“بیٹا آج گهوم پهر لو جتنا گهومنا پهرنا ہے یہاں کے موسم کا کچھ پتہ نہیں کب بدل جاۓ”
آج سورج پوری آب و تاب سے مری کی سرزمین پہ اپنی سنہری کرنیں بکهیر رہا تها تب ہی اسفندصاحب نے سورج کو دیکهتے ہوۓ کہا
لنچ کے بعد سنہری دوپہر میں دهوپ میں اسفندیار اور ولید چاۓ سے لطف اندوز ہورہے تهے
“جی انکل میں بهی وہی سوچ رہا ہوں”
“سوچو مت میاں اور جاکر تیاری کرو”
چاۓ کا سیپ لیتے ہوۓ بولے تو ولید بهی مسکراتے ہوۓ اٹھ گیا
“مریم” مریم جو کمبل میں بیٹهی ہاتھ میں ناول پکڑے پوری طرح اس میں کهوئی ہوئی تهی ولید کے اچانک پکارنے پہ بری طرح چونکی “مریم جلدی سے ریڈی ہوجاؤ ہم باہر جارہے ہیں”
ولید اسے بولتے ساتھ الماری سے اپنے کپڑے نکالتا ہوا بولا
“بات سنیں ذرا”
مریم ناول سے بند کرتے ہوۓ بولی
“ہاں جی سنائیں میں ہمہ تن گوش ہوں”
اسکی طرف مڑتے ہوۓ بولا “یہی بات آپ آرام سکون سے بهی بول سکتے تهے گلا پهاڑ کر میرا نام لینے کی کیا ضرورت تهی ابهی ہارٹ اٹیک آجاتا مجهے”
دل پہ ہاتھ رکهتے ہوۓ بولی “اچها سوری بابا آئنده سے پہلے تم سے پوچهوں گا پهر آواز دوں گا اب خوش”
اسکے صبیح چہرے کو نظروں میں سموتے ہوۓ بولا جبکہ جواب میں “اونہہ”کہہ کر الماری کی جانب چل دی
“سنیں”
“جی سنائیں”
“دوپہر میں کهانا کم کهایا تها کیا آپ نے”
دونوں ہاتھ کمر پہ رکهتے ہوۓ پوچها
“نہیں تو کیوں”
اسکے اس سوال پہ حیران تها
“تو اگر آپکا ایکسرے کرنے کا ٹائم پورا ہوگیا ہو اور اگر مجهے سالم ہی نظروں سے نگلنے کا ارادہ نہ ہو تو الماری کے آگے سے ہٹنے کی زحمت کریں گے آپ” “اوہ… سوری وہ تو میں بس دیکھ رہا تها کہ میری بیگم کتنی حسین ہے”
شرمندہ ہونا تو اسے آتا ہی نا تها جواب میں مریم اسے گهور کے رہ گئی “اچها بابا ہٹ رہا ہوں ایسے تو مت دیکهو”
اسکی سبز آنکهوں کو دیکهتا ہوا سامنے سے ہٹ گیا
“اسپیشل انویٹیشن دینا ہوگا اب کہ جاکر چینج کرلو”
اپنے کپڑے نکال کر وہ پلٹی تو اسے ابهی تک وہیں کهڑے پاکر سلگ سی گئی
“افففف یار… بالکل بیویوں کیطرح لڑ رہی ہو تم تو”
کپڑے اٹهاتا ہوا بولا
“ہاں تو بیوی ہی ہوں”
بولنے کے بعد اسے اپنے الفاظ کی ادائیگی کا احساس ہوا بے ساختہ زبان دانتوں تلے دبا دی
“اچها……..”
ولید اسکی بات سے مخلوط ہوا اور اچها کو لمبا کرتے ہوۓ کہا
“ہاں تو ہوں میں دس لوگوں کی موجودگی میں اللہ اور رسول صلی اللہ وعلیہ وآله وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کیا ہے آپ نے مجھ سے”
وہ اگر سیر تها تو وہ سوا سیر تهی
“ہاں جی مجهے یاد ہے”
“گڈ اب ویٹ کرو پہلے میں تیار ہونگی اب”
اپنے کپڑے لے کر واش روم کی طرف چل دی گهومنے پهرنے کی سدا سے شوقین تهی
جبکہ ولید وہیں کهڑا اسکی باتوں کو سوچ کر مسکرا رہا تها
“ایک دن یوں ہی تم میری محبت اور وفا پہ بهی ایمان لے آؤ گی مریم میری محبت میری وفا پہ اعتنار کرنا ہی پڑے گا تمهیں”
مسکراتے دل سے سوچا
% % % %
دونوں اس وقت مری کی حسین وادیوں میں گهوم رہے تهے ولید مریم کی قربت سے لطف اندوز ہورہا تها جبکہ وہ ان سب سے بے خبر وادی کے حسین نظاروں میں کهوئی ہوئی تهی
اچانک سے آسمان کو کالے بادلوں نے ڈهکنا شروع کردیا
“افففف خدا اب واپس کیسے جائیں گے؟”
آسمان کی طرف دیکهتے پریشان لہجے میں بولی
چلتے چلتے دونوں کار سے کافی دور آچکے تهے
“ٹانگوں سے اور کیسے اب تمهارے لئے شاهی سواری تو آنے سے رہی”
ولید بهی حقیقتا پریشان ہوا تها “یہ جوک تها”
اسے گهورتے ہوۓ بولی
“تم سے کس نے کہا یہ جوک تها یہ حقیقت ہے”
اسے چڑاتے ہوۓ بولا
