وہ پورا دن روتی رہی کھانا آیا تو اس نے وہ بھی نہیں کھایا باقی سب لڑکیاں کھانا کھارہی تھیں مگر اسکا دل چاہ رہا تھا کہ اس وقت اسکی ماں ہو اسکے ساتھ مگر قسمت اسکی کہ اس وقت اسکی ماں کہاں سے آتی اور اس غریب کو تو علم بھی نہیں تھا کہ اسکی ماں سب جان چکی تھی اور اس صدمہ کو برداشت نا کرپائی اور اس جہاں سے رخصت ہوگئی۔۔۔ وہ اپنے آپکو اپنے آپ میں سمیٹے ہوئے اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہوئے رورہی تھی اسکو اگلے دن سے خوف آرہا تھا اس خوف سے اس نے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔ پورا دن گزرگیا رات ہوگئی اسنے پانی کا اک گھونٹ نہیں پیا اسکو گھن آرہی تھی وہ وہاں کچھ نہیں کھانا پینا چاہتی تھی مگر ناجانے کب تک یہاں رہنا تھا اس نے مگر اس نے عہد کرلیا تھا کہ وہ خود کو اس دلدل سے نکال کر رہے گی اور کبھی دوبارہ اس غلاظت کو دیکھے بھی نہیں۔۔۔۔۔مگر شرط تھی کہ یہاں سے نکل جائے۔۔۔۔ کوئی راستہ نہیں تھا سوائے دعا کے۔۔۔۔۔ رات ہوگئی تھی تین لڑکیاں تیار ہوچکی تھیں آج رقص کی باری انکی تھی۔۔۔۔ اور ان میں سے یا تو تینوں ہی اک رات کے لیے آئے ہوئے شوقین مزاج لوگوں میں سے جو جسکو چاہتا اسکی مہمان بنتیں یا کوئی اک۔۔۔۔۔
لڑکیاں باہر جاچکی تھیں۔۔۔۔ ڈھول کی تھاپ کی آواز آرہی تھی۔۔۔۔۔ گھنگھروں کی جھنکار سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔
رومانہ نے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیا۔۔۔۔وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی مگر حقیقت تو یہی تھی۔۔۔۔ وہ بس دعائیں کرتی جارہی تھی اسکو یقین تھا کہ اسکی دعائیں جلد یا بدیر ضرور قبول ہونگی
تین میں سے اک لڑکی واپس آئی تھی رومانہ نے اس سے پوچھا۔۔۔۔” وہ۔۔۔ باقی دونوں۔۔ کہاں ہیں۔۔؟؟؟
وہ سیٹھ لوگ آتے ہیں یہاں تو بس ان میں سے جس کو بھی کوئی رقاصہ پسند آجائے تو وہ۔۔۔۔۔
بسسسسس چپ۔۔۔۔ چپ پلیز آگے کچھ مت کہنا۔۔۔۔۔ وہ لڑکی اپنی بات مکمل کررہی تھی مگر رومانہ سن نا پائی اور اک دم چلا اٹھی۔۔۔ وہ لڑکی حیرت سے اسکو دیکھنے لگی پھر مسکرا کر معنی خیز انداز میں کہا۔۔۔۔۔ بے فکر رہو شہزادی۔۔ یہاں آنے کے بعد ہرشریف زادی ایسا ہی کہتی ہے مگر چند دن کی بات ہوتی ہے بس۔۔۔۔۔
رومانہ اپنی جگہ پہ بیٹھ گئی اور کہا نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گی اپنے ساتھ۔۔۔۔ میرا اللّٰہ میرے ساتھ ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا ان شاءاللّٰہ۔۔۔۔۔
وہ لڑکی ہنسنے لگی اور کہا دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔
رومانہ کو خیال آیا اس نے نماز نہیں پڑھی وہ اس لڑکی سے پوچھنے لگی۔۔۔
باتھ روم کہاں ہے مجھے وضو کرنا ہے نماز پڑھنی ہے۔۔۔۔
وہ لڑکی حیران ہوئی اور کہا یہاں نماز کیسے پڑھ سکتی ہو تم۔۔۔؟؟؟
رومانہ نے کہا۔۔۔۔۔ وہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے بس جو پوچھا وہ بتاؤ۔۔۔۔ اس لڑکی نے اسکو باتھ روم بتادیا
