میری کلائی پہ بے بسی کے نشان ڈالتی میری چوڑیاں کرچیوں میں بٹ کر فرش پہ پھیل گئیں۔ اور میری چوڑیوں کی “کھنک” ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
جب میری التجا ئیں، آنسو اور سسکیاں اس پہ بے اثر ہوئیں تو بس ایک ہی ذات کا سہارا تھا ، جومجھے اس شیطان کے نرغے سے بچا سکتا تھا۔
“اے میرے مالک۔۔۔۔ ! میری مدد فرما، اس درندہ سے مجھے بچا لے۔۔۔ میں گنہگار ہوں لیکن تو رحیم ہے، مجھ پہ رحم فرما”
میرے لبوں پہ آیت الکرسی کا ورد جاری ہوا۔ اس نے خونخوار جانور کی طرح میرے جسم کو نوچنا شروع کیا، میری آہ بقا زیادہ بلند ہوئی۔ جب میری ہمت ٹوٹنے لگی تو میں نے آنکھیں موند لیں۔ اسکا چہرہ میرے چہرے کے بالکل پاس تھا اور اسکی غلیظ سانسیں میرے جسم میں لرزہ طاری کر رہی تھیں۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے بالوں میں ڈالا اور ایک جھٹکے سے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پہ رکھ دیے۔ میرے جسم میں ایک بجلی سی کودی ۔ میں نے اپنے پوری قوت سے اسے خود سے دور کیا ، جیسے ہی اسکی گرفت ٹوٹی ، میں نے تلوار کی طرح اپنا بازو ہوا میں لہرایا اور زور دار تھپڑ اسکے گال پہ رسید کیا۔ کاش ! یہ تھپڑ اسے تب پڑا ہوتا جب پہلی مرتبہ اس نے مجھے چھوا تھا۔ اس سے پہلے کے وہ پھر سے مجھ پہ حملہ آوار ہوتا میں نے پوری طاقت سے اسے ایک دھکا مارا اور بھاگتی ہوئی درواز ے تک پہنچی، وہ میرے پیچھے لپکا لیکن تب تک میں نے کنڈی کھول دی تھی۔
جیسے ہی دروازہ کھلا سامنے اسکی امی کھڑی تھیں، وہ دیدے پھاڑ پھاڑ کے مجھے دیکھنے لگیں۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ کہہ پاتی، جاسم نے چلانا شروع کیا
“امی۔۔۔۔ خدا کے لیے اس بے شرم لڑکی سے مجھے بچا لیں۔ یہ زور زبردستی میرے کمرے میں گھس آئی اور بے حیائی کی ساری حدیں پار کردیں۔ میں اسے خود سے دور کرتا رہا لیکن اس نے میری کوئی بات نہیں مانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” اس نے ایک ہی سانس میں اتنا بڑا جھوٹ بول دیا
“آنٹی۔۔۔۔۔ میری بات۔۔۔۔” میں نے صفائی میں کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے بات نہ کرنے دی
“امی۔۔۔ ! یہ کب سے میرے پیچھے پڑی تھی کہ میرے ساتھ شادی کرلو، میں بار بار اسے منع کرتا رہا، آج جب اسکا رشتہ کہیں اور ہوگیا ہے تو یہ مجھ سے بدلہ لینا چاہتی ہے۔ میرے اوپر زیادتی کا الزام لگا کے میری زندگی برباد کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔ ” جاسم نے جھوٹے آنسو بہانا شروع کیے۔
وہ جھوٹ پہ جھوٹ بولتا گیا، اور میں اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔ کیا یہ وہی شخص ہے جس سے میں پاگلوں کی طرح پیار کرتی تھی۔ مجھے اپنے آپ پہ افسوس ہونے لگا۔ میں اسکی ماں کی طرف مڑی ۔۔۔ میں نے پھر سے کوشش کی کہ انھیں اصل بات بتا سکوں
“آنٹی۔۔۔۔ !”
