(Last Updated On: )
“بابا مجهے جاب کرنی ہے”
عنایہ نے دهیمے لہجے میں اسد صاحب کے پاؤں دباتے ہوۓ کہا
“ہیں؟؟ کیوں گڑیا تمہیں جاب کی کیا ضرورت ہے کس چیز کی کمی ہے”
اسد صاحب حیران تهے
“بس بابا مجهے ٹیچینگ کرنا هے میرا بی ایس سی کا رزلٹ بهی آگیا هے اور ویسے بهی میں سارا دن گهر میں بور ہوتی ہوں پلیز نا بابا”
منت بهری لہجے میں بولی
“اچها میری گڑیا کرلینا مگر کہاں کرنی هے جاب کونسے سکول میں یہ تو بتاؤ”
“وہ بابا جس میں سدرہ جاب کرتی تهی وہیں پر…. اصل میں سدرہ نے جاب چهوڑ دی هے نا تو اسی نے مجهے کہا کہ میں وہاں اپلائی کروں”
انہیں تفصیلات بتاتے ہوۓ بولی
“اچها….. چلو ٹهیک هے کرلے میری گڑیا اپنا شوق پورا”
اسد صاحب نے اسے اجازت دیتے ہوۓ کہا
“اووو….. تهینک یو سو مچ بابا”
وہ خوشی سے جهوم اٹهی
“تو پهر میں کل انٹرویو دینے جاؤں نا؟؟
“ہاں ہاں… ضرور جاؤ علم بانٹنا بہت اچهی بات ہے”
انہوں نے اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پهیرتے ہوۓ کہا
.
“ایک آپ نے اسے بہت سر چڑها رکها ہے “
فائزہ بیگم کو جب اسکے جاب کرنے کا پتہ چلا تو اسد صاحب پہ غصہ ہوئیں
“خیر ہے فائزہ. بچی ہے اسے شوق هے تو کر لینے دو پورا”
اسد صاحب بولے
“ایسے الٹے سیدهے شوق پالے ہوۓ ہیں آپکی صاحبزادی نے گهر داری کی الف بے تک نہیں آتی اور چلی ہے محترمہ استانی گیری کرنے”
“وقت کے ساتھ سب سیکھ جاۓ گی تم اسکی فکر کرنا چهوڑ دو اور گرما گرم چاۓ پلا دو ایک کپ مجهے”
“آپ نا میری بات کبهی سیریس لینا ہی مت”
غصے سے بولیں جبکہ اسد صاحب ہنس دئیے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“مے آئی کم ان سر”
عنایہ نے دروازہ ناک کرتے ہوۓ کہا
اس وقت وہ انٹرویو دینے آئی تهی
“یس کم ان پلیز”
اس نے سر اٹها کر دیکها اور وہیں فریز سا ہوکر ره گیا
“اسلام و علیکم سر”
عنایہ نے سلام کیا اور اس نے چونک کر اسے دیکها
“وعلیکم اسلام پلیز سٹ”
“تهینک یو سر. یہ میری سی وی”
فائل آگے بڑهاتے هوۓ کہا
“نائس….. سو مس عنایہ پہلے کہیں جاب کی ہے آپ نے”
فائل دیکهکر بولا
“جی نہیں”
“واٹ؟؟؟ آپ نے اس سے پہلے کہیں جاب کی ہی نہیں؟ مطلب اپکے پاس کوئی تجربہ ہی نہیں”
وہ حیران ہوتے ہوۓ بولا
“تو سر اس میں اتنا حیرانگی والی کیا بات ہے کام کرنے سے ہی تجربہ آتا هے یہ کومن سنسس کی بات ہے”
ذرا غصے سے بولی
“کول ڈاؤن مس…. آئی نو…. آپ کل سے جوائن کرسکتی ہے”
اپنی مسکراهٹ دباتا بظاهر سنجیدہ لہجے میں بولا “رئیلی…. تهینک یو سر”
خوشی سے بولی اور باهر کی جانب چل دی
جبکہ
سکندر حیران سا تها وہ لڑکی جس نے پچهلے کچھ دنوں سے اسکی نیندیں حرام کی هوئیں تهیں آج خود چل کر اسکے پاس آئی تهی
قسمت کے اس حسین ملن پر وہ بہت خوش تها نا چاہتے هوۓ بهی وہ اسکے بارے میں سوچے گیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
میر سکندر علی شہر کے مشہور بزنس مین میر حیدر علی کا اکلوتا بیٹا تها آکسفوڈ یورنیورسٹی سے تعلم یافتہ.