رومانہ اٹھی اور باتھ روم چلی گئی اسنے خوب اچھی طرح وضو کیا اور باہر آگئی مگر اب جائےنماز کہاں ملتی یہاں؟؟؟؟ وہ نماز کیسے پڑھے۔۔۔؟؟؟ وہ چادر جو اس نے اوڑھی ہوئی تھی وہ شکر تھا کہ اسکے پاس ہی تھی اور اسکا دوپٹہ بھی فی الحال اسکے پاس ہی تھا اس نے اس لڑکی سے پوچھا کہ قبلہ کا معلوم ہے تمہیں۔۔۔؟؟؟ وہ لڑکی ہنسنے لگی اور کہاں یہاں تو برسوں سے کسی کو نہیں دیکھا نماز پڑھتے تم پہلی ہو ایسی۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔
رومانہ مایوس سی ہوگئی۔۔۔ اس نے دل میں کہا اللّٰہ مجھے معاف کردینا مگر میں ہر حال میں تجھے یاد رکھنا چاہتی ہوں بس تو میرا ساتھ دینا مجھے اس دلدل سے نکال دینا۔۔۔۔۔ اس نے اپنی چادر خود اندازے سے ہی بچھائی اور نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی اسکی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔۔۔۔۔ وہ سجدے میں گری روئے جارہی تھی۔۔۔۔۔ اسنے پوری نماز روتے روتے پڑھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے ۔۔۔۔ رو کر اسکا دل کچھ ہلکا ہوا اور دعا مانگنے سے پرسکون۔۔۔۔۔۔ پوری رات اس نے جاگ کر گزاری۔۔۔۔۔ صبح ہوگئی تو سب لڑکیوں کے لیے ناشتہ آگیا تھا اسکے لیے بھی آیا وہ اک دن سے بھوکی پیاسی تھی اس سے تو اب ہلا بھی نہیں جارہا تھا مگر وہ کچھ بھی نہیں کھارہی تھی۔۔۔۔ اک لڑکی بائی کو بلا کر لائی اسنے آکر دیکھا تو رومانہ بلکل نڈھال سی پڑی ہوئی تھی اس عورت نے کہا۔۔۔۔” اوئے روبی کیا مذاق لگا رکھا ہے ابھی استاد آنے والا ہے تو نے رقص سیکھنا ہے چل اٹھ ناشتہ کر اٹھ کے۔۔۔۔۔۔ مگر رومانہ نہیں اٹھی اس عورت نے اسکے منہ پہ پانی مارا اور اسکو اٹھا کر بٹھایا زبردستی اسکے منہ میں نوالے بناکر ڈالے اسکے منہ سے گلاس لگایا۔۔۔ رومانہ نے تھوڑا سا پانی پیا تو اسکو لگا جیسے کچھ تقویت ملی مگر جیسے ہی خیال آیا کہ وہ کہاں ہے اس نے فورا گلاس دور پھینک دیا امیراں بائی کو غصہ آگیا اسنے اک تھپڑ رومانہ کے منہ پہ لگایا اور کہا ایسا کرکے اگر تو سمجھتی ہے کہ میں تجھے واپس جانے دوں گی یا رعایت کروں گی تو یہ بھول ہے تیری۔۔۔۔۔ چل اٹھ جلدی کر۔۔۔۔ رومانہ رونے لگی اور ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو میرے ماں باپ کا خیال کرو وہ میرے انتظار میں نڈھال ہورہے ہونگے۔۔۔۔
تیری ماں کو سب معلوم ہوگیا تھا تیرے بارے میں اور وہ بےچاری اس دنیا سے چل بسی۔۔۔۔۔ امیراں نے کہا۔۔۔۔ بے حسی کی انتہا تھی۔۔۔۔
رومانہ کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔۔۔۔ اسکی ماں مرچکی۔۔۔۔۔۔۔۔
امیراں بائی نے کہا بس اب سوگ مت منانے بیٹھ جانا اگر دس منٹ میں تو نے ناشتہ نہیں کیا اور استاد کے آنے پہ نا آئی تو سوچ لینا کہ آج کی رات تجھے بنا محفل کے ہی کسی کے حوالے کردوں گی پھر وہ جیسے چاہے تیرے ساتھ سلوک کرے۔۔۔۔۔ ابھی رعایت ہے اس معاملے میں تیرے ساتھ اگر میری بات مانتی ہے تو ورنہ نا کی صورت میں وہی ہوگا جو کہامیں نے۔۔۔۔۔
