روز مرہ کی طرح آج بھی موسم کافی سرد تھا۔ آسمان پہ جگہ جگہ روئی کے سفید اور انتہائی خوبصورت گالے بنے ہوۓ تھے۔ سورج اپنی لا محدود کوشیشوں کے باوجود اپنا آپ دیکھانےسے باز رہا تھا
بادل کی چھوٹی چھوٹی ٹکریوں نے اُن کے ارد گرد گہراؤ کر رکھا تھا۔۔
ورنہ چاشنی میں گھلی شربتی کرنیں سارے کہیں پنکھ پھیلاۓگرتی ہیں ,تو اُس کی خوبصورتی اور رنگینیوں سے ہر کوئی محظوظ ہوتا ہے۔ فرانس کے شہر پیرس کی لگاتار بارشوں نے اُس کا اپنے شہر میں بھرپور استقبال کیا ۔ تیز ہوا کا ایک جھونکا انسانی روح کو سرشار کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے, دور افق کی نیلاہٹ سیاہی مائل ہو چکی تھی۔ محبوب وطن کی بارش اُسے دل و جاں سے قبول تھی,ورنہ پاکستان میں سرد موسم میں وہ بستر میں دُبک کر بیٹھ جایا کرتی تھی۔لیکن اُس نے اس دل فریب بارش کا باھیں پھیلا کر استقبال کیا تھا۔ خوشی ایسی تھی کے چھپاۓ نہیں چھپتی تھی
اُس کے روم روم سے خوشی جھلک رہی تھی۔ اُسکا آج یونیورسٹی میں پہلا دن تھا،اور آج کے
دن ہی وہ لیٹ ہو کر اپنی سُستی کا ثبوت نہیں دینا چاہتی تھی۔ بارش بے زور برس رہی تھی،ایسے میں اُسے کو بزاتِ خُد کیب کروا کے جانا پریشانی میں ڈال گیا تھا،ورنہ خود سے یہ سب کرنے کی کہاں عادت تھی،کہیں بھی آنے جانے کے لیے اُس کی گاڑی ہر وقت تیار رہتی تھی۔سکندر علیم جانے مانے انڈسڑیلسٹ تھے۔ چھوٹی سی عمر میں باپ کے ساتھ فیملی بزنس جوئن کر لیا تھا,اور پھر جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھ گۓ،وہ نگین سے کتنی محبت کرتے تھے۔اس بات کا ثبوت اُنہوں نے اپنی پہلی اولاد کا نام نگین کے نام سے ملتا جلتا ہی
رکھا تھا،نگین سے نین ۔۔۔۔۔ نین نے اُن کی ادھوری زندگی کو مکمل کیا تھا۔۔۔۔۔،نین کی پیدائش اُن کی شادی کے اٹھ سال بعد ہوئی تھی،اور نگین بیگم کی بےقرار ممتا کو قرار آیا تھا،اور نین کی پیدائش کے
بعد وجی کو نگین کی گودھ میں ڈال کر خُدا نے اُس کی بے چین تڑپتی ممتا کو مکمل سکون کا احساس بخشا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کبھی گھڑی کو دیکھتی کبھی ہلکا سا پردا ہٹا کر برستی بارش کو بل آخر کچھ دیر کے بعد بارش پوری طرح نا سہی لیکن تھم چکی تھی۔ نین فوراً بیگ اُٹھا کر نیچے کو لپکی مزید تاخیر ٹھیک نا تھی،ہڈیوں کو جما دینے والی سردی اُس پہ کیب ,نا,
ملنے کی زیادتی ،وہ بے حد مضطرب کھڑی کیب کا انتظار کر رہی تھی لیکن دور دور تک کیب کا نام و نشاں تک نا تھا۔، ایسے میں اُس نے اپنے ارد گرد سفید روئی پھیلتی دیکھی سارے کہیں سنو پھیل رہی تھی،اُس نے اپنی سُرمئ آنکھیں اُٹھا کر اُفق کو
دیکھا جہاں سے روئی کا مینا برس رہا تھا،اُس نےباہیں کھول کر سرد ہوا کو اپنے اندر اُتارا تھا، پیرس میں اُسنے اپنی پہلی سنَو کو بہت انجوائے کیا تھا،اُس کے کپڑوں اور بالوں پہ بھی سنَو گر رہی تھی پگھل رہی اُس کے کپڑوں اور بالوں میں جزب ہو رہی تھی۔پھر خدا کی ذات کو اُس پے رحم آگیا اُسے کیب مل گئی ،ہیٹر کی وجہ سے کیب کہ اندر کا ماحول کافی گرم تھا۔انتہائی شستہ انگریزی میں مطلوبہ یونیورسٹی کا بتا کر ،ٹیک لگا کر باہر کا
