مایا اور موئذ گھر واپس آچکے تھے۔ اس وقت وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
موئذ نے ابھی مایا کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ کب سے بتانے کا سوچ رہا تھا۔ اور اب بات شروع کرنے ہی لگا تھا جب میز پر رکھے مایا کے موبائل پر کال آنے لگی۔سکرین پر بلنک کرتا
“Aani”
کا نام وہ پڑھ چکا تھا۔ مایا کال پک کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی اور کھڑکی کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
” السلام علیکم۔۔ چڑیل۔۔ میسنی کہییی کییی۔۔۔ کہا غائب ہو تم۔۔۔ کل سے کال کررہی ہوں تمھیں میں۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کل سے اب تک تم نے موبائل کو ہاتھ لگائے بغیر دن گزار کیسے لیا ہے” ماہی کال پک کرتے ہی شروع ہوگئی۔
” وعلیکم السلام۔۔۔ یار ہوسپٹل میں ہوں میں۔ کوئی کام ہے تو بتاؤ ۔ نہیں تو بعد میں بات کریں گے” دوسری طرف سے خلافِ توقع عنایہ کی تھکی تھکی سی آواز سنائی دی۔ مایا نے چونک کر فون کان سے ہٹا کر گھورا۔
” آنی۔۔ تم ۔۔ تم۔۔۔ ہسپتال میں کیوں ہو۔۔ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔ صیحح صیحح بتاؤ مجھے۔ کیا ہوا ہے تمھیں” مایا نے پریشانی سے پوچھا۔
” ماہی۔ میں بلکل ٹھیک ہو۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔ لیکن ماہی ایک بات بتاؤ” آنی کی بھرائی ہوئی آواز کانوں سے ٹکرائی تو وہ مزید پریشان ہوئی۔
” کیا میری جان”
” ماہی۔۔ یار ہمیشہ ایسا ہی کیوں ہوتا ہے۔ خون کے رشتے ایسے کیوں ہوتے ہیں۔ کیوں ہمارا دل اتنی جلدی اتنا نرم ہوجاتا ہے۔ چاہیے وہ جتنی مرضی تکلیف دیں جتنا مرضی بڑا دکھ دے پھر بھی ہم انہیں ذرا سی تکلیف نیں دیکھ کر ان کی ہمیں دی جانے والی ساری تکلیفوں کو بھول کر انہیں معاف کردیتے ہے۔ وہ فیصلہ جو لاکھوں بار سوچنے پر بھی نہیں کر پاتے وہ انہیں تکلیف میں دیکھ کر محظ ایک لمحے میں ہو جاتا ہے۔ کیوں یار۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیوں ہم انہیں تکلیف میں دیکھ کر خوش نہیں ہو پاتے۔۔ ہماری خواہش پوری ہونے پر جو ان کو تکلیف پہنچانے کی ہوتی ہے ہم خوش کیوں نہیں ہوتے۔ کیوں۔یار۔ کیوں” عنایہ نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں اللّٰہ کے بعد اگر کسی کے سامنے روتی تھی تو ایک دوسرے کے سامنے ہی روتی تھی۔ مایا ہکا بکا سی اس کی باتوں کو سن رہی تھی۔ عنایہ رونے والوں میں سے نہیں تھی۔ وہ تو رولاتی تھی۔ پھر آج کونسی قیامت گزری تھی اس کے دل پر جس نے اسے ٹرپا کر رکھ دیا تھا۔ جس نے اس کی جان، زندگی، ہر دکھ میں اس کو ہنسانے والی کو رولا دیا تھا۔
” آنی۔ میری جان۔ رو مت۔۔ میری جان۔۔۔ اس طرح مت روو۔۔۔ غور سے سنو میری بات۔ دیکھو۔۔۔ بات یہ نہیں ہوتی کہ خونی رشتہ ہے کہ نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ یہ جو دل کوتا ہے نہ ہمارا۔ یہ سمجھ جاتا ہے ہر اچھے اور برے کو۔ پہچان لیتا ہے ہر اچھے چہرے کے پیچھے چھپے برے چہرےکو اور برے چہرے کے پیچھے چھپے اچھے چہرے کو۔ مگر ہماری انا۔۔ ہماری نگیٹو سوچ ہمیں ورغلا دیتی ہے۔ ہم کوئی پوزیٹو پوائنٹ نکال کر اگر کسی شخص کو معاف کرنا چاہئے بھی نہ تو نہیں کرپاتے کیونکہ ہماری نگیٹو سوچ ہاوی ہوجاتی ہےہم پر۔ بلکہ سوچ ہاوی نہیں ہوتی۔ ہم اس کو خود پر ہاوی کر لیتے ہے۔ ہم سوچتے ہے کہ چلو کوئی بات نہیں اس نے ایسا کر دیا غلطی ہوگئی نیت صاف تھی یہ وہ۔۔ اور پھر ایک لمحے میں نگیٹو وائب آتی کے کہ نیت جو بھی ہو اس نے ایسا کیا تو ہے نہ۔ وہ یہ کام ایسے بھی تو کر سکتا تھا۔۔۔ اور بس پھر ہم خود کو تسلیاں دیتے ہیں بہلاتے ہے کہ ہم ہی ٹھیک ہے وہ غلط ہے۔۔!! لیکن یاد رکھنا تسلی اسی وقت دی جاتی ہے جب ہمیں کسی بات میں شک ہو۔۔۔ جس میں پوزیٹو پوائنٹ تو ہو لیکن نیگیٹو پوائنٹ بھی پوزیٹو کے برابر ہو۔۔ جہاں ہم اپنے فیصلے پر مطمئن نہ ہو۔ ایسے ہی تمھیں فہیم بھائی کا پتہ تھا۔ آنہوں نے غلطی۔ لیکن انہوں نے معافی نہیں مانگی۔ ٹھیک ہے غلطی کی انہوں نگ لیکن تمھیں اپنے بھائی پر اعتبار تھا۔ کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں یعنی سوجھ سمجھ پوری طرح سے کبھی بھی یہ فیصلہ نہ کرتے۔ تب یہ فیصلہ کرتے بھی ان کے دماغ میں بس ندا اور بدلے کا چل رہا ہوگا۔ تبھی وہ سب مانتے چلے گئے۔ یہ بات تمھارے دل نے اس عرصے میں لاکھوں بار کی ہوگی مگر تم۔نے اس کی آواز کو نظرانداز کردیا ہوگا۔ لیکن اب تم سے انہیں تکلیف میں دیکھا نہ گیا اور تم۔نے ان کے لئے دعا کرتے انہیں معاف کردیا۔ سمجھی۔۔!!.. یہ بات تمھیں خود سمجھنی چاہیے تھی۔ عنایہ۔۔!! میری ایک بات آج سن لو۔۔ کبھی بھی۔۔۔ کبھی بھی دماغ کو دل پر ہاوی مت ہونے دینا۔ جب کوئی فیصلہ کرنا ہو نہ فو ہر پہلو پر سوچنا۔ اور پھر وہ فیصلہ کرنا جس پر تم ہر طرح سے مطمئن ہو اور جو فیصلہ کرنے کے بعد تمھیں خود کو صفئیاں، دلیلیں یا تسلیاں نہ دینا پڑے۔۔!! سمجھ گئی؟؟” مایا نے ٹھہر ٹھہر کر اسگ سمجھاتے ہوئے کہا۔ دوسری طرف وہ کافی دیر خاموش رہی تھی۔
” میں اللّٰہ کا جتنا شکر کرو وہ کم ہے۔۔۔ جس نے مجھے اپنی نعمتوں میں سے سب سگ قیمتی نعمت دوست سے نوازا ہے۔۔ ہمیشہ میرے ساتھ رہنا یار تم۔۔۔ کبھی مت چھورنا۔۔ میں جو سننا چاہ رہی تھی۔۔۔ وہ تم نے سنا دیا۔ میں جو تسلی چاہ رہی تھی وہ تم نے دے دی۔۔ اور جو الجھن میں سلجھا نہیں پا رہی تھی وہ سلجھا دیا تم نے۔۔!! بہت شکریہ۔۔۔ مجھے ہمیشہ ایسے سپورٹ کرنے کے لئے۔ ” دوسری طرف کافی دیر خاموش رہنے کے بعد عنایہ نے جزباتی لہجےمیں کہا۔ مایا مسکرائی۔
” چلو۔۔۔ تمھادے منہ سے نکلی یہ باتیں مجھے ہضم نہیں ہوتی۔۔۔ مجھے بتاؤ کوا کیا ہے۔ کجا ہوا ہے فہیم بھائی کو جو تم اس طرح کی باتیں کررہی تھی۔” مایا نے پوچھا تو عنایہ دوسری طرف سےسب بتاتی گئی۔ جسے سن مر وہ پریشان ہوگئی تھی۔ پریشان تو کوئی اور بھی ہوا تھا۔۔
موئذ نے مایا کے جانے کے بعد ٹی وہ بند کر کے سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا۔ اس کی سوچیں اس وقت موبائل پر بلنک ہونے والے نام کی طرف تھی۔
” کیسے بتاؤ گا میں اسے۔ کیا مجھے اس سے بات کرنی بھی چاہیے کہ نہیں۔ مایا سے بات کرو کیا۔ لیکن اسے تو پہلے سے پتہ ہے۔۔۔ ہمم۔۔۔ ماہی کو پتہ ہے تو یقیناً عنایہ کو بھی پتہ ہوگا نہ۔۔۔ کیونکہ دوستو میں کب کوئی بات چھپی رہتی ہے۔۔۔ خاص کر لڑکیوں کے درمیان تو بلکل بھی نہیں۔ ہمم۔۔۔ مایا سے مشورہ کرتا ہوں” وہ اپنی ہی سوچوں میں گم بےاختیار ہی اٹھ کر مایا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اس لئے وہ اندر ہی آگیا۔ مایا کو دیکھکر اسے یاد آیا کہ وہ تو کال پر بزی تھی۔ کیونکہ ماہی اسے جو سمجھا رہی تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ کیا بات ہو رہی ہے۔ وہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سننے لگا۔ اور اس کی آخری بار سن کر وہ حقیقتاً پریشان ہو کر سیدھا ہوا۔ اسی وقت مایا بھی کال بند کر کے کرسی سے اٹھی اور جب مڑی تو اسے ویاں دیکھ کر حیران ہوگئی۔ کیونکہ آج سے پہلے اس نے اس طرح یوں کمرے میں آکر باتیں نہیں سنی تھی۔
