جمال نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا وہ وہاں سے اٹھا اور گاڑی کا دروازہ کھول کے اندر بیٹھ گیا۔۔۔
اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ان کا بھی دل دکھا لیکن اولاد کی بہتری کے لیے ان کے کھیلے ہوئے کھیل کی کامیابی ان کے اطمینان کا بھی باعث تھی۔۔۔۔
جمال کی آنکھوں میں سارے مناظر لہرا رہے تھے اور وہ بار بار اپنی آنکھیں رگڑ رہا تھا۔۔۔
اندر ہی اندر سوالوں کا طوفان تھا جو اس کو توڑ رہا تھا۔۔
کیا اس نے بھی اوروں کی طرح محبت میں دھوکہ کھایا؟؟
کیا اس کی وفا میں کوئی شدت نا تھی ؟؟
وہ کھڑکی کی طرف منہ کیے زاروقطار رو رہا تھا ۔۔
اس کے ڈیڈ کا دل اسے اس حال میں دیکھ کر بری طرح دکھ رہا تھا لیکن اولاد کی بہتری کے لیے یہ کڑوا گھونٹ اسے پلانا ہی تھا۔۔
گھر پہچنے پہ اس کی ماما نے اسے اپنے حصار میں بھر لیا اب اس کا خود پہ قابو ہی ختم ہوگیا۔۔
ماں کی آغوش اور رب کی بارگاہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا دونوں جگہ ہی بندا اپنا دل کھول سکتا ہے اپنے اندر رستے زخم دکھا سکتا ہے۔۔
انھوں نے اسے جی کھول کے رونے دیا اور اس کے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہیں ۔۔۔
انھوں نے شاکی نظروں سے شوہر کی طرف دیکھا اور وہ نظریں چرا کے وہاں سے ہٹ گئے ۔۔۔
دکھ جمال کی رگوں کو کاٹتا رہا اور جانے کب نیند نے اس پہ مہربان ہوکر اسے درد و اذیت سے آزاد کردیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس نے بے ساختہ حسینہ کو ڈھونڈا لیکن اس کی یاداشت نے جیسے ہی سارے مناظر کو ابھارا وہ مٹھیوں میں اپنے بال جکڑنے لگا ۔۔
"اف کیسے جیوں گا آخر میں ؟؟ اس چہرے کو دیکھے بغیر؟؟ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اس درد سے کبھی بھی نہیں ابھر سکے گا حسینہ کی بے وفائی اس کے اندر پنجے گاڑ کے بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل پہ سب نے ناشتہ کیا لیکن کوئی بھی ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔۔۔
” آج فارن ڈیلیگیشن نے آنا ہے تم ساری تفصیلات لے لو ” وہ اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر اٹھ گئے۔۔۔
گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے اس کے ذہن میں اس رات کے مناظر گھوم رہے تھے جب وہ حسینہ کے ساتھ یہاں سے نکلا تھا۔۔
وہ سر جھٹک کے چابی اٹھائے وہاں سے نکل گیا، گاڑی میں اب تک گلاب اور موتیے کی خوشبو بکھری ہوئی تھی جو اس رات حسینہ نے پہنے ہوئے تھے ۔۔
"کہاں جاؤں یہ یادیں میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟؟” وہ اسٹیرنگ پہ سر ٹیک کے بیٹھ گیا ۔۔
ہر منظر میں وہ ہی تھی جہاں دیکھتا اس کی ہی یاد تھی۔۔
زندگی سے نکل جانے والے ذہن و دل سے بھی نکل جائیں تو نفسیاتی عارضے میں کسی کو بھی لاحق نا ہوں ،کوئی اپنی کلائی نا کاٹے ، کوئی جسم پنکھے سے نا جھول جائے اور کوئی زندہ لاش کی طرح خود کو نا گھسیٹے۔۔۔
آفس میں اس نے خود کو کاموں میں الجھا کر بہلانے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔۔
دن ہفتے اور ہفتے مہینے میں گزرنا ایک عام سی بات ہے لیکن جن سے لمحہ نا گزرے ان کے لیے وقت کاٹنا ایک دشوار گزار عمل ہوتا ہے ۔۔۔
گزرتا ہوا وقت اس کے دل پہ چھائی بے یقینی کو کم نا کر سکی ہزار بار اس نے حسینہ سے ہر قسم کا تعلق ختم کرنے کا سوچا لیکن یہ اس کے اختیار سے باہر کی چیز تھی۔۔۔
ایک روز وہ گھر آیا تو اس کی پھپھو آئی ہوئی تھیں اسے دیکھ کر واری صدقے ہونے لگیں ۔۔۔
” بس بھیا اس مہینے کی ہی کوئی بھی تاریخ رکھ لیں ” وہ بڑے مان سے بولیں
"ہاں ہاں کیوں نہیں ” وہ بڑی خوشی سے بولے۔۔
جمال تھکن کا بہانہ کرکے وہاں سے اٹھ آیا اسکا کمرہ بھی اس کے دل کی طرح ویران تھا۔۔
وہ کھڑکی میں کھڑا باہر دیکھ لان میں دیکھ رہا تھا کہ اس کے ڈیڈ دروازہ کھول کے کمرے میں داخل ہوئے۔۔
"جمال ایک نئی زندگی تمھاری راہ دیکھ رہی ہے اس سے منہ نا موڑو ” وہ اسے سمجھا رہے تھے ۔۔
وہ گردن موڑ کے خالی خالی آنکھوں سے انھیں دیکھتا رہا۔۔
"تمھاری یہ کی گئی حماقت تمھاری زندگی میں صرف روڑے ہی اٹکائے گی اس لیے اس سے جتنی بھی جلد ہو پیچھا چھڑا لو” انھوں نے میز پہ کچھ کاغذات رکھے اور کمرے سے باہر نکلنےلگے۔۔۔
