سب بکواس اس کے سامنے جا کر نہیں کرتا ۔نانا ردا کو لے کر جو میں نے بولا تھا وہ سب جھوٹ تھا ”
” جانتا ہوں ۔پالا ہے تمہیں میں نے کیا میں نہیں جان پاوں گا میرا بیٹا کب کس انداز میں جھوٹ بولتا ہے ۔”
نانا یقین سے بولے ۔اس نے آنکھیں کھول کر ان کی جانب دیکھا ۔
” اس کے بغیر نہیں رہا جاتا نانا ۔اس کو چھوڑنے سے بہتر ہے وہ بیوہ ہو جائے ۔اپنے دل دماغ اور نکاح میں آئی لڑکی کو میں مر کر بھی نہیں چھوڑوں گا ۔پہلے تو صرف بیوی تھی اب تو محبت بھی ہے ۔”
جذبات سے چور لہجے میں کہہ کر پھر سے اپنی کالی گہری آنکھیں موند لیں ۔نانا نے نفی میں سر ہلایا ۔
” فل حال اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔کبھی کبھی دوریاں نزدکیوں کے گہرے اسباب پیدا کر دیتی ہیں ۔اس بار جذباتی پن کی بجائے عقلمندی سے کام لو ۔”
” جو بھی ہے آپ کے پر پوتوں کی ماں روفہ فودیل زکی ہی بنے گی یہ لکھوا لیں مجھ سے ۔کہاں تک مجھ سے دور جائے گی ۔اس کا اصل میں ہوں منزل بھی مقام بھی ۔واپس میرے پاس ہی آنا ہے اسے ۔پہلے صرف بیوی تھی تو نہیں چھوڑا تھا اب اپنی محبت سے دستبردار ہو جاوں تو فودیل زکی نا کہے مجھے کوئی ۔”
” ترتیل معافی مانگ رہی تھی تم سے ۔شرمندہ بھی کافی ہورہی تھی ۔”
فودیل نے لب بھینج کر کچھ دیر پہلے کے واقع کو سوچا ۔
” کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہا اس نے ۔مجھے رشتوں میں اعتدال رکھنا نہیں آیا ۔بہن کو بیوی پر فوقیت دے کر اپنے ہی دل کو اجاڑ بیٹھا ۔خیر میں ناراض نہیں ہو اس سے ۔بالکہ خوش ہوں کہ وہ ہائیسم کے ساتھ خوش ہے ۔”
وہ اب مطمئین تھا ۔ترتیل کے کہے پر وقتی طور پر دکھ تو ہوا تھا مگر اب سمجھ آگیا تھا وہ کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہی تھی ۔
نیند میں جانے سے پہلے روفہ کے لمبے چمکدار براون بال یاد آئے جن کی نرماہٹ محسوس کرنے کو دل مچل رہا تھا ۔۔
صبح ہوتے ہی ترتیل عالم اور فضا سے ملنے کے بعد نجمہ سے منہ ہاتھ دھلوا کر اپنے اور ہائیسم کے کمرے میں گئی ۔مگر وہ وہاں نہیں تھا ۔ڈائینگ روم کا سوچ کر وہاں گئی تو وہ ناشتے کر چکا تھا اور اب کوٹ پہن کر آفس جانے کو تیار تھا ۔ ترتیل پر نظر پڑتے ہی پہلے تو چونکا پھر کچھ پل تک اس کو سرد نگاہوں سے گھورتا رہا ۔
اس دوران وہ بغیر کسی جرم کے مجرم بنی سر جھکائے کھڑی رہی ۔نا آگے بڑھی نا بات کرنے کی ہمت کر سکی ۔مگر فودیل کے دئیے گئے زخم ابھی بھی ہائیسم کے چہرے پر تازہ تھے جن کو دیکھ کر ترتیل رونے والی ہو گئی تھی ۔
ہائیسم گھڑی پر نگاہ ڈال کر اس کو نظرنداز کیے پاس سے گزر کر چلا گیا ۔
شادی کے بعد ایسا پہلی بار ہوا تھا جب ہائیسم نے صبح اٹھ کر اس کے ماتھے پر بوسا نا دیا ہو یا پھر بغیر اس کو اپنے ہاتھوں سے تیار کیے آفس گیا ہو ۔
اس کی نظراندازی پر ترتیل بوجھل دل سے کرسی پر بیٹھ گئی ۔پتا نہیں کب تک یہ ناراضگی چلتی ۔وہ تو اس کی نرمی کی عادی تھی اب بے رخی بالکل برداشت نہیں ہو رہی تھی ۔
بھوک سے برا حال تھا مگر اب اس نے نجمہ کے ہاتھ سے کھانے کی بجائے الٹے ہاتھ سے کھانا بہتر سمجھا ۔کیونکہ ہائیسم کو نجمہ کا اس کے کام کرنا پسند نہیں تھا ۔
الٹے ہاتھ سے ناشتہ ٹیبل پر زیادہ گر رہا تھا منہ میں کم ڈل رہا تھا مگر پھر بھی وہ لگی رہی ۔کالج جانا ضروری تھا ورنہ دل تو کمرے میں بند ہو کر سوگ منانے کو کر رہا تھا ۔۔۔