” ماہی۔۔ سوری میں تمھیں بلانے آیا تھا۔۔ بھول ہی گیا تھا کہ تم کال پر ہو۔۔ اینیویز۔۔۔ تم کیوں اتنی پریشان ہو کیا ہوا ہے؟؟” موئذ نے سنبھل کر صوفےپر بیٹھتے ہوئے کہا۔ اس کا انداذ سراری سا تھا۔
” بھائی۔۔ وہ۔۔ عنایہ تھی۔۔۔ کافی اپسیٹ تھی ۔۔ فہیم بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ اور اس ایکسیڈنٹ کے ٹریٹمنٹ کے دوران پتہ چلا ہے کہ انہیں برین ہیمبرج ہے کافی عرصے سے” مایا نے ڈرتے ڈرتے احتیاط سے بتایا مبادا وہ غصہ ہی نہ ہوجائے۔
” ہمم۔۔۔ تو تم۔نے جانا ہے کیا عنایہ کے پاس” موئذ نے اپنے دل کی آواز دبا کر سنگدلی کا مظاہرہ کرتے پوچھا تو مایا چلتی ہوئی اس کے پاس صوفے پر آکر بیٹھ گئی اور اسکا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔
” وہ بھی لی جاؤ گی۔ لیکن اس سے پہلے میں بس آپ سے ایک بات کہوں گی۔ اس کے بات ڈیسائڈ کریں گے کہ کس کو کہا جانا ہے۔ بات یہ ہے کہ۔۔ معاف کرنے والے لوگ اللّٰہ کے سب سے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہوتے ہیں۔ آگے آپ کا فیصلہ۔ میں کچن میں زرا چائے بنا کر آتی ہوں۔” یہ کہہ کر مایا رکے بنا کچن کی طرف بڑھ گئی تھی تاکہ وہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیں۔
مایا کے جانے کے بعد موئذ نے گہری سانس لے کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اور اپنے دل کی آوازوں کو فائنلی اہمیت دیتے ہوئے اس کی سننے لگا۔ فیصلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس نے ہمیشہ اللّٰہ کے فرمان کے مطابق ہر فیصلہ کیا تھا۔ مگر اسے معاف نہ کرنے کا وقتی فیصلہ دماغ کی مانتے ہوئے کیا تھا۔ مگر آج ۔۔۔ فائنلی اسے یہ فیصلہ کی اللّٰہ کے فرمان کے مطابق کرنا تھا۔
آج اس نے فہیم کو معاف کرنا تھا۔
آج اس نے فہیم کو معاف کردیا تھا۔ !!
چند لمحے ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ پرسکون سانس لیتا اٹھ کھڑا ہوا اور ایک نظر اپنے حلیے پر ڈالی۔ ڈارک بلیو جینز کے ساتھ گرین ٹی شرٹ پہنے تیار ہی تھا۔ باہر اس وقت زیادہ ٹھنڈ نہیں تھی اس لئے اس نے اپنے کمرے میں جا کر جینز کا ڈارک بلیو کوٹ پہن لیا تھا۔ بازو کونی سے ٹھورا نیچے تک فولد کرتا وہ کچن تک آیا۔ وہاں مایا کچن میں رکھی ٹیبل پر دو کپ رکھے بیٹھی تھی۔ وہ ایسے بیٹھی تھی جیسے اس کا ہی انتظار ہو۔ اس کے آنے پر اس کگ چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
موئذ مسکراتا ہوا دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔
” اگر میں نہ آتا تو” موئذ نے مسکرا کر پوچھا۔
” ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ میرا بھائی اللّٰہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہونے زے انکار کردیں” مایا نے مسکرا کر پریقین لہجے میں کہا تو وہ ہنس دیا۔
” بلو پھر میں ریڈی ہوں تم بھی جلدی سے تیار ہوجاؤ”. موئذ نے اپنا کپ اٹھاتے کوئے کہا تو مایا نے بھی جلدی سے اپنا کپ اٹھایا اور چائے ختم کرنے لگی۔
