“کون ہو تم لوگ کیا کرنے آئیں تھیں یہاں بولو” آملہ بیگم نے رعب دار آواز میں نظریں ان دونوں پر گاڑتے ہوۓ پوچھا جو ہال کے ایک کونے میں ڈری سہمی کھڑی تھیں کمرےمیں گھرکےافراد کے علاوہ تقریبا سبھی خادمایئیں بھی موجود تھیں
“ہم صرف دیکھنے آۓ تھے” رانی نے سچای بیان کی مگر وہ یہ بھول گئی تھی کے وہ اس وقت راجہ ولا میں کھڑی تھی جہاں نہ جانے کتنے غریب اپنی سچائی کا رونا روتے بے بسی کی موت مارے گئے تھے
“جھوٹ ،،، جھوٹ بولتی ہو.. تم چور ہو تم لوگ چوری کرنے آے تھے یہاں ” وہ اسکے قریب آتے ہوے پھنکاریں نوری ڈر کے مارے باقاعدہ کانپبے لگی ڈر تو رانی بھی رہی تھی مگر وہ ظاہر نہیں کروا رہی تھی
” نہ نہیں… سچ مم… میں “نوری ہکلای مگر آملہ بیگم نے غصے سے اسکی بات کاٹ دی
” بند کرو بکواس اپنی سچ بتاو اگر اپنی زندگی چاہتی ہو تو” آملہ بیگم نے نوری کے منہ پر تھپڑ جڑتے ہوے کہا اسی لمحے سیڑھیاں اتر کر نیچے آتے راجہ ابسام کی نگاہوں نے یہ منظر دیکھا وہ سر جھٹک کر آگے بڑھنے لگا مگر پھر کچھ سوچ کر وہیں چلا آیا
“کیا ہو رہا ہے یہاں “کمرے میں راجہ کی مخصوص رعب دار آواز گونجی
رانی نے مڑ کر آواز کے تعاقب میں پیچھے دیکھا وہ مہرون قیمتی کرتے اور سفید شلوار میں گرم بھاری شال کندھوں پہ ڈالے اپنے مخصوص پر وقار انداز میں کھڑا آملہ بیگم کی طرف دیکھ رہا تھا
” چور ہیں یہ دونوں چوری کرنے آۓ تھے ہمارے محل میں ….” آملہ بیگم اسے بتانے لگیں
“مگر یہ بھول گئی تھیں کہ چوری کی سزا کیا ہے ہم بتاتے ہیں انہیں “وہ نفرت بھرے انداز میں انہیں دیکھے ہوۓ مڑیں اور پیچھے کھڑے دو ملازموں کو اشارہ کرتے ہوۓ بولیں
” لے جاو انہیں باہر اور ہاتھ کاٹ دو انکے سب کے سامنے عبرت بنا رو انہیں تا کہ آئندہ کوئی ایسی حرکت کرنے کےبارے میں سوچ بھی نہ سکے “وہ بغیر کسی لحاظ کہ انہیں سفاکانہ حکم دیتی آگے بڑھ گئیں
نوری کے پسینے چھوٹ گئے وہ ہاتھ جوڑ کر آملہ بیگم کے قدموں میں گر گئی
” میں نے کچھ نہیں کیا رانی جی خدا کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ دو مجھے تو یہ لے کر آئی تھی “نوری نے گڑگڑاتے ہوۓ رانی کی طرف اشارہ کیا مگر کسی نے اسکی طرف توجہ نہ دی
دونوں ملازم انکی طرف بڑھے رانی نے غصے سے اپنی طرف بڑھتے ملازم کو پیچھےدھکا دیا اور اشتعال بھرے انداز میں بولی
“سمجھ میں نہیں آتا کیا تم لوگوں کے جب میں کہہ رہی ہوں کہ میں صرف دیکھنے آئی تھی تو کیوں نہیں مانتے تم لوگ مارنے کا اتنا ہی شوق ہے کیا تمہیں آدمخورو ..”