اپنے باپ کے بزنس کو سنبهالنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک پرائیوئٹ سکول بہت خوش اسلوبی سے چلا رہا تها جو کہ اسکی ماں کا خواب تها صائمہ بیگم خود بهی کبهی کبهار سکول کا چکر لگا لیتی تهیں جبکہ اس کام میں اسکا باپ بهی اسکے ساتھ تها
“هاں تو برخواردار…. کیسا چل رہا ہے تمهارا سکول..”
ایک شام دونوں باپ بیٹا فرصت سے لان میں بیٹهے تهے تب حیدر علی نے پوچها
“بہت اچها جا رها هے پاپا”
چاۓ پیتے هوۓ بولا
“گڈ….. کل تمهیں اسد اینڈ کمپنی کی فائل دی تهی تم نے دیکهه لی تهی”
“جی پاپا میں نے چیک کر لی تهی مجهے لگتا هے کہ همیں انکے ساتهه ڈیل کر لینی چاهیے”
راۓ دیتے هوۓ بولا
“هاں مجهے بهی یہی لگتا هے.. تو کل پهر آ جانا میٹنگ رکھ لیتے هیں صبح” “نہیں پاپا کل صبح تو نہیں کیونکہ کل سکول میں سٹاف میٹنگ هے آپ ایسا کریں کہ…. لنچ کے بعد کی ٹائمنگ دیکھ لیں”
“اوکے…. پهر تین بجے ٹهیک رهے گا “
“پرفیکٹ.”
سکندر بولا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
خوش قسمتی سے عنایہ کو سٹاف اچها مل گیا سب بہت اچهے تهے پہلے هی دن وہ سب سے گهل مل گئی
“هیلو….. کیسے هو سب کے سب”
رفعت نے سٹاف روم میں داخل هوتے هوۓ کہا سٹاف روم میں اس وقت صرف فرح اور عنایہ هی تهیں
“هم تو سب ٹهیک هیں تم سناؤ کیسی رهی شادی”
فرح نے کہا جبکہ عنایہ نے سر اٹها کر ایک نظر اسے دیکها
“بہت اچهی بہت انجواۓ کیا”
رفعت بولی
“واؤ… نیو فیس”
عنایہ کی طرف مڑتے ہوۓ بولی
“ہاۓ… میں عنایہ.. دو دن پہلے هی جوائن کیا هے”
مسکراتے هوۓ تعارف کروایا
“میں رفعت… اور میں نے غالبا دو سال پہلے جوائن کیا تها”
اس تعارف پہ عنایہ مسکرادی
“واؤ… تمهاری سمائل بہت پیاری هے انفیکٹ تم خود بهی بہت خوبصورت هو”
رفعت نے کہا تو عنایہ کے ساتھ ساتھ فرح بهی مسکرادی
“یار یہ بات اسے تقریبا سب هی کہہ چکے هیں”
فرح نے بتایا
“هاں تو سچ بات کہنا هی چاهیے”
رفعت بولی
“اب اتنی زیادہ تعریف بهی مت کرو اتنی بهی خوبصورت نہیں هوں دنیا میں مجھ سے بهی خوبصورت لوگ بهرے پڑے هیں”
عنایہ بولی
“هونگے… مگر تم همارے پورے سٹاف میں سب سے بیوٹی فل هو”
رفعت بولی تو فرح نے بهی تائید میں سر هلایا
“اچها جی… تهینک یو”
انکساری سے بولی
“ویلکم… تو هم فرینڈز نا؟؟؟”
رفعت هاتهه آگے کرتی بولی جیسے عنایہ نے خوشدلی سے تهام لیا
“فرینڈز”
“چلو جی هو گئی اسکی سب سے دوستی”
فرح بولی تو عنایہ مسکرادی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
اسد انصاری اور میر حیدر علی کی بزنس ڈیل بے حد کامیاب رهی تهی دونوں بہت هی کم وقت میں اچهے پارٹنر اور دوست بن چکے تهے دونوں فیملیز کا اکثر ایکدوسرے کے گهر آنا جانا تها جبکہ صائمہ بیگم نے عنایہ کو پہلی نظر دیکهتے هی اپنے بیٹے کے لئیے پسند کرلیا تها وہ پیاری معصوم سی لڑکی پہلی نظر میں هی انکے دل میں اتر گئی تهی
“میں نے اپنے بیٹے کو ڈسٹرب تو نہیں کیا”
صائمہ بیگم نے دروازے میں کهڑے هوکر پوچها
“ارے مما…. بالکل نہیں آئیں آپ وهاں کیوں کهڑی هیں”
سکندر جو فائلوں میں سر دئیے بیٹها تها اپنی ماں کی آواز پہ چونکا
“میں نے سوچا کہ اپنے بیٹے سے ذرا اجازت لے لو….”