سعد آفس سے نکلنے کے بعد وہ ریسٹورنٹ سے اپنے لئے کھانا پیک کروا کر گھر آیا تھا۔ آج اس کا کچھ بھی بنانے کا دل نہیں کررہا تھا۔ گھر آکر کھانا کھایا وہ بھی آدھا بچا دیا۔ پھر دھیان بٹانے کے لئے آفس کا کام لے کر ںیٹھ گیا۔ مگر لاکھ کوششوں کے بعد بھی وہ اپنا دھیان نہ لگا پایا۔ عجیب بےچینی سی تھی۔ وہ کچھ سوچتا کام سمیٹتا اٹھ گیا اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ باہر آیا تو اس نے ٹراؤزر اور شرٹ کی جگہ بلیک جینز پر براؤن سویٹر پہنا ہوا تھا جس میں سے وائٹ کالر باہر نکل رہے تھے۔ اس کے اوپر اس نے گھٹنوں سے اوپر تک آتا بلیک لیڈر کا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ صرف گھر کی چابی اٹھا کر وہاں سے نکل آیا۔ اور پیدل ہی سڑک پر چلنے لگا۔ باہر سڑک پر چلتی گاڑیوں اور سائیڈ پر بنی بلند عمارتوں کو دیکھتا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ سوچوں کے ایک جہاں میں گھرا وہ کافی آگے نکل آیا تھا۔ یہ ایریاء کافی سنسان سا تھا۔ بیچ میں سڑک تھی۔ رائٹ سائٹ پر جنگلا سا بنا تھا اور باقی دونوں طرف ہی گھاس اور درخت تھے۔ وہاں تھوڑا آگے ایک ہی سٹریٹ لائٹ چل رہی تھی اور اس کے عین نیچھے ایک بینچ پڑا تھا۔ باقی اس کے اردگرد تھوڑی روشنی تھی اس کے علاوہ وہاں اندھیرا ہی تھا۔وہ چلتا ہوا جا کر بینچ پر بیٹھا اور بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر تھوڑی خیر بیٹھا رہا اور پھر فون یوز کرنے کی غرض سے اس نے موبائل نکالنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا مگر وہاں موبائل نہ ملا۔وہ کھڑا ہو کر جیبیں دیکھنے لگا۔
” اوووو یاررررررر میں ۔موبائل تو گھر پر ہی رکھ آیا۔ اب اگر کسی نے فون کیا ہو تو یقیناً پریشان ہوگا۔ وہ یہ سوچتا دوبادہ بینچ پر بیٹھ گیا۔ اور اپنی آنکھیں مسلنے لگا۔ دو منٹ بعد وہ اٹھا۔ مگر اسے اپنے اوپر سایا سا محسوس ہوا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ مڑتا ایک بھاری سا ہاتھ اس کے سر پر پڑا۔ وہ اس حملے کے لئے بلکل بھی تیار نہیں تھا۔ وہ دو تین قدم اگے جا کر سنبھلا مگر پوری پرح سبھلنے سے پہلے ہی ایک لات اس کے پیٹ پر پڑی۔ جس سے وہ گر گیا۔ پھر اس کے کھڑے ہونے سے پہلے ہی اس کی کمر پر پیچھے سے جوتے سے حملہ کیا گیا۔ وہ ایک دو نہیں پورے 9 اکیس بائیس سال کے لڑکوں کا گروپ تھا جو اس کے گرد اکٹھا ہو چکا تھا۔
سعد ایسی سیچویشن سے پہلی بار گزر رہا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
” لڑکے۔۔۔ جو بھی تمھارے پاس ہے سب نکال دو ورنہ تمھیں چھوڑیں گے نہیں ہم” ایک لڑکے نے اسے مخاطب کرکے انگریزی میں کہا۔
” میرے پاس کچھ نہیں ہے” سعد نے اٹک اٹک کر بمشکل کہا۔
” جونی، چیک ہم” اسی لڑکے نے دوسرے لڑکے سے کہا تو اس لڑکے نے ندھال ہوئے سعد کے کوٹ کا کالر پکڑ کر بے دردی سے اپنی طرف کھینچا جس سے اس کے گھٹنے پر اچھی خاصی رگڑ لگ گئی تھی۔ وہ ہاتھ مار مار کر اسے چیک کررہا تھا۔ مگر گھر کی چابیوں کے سوا اس میں سے کچھ نہ نکلا۔
” کس چیز کی چابیاں ہے یہ ہاں۔ بتاؤ” جونی نامی لڑکے نے اس کا کالر پکڑ کر جھٹکا دیا۔
” گھ۔۔گھررر۔۔ کیی چابیاں ہے یہ”
” گھر کہاں ہے؟؟”
” تمھارے اس گھٹیا ملک میں” سعد نے کہا۔ وہ اب تھوڑا سنبھل چکا تھا۔
” بکواس کرتا ہے۔۔ ماروں اس idiot کو…. دیکھ کیاا رہے ہو” وہ انگریزی میں ہی چلایا تھا۔ چابی اس نے دور پھینک دی تھی۔ اب وہ سب مل کر اسے مار رہے تھے۔ جب وہ بلکل بری طرح سے ندھال ہو گیا تب وہ سب اسے تھوکر مارتے وہاں سے چلے گئے۔