جمال نے ان کو رکنے کے لیے کہا اور آگے بڑھ کے کاغذات دیکھے تو وہ طلاق کے تھے ۔۔۔
” یہ آپ لے جائیں یہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا ” اس نے ہاتھ بڑھا کے کاغذات ان کی طرف بڑھائے ۔۔
وہ کندھے اچکاتے ہوئے کاغذات اسکے ہاتھ سے لے کر باہر چلے گئے ۔۔
پھر کمرے میں سناٹا اترنے لگا یادوں نے اپنے سائے مزید گہرے کر لیے اب وہ تھا اور یادوں گہرائیاں ۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کے میوزک پلیئر آن کرلیا ۔۔۔
مغنیہ کی آواز کمرے کے سناٹے کو چیرنے لگی اور اس کا ایک ایک لفظ اس کے دل پہ اتر رہا تھا۔۔
ہے اختیار میں تیرے تو معجزہ کردے
وہ شخص میرا نہیں ہے اسے میرا کردے
اکیلی شام بہت دل اداس کرتی ہے
کسی کو بھیج کوئی میرا ہمنوا کردے
یہ ریگ زار کہیں ختم ہی نہیں ہوتا
ذرا سی دور تو رستہ ہرا بھرا کردے۔۔۔
جمال کی آنکھیں ضبط کی شدت سے خوں رنگ ہو رہیں تھیں اور ہر رات کی طرح جانے کب جلتے سلگتے وہ سوگیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں شادی کی تیاری زور وشور سے ہورہی تھی اس کے دل کی حالت سے قطع نظر سب مگن تھے ۔۔
پلوشہ سے اس کی ملاقات اب تک نہیں ہوئی تھی وہ دانستہ اس سے ملنے سے احتراز برت رہا تھا لیکن کب تک وہ اس سے بھاگ سکتا تھا ۔۔
آج کا دن اس کی زندگی میں زبردستی ہی داخل کیا گیا اور پلوشہ رنگ و خوشبو میں بسی اس کے پہلو میں براجمان تھی ۔۔۔
سب ہی خوش تھے اس کے سوائے وہ وہاں موجود ہی نا تھا آج تو اس کا دل اس پہ پوری طرح ستم ہی ڈھانے کی ٹھان بیٹھا تھا ۔۔۔
بمشکل وہ خود پہ ضبط کرکے وہاں بیٹھا رہا اور خالی الذہنی سے سب کے دمکتے چہرے دیکھتا رہا سب کی آوازیں اسے میلوں دور سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔۔۔
خدا خدا کرکے رخصتی کی رسم ادا کی گئی اور پلوشہ اس کے گھر اگئی ۔۔۔
جمال جس لمحے سے بھاگ رہا تھا اب اس کا سامنا کرنا اس کی ہمت سے باہر کی بات تھی ۔۔
” جاؤ بیٹا پلوشہ کب سے تمھارا انتظار کررہی ہے” ماما نے اسے لاونج میں بیٹھا دیکھ کے کہا۔۔
"جی !! اس نے ایک حرفی جواب دے کر سر جھکا لیا ۔۔
ان کے وہاں سے جاتے ہی اس نے چابی اٹھائی اور تیزی سے باہر گاڑی کی طرف آیا۔۔
دروازہ کھولتے چوکیدار کی آنکھوں میں بھی اسے اس وقت دیکھ کے حیرت ہوئی ۔۔۔
جمال تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا اور اس کا رخ اس فلیٹ کی طرف تھا جہاں وہ اس رات ایک بے بس و مجبور عورت کو اپنے تئیں قصور وار مان کے چھوڑ آیا تھا۔۔
فلیٹ پہ گاڑی کھڑی کرکے وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا ۔۔
پھولے ہوئے سانس کے ساتھ وہ دروازے پہ کھڑا تھا اس نے بےقراری سے دستک دی ۔۔
"کون ہے؟؟ایک نسوانی آواز آئی۔۔
” میں جمال حسینہ کو بلا دیں ” وہ بولا
"یہاں تو کوئی حسینہ نہیں رہتیں” دروازہ کھلا اور اس ہی آواز نے جواب دیا۔۔
"آپ لوگ کب سے ہیں یہاں؟؟ جمال نے ڈوبتی ہوئی آواز میں پوچھا
"کچھ ہی دن ہوئے ہمیں یہاں آئے”
جمال کو بے چینی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا حسینہ کو کھو دینے کا احساس اس کے دل کو جیسے آری سے کاٹ دینے کا مترادف تھا۔۔
” کہاں جاسکتی ہے ؟؟ وہ خود سے ہمکلام تھا ۔۔
یک دم اس کے ذہن میں اس کا پرانا گھر آیا اور وہ گاڑی کو طوفانی رفتار سے بھگاتا ہوا وہاں پہنچا ۔۔
"پیر پکڑ کے منا لوں گا بس ایک بار خدایا وہ مل جائے” وہ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ مناجات کر رہا تھا لیکن دروازے پہ پڑا تالہ اس کے تمام ارادوں کو منہ چڑا رہا تھا۔۔
اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں ایک شخص اسے سامنے سے آتا دکھائی دیا تو اس نے ان لوگوں کی بابت اس سے پوچھا۔۔
” یہ لوگ کہاں ہیں ان کے دروازے پہ تالا کیوں لگا ہوا ہے؟؟ اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔۔
"یہ لوگ؟؟ یہ تو کب کے یہاں سے جا چکے ہیں” وہ شخص اس کی سماعت میں صور پھونکتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور جمال بے جان قدموں سے خود کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری
ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں "میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے کہنے لگے یہ طرزِ...