اسکی یوں چیخ کر کہنے پر باہر نکلتے راجا کہ پیروں کو بریک لگ گئی اسنے جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا یہ آواز یہ انداز تو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا آملہ بیگم بھی حیرانی سے پلٹیں ملازم کھینچکر اسے باہر لے جانے لگے جب یکدم راجہ کی آواز کمرےمیں گونجی اور ہر نفوس کو ساکت گئی
” چھوڑ دو اسے” سب راجہ کو دیکھنے لگے خود رانی بھی حیران تھی
“سنا نہیں کیا” اب کے وہ دھاڑا ملازم تیزی سے پیچھے ہوے
“راجہ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ جانتے بھی ہیں یہ ہمارا حکم تھا” آملہ بیگم کو اسکی دخلاندازی سخت ناگوار گزری تھی
“راجہ کے ہوتے ہوے آپ کیسے کوئی حکم دے سکتی ہیں” وہ جتاتے لہجے میں زہر خندمسکراہٹ سے بولا اور ملازم کو اشارہ کرتا ہوا باہر نکل گیا وہ سکتے کی کیفیت میں گھریں اسکی پشت دیکھتی رہ گئیں
★★★★★★★
وہ حیران پریشان بیٹھی تھی آج اس پر کیسا بہتان لگا تھا وہ تو صرف دیکھنا چاہتی تھی کسی غلط ارادے سے تو وہ وہاں نہیں گئی تھی اسے یاد آیا اماں نے ایک بار کہا تھا
“تہمت اس کانٹے کی طرح ہوتی ہے جو چبھتے ہوۓ یہ نہیں دیکھتا کہ پاؤں نیک راہگیر کا ہے یا بد کا ”
ہاں سچ ہی تو کہا تھا پھر یکدم اسے راجہ کا رویہ یاد آیا اسنے اسکی حمایت کیوں کی تھی اسے سزا سے کیوں بچایا جبکہ اسکے متعلق تو مشہور تھا کہ وہ ذرا سی غلطی پر گردن اتارنے میں دیر نہیں لگاتا تھا تو پھر آج کیوں…..؟
وہ جتنا سوچتی الجھتی جاتی تھی اور یہ ہی بات جب سجی کو پتا چلی تو وہ بھڑک اٹھا
“کہا تھا تجھے روکا تھا تجھےنییں مانی نا تونےدیکھ لیا انجام ”
“کچھ بھی تو نہیں ہوا زندہ کھڑی ہوں تیرے سامنے دیکھ مجھے” وہ آرام سے بولی مگر وہ شدید غصے میں تھا
” بکواس بند کر اپنی من مانی کرتی پھرتی ہے ہر جگہ آج کے بعد تو گھر سے نہیں نکلے گی سمجھی “کسی انجانے خوف کے تحت اسنے اسےدبے لفظوں میں سمجھانا چاہا تھا مگر وہ یہ سن کر بدک اٹھی
“کیوں کیوں نہ جاؤں گی اب کیا میں قید ہوکربیٹھی رہوں …تو تو ویسے بھی ڈرپوک ہے راجہ کوبلاوجہ مشہور کیا ہوا پے وہ ایسا وہ ویسا اتنا اچھا تو ہے وہ اسی نے چھڑایا آج مجھے” بات ختم کر کے وہ خفگی سے رخ پھیر گئی وہ گہری سانس بھرتا اسکے سامنے آکھڑا ہوا اور کندھوں سے پکڑ کر اسے قریب کرتا ہوا بولا
” دیکھ میں بس یہ جانتا ہوں کہ میں تجھے کھو نہیں سکتا تو پیار ہے میرا بچپن کا میری حیاتی ہے اگر تجھے کچھ ہوا تو میں کیا کروں گا …بول” وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوےبولا وہ ہولے سے ہنسی اور سر اسکے کندھےپر ٹکا کر بولی
“کچھ نہیں ہوگا مجھے تو فکر نہ کر میں تیری ہی رہوں گی خوامخواہ دل نہ چھوٹا کیا کر” رانی کی بات پر اسکے دل میں ڈھیروں سکون اتر گیا
★★★★★★
وہ کرسی کی پشت سے سر ٹکاے آنکھیں موندے کسی گہری سوچ میں گم تھا زندگی میں پہلی بار وہ اس طرح دنیا سے بے زار بیٹھا تھا اسکی آنکھوں میں صرف اک ہی چہرہ بسا تھا کیسے بھول سکتا تھا وہ اس چہرے کو جسکی تلاش میں اسنے تین سال گزار دئیے تھےپل پل،اسکی جدائی کو محسوس کیا تھا
راجہ ابسام ہر لحاظ سے مکمل… جسکے ایک اشارے پر لڑکیاں اسکے قدموں میں گر جاتی تھیں
کوئی کیسے یقین کر لیتا کہ اسے ایک معمولی و غریب لڑکی کی محبت نے چاروں شانے چت گرا دیا تھا
اسے یاد تھا آج بھی وہ دن جب راجہ رحمان نے اسکا امتحان لینے کے لیے اسے چند ایک سپاہیوں کے ساتھ پہاڑ کے پیچھے موجود ڈاکوؤں کے گروہ سے لڑنے کے لیے بھیجا تھا
لڑائی کے دوران اسکے سارے ساتھی مارے گئے تھےاور وہ اندھیری رات میں زخموں سے چور وجود لیے بمشکل جان بچا کر پہاڑ کی دوسری طرف پہنچا تھا
اسے محسوس ہوا کہ فاصلے پر کوئی وجود موجود ہے جو لکڑیاں اکھٹی کر کے آگ جلانے کی کوشش میں مصروف تھا