“خبردار ! بد چلن لڑکی۔۔۔۔۔ زمانے بھر میں میرا ہی بیٹا ملا تھا تمہیں؟” جاسم کی امی نے مجھ پہ چلانا شروع کردیا
میں ایک پل کےلیے سکتے میں چلی گی، خدایا ۔۔۔ ! میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ میری نظریں جاسم کے چہرے پہ ٹکی تھیں، یقین کرنا مشکل تھا کہ جس شخص کو میں بچپن سے جانتی تھی اسے پہچاننے میں اتنی بڑی بھول کیسے ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاسم کی امی نے زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ انکی آواز میرے کانوں میں تو پڑ رہی تھی لیکن سمجھ کچھ نہیں آرہا تھا۔ میرا دماغ جیسے بالکل بند ہو گیا ۔ انھوں نے میرے بازو سے پکڑا اور گھسیٹتی ہوئی اپنے گھر سے باہر لے آئیں۔ میں مڑ مڑ کے جاسم کو دیکھتی رہی کہ شائد اسے میرے اوپر رحم آجائے، وہ اس ذلت کے سمندر میں مجھے ڈوبنے سے بچا لے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ جاسم کی امی کے شور پہ گلی میں خواتین اور بچوں کا رش لگ گیا اور وہ میری کلائی کو مظبوطی سے جکڑے میرے گھر کی طرف بڑھنے لگیں ۔ میرے سارے حواس جواب دے گئے۔ نہ کچھ سنائی دے رہا تھا نہ دیکھائی ۔ میرے گھر کا دروازہ کھولتے ہیں انھوں نے میرے بازو جھٹکا دے کے چھوڑا تو میں فرش پہ جا گری۔ میرا ماتھ فرش سے ٹکرا یا ۔
میں نے آنکھیں کھولیں تو میرا سر میری ماں کے قدموں میں تھا۔
“سنبھالیں اپنی بدچلن بیٹی کو۔۔۔۔ دن دھاڑے جاسم کے کمرے سے اسے گھیسٹ کے لائی ہوں، جہاں اس نے منہ کالا کرنے کی کوئی کثر نہیں چھوڑی” جاسم کی امی گرج کے بولیں
میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ میری ماں اور بہنیں میرے ارد گرد جمع تھیں۔ میری کلائی سے بہتا لہو، زخمی ماتھا ، بکھرے بال اور پھٹے کپڑوں کو دیکھ کے سب کے اوسان خطا ہوگئے۔ میری طرح میری ماں بھی سکتے میں تھیں۔ عابدہ آپی میری طرف بڑھیں اور میرا ہاتھ پکڑ کے پوچھنے لگیں
“چھوٹی۔۔۔۔ ! یہ سب کیا ہے؟”
“اس سے کیا پوچھتی ہوں، میں بتاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” انھوں نے جاسم کی پڑھائی پٹی پڑھنا شروع کردی
“چھوٹی میں تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔ تو بتا کیا ہوا ہے” عابدہ آپی پھر سے پوچھنے لگیں
میرے پاس کوئی لفظ نہ تھا اپنی صفائی دینے کے لیے ۔ وہ مجھے جھنجوڑتی رہیں اور میں سر جھکائے خاموش کھڑی رہی۔ میرا کوئی جواب نہ ملنے پہ میری ماں جو اب تک اپنے حواس میں نہیں تھیں آگے بڑھیں اور میری زخمی کلائی کو پکڑ ا اور ایک زور دار چانٹا میرے گال پہ رسید کیا
“کہا تھا نہ چوڑی مت توڑنا، پھر بھی توڑ دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” پھر ایک کے بعد ایک تھپڑوں کے بارش شروع کردی۔۔۔۔ میرے بالوں سے پکڑ کے بولیں
“بتا ۔۔۔۔ ! کیوں کیا۔۔۔۔”
شمسہ آپی ا می کی طرف بڑھیں اور عابدہ آپی میری طرف آئیں
“چھوٹی۔۔۔۔ چپ کیوں ہے ، بتا کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
جاسم کی امی جو اب خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی تھیں۔ پھر سے بولیں
