بے گل و بے آب و بے برگ و ثمر دیمک زده
ہم پرندوں کی محبت اک شجر دیمک زده
کھڑکیاں دیمک زدہ اور بام و در دیمک زدہ
ہم زبوں حالوں کا ہے سارا ہی گھر دیمک زدہ
آسماں کی جست ہم کیسے بھریں تم ہی کہو؟
بے دم و بے چارا و بے بال و پر دیمک زدہ
تُو سراپا راحت و تمکین و سطوت اور ہم
خانماں برباد ، مضطر ، دربدر، دیمک زدہ
مجھ کو اک دیمک زدہ نے بددعا دی عشق میں
جا !! خدا تجھ کو بھی رکھے عمر بھر دیمک زدہ
میں تو پہلے ہی نہ کہتا تھا کہ مجھ سے کر حذر
جان پر اب بن رہی تو صبر کر !! دیمک زدہ
حُسن کی دیوی کو مجھ پر رحم آیا اور کہا
میں تری دیمک اُتاروں آ ادھر دیمک زدہ!!
اول اول جب ہمیں دیمک لگی تو وصل تھا
ہجر میں ہونا پڑا بارِ دگر دیمک زدہ
اس علاقے میں ہم ایسے لوگ جا سکتے نہیں
اس علاقے سے ذرا جلدی گزر دیمک زدہ!!
میں تو ڈرتا ہوں کہ یہ دیمک مجھے بھی کھا نہ لے
تُو بتا! کس بات کا ہے تجھ کو ڈر،دیمک زده!!
کرم خوردہ لکڑیوں کا حال دیکھا ہے کبھی
ظاہر ان کا ٹھیک ٹھاک اندر مگر دیمک زدہ
ورنہ میرا کھوکھلا پن مجھ پہ کھلتا کس طرح
وہ تو مجھ کو مل گیا اک ہمسفر دیمک زدہ
لوگ اک دیمک زدہ کی خستہ حالی پر ہنسے
کر دیا مجذوب نے سارا نگر دیمک زدہ
میں نے تم کو کب دیا ہے دوش مجھ حالات کا
مجھ سے تُو ناراض ہے کس بات پر ؟؟ دیمک زده!!
تُو جو فولادی صفت ہے میں بھی ہوں آبی صفت
کر بھی سکتا ہے تجھے میرا اثر دیمک زدہ
خستگی اندر ہی اندر کھا رہی اُس کا وجود
لیکن اپنے حال سے ہے بے خبر دیمک زدہ
جو بھی میری ٹیک بننا چاہتا ہے سوچ لے
مجھ سے لگ کر ہو گیا وہ بھی اگر دیمک زده!!
ہم اگر بچ کر نکل آئے تو یہ خوش قسمتی
ورنہ دشتِ خامشی تھا سربسر دیمک زدہ
کاشرؔ اس کمبخت جاں کے عارضوں کا کیا شمار
ہو رہے ہم عشق میں المختصر دیمک زدہ