سحر انگیز منظر اپنی گہری آنکھوں میں سمونے لگی۔
@@@@@@@@@@@@@@
اُاااف آپا آج کے دن تو یہ بورنگ’’ بُکس چھوڑ دیں ،باہر چلیں ون ٹو ون میچ ہو جاۓ”۔ وجی آج سنڈے والے دن بھی بہن کو کتابوں میں غرق دیکھ کر ناراضگی سے بولا تھا۔”وجی آپا کا اگزیم ہے،نا، اس لیے میں نہیں کھیل سکتی،اگر پیپر اچھا نا ہوا تو تمہاری آپا کو اسکالرشپ کیسے ملےگا۔۔۔۔؟؟؟ “اس کے لیے تو آپا کو پڑھائی کرنی پڑے گی نا۔۔؟ اور وجی تو آپا سے بہت محبت کرتا ہے نا۔۔۔۔”؟ انتہائی شگفتگی اور پیار سے نین نے چھوٹے لاڈلے بھائی کے بالوں کو سہلاتےہوۓ سمجھایا تھا۔
آپا آپ اسکالرشپ کا کیا کریں گی” ،،،۔”؟ لا اُبالی سا کلنڈری وجی آپا کے پاس صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ بولا تھا۔”مممم” پین کو دانتوں میں رکھتے ہوۓ نین نے ہم کو لمبا کھینچتے ہوۓ پیار سے وجی کو دیکھا اور بولی ۔۔ “جب مجھے اسکالرشپ مل جاۓ گی پھر میں باقی کی پڑھائی پیرس جا کے کرونگی” ۔
آپا پرس جانا کون سا مشکل ہے, وہ تو” ہم کبھی بھی پاپا کے ساتھ بھی جا سکتے ہیں پھر یہ سب کیوں کرتی ہیں۔۔۔۔ ارے بھئ شارٹ کٹ کا زمانہ ہے ۔۔۔۔ جب سیدھی سیدھی منزل مل سکتی ہے پھر دشوار راستہ احتیار کرنے کا فائدہ ۔۔”؟ کہنے کو تو وہ کلنڈری لڑکا تھا،لیکن بات بہت بڑی کر گیا تھا۔۔۔
ارے واہ میرا بھائی تو بہت بڑا ہو گیا” ہے۔”(نین محبت پاش نظروں بھائی کو دیکھتے ہوۓ بولی تھی۔
ہاں تم ٹھک کہہ رہے ہو ,لیکن میں” حُود اپنے بلبوتے پہ کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ زندگی سے لڑنے کے ،اُتار چڑھاؤ کو فیس کرنے کے لیے انسان کو کُھل کر سامنے آ کر مقابلہ کرنا چاہیے ،اگر ہم ہر چیز کے لیے بابا پہ ڈپنڈڈ ہو جائیں گے, تو اس دنیا سے لڑنے کی ساری طاقتوں سے مفلوج ہو جائیں گے ہمیں بابا نے ہر آسائش دی ہے, کبھی کسی چیز کے لیے ترسنا نہیں پڑا، لیکن وقت اور خالات سدا ایک سے نہیں رہتے, اس لیے ہمیں ہر طرح کےوقت کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے” ۔۔۔ نین نے دھیمے لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔
وجی جو ابھی تک نا سمجھی سے بہن کو تاک رہا تھا ایک دم سے بولا ۔۔۔ “ آپا مجھے آپکی یہ فیلوسفرز والی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔” ساتھ ہی اپنا بیٹ بال اُٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔وجی کے جانے کے بعد وہ دوبارہ سے کتاب کھول کر پڑھنے لگی ۔۔۔۔۔ نین کو شروع سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا،کتابوں سے اُس کا لگاؤ صاف دھکتا تھا۔سکول کی ٹاپ ہولڈر اسٹوڈنٹس میں سے تھی ،خاندان بھر میں اُس کی پوزیشنز کے چرچے عام تھے۔سکول اور کالج کے علاوہ خاندان میں بھی وہ سب سے زیادہ لائک لڑکی تھی ۔ حساس دل کی مالک کم گو سی چھوئی موئی سی نین سکندر سب کی جان تھی۔
وہ کیب سے اُتر کر چلنے لگی اُسکی چال میں بلا کا اعتماد تھا۔ چہرہ بلکُل بے تاثُر تھا۔کوئی اندیشہ کوئی وہم کوئی گھبراہٹ نا تھی۔اُسکی منزل اُسکے سامنے تھی۔ سوربونے یونیورسٹی آف پیرس کا بڑا سا بورڈ اپنے لفظوں کی چمک کے ساتھ موجود تھا۔