پیار سے اسکے سر پر هاتهه پهیرتی اسکے برابر آ بیٹهیں
“کس چیز کی اجازت مما”
“بهئی تمهیں قید کرنے کی اجازت” مسکرا کر بولیں
“کیا مطلب مما”
ناسمجهی سے بولا
“میں نے اپنے پیارے سے بیٹے کے لئیے لڑکی پسند کی هے اگر اجازت هو تو بات آگے بڑهاؤ”
اسکی آنکهوں میں دیکهتیں بولیں
جبکہ شادی کی بات پہ سکندر کی نظروں کے آگے عنایہ کا نازک سراپا گهوم گیا اور وہ دهیرے سے مسکرا دیا
“اوۓ اوۓ…. میرا بیٹا شرما رها هے”
اسکی مسکراهٹ دیکهکر بولیں
“نہیں مما ایسی کوئی بات نہیں”
“تو پهر اجازت هے مجهے اپنی بہو گهر لانے کی”
“مما آپکو اجازت کی کوئی ضرورت نہیں هے آپ بس حکم دیا کریں اور جہاں تک میری شادی کی بات هے تو آپکو پورا اختیار هے اپنی بہو سلیکٹ کرنے کا”
ان کے هاتهه اپنے مضبوط هاتهوں میں لے کر بولا
“جیتے رهو…. اگر تمهیں کوئی پسند هو تو بتاؤ بیٹا کیونکہ شادی تو آخرکار تمهیں هی کرنی هے نا”
“نہیں مما مجهے آپکی پسند پہ پورا بهروسہ هے”
وہ چاهتے هوۓ بهی نجانے کیوں انہیں عنایہ کے بارے میں نا بتا سکا
“جیتے رهو…. خوش رهو”
اسکے ماتهے پہ اپنی ممتا کی مہر ثبت کرتے هوۓ بولیں
ان کے جانے کے بعد وہ عنایہ کے خیالوں میں کهو سا گیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
صبح وہ جب سکول پہنچا تو اپنے ٹیبل پہ عنایہ کا ریزائنگ لیٹڑ دیکهکر چونکا
“مس عنایہ کو بهیجو ذرا” پی این کو بولا
“مے آئی کم ان سر”
“یس پلیز کم ان”
اسے دیکهتے هوۓ بولا
لائٹ پنک کلر میں وہ بہت هی معصوم لگ رهی تهی ٹهیک اسی لمحہ میرسکندر علی کو اپنا دل اسی کے لئیے دهڑکتا محسوس هوا اس نے فصیلہ کرلیا کہ آج جا کر وہ صائمہ بیگم اس لڑکی کے بارے میں بتا دے گا
“پلیز بیٹهیں”
“آپ بتانا پسند کریں گی کہ آپ ریزائن کیوں کررهی هیں”
اسکے چہرے کو نظروں میں سموتے هوۓ بولا
“ایکچوئیلی سر میری شادی هونے والی هے تو اسی لئیے”
نظریں نیچی کئے بہانہ کرتے هوۓ بولی کیونکہ وہ جانتی تهی اگر اس نے اسے اسکول سے دل بهر جانے اور شوق پورے هونے کا بتایا تو یقیقنا وہ اسے جاب چهوڑنے نہیں دے گا
“واٹ؟؟؟ تم شادی کیسے کرسکتی هو؟”
وہ بهڑک اٹها ابهی ابهی تو اسکا دل اس لڑکی کی محبت میں جهکا تها
دوسری طرف عنایہ اسکے اسطرح چلانے پہ ڈر سی گئی
“آئی ایم سوری….. اوکے آپ جا سکتی هو”
معاملے کی نزاکت محسوس کرکے بولا جبکہ عنایہ نے وهاں سے کهسک جانے میں هی عافیت جانی
“تم کیسے کرسکتی هو کسی اور سے شادی …. کیسے”
سارا غصہ دیوار پہ مکے برساتے هوۓ نکالا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“مبارک هو بهئی بہت بہت”
گهر آئی تو ملحیہ اور صالحہ پہنچی هوئی تهی دونوں نے اسے گلے لگا کر مبارک باد دی جبکہ فائزہ بیگم بهی اسے دیکهکر مسکراۓ جا رهی تهیں
“هیں؟؟؟ کس بات کی مبارک بجو؟”
وہ حیران تهی
“لو بهئی یہ تو وهی بات هو گئی جانے نہ جانے گل هی نا جانے باغ تو سارا جانے هے”
صالحہ بولی تو سب هنس دیئے عنایہ ناسمجهی سے سب کو دیکهے گئی
” تمهاری شادی فکس هوگئی هے”
ملحیہ خوشی سے بولی
“کیا؟ کیوں میری شادی کیوں میری شادی کیسے هوسکتی هے؟”
حیران تهی
“جیسے هماری هوئی ویسے هی تیری هوگی سمپل”
صالحہ بولی
“امی…. آپ دیکهیں نا بجو کو کیا بول رهی هیں”
کچن میں کهڑی فائزہ بیگم کو آکر بولی
“بالکل ٹهیک بول رهی هے میری شہزادی بیٹی کی شادی هے دس دن میں”
اسکے گال کو پیار سے تهپتهپاتے هوۓ بولیں
جبکہ عنایہ ایک نگاہ ڈال کر کمرے کی جانب چل دی
.