ان کے چلے جانے کے کافی دیر بعد وہ کھانستا ہوا بمشکل لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوا۔ وہ بمشکل اٹھ کر جہاں چابی پھینکی گئی تھی وہاں تک رینگتے ہوئے پہنچا۔ بہت مشکل سے کافی دیر بعد چابی مل جانے پر اس نے شکر ادا کیا۔
پھر ہمت کرکے اٹھتے ہوئے وہ۔آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔ گاری بھی نہ لایا تھا وہ۔ اب اسے اس تکلیف کے ساتھ اتنا دور چل۔کر جانا تھا۔ کیونکہ یہاں انسانیت اور ہمدردی کی ڈیفینیشن کوئی نہیں جانتا تھا۔
یہ بے حسوں کا ملک تھا۔۔
وہ سب فہیم کے اردگرد گھیرا بنا کر کھڑے تھے۔ چار دن بعد وہ مکمل طور پر ہوش میں آیا تھا۔
آپریشن والے دن حسین صاحب نے دو تین لوگوں سے معلومات لے کر انہوں نے دبئی کے جانے مانے ایک ڈاکٹر سے بات کی تھی۔ انہیں ساری سیچیوشن بتائی تھی۔ تعلقات کے استعمال سے انہوں ان سے یہاں آکر فہیم کے علاج کرنے کی ریکیوسٹ کی تھی جو انہوں نے قبول کی تھی۔
اس وقت دبئی سے ریفرینس اور تعلقات کی بنا پر ڈاکٹرکو وقتی علاج کے لئے بلا لیا تھا کیونکہ 10 گھنٹوں کے اندر یہاں پہنچ کر علاج شروع کرنے کے لئے اس سے بیسٹ آپشن انہیں اور کوئی سمجھ نہیں آئی تھی۔
اب اس ڈاکٹر کے کامیاب آپریشن کے بعد بھی وہ ICU میں ہی رکھا گیا تھا اور فلحال کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
اب چار دن بعد اسے روم میں شفٹ کیا گیا تھا۔
فہیم تکیے سے ٹیک لگا لر بیٹھا ہوا تھا۔ چہرے پر چھوٹی چھوٹی مگر کافی چوٹوں کے نشان تھے۔ سر پر پٹی بندھی تھی۔ ایک ہاتھ میں فریکچر ہوا تھا۔ دوسرے پر کانچ کا برا تکڑا لگا تھا جو اس کی کلائی کاٹ گیا تھا مگر بروقت علاج کی وجہ سے وہ بچ گیا تھا۔
فہیم کے ایک طرف شگفتہ بیگم بیٹھی تھی۔
” آپ سب پلیز مجھے معاف کردیں۔ پلیز۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی۔ میں جانتا ہوں۔ میں اپنی انا کو اونچا رکھے اپنے ضمیر کو نظرانداز کررہا تھا۔ ضمیر مجھے ہر پل ملامت کرتا تھا مگر میں انا کو سنتا۔ اس کی نظر سے دیکھتا ہمیشہ ندا کو برا کہتا آیا۔ ضمیر کے ملامت کا بدلہ میں ندا سے لیتا آیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ ندا کی وجہ سے نہیں دو لڑکیوں کی زندگی تباہ کرنے کے لئے ناراض تھے۔ شعیب جیسےانسان کی مدد کرنے پر ناراض تھے۔ مگر میں جان کر بںی انجان بنتا گیا۔ اس دن۔۔ ایکسیڈنٹ سے پہلے میں پارک گیا تھا۔ اور وہاں اپنی دل کی ہر بات سنی۔ اپنی غلطی کو پہچانا۔ میں نے واقعی جذبات میں آکر ایک انتہائی نیچ فیصلہ کرلیا تھا۔ انتقام اور ندا کے علاوہ اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ بس جو دماغ میں آتا گیا وہ میں کرتا گیا۔ یہاں تک۔کے کہ میں نے دو لڑکیاں اغوا کروانے تک میں ہامی بھرلی۔ اور قسمت دیکھے۔ اللّٰہ نے اسی وقت مجھے میرا مکافات عمل دکھا دیا۔ایک بہن کو اغوا کرنے نکلا تھا وہ میری ہی نکل آئی۔ میری عقل پر اس وقت پردہ پڑھ گیا تھا۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ پلیز۔۔ آپ سب مجھے معاف کردیں۔ میں مزید گناہ کا بوجھ اٹھا کر اب نہیں چل سکوں گا۔ میں معافی مانگے بنا مرنا نہیں چاہتا۔ اس دن بھی مجھے لگا تھا جیسے اب معافی نہ مانگی تو شاید کبھی نہ مانگ سکوں۔ میں ڈر گیا تھا۔ اللّٰہ سے۔۔ اس کے عذاب سے۔ اس وقت بھی میرے سر پر معافی کی دھن سوار تھی۔ شاید اللّٰہ نے مجھے سزا دی ہے۔ ان سب گناہوں کی جو میں نے کئے۔ میں نے دو گناہ گار لوگوں کا ساتھ دے کر گناہ کیا۔ اللّٰہ مجھے معاف کریں۔ مجھے سیدھے رستے پر چلتے رہنے کی توفیق عطا کریں” فہیم سر جھکائے آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔ اور سب نے اسے بولنے بھی دیا تاکہ کوئی بوجھ باقی نہ رہے۔