رومانہ پتھرائی آنکھوں کے ساتھ اسکو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ اسکے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ اسکی بات مان لے ورنہ دوسری صورت میں۔۔۔۔ نہیں وہ یہ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کے مرنے کا سوگ بھی نہیں منا سکتی تھی کیونکہ اسکو اپنی عزت بچانی تھی۔۔۔۔ اس نے پاس رکھا ناشتہ کیا پانی پیا۔۔۔۔قضا نماز پڑھی اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔۔۔
تھوڑی دیر گزری تھی استاد آگیا تھا بائی اسکے پاس آئی تو وہ مصلی بچھائے بیٹھی تھی اور دعا مانگ رہی تھی۔۔۔ امیراں بائی کوٹھا پچھلے دس سال سے چلا رہی تھی مگر ان دس سالوں میں کوئی بھی لڑکی ایسی نہیں تھی جس کو اس نے نماز پڑھتے دیکھا ہو چاہے کتنی ہی شریف لڑکی ہو مگر ایسی رومانہ جیسی نہیں تھی وہ کچھ دیر اسکو دیکھتی رہی پھر بنا کچھ کہے چلی گئی اور اک لڑکی کے ہاتھ پیغام بھجوادیا کہ استاد آگئےہیں جلدی باہر آئے۔۔۔۔۔ رومانہ نے چادر سمیٹی اور اس لڑکی سے پیغام سنا ضبط سے آنکھیں میچ لیں کہ ابھی نماز پڑھی اور ابھی یہ سب۔۔۔۔ مگر کیا کرتی کوئی چارہ نا تھا اسکے سوا۔۔۔۔ مجبور تھی کرنا تھا یہ۔۔۔۔ اسنے دوپٹہ کھول دیا اس لڑکی نے اسکا دوپٹہ اسکی کمر کے گرد لپیٹ دیا۔۔۔۔ رومانہ نے آنکھیں پھر بند کرلیں۔۔۔۔ اس لڑکی نے اسکے پیروں میں گھنگھروں باندھ دیے اور کہا چلو باہر وہ اسکے ساتھ باہر آگئی۔۔۔۔ استاد نے اسکو دیکھا تو پاس بیٹھی بائی سے کہا واااہ کیا ہیرا پایا ہے آپ نے۔۔۔۔ امیراں بھی فخر سے مسکرادی۔۔۔۔ وہ چلتے چلتے استاد کے پاس آگئی۔۔۔۔۔
وہ لڑکی جو روبی کو لائی تھی وہ استاد کے کہنے پہ اسکے ساتھ کھڑی ہوگئی اور روبی کو بتانے لگی روبی اسکو دیکھ دیکھ کر اسکی طرح سے کرنے لگی۔۔۔۔ گھنگھروں کی جھنکار روبی کو لرزا دیتی وہ کر نہیں پارہی تھی مگر بائی کی طرف دیکھا تو اسکو اسکا کہا ہوا یاد آگیا اور وہ کرنے پہ مجبور ہوگئی۔۔۔ مگر جیسے ہی اک گھنٹہ گزرا استاد نے کل پہ ڈال دیا اور وہ وہاں سے ادھر اسی کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔ بھاگ کر باتھ روم گئی غسل کیا اور وضو کرکے نفل پڑھنے لگی پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔۔۔۔اس رات شمروز بھی آیا اور اس نے بائی سے آنکھ کے اشارے سے معنی خیز نظروں سے کہا۔۔۔۔” آج کی رات اگر روبی کو میرا مہمان بنادو تو۔۔۔۔۔۔۔ منہ مانگی قیمت دوں گا۔۔۔۔۔” بائی نے اسکی بات سن کر اسکو گھورا اور کہا۔۔۔۔” نہیں شمروز روبی کسی کی مہمان نہیں بنے گی۔۔۔۔” شمروز حیرت زدہ تھا کہ ایسا کیوں۔۔۔؟ ارے بائی منہ مانگی قیمت دوں گا جو کہو۔۔۔۔! شمروز نے دوبارہ کہا۔۔۔! مگر بائی نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور کہا۔۔۔” اک دفعہ جو کہہ دیا سو کہہ دیا آگے اک لفظ نہیں۔۔۔۔!!! شمروز کو بہت حیرت ہوئی اور غصہ بھی آیا مگر وہ خاموش ہوکر وہاں سے اٹھ گیا اور چلا گیا۔۔۔۔۔
