”ادیوا! دیکھو تو کون آیا ہے۔“
وہ ایک دم سے چونک کر اٹھ بیٹھی۔ایک بار پھر ماضی سے اپنا آپ گھسیٹتی ہوئی شل وجود کے ساتھ وہ آنکھیں کھول کے چہرے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی۔
”ارے ماہا! what a great surprise“
وہ اٹھ کے ماہا کے گلے لگ گئی۔ ماہا تین سال سے امریکا میں تھی۔ اس کی شادی اس کے کزن سے ہوئی تھی، جو کہ وہاں رہائش پذیر تھا۔
”تم لوگ گپ شپ کرو …… میں کھانے کاارینج کرواتی ہوں۔“
یہ کہہ کر مسز عمر نیچے کچن میں آ گئی۔ وہ دونوں بہت عرصے کے بعد ملی تھیں۔ ماہا بالکل ویسی کی ویسی ہی تھی اور ادیوا کے چہرے پر واقعی پرانی مسکراہٹ پھر سے آگئی تھی۔
کچھ دیر باتوں کے بعد ماہانے اپنے موبائل سے ہسبنڈ اور بیٹے کی تصویریں ادیوا کو دکھائیں۔ بہت اچھا کپل تھا۔ ادیوا نے ماہا کو موبائل واپس دیتے ہوئے ماہا کے stay کا پوچھا۔ وہ فور ویکس کی vacation پر آئی تھی۔ ماہا کو ادیوا کے ساتھ ہونے والے حادثے کی خبر تھی، اس لیے اس نے صفان علی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ کافی دیر یونیورسٹی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ دونوں لان میں ٹہلتی رہیں اور پھر دوپہر کے کھانے کے بعد ماہا واپس چلی گئی۔
ادیوا نے آج فجر کی نماز بھی نہیں پڑھی تھی۔ رات کو وہ بہت دیر تک وہی سب سوچتی رہی اور وہیں بیڈ سے ٹیک لگائے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ نماز نہ پڑھنے کے اثرات اسے واضح طور پر محسوس ہو رہے تھے۔دل کچھ ضرورت سے زیادہ بے چین تھا۔ ادیوا نماز کی پابند نہ تھی، مگر صرف فجر کی نماز کے لیے وہ کوشش کر کے پڑھ لیتی تھی اور دل سکون میں آ جاتا تھا۔
”ادیوا! تمھارے ماموں کی فلائٹ ہے پرسوں جمعرات کو شام چار بجے کی۔ اگر تم بہتر فِیل کرو، تو میرے ساتھ مارکیٹ چلو۔ وہ میں سوچ رہی تھی ان سب کے لیے کچھ presents لے لیں۔“
”جی ماما! ٹھیک ہے میں ضرور چلوں گی۔ آپ بتا دیجیے گا کہ کب جانا ہے۔“
وہ یہ کہہ کر کمرے میں واپس آ گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسلام آباد کی ایک بڑی مارکیٹ پہنچ گئی۔ کچھ کپڑے اور پرفیومز لے کر وہ واپس گھر آ گئے۔ ادیوا کو کچھ تھکاوٹ محسوس ہوئی اور وہ آرام کے لیے کمرے میں آ گئی۔
کبھی کبھی یادیں انسان کا ایسے پیچھا کرتی ہیں کہ اسے پاتال میں سے بھی ڈھونڈ لاتی ہیں۔ آپ چاہیں مر مر کی جئیں یا جی جی کر مریں۔ وہ اپنے ظلم میں کسی صورت کمی نہیں کرتی۔
ادیوا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ رات کی تاریکیاں جتنی بھی گہری ہوں یادیں اس کے وجود کا سراغ لگا کے اس تک پہنچ جاتی تھیں۔ اور ابھی بھی اس کے کمرے میں کسی بن بلائے مہمان کی طرح منتظر بیٹھی تھیں۔
٭٭٭
اسی کھیل تماشے میں پورا ایک مہینہ گزر گیا تھا وہ لوگ ادیوا کو اس بُری طرح سے زندگیوں سے بے دخل کر چکے تھے کہ جیسے اس کا وجود کچھ تھا ہی نہیں۔ ذین اور منان جنھیں اس نے بھائیوں سے زیادہ پیار دیا۔ ادیوا کی کال دیکھتے اور ڈس کونیکٹک کر دیتے۔ انکل جن سے اپنے پاپا کی طرح پیار کیا کرتی تھی، وہ بھی ادیوا کی ایک بار بھی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ جب انسان نے کوئی غلطی کی ہو نا، تو وہ بُرے رویوں پر ہنس کے صبر کر لیتا ہے، لیکن جب اسے اپنا قصور ہی پتا نہ ہو، تو پھر صبر کرنا اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے، جتنا بند قبر میں سانس لینا اور اس وقت اس کا پل پل کسی قبر میں ہی گزر رہا تھا۔