حسین صاحب اور سونیا بیگم پہلے حیران ہوتے رہے مگر پھر بعد میں کسی سےپوچھ لیں گے کا سوچ کر اسےسنتے رہے۔
” بھائی۔ اللّٰہ تعالیٰ ہماری طرح کم ظرف نہیں پے جو آپ کی ایک جذباتی سی غلطیکی سزا دیں۔ اور وہ بھی اس صورت جب آپ اپنے گناہ قبول کر چکے ہو اور معافی کی نیت سےنکلے ہو۔ بلکہ آپ یوں سمجھ لیں کہ آپ کو بیمار اللّٰہ نے آپ کو خود سے قریب کرنے کے لئے کیا ہے۔ تکلیف میں ایک گناہ گار مسلمان بھی آخر میں اللّٰہ کے پاس ہی جاتا ہے۔ آپ تو پھر کم از کم اب گناہوں کا بوجھ لئے تو نہیں پھر رہے۔ اس لئے یہ سوچ نکال دیں آپ اپنے ذہن سے” عنایہ نے آگے بڑھ کر دوسری طرف بیٹھتے ہوئے کہا تو فہیم نے مسکرا کر اس کے گرد کانچ والا ہاتھ اس کے گرد بازو لپیٹ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ سب انہیں دیکھ کر مسکرا دیے۔
” فہیم بیٹا۔ یہ جان لو کہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ غلط بات غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ غلطی کر کے اس غلطی کو نہ سدھارنا ہوتی ہے۔ آپ کی انا اور عزت اس وقت ہی ختم ہوجاتی ہے جب آپ غلطی کرتے ہو اس وقت نہیں کہ جب آپ معافی مانگتے ہو۔ اس وقت تو آپ کی عزت بڑھتی ہے۔ اس لئے آیندہ کے لئے سب بچوں سن لو۔ غلطی ہو جائے اگر تو اسے چھپانے یا غلطی نہ سمجھنے سے بہتر ہے کہ آپ معافی مانگ لیں اور معاملہ وہی ختم کریں۔ سمجھ گئے۔ ” حسن صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا تو تینوں بچوں نے ایک ساتھ “سمجھ گئے” کہا تو سب ہنس دئے۔
موئذ کے گھر صبح سے افراتفری مچی تھی۔
صبح ہی وقار صاحب نے اپنے آج ان کے ہاں آنے کی اطلاع دی تھی اور اشاروں میں اپنے آنے کا مقصد بھی بتا چکے تھے۔ آج چونکہ چھٹی تھی تو وہ گھر پر ہی موجود تھا۔ آنا تو انہوں نے رات کو تھا مگر اس نے صبح سے ہی تیاریاں شروع کردی تھی۔ وہ کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں رہنے دینا چاہتا تھا۔ مایا سے بھی وہ صیححسے بات نہیں کرسکا تھا۔ اس دن فہیم کو دیکھنے گیا تھا تو وہ بے ہوش تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ آیا تھا۔ سب دوستوں سے بھی بات ہوگئی تھی اس کی۔ اس نے فلحال سب کو ہی جانے سے منع کیا تھا اور مایا کے ذریعے اگلے دن عنایہ کو یہ کہلوادیا تھا کہ کوئی بھی ابھی اسے کچھ نہ کہے۔
اس لئے وہ آج فون آنے کے بعد تفصیل سے بات کرنے کی بجائے سیدھی بات پوچھنے گیا تھا۔ اور اس کا جواب ہاں میں ہی آیا تھا۔
اس کے بعد سے وہ دونوں مسلسل کام میں مصروف تھے۔ ان کے گھر ملازموں کی فوج نہیں تھی۔ بس ایک گارڈ تھا اور اس کی بیوی جو صبح سے رات تک یہں ہوتے تھے۔ آج پہلے گارڈ سمیت سب نے گھر کی سیٹنگ چینج کی اور اس کے بعد موئذ، مایا اور آیا جان( موئذ اور مایا انہیں آیا جان کہہ کر پکارتے تھے) مل کر شیشلک ود ویجیٹیبل رائس اور مائیکرونی جبکہ میٹھے میں ڈبل روٹی کی کھیر اور شاہی ٹکریا بنارہے تھے۔
موئذ جو کوکنگ تو نہیں آتی تھی مگر وہ کبھی کبھی مایا کا ہاتھ بٹانے کے لئے کٹنگ وغیرہ کردیا کرتا تھا کیونکہ کوکنگ مایا خود کرتی تھی۔۔ باقی گھر کا کام آیا جان کرتی تھی۔ اب بھی وہ بیچارہ ہر چیز کی کٹنگ کررہا تھا وہ دونوں صرف بنا رہی تھی۔ اس بات پر وہ دونوں موئذ کو مزید تنگ کرنے کے لئے وقفے وقفے سے اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے جس پر وہ زچ ہو کر انہیں گھوری سے نوازتا تو وہ اور ہنستی۔ اس طرح سارے کام نپٹاتے انہیں شام کے 5 بج گئے۔
