"چھوڑو مجھے ”
پیچھے سے کسی نے اُسکے بازو بندھ دیے تو واقعی ایک مرتبہ دل زور سے دھڑکا
"چُپ رہو لڑکی”
پیچھے سے بھاری آواز آئی
مایا مزاحمت سے باوجود اُٹھ کر کھڑی ہوئی اور پھرتی سے ایک ٹانگ گھوما کر سامنے کھڑے ہٹے کٹے انسان کے پیٹ میں دے ماری
وہ کرہ کر پیچھے ہُوا تو مایا کی غلطی فہمی ہی ثابت ہوئی تھی کے وہ اکیلا کوئی لوٹرہ ہے لیکن پیچھے کھڑی تین گاڑیاں دیکھ کر ایک مرتبہ ہوش باختہ ہوئے لیکن اتنی جلدی ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی ٹانگ مارنے کے بعد اتنی ہی تیزی سے نیچے پڑا پتھر اُٹھا کر اُسکی طرف بڑھتے ہوئے انسان کے سر پر دے مارا اور مخلف سمیت میں بھاگ گئی
"پکڑو”
آواز قریب سے آتی محسوس ہوئی تو بھاگنے کی رفتار تیز کردی کوئی چیز اپنے بازو میں ڈھنستی محسوس ہوئی تو یکدم رک گی چاقو تھا جس سے پیچھے سے وار کیا گیا تھا
ابھی اُسے نکالتی اُس سے پہلے اُسے بالوں سے جکڑ کر پیچھے کی طرف گھسیٹا
چہرے پر رومال بندھ کر گاڑی میں ڈال دیا اُسکی ساری مزاحمتیں رائیگاں گئی
پتہ نہیں کیوں جب بھی بازل سے بد گمان ہوتی تھی یہی کیوں ہوتا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
ریلنگ چیئر پر ماجود بازل پیچھے کیطرف سر گرائے تھوڑی دیر پہلے ہی نیند میں گیا تھا جبکہ اُسکی گود میں لیٹی ہوئی نور کافی دیر سے نیند کی آغوش میں تھیں
موبائل کی وابریشن نے اُسے نیند سے بیدار کیا
"بولو ”
موبائل نمبر دیکھے بغیر ہی کان کو لگایا اور تقریباً نیند میں ہی تھا
"سر میڈم کو کچھ لوگ اُٹھا کر کے گئیں ہیں”
اگلی طرف سے جو سننے کو ملا تھا اُس سے نیند کہیں دور بھاگ گئی اگر نور گود میں نہ ہوتی تو یقیناً صدمے سے کھڑا ضرور ہوتا
"تم کدھر تھے ۔۔۔۔تمہارے سامنے کیسے لے گے”
ہلکی آواز میں غرایا
"سر وہ بیس پچیس لوگ تھے اور میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔۔۔۔۔میڈم کو چاقو لگا ہے”
جسم میں جو جان ماجود تھی اُسکے زخم کی خبر سے وہ بھی جاتی رہی ہاتھ پاؤں تقریباً پھول گے
"اور بیغیرت بنے دیکھتے رہے چوڑیاں پہن رکھیں تھیں کیا ”
اونچی آواز میں چلایا یہاں تک کہ وہ نیند میں کسمسائی اور دوسری طرف ایک مرتبہ جان ہُوا ہوئی
فون کاٹ جلدی سے نور کو اپنے بازو میں اُٹھا کر بیا کے کمرے میں چھوڑا اور اپنے گن وغیرہ لیے باہر کی طرف بھاگا
"جلدی سے مایا کی موبائل ڈیوائس ہیک کرو”
اُسے لگ رہا تھا جیسے ہوا میں آکسیجن کی کمی ہوگی ہے سانسیں ٹھر رہیں تھیں
"سر میڈم کو کسی ویران جگہ لیجیۓ گیا ہے ۔۔۔۔۔اور وہ جگہ ۔۔۔۔۔ریپ کیسز کو لےکر کافی بدنام ہے٫
اسٹرنگ پر گرفت میں نرمی آئی کشادہ پیشانی پر پسینے کی چند بوندیں نمایاں ہوئیں
"اِس بار اُسے چھیننے نہیں دونگا کسی کو بھی ”
جنونیت سے بول کر موبائل سیٹ اور پھینکا