وہ گھسیٹتا ہوا اس تک پہنچا قریب جانے پر اسے معلوم ہوا کہ نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس وہ کوئی لڑکی تھی اسکی کراہ سن کر وہ پلٹی اور اپنے بلکل پیچھے ایک بھرپور جوان مرد کو دیکھ کر بری طرح ڈر گئی
وہ تیزی سے کھڑی ہوئی اس سے پہلے کے وہ بھاگ جاتی راجہ نے آواز دے کر اسے روکا
” سنو” وہ رک کر کچھ دیر یونہی کھڑی عجیب سی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی پھر اسکے قریب چلی آئی
“تم تم تو زخمی ہو ” وہ تشویش سے بولی
” اور تم زخمی کو اکیلا چھوڑ کر جارہی ہو “وہ خلافِ معمول نرمی سے شکوہ کناں انداز میں بولا وہ اب اسکے زخم دیکھ رہی تھی اور راجہ اسکا چاند سا سفید چہرہ
” چلو اٹھو یہاں سے آگ کے قریب چلو “وہ اسے ایک بازو سے پکڑ کر اٹھانے لگی وہ ٹرانس کی کیفیت میں لڑکھڑاتا ہوا اسکے ساتھ چلتا آیا اور آگ کے قریب بیٹھ گیا وہ چلتی ہوئی ندیا تک گئی اور بہتے پانی سے ڈوپٹے کا کونا گیلا کر کے لائی
” لاؤ میں تمہارے زخم صاف کر دوں” اسکی آواز اسے ہوش کی دنیا میں کھینچ لائی
“آ…، ہاں مگر کیسے ” وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا
“اس سے “وہ ڈوپٹہ دکھاتے بولی اور چہرے سے زخم صاف کرنے لگی وہ بڑے مگن انداز میں اپنا کام کر رہی تھی اسنے ایک بار بھی اسکے چہرے کی طرف نگاہ نہیں اٹھائی تھی جبکہ وہ مکمل طور پر اسکے حسن اور معصومیت میں کھویا ہوا تھا سرخ و سفید رنگ بڑی بڑی گھور سیاہ کالی آنکھیں لمبی پلکیں سرخ یا قوتی ہونٹ جو سردی کے باعث نیلے پڑ گۓ تھے وہ بے خود سا اسے دیکھے جارہا تھا اس وقت اسے کچھ یاد نہ تھا وہ اپنا مقام مرتبہ سب بھول چکا تھا یاد تھا تو اتنا کہ وہ پہاڑوں کے درمیان سخت پتھریلی ز ین پر زخمی وجود لیے اک بے غرض اور ہمدرد لڑکی کی مسیحائی کا شرف حاصل کر رہا تھا اسے محسوس ہوا اسکے سب درد ختم ہو گۓ ہوں وہ نہیں جانتا تھا اسے کیا ہو گیا تھا اک سکون تھا جو اسے ہر چیز سے بے گانہ کیے جارہا تھا اسکا دل شدت سے بس یہی چاہ رہا تھا کہ وقت یہیں تھم جاۓ اور وہ یونہی اسے دیکھتا رہے مگر ہر خواہش ک کامل ہونا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا
وہ بار بار ندی تک جاتی اور ڈوپٹہ دھو کر لاتی جو اب آدھے سے زیادہ گیلا ہو چکا تھا آدھے گھنٹے تک وہ اپنا کام ختم کر چکی تھی
” اب کیا کرو گے تم کہاں جاو گے” وہ اپنی چیزیں اٹھاتے بولی
” ہمم تم مجھے اس درخت تک چھوڑ دو بس باقی میں خود کر لوں گا “وہ کچھ سوچتے ہوے بولا مگر اگلے ہی لمحے ٹھٹھک گیا وہ زمین ںپر بیٹھی کتا بیں اٹھا رہی تھی
” یہ کیا ہے ”
“کتابیں” وہ سکون سے بولی
‘مگر یہاں..” وہ جیران تھا کیونکہ گاؤں میں یہ اجازت کسی کو بھی نہ تھی اور نہ ہی سہولت
” ہاں میں جانتی ہوں مگر مجھے پڑھنے کابہت شوق ہے اسلیے میں سب سے چھپ کے روز یہاں آکر پڑھتی ہوں کسی کوبھی نہیں پتا اماں کے علاوہ “وہ تفصیلاً بتانے لگی
” اور تم بھی مت بتانا کسی کو “آخر میں وہ مسکراتے ہوے شرارت سے بولی یہ جانے بغیر کہ وہ اپنا راز اسی کے سامنے کھول چکی ہے جس سے اسے سب سے زیادہ خطرہ لاحق تھا یہ پہلا موقع تھا جب اسنے نگاہیں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا اور وہ ان آنکھوں کے سمندر میں خود کو ڈوبنے سے بچا نہیں پایا تھاوہ اسکا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اسے اسکی منزل کی طرف چھوڑ کر اپنے راستے کی طرف بڑھ گئی مگر وہ کتنی ہی دیر اسے خود سے دور جاتے دیکھتا رہا تھا اس دن کے بعد وہ ہر روز وہاں آتا تھا اسکی تلاش میں اور ہر شام نامراد لوٹ جاتا تھا اور آج اسکا انتظار مکمل ہو گیا تھا مگر نہیں … شاید قسمت کواسکے صبر کا ابھی مزید متحان لینا تھا
★★★★★★
میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مرہی جاوں جو تم سے فرصت ہو!