موئذ فریش ہو کر باہر نکلا تو اس نے گرےکلر کی ڈریس پینٹ کے ساتھ لائٹ پرپل ڈریس شرٹ پہنی ہوئی تھی جس میں وہ کافی اچھا لگ رہا تھا۔
دوسری طرف مایا بیڈ پر کپڑے پھیلا کر صوفے پر منہ بنا کر بیٹھی کپڑوں کو گھور رہی تھی۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا پہنے۔ حالانکہ یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ کوئی اس کا رشتہ لے کر ارہا ہو یا سعد کے گھر والے پہلی بار آرہے ہو وہ تو آتے جاتے رہتے تھے۔۔ مگر پھر بھی مایا کنفیزد سی بیٹھی تھی۔ کافی عجیب پتہ نہیں کیا لگ رہا تھا اسے۔
چند لمحوں بعد دروازہ نوک کرکے موئذ اندر آیا۔
” ارے تم تیار نہیں ہوئی ابھی تک۔ منہ کیوں بنا کر بیٹھی ہو۔ تم خوش تو ہو نہ” وہ اسے ایسے ہی بیٹھے دیکھ کر کچھ اوت ہی مطلب نکالتا پریشانی سے بولتا اس کے پاس آکر بیٹھا۔
” ارے نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ بس مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کیا پہنو۔ کیا کروں” مایا نے لاڈ سے اس کے ساتھ لگتے ہوئے بچوں کی طرح کہا تھا۔
“میری گڑیا جو بھی پہنے گی اس پر اچھا لگے گا” موئذ نے اس کی ناک دبا کر کہا۔
” وہ تو مجھے پتہ ہے۔ میں ہوں ہی پیاری” مایا نے فخریا انداز میں کہا تو موئذ نے ہنستے ہوئے اس کے گال کھینچے اور اٹھ کر کپڑوں کی طرف بڑھ گیا۔ اور کپڑوں کو دیکھ کر پر سوچ انداز میں کھڑا ہو گیا۔ مایا اسے دیکھ کر ہنسی۔
” ہمم۔۔ چلو۔۔ ہو بھی گیا ڈیسائیڈ۔ تم آج یہ والا ڈریس پہنو گی”
موئذ نے بیڈ پر سے خوبصورت ڈارک بلیو لمبا کافتان اور وائٹ ٹراؤزر اٹھا کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ مایا مسکرا کر اس کی طرف برھی۔
” زبردست۔ آپ پہلے آجاتے۔ میں تیار بھی ہو چکی ہوتی اب تک۔” مایا نے منہ بنا کر کہا۔
” تم آجاتی مجھ سے پوچھنے” موئذ نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔
” مجھے خیال ہی نہیں آیا” مایا نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔
” افسوس تم مجھے بھول گئی چڑیل” موئذ نے افسوس کرتے ہوئے اس کی طرف جھکتے ہوئے کہا تو مایا نے خود کو چڑیل کہے جانے پر اس کو مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا مگر اس کے مارنے سے پہلے ہی موئذ وہاں سے بھاگ گیا۔ مایا پیچھے گھور کر رہ گئی۔
” جلدی کرو سعدیہ۔ دیر ہورہی ہے ہمیں” وقار صاحب نے کوئی تیسری بار انہیں آواز دی تھی۔ اور ان کا جواب تیسری بار بھی وہی آیا تھا۔
” بس ہوگیا آرہی ہوں”
وقار صاحب براؤن کلر کے شلوار قمیض ہر اوپر بلیک کوٹ پہنا ہوا تھا۔ اسی وقت سعدیہ بیگم باہر آئی تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ وہ اوو وائٹ کلر کی شلوار کے ساتھ اوو وائٹ پرنٹڈ قمیض پہنے، سر پر نفاست سے کیا گیا دوپٹہ اوڑھے، ہلکے میک اپ اور بلیک ہیل کے ساتھ تیار کھڑی تھی۔
وقار صاحب انہیں باہر آنے کا اشارہ کرتے خود بھی باہر کی طرف بڑھ گئے۔ یہاں سے ان کے گھر کا فاصلہ کم ہی تھا اس لئے وہ جلد ہی گھر پہنچ گئے تھے۔