"میں کیسے جانے دے سکتا ہوں اُسے ۔۔۔۔اتنے دشمنوں میں کیسے بھیج دیا گھر سے ۔۔ وہ تو ہے ہی پاگل ”
اونچی آواز میں بول رہا تھا کیسی دیوانے کی طرح ۔۔۔
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
"بتا کیا تعلق ہے تمہارا بازل کے ساتھ ”
ایک عورت نما چڑیل جو بظاھر چڑیل ہی لگ رہی تھی بلیڈ لیے مایا کے سر پر ماجود تھی
"کیوں میں کیوں بتاؤں ۔۔۔۔چڑیل ”
نقاہت سے بول کر منہ دوسری طرف کیا
اُسنے ہلکے سے مایا کے کندھے پر بلیڈ چلایا جس سے خون کی ایک پھوار زمین پر پڑی اور اُسکا کندہ برہنہ ہوگیا
"اب بتا”
درد کی انتہا ہوئی لیکن چلائی نہیں تھی خود کو کمزور ثابت نہیں کر سکتی تھی
لیکن احساس ہُوا تھا کے بازل سچا تھا اُسکے ساتھ منسلک ہونا خطرات سے خالی نہیں تھا
"بتاؤ اُسنے تمہاری حاصل کی گئیں فلائز سے کیا تھا”
ایک مرد اچانک سے کرسی اُسکے سامنے کھینچ کر بیٹھا اور مایا کے کندھے پر دباؤ دیا
"دیکھ لو اتنی تکلیف دینا جتنی برداشت کرلو ۔۔۔۔۔بازل شاہ میری ہر تکلیف کا بدلہ دوگنا لے گا ”
اُسے خود معلوم نہیں تھا درد میں کیا بول رہی ہے لیکن درد چھپانے کی ایک چھوٹی سی کوشش تھی
"اوہ ۔۔۔پتہ ہے تمہاری جیسی لڑکی کے ساتھ صرف راتیں گزار سکتا ہے ۔۔۔۔۔بدلہ نہیں لے سکتا ۔۔۔۔اور اُسے کون بتائے گا اُسکی رکھیل کے ساتھ کوئی اور رنگلیاں منا رہا ہے ”
غلیظ نظروں سے دیکھتے ہوئے بازو پر سے دوپٹہ ہٹا دیا اور خون خار نظروں سے دیکھتی ہوئی کُچھ نہیں کر پائی کیوں کے دونوں ہاتھ تو بندھے ہوئے تھے
دل ڈوپ رہا تھا اُسکی بات پر کیا اہمیت تھی اُسکی بازل کی زندگی میں اچھی طرح جانتی تھی جب چاہا زندگی میں شامل کرلیا جب چاہا نکال باہر کیا
اُسے تو یاد بھی نہیں رہا ہوگا کے کوئی مایا نام کی چیز ہے دُنیا میں ۔۔۔وہ تو اپنے نرم بستر پر مزے کی نیند میں ہوگا
یہی بات اُسکی انکھوں میں نمی لے آئی
"اللہ کبھی تو مجھے کسی کے لیے اہم بنا دیتے ۔۔۔۔۔میرے پاس بھی کوئی رشتا ہوتا میں بھی دُنیا میں جینے کے قابل ہوتی ”
یہیں سوچیں اُسکا ذہن موف کر رہیں تھیں
"کتنے لیتی ہو ایک رات کو پیسے ۔۔۔۔۔بازل تو ہیروں میں کھڑا کردیتا ہو گا تمھیں ”
مایا کے بالوں کی لٹوں کو چھوتے ہوئے لچھکائی ہوئی نظروں سے مایا کے جسم کو ٹار رہا تھا
کیوں وہ انسان ہمشہ اُسکی عزت کے مذاق کی وجہ بن جاتا تھا
"مجھے مار دو”
آنکھوں سے آنسو کی لڑی ٹوٹ کر زمین پر گرنے لگی۔تو پیچھے کھڑی عورت نے اُسکے ہاتھ پر بلیڈ سے گہرا کٹ لگایا
اِس سے پہلے کے سامنے بیٹھا انسان مایا کا دوپٹہ اُترتا پیچھے سے گولی اُسکے سر پر لگی جس کا خون مایا کے چہرے اور گیرا
پیچھے کھڑی لڑکی نے پھرتی سے وہی بلیڈ مایا کی گردن پر رکھ دیا
"مایا کو ہاتھ لگانے کی جرت کیسے ہوئی ”
اُسکے ہاتھ پر گولی ماری جو پہلے ہی مر چُکا تھا
