انٹرنیٹ دور جدید میں بے حیائی کے فروغ کا سب سے آسان اور مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ بات انٹرنیٹ کے آغاز کے وقت ہی بڑی صراحت کے ساتھ نمایاں ہو کر سامنے آ گئی تھی۔ نوے کی دہائی میں انٹر نیٹ امریکہ اور یورپ میں غیر معمولی سرعت کے ساتھ پھیل گیا تھا۔ اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس پر دستیاب فحش اور عریاں لٹریچر تھا۔ سن پچانوے میں ٹائم میگزین نے انٹرنیٹ کے بارے میں شائع ہونے والے اپنے خصوصی شمارہ میں ایک رپورٹ شائع کی۔ جس کے مطابق انٹرنیٹ پر ان سائٹس کا تناسب جن پر فحش اور عریاں مواد دستیاب تھا محض ۰۳. ۰ فیصد تھا یعنی ۱۰۰۰ میں سے صرف ۳ سائٹس۔ تاہم انٹرنیٹ استعمال کرنے والے سو میں سے چوراسی لوگ انہی ۰۳. ۰ فیصد سائٹس کا رخ کرتے تھے۔ اِس وقت صوررتحال یہ ہے کہ اب سیکس سائٹس کی تعداد ملینز میں پہنچ چکی ہے۔ نہ صرف فری سیکس سائٹس پر بڑی تعداد میں لوگ جاتے ہیں بلکہ ایک حالیہ سروے کے مطابق کاروباری اعتبار سے بھی یہ سب سے زیادہ کامیاب ہیں اورباقی تمام اقسام کی سائٹ مثلاً میوزک، گیم، اسپورٹس وغیرہ کے مقابلے میں زیادہ بزنس کرتی ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے سیکس کے فروغ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں پرائیویسی اور سہولت کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شخص کسی کے علم میں لائے بغیر ہر طرح کے مواد تک با آسانی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ خدا خوفی سے خالی معاشروں میں، جہاں ایسی چیزوں سے لوگ صرف معاشرتی دباؤ کی بنا پر دور رہتے ہیں، جب ایسی سہولت میسر آ جائے تو کون ہو گا جو اس محفوظ ذریعہ سے مستفید نہ ہو۔ پاکستان میں ابھی تک اس طرح کے منظم سروے کا اہتمام تو نہیں کیا گیا تاہم غیر رسمی معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی غالب ترین اکثریت انٹرنیٹ کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ہم اپنی ایک دوسری تحریر میں اس بات کی طرف توجہ دلا چکے ہیں کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کی شادی کو غیر ضروری طور پر مؤخر کرنے کا چلن عام ہو چکا ہے۔ ان حالات میں اس مقصد کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کی تعداد مغرب سے کہیں زیادہ ہو گی۔
اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نئی نسل اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو رہی ہے۔ حیا اور شرم جیسی اقدار کمزور اور رشتوں کا تقدس مجروح ہو رہا ہے۔ فطرت کی پاکیزگی رخصت ہو رہی ہے اور ذہنی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان چیزوں کے اثرات معاشرے پر تباہ کن ہوں گے۔ خصوصاً ایک ایسے معاشرے میں جو ترقی کے ہر میدان میں جدید دنیا سے پیچھے ہے اور جس کا کل سرمایہ یہی اقدار ہیں۔ یہ بھی نہ رہیں تو معاشرہ اپنے استحکام کی واحد اساس بھی کھو دے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...