“ارے میں نے بتایا نہ۔۔۔؛ میرے معصوم بچے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
عابدہ آپی نے انکی بات کاٹی۔
“آنٹی ۔۔۔آپکا بیٹا جتنا معصوم ہے میں بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں”
مجھ سے بولیں
“چھوٹی ۔۔۔ ! خدا کا واسطہ ، چپ نہ رہ۔۔۔۔ بول۔۔۔۔ کچھ تو بول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتا دے انکے بیٹے نے کیا کیا تمہارے ساتھ”
“غضب خدا کا۔۔۔۔۔ عابدہ تو بھی میرے بیٹے پہ الزام لگا رہی ہے۔ اپنی بہن کے کرتوت نہیں دیکھے” جاسم کی امی نے پھر سے چلانا شروع کیا۔
شمسہ آپی گھر میں جمع ہوتی عورتوں کو باہر نکالنے لگیں۔امی پھر سے میری طرف بڑھیں ، میرے بالوں میں اپنا ہاتھ ڈالا اور دیوار کے ساتھ میرا سر ٹکرایا
“بتا مجھے۔۔۔۔کیوں کیا۔ کیوں بربادکیا ہم سب کو”
“امی۔۔۔۔۔ اسکی بات تو سن لیں۔۔۔ پہلے” نادیہ آپی جو اب تک خاموش کھڑیں امی کا ہاتھ پکڑ کے بولیں۔
ہر طرف ایک شور شرابا تھا۔ شمسہ آپی عورتوں پہ چلا رہی تھیں۔ عابدہ آپی جاسم کے امی کے ساتھ بحث کر رہی تھیں ، نادیہ آپی امی کو روکنے کی کوشش کررہی تھیں۔ اور امی مجھے برا بھلا کہتی رہیں۔۔۔۔ اس سب کے بیچ میں خاموش کھڑی اپنی بربادی کا تماشا دیکھتی رہی ۔
میں صحرا میں کھڑی تھی اور میری چاروں طرف اڑتی ریت کا طوفان مجھے اپنے اندر دفن کررہا تھا۔ اس شور و غل میں بھی مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میرے سامنے جاسم کے بچپن سے لے کے جوانی تک کےسارے روپ تھے۔۔۔۔ میں ہر روپ میں اسکاوہ بھیانک چہرہ ڈھونڈ رہی تھی جس سے تھوڑی دیر پہلے میرا سامنا ہوا۔ میری بے لوث محبت کا ایسا صلہ۔۔۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ ایک پل میں میری دنیا اجڑ چکی تھی، پر کمال کی بات یہ تھی کہ ابھی تک نہ میری آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا نہ ہی لبوں سے سسکی نکلی۔ میں کہیں مر تو نہیں گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
“چھوٹی ۔۔۔۔۔ چپ مت رہ ۔۔۔ بتا کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو چپ رہے گی تو یہ داغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہارے دامن پہ لگ جائے گا۔۔۔۔۔ کچھ رحم کر خود پہ بھی اور ہم پہ بھی” نادیہ آپی میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے بولیں۔ شمسہ آپی نے ساری عورتوں کو باہر نکالا، عابدہ آپی نے جاسم کی ماں کو جانے کا کہہ دیا۔وہ جاتے ہوئے بولیں
“اگر تمہاری ماں نے تم بہنوں کی اچھی پرورش کی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، ایسے کسی غیر مرد کے کمرے میں تمہاری بہن کی چوڑیاں نہ ٹوٹتی”
“میری بہن کی چوڑیاں جو ٹوٹیں سو ٹوٹیں۔ پر اب آپ اپنے بیٹے کو چوڑیاں پہنا دیں۔ آپ دنیا کو کیا منہ دیکھائیں گی کہ ایک لڑکی نے آپکے بیٹے کی عزت پہ حملہ کیا ہے۔ اپنے بیٹے کو کہیے گا اس بے غیرتی کی زندگی جینے سے بہتر ہے ڈوب کے مر جائے” عابدہ آپی نے دل کی بھڑاس نکالی، وہ انھیں گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں
امی کی درد ناک چیخیں میرے کانوں میں پڑتی رہیں۔ نادیہ آپی انھیں سنبھالنے کو کوشش کررہی تھیں۔ وہ فرش پہ گریں اور بے ہوش ہو گئیں۔ میری بہنوں نے انھیں اٹھایا اور کمرے میں لے گئیں۔ میں رکوع کی حالت میں فرش پہ بیٹھی گئی۔ ابھی بھی میر ے حواس قابو میں نہیں تھے۔ میں نے سر جھکایا اور سجدہ ریز ہوگئی۔ میری کلائی سے لہو رستا رہا اور میرے بال فرش پہ بکھر گئے۔
میرے تینوں بہنوئی گھر سے باہر تھے، جب وہ واپس آئے تو سب کچھ لٹ چکا تھا۔ انھیں سارے حالات کا پتہ چلا تو انکی غیرت پہ کاری ضرب لگی۔ لیکن بد قسمتی یہ تگی کہ اس ضرب کا اثر ہمارے حق میں نہیں تھا۔ میری بہنوں کو دھمکی دی گئی کہ وہ فوراً اپنی ماں کا گھر چھوڑیں اور اپنے گھر کی تیاری پکڑیں۔ وہ چیختی چلاتی رہیں کہ اس وقت ماں اور بہن کو اس حالت میں اکیلے کیسے چھوڑ دیں۔ میری امی ان سب سے التجائیں کرتی رہیں۔لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ چاروناچار میری بہنوں کو جانا ہی پڑا۔ جاتے ہوئے عابدہ آپی نے نادیہ آپی کے شوہر سے درخواست کہ خدارا اپنے گھر والوں کو اس سب کے متعلق آگاہ نہ کریں ایسا نہ ہو کہ جو رشتہ پکا ہوا ہے وہ ٹوٹ جائے۔ انکا جواب آیا
“کمال ہے۔۔۔۔۔ آپ کوابھی بھی لگتا ہے کہ رشتہ قائم ہے؟ ۔۔۔ نادیہ سے شادی ہوچکی ہے اس لیے اسے اپنے ساتھ لے جارہا ہوں، لیکن آپکی چھوٹی بہن نے جو ناک ڈبوئی ہے اسکے بعد اس گھر سے رشتہ رکھنا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں” تلخی میں جواب دیتے وہ باہر نکل گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے باقی سب نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔
میں فرش سے اٹھ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھ گئی۔ امی کمرے میں تھیں انکی سسکیوں کی آواز اب بھی میرے کانوں میں پڑ رہی تھی۔ عصر کی اذانیں ہونے لگیں۔ میں اپنے گھٹنوں پہ ماتھا ٹیکے بیٹھی تھی۔ ابھی تک میری آنکھ نم نہ ہوئی۔ میرا دل شائد پتھر کا ہوگیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد امی کمرے سے نکلیں۔ انھوں نے مجھے بازو سے پکڑ کے اٹھایا اور دادی کے تاریک کمرے میں دھکیل کر باہر سے دروازہ بند کردیا۔ وہ مجھے بد دعائیں دیتی رہیں کہ میرے اس گناہ کی وجہ سے ان پر اور انکی بیٹیوں پہ قیامت ٹوٹی ہے۔ میری وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہوگئی ہیں۔ میں گہری خاموشی میں تھی۔
داد ی کے کمرے میں چیونٹیاں اور کھٹمل لا تعدا تھے۔ میں نے دھول سے اٹے فرش پہ اپنا ایک گال ٹیک دیا اور آنکھیں بند کرلیں۔
نہ جانے رات کا کونسا پہر تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ۔ میں اسی طرح فرش پہ لیٹی رہی۔ امی میری پاس آکے بیٹھ گئیں انکے ہاتھ میں ایک گلاس تھا۔ میرے پاس وہ گلاس رکھ کے بولیں