پھر دوسرے ہاتھ پر جس سے دوپٹہ اُتارا تھا مایا کو اپنی آنکھوں پے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا بازل آیا تھا اُسکے لیے آیا تھا ۔۔۔۔۔ اُسے بچانے آیا تھا
قسمت مہربان ہوئی تھی ۔۔۔۔یقین کرنا مشکل تھا
"بازل شاہ۔۔۔آگے مت آنا ”
کھڑی عورت نے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا جبکہ دو تین مرد جو دوسری طرف تھی بازل کی طرف آئے
"تم لوگوں کو جاننا ہے کے مایا کون ہے ہیں۔۔۔۔میری بیوی ہے ۔۔۔۔میرا سکون۔۔۔۔۔۔۔میری عزت ۔۔۔۔سب سے بڑھ کر میری محبتوں کی اکیلی وارث ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مایا شاہ ”
وہ کسی کی بات کا اثر لیے بغیر سامنے لگے کميرے میں دیکھتا ہوا بولا جنون تھا اُسکے لہجے میں
مایا ساکت ہوئی اُسکی طرف دیکھ رہی ٹھی جس نے ایک غلط نظر بھی اُس پر نہیں ڈالی تھی
اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے بھری شاہراہ پر کسی مہربان نے اُسکے برہنہ جسم پر چادر ڈال دی ہو جیسے صدیوں سے لگے زخموں پر کسی نے ٹھنڈی پھوار ڈال دی ہو
اُسکے چند الفاظ معتبر کر گے تھے
اُن سب میں اپنا آپ کوئی الگ مخلوق محسوس ہورہا تھا جو بازل شاہ کی بے انتہا محبتوں کی واحد وارث تھی اُسکی حقدار تھی
ساری غلط فہمیوں نے دم توڑ دیا تھا
"شاہ زار ”
ہلکی سی آواز میں مینمنائی یہاں تک کہ پیچھے کھڑی عورت کو بھی سنائی نہیں دیا جو ابھی اُس پُروقار شخص کے سحر میں جکڑی ہوئی تھی
اُسنے نیچے کی طرف دیکھا یہاں دُنیا کی خوش قسمت لڑکی بیٹھی تھی جس پر قسمت ابھی مہربان ہوئی تھی
حسد کی آگ میں مایا کی گردن پر وار کرنے والی تھی جب مایا نہیں پھرتی سے اپنا سر اُسکے ہاتھ پر مارا نشانہ چکتا گیا اور اُسکی تھائی میں وہی بلیڈ نیچے تک گیا اور مایا کی ایک درد ناک چیخ اُس اسرار ماحول میں گونجی
"ماہی ”
پیچھے کھڑی عورت پر فائر کرتا اُسکی طرف بھاگا
پیچھے سے ایک بازل کے بازو پر چاقو مارا اور وہی چاقو ریورس ہوکر اُسی کے پیٹ پر جا لگا
اب صرف مایا اور بازل اُس حال نما کمرے میں اکیلے تھے ہوش میں آتے ہی اُسکی طرف آیا یہاں اُسکے زخموں سے خون بہہ رہا تھا لیکن وہ ایسے ڈھیٹ بنی بیٹھی تھی جیسے کُچھ ہوا ہی نہیں ہو کوئی درد اُسے محسوس ہی نہیں ہو رہا ہو
"ماہی ۔۔۔۔۔تم ٹھیک ہو”
اُسکے سامنے گٹھنوں کے بل بیٹھا اُسکی گال سہلا رہا تھا اُسکے ٹھنڈے سے لمس پاکر اُسکی طرف دیکھا اور نظریں جُھکا گئی
"درد ہو رہا ہے کیا”
اُسے گم سم دیکھ کر اُسکے ہاتھ کھولتا ہوا بولا جو اُسکے مہربان سے لمس سے بے جان ہورہی تھی نظریں ابھی بھی جھکائیں ہوئیں تھیں
اُسکے ہاتھوں کے لمس اپنے پاؤں پر پاکر دل زور سے دھڑکا اب آہستہ آہستہ درد میں اضافہ ہورہا تھا کیوں کہ اُسکے درد کو محسوس کرنے والا اُسکے سامنے تھا