کھٹکے کی آواز پر وہ چونک کر سیدھا ہوا
آجاو منٹھھار خلاف ممعمول اسکا لہجہ نرم تھا ملازم حیران ہوتا اندر آیا اور مؤدب سا سر جھکا کر کھڑا ہو گیا
“ہوں کیا خبر ہے “وہ آنکھیں کھول کر اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
” راجہ جی اس لڑکی کا پتا چل گیا ہے صاحب اسکا نام رانی ہے جی کرمداد کی دھی ہے اسی پنڈ کی ہے “ملازم نے تفصیلات بتاییں
” ہمممم رانی” وہ ہولے سے بڑبڑایا اور سر جھٹک کر ہنس دیا
‘اور ایک بات اور بھی” ملازم کچھ یاد آنے پر پھر سے بتانے لگا اسنے ابرو اچکا کر ملازم کو دیکھا
“اسکی منگنی بھی ہو گئی ہے جناب اسکے تایا کے لڑکے سے”
” کیا کہا تم نے” وہ غصے سے بھڑک کر اٹھا
” کون ہے وہ مردود جو ہماری چیز پر نظر رکھ رہا ہے” اسکی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے کچھ دیر پہلے والی نرم مزاجی غائب تھی ملازم ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہٹا اور کانپتے لہجے میں بولا
“جناب سجاد نام ہے اسکا”
” گاڑی تیار کرو ہم ابھی جائیں گے “وہ حکم دیتا باہر نکل گیا
★★★★★★★
“افوہ کیا ہو گیا ہے اماں جی بیٹھ جائیں اب” امیراں نے اکتا کر آملہ بیگم سےکہا جو بے چینی سےادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھیں
” کیسے بیٹھ جاوں آج دیکھا نہیں تم نے کیا ہوا ہے ضرور کہیں کچھ گڑبڑ ہے ”
“کیا گڑبڑ ہے اماں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی “وہ الجھن بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولی
“آج تک ابسام نے ایسا نہیں کیا ہے میرے خلاف وہ آج تک نہیں گیا ہے”
“عروسہ سنو ” یکدم کچھ یاد آنے پر وہ عروسہ کے پاس آ بیٹھی اور سرگوشی کے انداز میں پوچھنے لگی” کیا لگتا ہے تمہیں کہیں کوئی لڑکی کا تو چکر …….”
“ارے نہیں چچی جان راجہ ابسام اور لڑکی کے پیچھے ہو ہی نہیں سکتا” عروسہ کے لہجے میں یقین تھا
“ہمممم….. پتا تو میں لگا ہی لوں گی” وہ مضبوط لہجے میں بولیں اور چاے لاتی اریکہ کی طرف گھومیں
“تم رات کو راجہ کے کمرے میں کیا کر رہی تھیں” وہ غصے سے اسےپوچھنے لگی وہ گڑبڑا کر عروسہ کو دیکھنے لگی
“کیا پوچھ رہی ہوں میں “وہ اٹھ کر اسکے سامنے آ کھڑی ہویں اور اسکے بال مٹھی میں جکڑ کر بولیں
“کچھ .ب… بھی نہیں” اسنے ڈرتے ڈرتے بات پوری کی
اور مدد طلب نظروں سے امو جان کو دیکھنے لگی
“چھوڑو آملہ اسے کیا کررہی ہو اسکا بھی تو شوہر ہے وہ بغیر وجہ کے بھی جا سکتی ہے وہاں” امو جان نے دھیمے انداز میں سمجھانا چاہا مگر وہاں انکی بات سمجھنے والا کوئی نہ تھا آملہ بیگم اپنا چہرہ اسکے قریب کر کے بولیں
“آج کے بعد اگر ایساکچھ سنا میں نے تو جان سے مار دوں گی تمہیں سمجھی” وہ اسکے بالوں کو جھٹکا دیتےہوئے بولیں اور ایک تنفر بھری نگاہ امو جان پر ڈال کر پلٹ گئیں
★★★★★★★★