” اپنے باپ کے مرنے کے تین مہینے بعد جب تم پیدا ہوئی تو تمہیں پالنا دنیا کا سب سے مشکل کام تھا ، میں تن تنہا تھی اور تین بیٹیوں کا بوجھ پہلے سے میرے سر پہ تھا۔ پیدا ہوتے ساتھ ہی تم بیمار ہوگئی۔ ایک وقت ایسا آیا جب میرے پاس بس اتنے پیسے تھے جن سے یا تو تمہاری بہنوں کے لیے کھانے کے انتظام ہو پاتا یا پھر تمہارا علاج۔۔۔۔۔۔ میرے لیے وہ وقت بہت کٹھن تھا۔ نہ تو تمہیں مرتا دیکھ سکتی تھی اور نہ ہی تمہاری بہنوں کو بھوک میں رکھ سکتی تھی۔ ایک دن حمیدہ میرے پاس آئی اور اس حالت میں دیکھا تو کہنے لگی آپا ۔۔۔ ! سمجھداری اسی میں ہے اپنی بڑی بیٹیوں کو بچا لو ۔ میں اسکی بات نہیں سمجھی تو وہ بولی کہ تھوڑی دیر کے لیے تکیہ اسکے منہ پہ رکھ دو۔ کم سے کم ایک بوجھ تو ہلکا ہوگا۔ میں نے رونا شروع کردیا کہ کیسے اپنے ہاتھ سے اپنی بیٹی کو مار دوں۔ کچھ وقت گزرا تو حالات مزید خراب ہوگئے، تم ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ تھک ہار کے میں نے حمیدہ کی بات پہ غور کیا۔ اور ایک دن میں نے ٹھان ہی لیا کہ خود کو اس مشکل سے آزاد کرتی ہوں۔ جب میں نے تمہار ے منہ پہ تکیے رکھنے کا ارادہ کیا تو پہلی بار تم نے مسکرا کے مجھے دیکھا۔ میرا دل پسیج گیا۔ ہمت جواب دے گئی۔ وہ دن جیسے کیسے گزر گئے لیکن میں خود کو آج تک معاف نہیں کرپائی تھی ۔ بچپن سے لے کے آج تک جب بھی تمہیں دیکھتی اپنے آپ کو ستی تھی کہ خدانخواستہ میں نے ایسا کردیا ہوتا تو آج تم میرے سامنے نہ ہوتی۔ لیکن آج جو کالک تم نے میرے منہ پہ تھونپی ہے مجھے لگ رہا ہے کہ میں نے تمہیں زندہ رکھ کے بہت بڑی غلطی کی ” یہ کہہ کے انھوں نے ہاتھ کے سہارے سے مجھے اٹھایا
“یہ لو۔۔۔ یہ پی لو۔۔۔۔ ” پاس رکھا گلاس انھوں نے میری طرف بڑھایا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھا
“میں اپنی غلطی سدھارنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اس میں زہر ہے ۔ تمہاری موت میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ جب تم نہیں رہو گی تو میری باقی بیٹیوں کی زندگی آسان ہوجائے گی، ورنہ پوری زندگی انھیں لوگ تمہارے نام کے تانے دیتے رہیں گے”
انکے ہاتھ سے گلاس پکڑتے پہلی بار میری آنکھوں سے آنسؤوں کی ایک لڑی جاری ہوئی۔ مجھے موت کا بالکل کوئی ڈر نہیں تھا۔ بس افسوس تھا تو اسی بات کا کہ میری ماں میری وجہ سے کس درد سے گزر رہی تھی۔ خدایا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مجھے پیدا ہی نہ کرتا۔ میں کسی کے پیار اور محبت کے لائق نہیں ہوں۔ میں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی تباہ کردیا۔ میری سسکیاں شروع ہوئیں ، امی کی نگاہیں میرے چہرے پہ ٹکی تھیں۔
“مرنے کے بعد شائد مجھے قبر میں بھی سکوں نہ ملے۔ ہوسکے تو میرے گناہوں کے لیے مجھے بخش دیجئے گا” آخری الفاظ بول کے میں نے گلاس اپنے لبوں سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے جیسے ہی پہلا گھونٹ اپنے اندر اتارنا چاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کے گلاس گرا دیا۔۔۔۔۔۔
“کیسے مار دوں تجھے اپنے ہاتھوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔ ” وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگیں۔ اور میں انھیں دیکھتی رہی، اس حالت میں نہیں تھی کہ انھیں کوئی تسلی دے پاتی۔ وہ وہاں سے اٹھکے چلی گئیں، اور میں پھر سے فرش پہ لیٹ گئی۔ اس بار انھوں نے دروازہ باہر سے بند نہیں کیا۔