یہ ان دس سالوں میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ یوں بائی نے کسی کو منع کیا ہو ناجانے کیا بات تھی۔۔۔۔۔ بائی کو خود بھی حیرت ہوئی تھی اپنے کہنے پہ مگر وہ جو اس نے کہا وہ بلا تامل تھا مگر اب آگے بھی ایسا ہی ہونا تھا یا نہیں امیراں نہیں جانتی تھی۔۔۔۔ اب یہ روز کا معمول تھا روز صبح رقص کی مشق ہوتی پھر وہ اسی طرح کمرے میں آکر غسل کرتی اور نفل پڑھ کے رو رو کر دعا کرتی۔۔۔۔۔ ادھر لڑکیاں اسکو دیکھ کر رہ جاتیں کچھ اسکا مذاق بھی بناتیں مگر اسکو پرواہ کس کی تھی۔۔۔ وہ بس اپنا کام کرتی۔۔۔۔۔ اک دو دفعہ بائی نے بھی اسکو ایسے دیکھا مگر کبھی روکا ٹوکا نہیں۔۔۔۔ اک مہینہ گزرگیا روبی اب کافی حد تک رقص میں مہارت حاصل کرچکی تھی۔۔۔۔۔ بائی نے اس رات اسکو محفل سجانے کو کہا تھا اس نے سر دھیرے سے ہلادیا اور اندر کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔ روز کے معمول کی طرح اسنے نفل پڑھ کے دعا کی اس وقت وہ بہت رو رہی تھی اور اسکے منہ سے یہی الفاظ نکل رہے تھے۔۔۔” میرے اللّٰہ میری عزت کی حفاظت کرنا میں اپنی عزت کسی کے بھی ہاتھوں نہیں بیچنا چاہتی مجھے بچا لینا۔۔۔۔” دعا مانگ کر اسکو سکون مل جاتا تھا۔۔۔۔ شام ہونے والی تھی اور اسکو بس اک ہی خوف تھا وہ مسلسل دعائیں کیے جارہی تھی۔۔۔۔ اور آخر وہ وقت آگیا جب محفل سجنی تھی۔۔۔۔۔ سب تیاری ہوچکی تھی وہ چوڑی دار پاجامہ اور فراک پہنے ہلکے میک اپ کے ساتھ اسٹیج پہ چڑھی تو سامنے بیٹھے لوگوں کو اسکو دیکھ کر جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔۔۔۔ وہاں کئی حسینائیں تھیں مگر روبی جیسی کوئی نہیں تھی، اس نے رقص شروع کیا۔۔۔۔ لوگوں کی دھڑکنیں تھم گئیں۔۔۔۔ کچھ لوگ جیسے ہوش میں آئے انہوں نے جھومنا شروع کردیا اور داد دینے لگے پیسے نچھاور کرنے لگے۔۔۔۔۔ اسکی باری ختم ہوئی دوسری رقاصہ آئی اسکے بعد تیسری پھر محفل ختم ہوگئی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح کئی لوگ وہاں رک گئے اور کئی نے روبی کو اک رات کا مہمان بنانے کی فرمائش کی مگر دوسری لڑکیوں کو اجازت دیتے ہوئے بائی نے کچھ نا کہا مگر جیسے ہی بات روبی کی آئی بائی نے سختی سے منع کردیا کہ کوئی بھی روبی کے حوالے سے ایسی بات نا کرے۔۔۔۔۔ سب حیران تھے کہ یہ کیا اور کیوں ہوگیا۔۔۔۔۔جنکی خواہش تھی روبی کی انہوں نے منہ مانگی قیمت دینے کا بھی کہا مگر بائی نے صاف انکار کردیا۔۔۔۔
شمروز بھی اس روز بہت منت کرنے لگا مگر بائی نے اسکی بھی نا سنی۔۔۔۔ وہ غصہ میں وہاں سے نکل آیا اسنے شراب بھی پی ہوئی تھی وہ غصہ میں گاڑی میں بیٹھا اور تیز رفتاری سے چلانے لگا نشہ میں اسکو پتہ نہیں چلا اور سامنے سے آنے والی گاڑی سے اسکی گاڑی ٹکراگئی۔۔۔۔۔ ایکسیڈینٹ بہت شدید ہوا تھا وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں میں سے کسی نے توجہ نا دی کیونکہ رات کا وقت تھا سو سب ہی جلدی میں تھے۔۔۔۔
روبی جب سے کمرے میں گئی تھی بس اسکو یہی بات ستائے جارہی تھی کہ اب اسکا بلاوا آتا ہے کہ جب آتا ہے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہاں بیٹھے لوگوں نے اسکو کس نگاہ سے دیکھا تھا مگر کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب اسکا بلاوا نہیں آیا تو وہ حیران بھی ہوئی اورشکر بھی ادا کرنے لگی۔۔۔۔۔ وہ دونوں لڑکیاں صبح فجر سے پہلے آگئیں تھیں روبی اس وقت سورہی تھی انکے باتیں کرنے سے اسکی آنکھ کھل گئی مگر اس نے آنکھیں پوری نہیں کھولیں اور وہ انکی باتیں سننے لگی اک لڑکی کہہ رہی تھی۔۔۔” رشو یہ بائی نے روبی کا کیوں منع کردیا جبکہ زیادہ تر لوگ روبی کا ہی کہہ رہے تھے مگر بائی نے تو صاف انکار ہی کردیا۔۔۔۔ ایسا آج تک تو کبھی نہیں ہوا۔۔” دوسری لڑکی بھی اسکی تائید کرنے لگی۔۔۔۔ روبی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے وہ اللّٰہ کا شکر ادا کرنے لگی۔۔۔۔ فجر کا وقت ہوگیا تھا وہ اٹھی اور وضو کرنے جانے لگی تو اک لڑکی نے کہا۔۔۔۔” یار روبی تیری قسمت ہے ویسے ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔۔۔”
روبی نے سر پہ چادر اوڑھتے ہوئے کہا مسکرا کر کہا۔۔۔” مجھے اللّٰہ پہ یقین ہے دیکھنا بہت جلد میں اس گندگی سے بھی نکل جاؤں گی۔۔۔۔” یہ کہہ کر وہ وضو کرنے چلی گئی۔۔۔۔۔
*****
شمروز وہیں گاڑی میں ہی پڑا ہوا تھا کسی نے بھی اسکو نہیں دیکھا تھا وہ بےہوش ہوگیا تھا صبح ہوچکی تھی اب وہاں ٹریفک کی تعداد بھی بڑھ گئی تھی کچھ لوگوں نے دیکھا تو اپنی گاڑی سے نکل آئے اور اسکو اسکی گاڑی سے نکال دیا پھر ایمبولینس کو کال کی اور ہسپتال پہنچادیا۔۔۔ دوسری طرف اسکی بیوی بھی پریشان ہورہی تھی وہ رات سے ہی اسکے نمبر پہ کال کررہی تھی مگر وہ بےہوش ہونے کی وجہ سے کال نہیں ریسیو کرسکا تھا اب جب دوبارہ کال آئی تو ریسیپشنسٹ نے کال ریسیو کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور ہسپتال آنے کو کہا۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اتنی دیر میں اسکا معائنہ کرچکے تھے۔۔۔ اسکا کافی خون بہہ چکا تھا اسکی بیوی جب آئی تو اسکو ریسیپشنسٹ نے ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا ڈاکٹر نے کہا کہ رپورٹ اچھی نہیں ہے انکا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور کافی دیر بےہوش رہنے اور فوری طبی امداد نا ملنے کی صورت میں معائنہ کے بعد پتہ چلا ہے کہ انکے دماغ میں بہت گہری چوٹ لگی ہے جس کی وجہ سے یہ کوما میں جاچکے ہیں۔۔۔۔ اسکی بیوی رونے لگی اور کہا شمروز منع کرتی تھی تمہیں چھوڑدو یہ سب غلط کام مگر تم نے نہیں سنا اب دیکھ لو انجام۔۔۔۔۔۔
اصغر نے اپنی بیٹی کو بہت ڈھونڈا مگر وہ کہیں نا ملی پھر اسنے پولیس میں رپورٹ درج کروادی پولیس والے کسی غریب کو کب اہمیت دیتے ہیں رپورٹ تو لکھ لی اور کہا ہم کاروائی شروع کردیں گے مل گئی تو بتادیں گے۔۔۔۔۔ اصغر بےچارہ وہاں سے اٹھ آیا اور باہر آکر اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔۔۔ وہ روز تھانے کے چکر لگاتا مگر یہی سننے کو ملتا ابھی کچھ پتہ نہیں چلا۔۔۔۔۔ اک مہینہ تک ایسا ہی چلتا رہاگر اک روز ناجانے کیسے اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔۔۔” جسنے بھی یہ کیا خدا اسکو غارت کرے میری دنیا اجاڑ کر وہ سکون میں نہیں رہے گا۔۔۔۔۔” اور اسی رات شمروز کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا اسکو اس غریب کی اہ لگ گئی تھی
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...