وقار صاحب نے ہارن دیا تو جلد ہی دروازہ کھول دیا گیا۔ وہ گاڑی اندر لے گئے اور گاڑی روک کر نیچے اترے تو موئذ باہر ہی کھڑا تھا۔ وقار صاحب آگے بڑھ کر اس کر گلے لگے۔ اس کے بعد موئذ نے سعدیہ بیگم کے سامنے اپنا سر جھکایا تو انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر پیار کیا۔
” موئذ بیٹا گاڑی میں سامان رکھا ہے وہ سلیم سے کہہ کر نکلوالو۔” وقار صاحب نے کہا تو موئذ نگ سلیم سے کہہ دیا اور انہیں لئے اندر کی طرف بڑھ گیا۔
اندر مایا بلیو قافتان کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنے اور چہرے کے گرد اوو وائٹ سکارف لپیٹے کھڑی تھی سعدیہ بیگم کو دیکھ کر مسکرائی اور آگے بڑھ کر ان کے گلے لگی۔ جبکہ وقار صاحب نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ وہ سب درائینگ روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔
کافی دیر باتیں کرنے کے بعد موئذ کے کہنے پر مایا نے ٹیںل پر کھانا لگا دیا۔ سب نے مل کر خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔
” کھانا تو آج کچھ زیادہ پی مزے کا بنا تھا۔ کیا بات ہے ماہی” سعدیہ بیگم نے اسے چھیرتے ہوئے کہا تو مایا سمجھ کر سر جھکا گئی۔ اسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے۔ مگر پھر چائے کا کہہ کر وہاں سے اٹھ کر کچن میں آگئی۔ کچن میں آکر کرسی پر بیٹھ کر اس نے گہری سانس لی۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے چہرے پر نموداد ہوئی۔
” تو ہاں بھئی موئذ۔ تم میرے آنے کا مقصد تو جانتے ہو۔ تو بتاؤ کیا فیصلہ کیا تم نے اور ماہی نے” وقار صاحب نے بے تکلفانہ انداز میں پوچھا۔
” آپ ہمارے بڑے ہیں۔ بچپن سے ہم آپ کو سعد کو جانتے ہیں۔ ہم آپ کو اپنے ماں باپ کی جگہ سمجھتے ہے۔ سعد اور میری اب تک کی زندگی ایک ساتھ ایک اچھے رشتے میں گزری ہے۔ وہ دوست ہے میرا اور میرا نہیں خیال کہ دوست سے بڑھ کسی کو کوئی نہیں جان سکتا۔ سعد سے بہتر شخص اپنی بہن کے لئے میرا نہیں خیال کہ مجھے کوئی ملے گا۔ اور سب سے بڑھ کر وہ میری بہن کی سچائی کو امین ہے۔ اس لئے۔ اب مایا آپ کی امانت ہے۔ آپ جب چاہیے اسے رخصت کروا کر لے جائے۔” موئذ نے سمجھداری سے اپنی رائے سے آگاہ کیا۔
” بہت خوب صاحبزادے۔ کیا خیال ہے پھر سعدیہ بیگم۔ انگوٹی پہنا دی جائے” وقار صاحب نے پہلے موئذ اور پھر سعدیہ بیگم کو مخاطب کر کے کہا۔ اسی وقت مایا بھی چائے لے مر اندر داخل ہوئی تھی۔ ان کی بات سن کر مایا کا دل زور سے ڈھرکا تھا۔
” جی بلکل۔ کیوں موئذ تمھیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے بیٹا” سعدیہ بیگم نے حءران ہوئے موئذ کو دیکھ کر پوچھا تو وہ سنبھلا کیونکہ اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔
” جی جی آنٹی ضرور” موئذ نے کہا تو سعدیہ بیگم نے مسکرا کر مایا کو دیکھا۔
” آؤ ماہی بیٹا۔ بیٹھو یہاں میرے پاس” سعدیہ بیگم نے پیار بھرے لہجے میں کہا اور بیگ میں سے ایک خوبصورت بلیو کلر کا ویلوٹ رنگ کیس نکالا۔ اتنا مایا بھی نروس سی ہوتی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ موئذ نے کیمرہ آن کرلیا تھا۔ سعدیہ بیگم نے رنگ کیس کھول کر اس میں سے خوبصورت اور نازک رنگ نکالی۔ رنگ کےاوپر ریڈ ڈائمنڈ ہارٹ بنا تھا۔ اس ہارٹ کے گرد وائٹ نگوں سے بارڈر بنایا گیا تھا۔ باقی رنگ پر بھی وائٹ نگ لگے ہوئے تھے۔
سعدیہ بیگم نے وہ رنگ مایا کی انگلی پر سجائی تو اس کے ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ ڈور گئی جس کو موئذ نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔۔۔