صبح ہوئی تو وہ پھر سے کمرے میں آئیں، او ر کہنے لگیں کہ کچھ کھا لوں۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا، وہ میرا ناشہ وہیں چھوڑ گئیں۔ شام میں واپس آئیں تو کھانا ویسا ہی پڑا تھا۔ اب میرے لیے حرکت کرنا دشوار تھا ۔ میں فرش پہ بے حس و حرکت پڑی رہی۔ انھوں نے ضد کی اور زبردستی کھانا میرے منہ میں ڈالا۔ میں انکار کرتی رہی۔
کئی دن یونہی گزر گئے۔ امی نے مجھے وہ کمرے چھوڑنے کا کہا لیکن میں نےاس کمرے کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ اب میری پوری دنیا اس اندھیرے کمرے میں آباد تھی۔ بس اتنا ہی فرق پڑا کہ فرش پہ چٹائی بچھا لی ۔ دن مہینوں میں بدلے اور مہینے سالوں میں۔ میں اپنی ذات کے قید خانے میں سسکیاں لیتی رہی۔ میں نے اللہ پاک سے اپنے گناہوں اور غلطیوں کے لیے استغفار کیا۔ قرآن پاک پڑھا اور اسکو سمجھا۔ میرے سامنے دنیا کی اور ہی حقیقت کھلنے لگی۔
میری بہنوں کے سسرالیوں کے دل موم ہوئے تو انکا بھی آنا جانا شروع ہوگیا ۔ انھوں نے بھی بہت کوشش کی کہ میں وہ کمرا چھوڑ دوں لیکن میں نے قسم کھالی تھی کہ اس کمرے سے کبھی نہیں نکلوں گی۔ عابدہ آپی میری حالت دیکھ کے جاسم کو کوستیں اور بددعائیں دیتیں۔ انکی بد دعائیں سن کے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے تھے۔ میں انکے منہ پہ ہاتھ رکھ دیتی۔ وہ میری طرف دیکھ کے کہتیں کہ کس مٹی کی بنی ہو تم۔۔۔۔۔۔
تین سال گزر گئے لیکن میری کلائی سے ٹوٹی چوڑیوں کے نشان نہ مٹ پائے۔ میں نے جاسم کے بارے میں کبھی کسی سے دریافت نہیں کیا۔ اور نہ ہی کبھی اسکا خیا ل آیا ۔ امی کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ شمسہ آپی اپنے دونوں بڑے بیٹے امی کے پاس چھوڑ گئیں، تا کہ وہ اکیلی نہ ہوں۔ امی کی دن بدن بگڑتی طبیعت کو دیکھ کے بلآخر مجھے اپنی ضد چھوڑنی پڑی، میں اندھیرا کمرا چھوڑ کے امی کے پاس آگئی تاکہ انکا خیال رکھ سکوں۔
عصر کی نماز پڑھتے ہوئے میرے کانوں میں کسی کے رونے کی آواز پڑی۔ شائد گلی میں کوئی عورت تھی جو چیخیں مار مار کے رو رہی تھی۔ اس چیخیں سن کے میری بے چینی بڑھنے لگی۔میں نماز سے فارغ ہوئی اور تین سالوں میں پہلی مرتبہ دروازے تک گئی۔ میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی۔ گھر پہ کوئی موجود نہ تھا۔ شمسہ آپی کے بیٹے باہر کھیلنے نکل گئے تھے۔اور عابدہ آپی امی کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھیں۔ خدا جانے کون ہے جو اتنا رو رہا ہے، چیخوں کی آواز مسلسل میرے کانوں میں پڑتی رہی ۔ بالآخر میں نے ہمت کی اور دروازہ کھول کے باہر جھانکا۔ گلی میں لوگوں کا رش لگا تھا۔ مجھ سے اور صبر نہیں ہوا میں چلتے چلتے وہاں تک پہنچی، چند آدمی کسی گھر کا سامان نکال کے گلی میں ڈال رہے تھے۔ اور ایک عورت زخمی حالت میں چیختی چلاتی انھیں روکنے کے کوشش کر رہی تھی۔ وہ گھر کوئی اور نہیں تھا۔۔۔۔ وہی تھا جہاں سے میری بربادی شروع ہوئی ۔ میں ذرا آگے بڑھی اور اس عورت کا ہاتھ تھام لیا۔ مجھے دیکھ کے وہ چونکیں۔۔۔ انکے ہاتھ پاؤں پہ چوٹیں تھیں۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ جاسم کی ماں تھی۔ مجھے دیکھ کے ان پہ سکتا طاری ہوا۔ میں انکا ہاتھ تھام کے اپنے گھر لے آئی ، انکی مرہم پٹی کی۔ انھوں نے مجھے سے کوئی بات نہیں کی، بس میرے چہرے پہ انکی نظریں ٹکی رہیں۔ ایسے جیسے انھیں یقین ہی نہ آرہا ہو کہ وہ میں ہوں۔
تھوڑی دیر میں امی اور عابدہ آپی واپس آئے، جاسم کی امی کودیکھ کے عابدہ آپی نے شور مچانا شروع کردیا۔ میں نے ان سے درخواست کی ہے انکی حالت ایسی نہیں کہ کوئی بات کی جائے۔ شام تک کوئی بھی انھیں لینے نہ آیا
“میری بربادی کے چند ماہ بعد جاسم نے اپنی کسی کلاس فیلو سے شادی کرلی۔ لیکن شادی کے تیسرے دن ہی وہ لڑکی اسے چھوڑ کے چلی گئی، اور طلاق کا مقدمہ دائر کردیا۔ مدعا یہ تھا کہ جاسم اس قابل ہی نہ تھا کہ ازدواجی رشتہ نبھا ئے یا اپنی نسل آگے بڑھا سکے۔ شادی کے وقت جاسم نے گھر سمیت پوری جائیداد اس کے نام کی تھی اور طلاق کی صورت میں سب کچھ ہاتھ سے چھن جانا تھا اس لیے وہ کسی صورت طلاق دینے کو تیار نہیں تھا۔ عدالت میں ڈھائی سال تک کیس چلتا رہا۔ بڑے سے بڑے ڈاکٹرز اور اسپتالوں کی ٹیسٹ رپورٹیں جاسم کی مردانگی کو ثابت نہیں کر پائے۔ بالآخر وہ لڑکی مقدمہ جیت گئی اور قانونی طور پر جاسم کی ہر چیز کی مالک بن گئی۔ جاسم کے ابا جی کی پہلے ہی وفات ہوچکی تھی۔ گھر پہ بس ایک ماں تھی، مقدمہ جیتنے کے بعد جاسم کی غیر موجدگی میں اسکے سسرال والوں نے دھکے مار کے انھیں گھر سے نکال دیا۔ وہ لوگ جو چند سال پہلے بے حس ہوکے میرا اور میری ماں کا تماشہ دیکھتے رہے۔ آج جاسم اور اسکی ماں کا تماشہ دیکھ رہے تھے”
رات ہوئی تو دروازے پہ دستک ہونے لگی۔ بچوں نے دروازہ کھولا تو پتا چلا کہ جاسم اپنی ماں کو لینے آیا ہے۔ انھیں چلنے میں تھوڑی تکلیف ہورہی تھی تو میں انھیں سہارا دے کے دروازے تک لے گئی۔ مجھے دروازے پہ ایسے دیکھ کے جاسم کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ اس کی امی نے دروازہ پار کیا تو وہ زمین پہ ہی رکوع میں بیٹھ گیا۔ اور گڑ گڑا کے بولا کہ میں اسے اور اسکی ماں کو معاف کردوں۔ چاہتے ہوئے بھی میری نظریں اسکی طرف اٹھ نہیں پائیں۔
“میں نے آپکو معاف کیا۔۔۔۔۔۔ میرا ارب بھی آپکو معاف کرے۔۔۔۔ ”
یہ کہہ کے میں نے دروازہ بند کیا اور پیچھے مڑی۔ میری ماں نے مجھے گلے لگا یا اور میرا ماتھا چوما۔۔۔ یہ خبر نادیہ کے سسرال پہنچی تو وہ لوگ آگئے معافی مانگ کر پھر سے اپنے بیٹے کے لیے مجھے چوڑیاں پہنانے لکے میں نے انکار کر دیا کے اب مجھے شادی نہیں کرنی اپنی امی کے ساتھ رھوں گي یہ اکیلی ھیں تو انھوں نے کہا کے ان کو بھی ساتھ رکھ لینا دو بہنیں ھو گي تو مل کے خیال رکھنا تو میں نے کہا میری امی ایسے بیٹیوں کے گھر نہیں رہنا پسند کرے گی اگر شادی کرنی ھے تو لڑکا میرے ساتھ یہی رہے گا امی کا بیٹا بن کر تو وہ مان گئے اگلے ماہ شادی تہ پائی
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...