فائزہ بیگم سے جب صائمہ بیگم نے عنایہ کا هاتهه مانگا تو انہوں نے بنا دیر کیے هاں کردی اپنی بیٹی اور اپنی تربیت پہ اتنا بهروسہ تو تها هی کہ وہ کبهی انکار نہیں کرے گی
جبکہ عنایہ حیران تهی وہ تو آج جهوٹ بول کے جاب چهوڑ آئی تهی یہاں اسکا وهی جهوٹ سچ بن کر اسکے سامنے کهڑا تها اور اس نے ایک مشرقی لڑکی کیطرح سر جهکا دیا تها
.
ادهر سکندر کا برا حال تها وہ پہلی لڑکی تهی تهی جو ایک پل میں اسکے دل کی دنیا پلٹ گئی تهی چاهنے کے باوجود بهی وہ اسے اپنے دل و دماغ سے نکال نہیں پا رها تها عجیب بے بسی سی تهی
ادهر صائمہ بیگم نے جب اسے دس دن میں اسکی شادی کا عندیہ دیا تو اپنی ماں کی خوشی کے آگے اسے اپنا درد بے حد چهوٹا لگا.
اس نے سوچ لیا تها آنے والی لڑکی کو وہ پہلے هی دن سب سچ سچ بتا دے گا پهر چاهے وہ اسے کے ساتهه رهے یا اسے چهوڑ جاۓ
“یہ تو طے هے کہ میں میر سکندر علی کبهی اس لڑکی سے محبت نہیں کرپاۓ گا”
سکندر نے تکلیف سے سوچا اور دور کہیں تقدیر اسکی اس سوچ پہ مسکرادی
دونوں گهروں نے شادی بے حد سادگی سے کرنے کی پالیسی پہ عمل کیا ٹهیک دس دن بعد عنایہ دلہن بن کر انصاری هاوس سے پیا کے گهر سدہار گئی
اس وقت وہ شاندار سے روم میں جوکہ بہت محنت سے سجایا گیا تها بیٹهی اپنے دلہے کا انتظار کر رهی تهی
دوسری طرف سکندر بظاهر ہنستے مسکراتے دوستوں کے بیچ کهڑا اپنی محبت کو سوچے جارہا تها
.
.
.
“افففف. امی بس بهی کریں سات سمندر پار تهوڑی نا گئی هے اسی شہر میں هے”
صالحہ نے روتی هوئی فائزہ بیگم کو تسلی دیتے ہوۓ کہا جو عنایہ کے رخصت هونے پہ روۓ جارہی تهیں
“بهئی مجهے تو تمهاری ماں کی سمجھ نہیں آتی پہلے میرے کان کهاتی رہتی تهی کہ شادی کردو عمر گزر رهی هے اور اب جب کردی هے تو بهی برداشت نہیں”
اسد صاحب بولے تو صالحہ اور ملحیہ ہنس دیں جبکہ سوں سوں کرتی فائزہ بیگم نے انہیں گهور کر دیکها
“هاں آپکو تو بس یہی کہیں گے نا کہ میں بہت ظالم ماں هوں”
بول کر پهر سے سوں سوں کرنے لگیں
“ارے میں نے ایسا کب کہا… تم بتاؤ بچوں میں نے یہ کہا”
اسد صاحب معصومیت سے بولے اور ملحیہ اور صالحہ نے هنستے هوۓ نا میں گردن هلائی
اسی طرح کچھ باتوں کے بعد ملحیہ اورصالحہ بهی اپنے اپنے مجازی خداؤں کے ساتهه اپنے گهر چلی گئیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