موسم مسرور تھا۔گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی مہک چار سو پھیلی ہوئی تھی,ہلکی ہلکی بارش کی من موج بوندھیں برس رہی تھیں
وہ اعتماد سے قدم اُٹھاتی اپنی منزل کی طرف غامزن تھی۔ سوربونے ایورپ کی سب سے بڑی یونیورسٹیز میں دوسرے نمبر پہ ہے ۔۔۔ نین سکندر قدم قدم چلتی ۔۔۔راجہ مہاراجوں کے دور میں چلنے والے بڑے سے گیٹ کو پار کر کے اندر داخل ہوئی تو اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ سچ میں کسی مہاراجہ کے بہت بڑے وسع و عریز محل میں آ گئی ہو۔۔۔۔۔ پُرانی طرز کی تاریح ساز عمارت,انتہا کی خوبصورت تھی۔،وہ روش پہ چلتی جا رہی تھی ۔ لڑکے لڑکیوں کے غول چاروں سمت پھیلے ہوۓ تھے۔ نین اپنی سُرمائی آنکھیں گُھما گُھما کر سارے منظر کا جائزہ لے رہی تھی ، اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اُسے کس اور سفر تہہ کرنا ہے ۔۔ پاکستان ہوتا تو یقین وہ کسی کو روک کر پوچھ لیتی لیکن پراۓ ملک میں اُسے نجانے کیوں عجیب لگ رہا تھا ۔
اسٹوڈنٹس کی آمدورفت بھڑ رہی تھی ۔وہ بھی اسٹوڈنٹس کی بھیڑ میں شامل ہو گئ
چلتے چلتے سانس اُکھڑنے لگی تھی لیکن اُسے اپنی کلاس مل کے نہیں دے رہی تھی۔
یونیورسٹی کے نجانے کتنے بلاکس تھے۔ وہ ایک بلاک بھی پورا نہیں گھومی تھی۔
۔“کیا میں آپکی مدد کر سکتی ہوں
نین ادھر اُدھر دیکھتی ایک طرف سمٹ کر کھڑی ہو گی, اُسے واقعی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے؟؟ کسے مدد طلب کرے ،،، جبھی بہت پیاری سی آواز اُس کی سماعت سے ٹکرائی ۔ ۔ نین نے فوراً مُڑ کر دیکھا تھا۔۔۔ وہ جو بھی تھی بلا کی خوبصورت تھی۔
وہ مُسکرا کر نین کو دیکھ رہی تھیں ۔ نین بھی جوابی ہلکا سا مُسکرا دی ۔ وہ پیارا سا مجسمہ اُس کے قریب آیا اور پھر سے گویا ہوئی ۔۔۔ اُس کے نقوش اتنے واضح تھے کہ وہ پہچانی جاتی تھی کہ وہ کوئی پاکستانی ہے یا ہندوستانی…۔ ہندو اور پاکی بہت مشاہبت رکھتے تھے, عموماً جلد پہچان لیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔” میرا نام علینا ہے، میں کب سے دیکھ رہی ہوں یہاں کھڑی ہو،کسی کا ویٹ کر رہی ہو؟؟ مینے پہلے کبھی دیکھا نہیں تمہیں ۔ کیا نیو قمر ہو؟ کوئی پروبلم ہے تو آئی کین ہیلپ یو۔”,خوبصورت مجسمے نے کہا تھا۔۔۔نین نے تھوک نگلا اور سانس بحال کی ۔۔۔ “ج۔ج۔جی میں نیو اسٹوڈنٹ ہوں ۔۔ میرا پہلا دن ہے آج یونیورسٹی میں ،لیکن مُجھے سمجھ نہیں آ رہا کے میری کلاس کس طرف
“ ہے
کون سے سبجیکٹ ہیں” خوبصورت” مجسمےنے پیار سے پوچھا تھا ۔۔
ایم ۔بی ۔اے” ۔۔۔۔۔ “پاکستان” سے ہو؟” انتہائی شستہ اُردو میں پوچھا تھا۔ نین نے سر اثبات میں ہلا دہا۔۔” پاکستان میں کہاں سے؟“لاہور سے”انتہائی مختصر جواب دیا،نین کے دل کو دھارس ملی تھی, کے کوئی تو ہے جو دیارے غیر میں بھی اُس کی زُبان سمجھ سکتا تھا۔۔۔۔ “میں بھی پاکستان سے ہوں” کہتے ہوۓ نجانے کیوں اُس پری روح کی آنکھوں کے گوشے بھیگے تھے، جسے فوراً سہولت سے اُنہوں نے صاف کیا تھا۔۔۔اور
۔۔۔۔”آ جاؤ میرے ساتھ” کہتے ہوۓ آگے بھڑ گیئں ،نین نے فوراً اُنکا تعاقُب کیا ۔۔ شاید خُدا نے مجسمہ پری روح کو اُسکا مسیحا بنا کر بھیجا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...