"میں بلیڈ نکالوں گا برداشت کی لینا ”
اُسکی تھائی پر ایک ہاتھ رکھ کر دوسرے سے ایک جھٹکے سے بلیڈ کی چھوٹی سی کارنر پکڑ کر باہر نکال دیا جس کے بعد درد کی انتہا ہوئی چیخوں سے بازل کے کان بند ہوگے
"بازل شاہ پیچھے کرو اپنے ہاتھ”
آنکھوں سے درد کی وجہ سے آنسو بہہ رہے تھے لیکن یکدم اُسے کیا ہوا تھا سمجھ سے باہر تھا ابھی تو اچھی بیویوں کی طرح نظریں جھکائے ہوئے تھی
اپنے ہاتھ اُسکی تھائی سے ہٹا کر کھڑا ہوا اچانک اُسکی انکھوں میں اپنے لیے اجنبیت دیکھ کر دل دُکھا
"کیا سمجھتے ہو مجھے جب چاہا میری زندگی میں آگئے اور جب چاہا ہے سہارا چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔انسان ہوں میں تمہاری ملکیت نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔جینے دو مجھے۔۔۔۔۔۔یہ پھر اج مرنے دیتے مجھے کیوں تماشا بنا رہے ہو میری ذات کا”
اُس لڑکی کا حوصلہ قابلِ دید تھا اتنے زخم کھانے کے بعد بھی اپنی ذات فراموش نہیں ہونے دی تھی
کہتی ہوئی کھڑی ہونے لگی لیکن خون کی کمی اور زخموں کی زیاتی کی وجہ سے چند سیکنڈ ہی کھڑی ہو سکی اس سے پہلے کے پیچھے گرتی بازل نے اُسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا
"مایا اگر اب بولی ہو تم تو اپنے ہاتھوں سے گولی مار دونگا ”
اُسکی باتوں سے آنکھیں لال انگارا ہوچکی تھیں جبکہ آواز اتنی سخت تھی کے اُسکی چلتی زبان بند ہوگی
یہ بھی نہیں کہہ سکی کے ماردو کیوں کے اُسے ابھی بدلے لینے تھے اُسکی بے وفائی کے ۔۔۔۔اپنے دل پرلگے زخموں کے
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"دیکھو پیسے میں دونگی ۔۔۔۔تمہارا کام کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔چاہے تم پھوپھو کے خلاف بیان بھی دو لیکن میری مدد کرو بس ایک مرتبہ پھر پاکستان سے باہر چلی جانا”
پیسوں کا لالچ دیتی ہوئی بولی اور بار بار دروازہ دیکھ رہی تھی
"کتنے پیسے دوگی”
اُسکے قریب آکر بولی
"پچاس لاکھ”
چیک نکال کر سامنے کیا
"کرنا کیا ہے؟؟”
چیک دیکھ کر آنکھیں چمکیں
"بس وارڈ سے تالش کا بچہ لاکر دینا ہے ابھی ۔۔۔۔پھر تمہارا کام ختم ”
اتنا آسان کام سن کر لالچ نے گرفت اُسکے دماغ اور مضبوط کی
"ٹھیک ہے تم بیٹھو میں بس جیسے ہی موقعہ ملا لاتی ہوں”
کہتی ہوئی تیز قدم اٹھاتی باہر کی طرف چل گئی
"تالش تمہیں اتنی آسانی سے خود سے دور جانے نہیں دونگی ۔۔۔۔تمھیں اور تمہاری بیوی کو ٹرپا ٹرپا کر مار نہ دیا تو میرا نام بھی ملیحہ نہیں ۔۔۔۔۔۔میری محبت کو روندا ہے نہ تو تمہاری محبت بھی حاصل نہیں ہونے دونگی ۔۔۔اپنے آنسووں کا بدلہ لونگی میں ”
بولتی ہوئی اپنے انکھوں میں آئے بدلے کے آنسو بے دردری سے روند گئی
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...