“واؤ … کیا شاندار حقیقت بیان کی ہے ایک آسکر ایواڑ ملنا چاہیے آپکو” وہ واقعی چڑ سی گئی “تهینک یو بیگم تم نے کہہ دیا اور مجهے مل گیا ایوارڈ”
“اونہہ”
کہہ کر آگے کی طرف چلنے لگی
“ہیلو… گهر آگے نہیں بلکہ پیچهے ہے”
اسکا بازو پکڑ کر اپنی طرف کرتے ہوۓ بولا
“پتہ ہے مجهے وہ تو بس چیک کر رہی تهی آگے کیا ہے” کہاں ہار ماننے والی تهی
“چیک کرنے کی کیا ضرورت ہے میں بتاتا ہوں آگے ایک بے حد خوبصورت اور گہری کهائی ہے جس میں بندہ اگر چلا جاۓ تو کفن دفن کا خرچ بچ جاتا هے سمجهی”
کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوۓ بولا
“ویری فنی”
شال اپنے گرد لپیٹتے ہوۓ بولی
“چلو اب ذرا خیال سے پاؤں نہ مڑوا لینا”
اسکا بازو پکڑ کر جلدی جلدی چلتا ہوا بولا دفعتا اسے احساس ہوا کہ اس نے سوئیڑ نہیں پہنی ہے
“اؤۓ لڑکی سوئیڑ کدهر ہے تمهاری”
اپنے سامنے کهڑا کرتے ہوۓ پوچها
“میرے بیگ میں…
اب چلو بارش ہورہی ہے اور پلیز اسٹوپڈ ہیرو کیطرح اپنی جیکٹ مت پیش کر دینا”
آگے چلتے ہوۓ بولی تو ولید ہنس پڑا
“ویسے میرا کوٹ صاف ستهرا ہے اور میں نے پرفیوم بهی لگایا ہے پہن لو ٹهنڈ لگ جاۓ گی”
اسے آفر دی “مہربانی میری یہ شال آپکی جیکٹ سے زیادہ گرم ہے اور آپ فکر مت کرو میں سردی کی وجہ سے کبهی بیمار نہیں ہوئی میرے سیلز بہت سٹرونگ ہیں”
شال کیطرف اشارہ کرکے بولی بارش آہستہ آہستہ تیز ہوتی جارہی تهی
“ہاں اندازہ ہورہا ہے مجهے”
ولید نے ایک نظر اسکے کانپتے وجود کو دیکها
جبکہ مریم اسے گهور کے رہ گئی کچھ ہی دیر میں ولید نے گاڑی فل اسپیڈ سے گهر کی طرف بڑها دی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
دونوں آدهے گهنٹے میں گهر پہنچے تو موسلادهار بارش طوفان کی صورت اختیار کرگئی تهی
“ارے یہ کیا تم دونوں تو پورے بهیگ گئے ہو جاؤ جلدی چینج کرلو میں تم دونوں کے لئے گرم گرم چاۓ بهجواتا ہوں”
اسفندصاحب جو ان دونوں کی وجہ سے بے چینی سے برآمدے میں ٹہل رہے انہیں اسطرح بهیگتے ہوۓ آتا دیکھ کر بولے “جی انکل”
ولید مریم کو تهامتے ہوۓ بولا
سردی سے مریم باقاعدہ کانپ رہی تهی
“جاؤ جلدی سے چینج کرو”
کمرے میں آکر اسے ٹاول اور کپڑے دیتا ہوا بولا اور وہ چپ چاپ کپڑے لے کر واش روم کی طرف بڑھ گئی دونوں چینج کرکے آتش دان کے قریب بیٹهے ہی تهے کہ ملازم چاۓ رکھ کر چلا گیا
“ٹهیک ہو تم”
ولید نے اسکے زرد پڑتے چہرے اور ہولے ہولے کانپتے وجود کو دیکھ کر پوچها “ہاں میں ٹهیک ہوں”
چاۓ کا کپ ہونٹوں سے لگاتے ہوۓ بولی ولید نے ایک نظر اسے دیکها
آتش دان کی روشنی میں دمکتا زرد چہرہ سبز آنکهیں جو اس زرد روشنی میں عجیب ہی منظر پیش کررہی تهیں
لمبے براؤن گیلے بال کندهوں پہ شال اوڑهے وہ سچ مچ کسی دیس کی شہزادی ہی تو لگ رہی تهی ولید بے اختیار اسے دیکهے گیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
رات کے کهانے پہ مریم نے معمول سے بہت ہی کم کهایا اور جلدی ہی سونے چلی گئی جبکہ ولید اسفندصاحب سے باتوں میں مصروف ہوگیا تهوڑی دیر بعد وہ بهی اسے آرام کرنے کا کہہ کر اپنے کمرے میں آگئے
روم میں آکر ایک خوشگوار منظر نے اسے خوش آمدید کہا
مریم بیڈ پہ بے خبر سوئی ہوئی تهی
کچھ پل اسے پیار سے دیکهتا رہا “تو بیگم صاحبہ بیڈ پہ شفٹ ہو ہی گئیں”
وہ مسکراتے ہوۓ بولا
پهر آگے بڑھ کر کمبل اسکے اوپر اچهی طرح اوڑها دیا اسی دوران اسکا ہاتھ اسکے چہرے سے ٹچ ہوا یکدم وہ چونک گیا اسکے ماتهے پہ ہاتھ رکها وہ بخار سے تپ رہی تهی….
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...