”صفان علی! کہاں ہیں …… میں ان کی مسز بات کر رہی ہوں۔“
آج اس نے اس کی شاپ پر کال کرنے کی ہمت کر ہی لی۔وہ واضح طور پر سن سکتی تھی، ہولڈ کے دوران دوسری طرف سے صفان علی کسی سے مخاطب تھا۔
”کہہ دو میں نہیں ہوں۔“
اور ادیوا میں مزید سننے کی ہمت نہ تھی۔ اس نے فون بند کر دیا۔
آخرکوئی کسی سے اتنی نفرت کیسے کر سکتا ہے اور وہ بھی اس سے کہ جس سے کبھی انتہا کی محبت کا اقرار کیا ہو؟
عمر حیات کے صبر کی انتہا ہو چکی تھی۔ انھوں نے بیگم کو صفان علی کے گھر جانے کی ہدایت کی اور اشعر کو ساتھ جانے کا کہا۔ وہ خود نہیں جانا چاہتے تھے کیوں کہ وہ اپنا غصہ کنٹرول میں اکثر نہیں رکھ پاتے تھے اور حادی بھی ایسے ہی Temprament کا تھا۔
اشعر اور مسز عمر گھر سے نکل ہی رہے تھے کہ ادیوا بھاگتی ہوئی آئی۔
”ماما …… ماما ……! مجھے بھی جانا ہے۔ پلیز!“
وہ بہت اصرار کر کے ان کے ساتھ چلی گئی۔کچھ ہی دیر بعد وہ لوگ وہاں پہنچ گے۔
سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے، تو ادیوا اپنے کمرے کے سامنے آکر رک گئی۔ اس کے قدم خود بخود تھم گئے۔
اور کمرے کا دروازہ باقاعدہ کھلا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں نظر آنے والے چینج کو محسوس کر سکتی تھی۔ سب سیٹنگ بدلی جا چکی تھی۔ حیرتوں کے پہاڑ تھے کہ ٹوٹتے چلے جا رہے تھے۔ آگے گئے، توکچن میں موجود آنٹی کی کزن کی بیٹی سعدیہ کچھ بنانے میں مصروف تھی۔ گھر کی رونقیں تو باہر والوں سے آباد تھیں، پھر کیسے ضرورت محسوس ہوتی کہ ادیوا صفان کو گھر واپس لانا چاہیئے۔ آنٹی نے ان سب کو آتا دیکھ کر انکل کو دوسرے روم میں بھجوا دیا تا کہ وہ کسی بات میں کوئی مداخلت کریں، نہ رائے دیں۔
جن گھروں میں فیصلوں کا حق عورتوں کو دیا جاتا ہے، وہ پھر اسی طرح سے اُجاڑ پُجاڑ کرتی ہیں اور جہاں مردوں کی اتنی عزت ہو کہ فیصلوں کے وقت انھیں کمرے سے نکال دیا جائے تو وہاں انصاف کی کیا توقع کی جائے؟
وہ سب اندر جا کے بیٹھے، توآنٹی کی حقارت بھری نظروں کا نشانہ ادیوا مسلسل بنتی رہی۔
اشعر نے انکل کو بلانے کا کہا، تو وہ قدرے غصیلے لہجے میں بولی۔
”مجھ سے کریں، آپ نے جو بھی باتیں کرنی ہیں۔“
مسز عمر اور اشعر ان کے رویے سے بہت حیران ہوئے۔ ادیوا تو خیر یہ سب رنگ دیکھ چکی تھی، اس لیے اس کے لیے کوئی خاص حیرت کی بات نہ تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بات کرتے۔ آنٹی نے خود ہی بہت غیر متوقع طریقے سے بات شروع کر دی۔
”آپ اسے لے جائیں۔ ہمارے گھر میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔“
ادیوا پہ تو جیسے کوئی ناگہانی آفت نازل ہو گئی ہو، کوئی آسمانی بجلی اور وہ وہیں جل کے راکھ ہو گئی ہو۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ اشعر نے فوراً پوچھا۔
”آنٹی! میری بہن نے قصور کیا کیا ہے۔ آخر اسے کیسے آپ نے اتنی بڑی بات کہہ دی؟“
”ایک تو یہ ضرورت سے زیادہ معصوم اور امیچور ہے۔ ہمارا گزارا نہیں اس کے ساتھ اور دوسرا ایسی سینسٹو لڑکی کو ہم اپنے گھر میں رکھ کر جان کا وبال نہیں بنا سکتے۔“
”کل تک تو میری معصومیت‘ میری امیچورٹی کو اس گھر میں میری شخصیت کامضبوط پہلو سمجھا جاتا تھا آنٹی! اور آج یہی میرے لیے طعنہ بنا کے آپ میرے منہ پر مار رہی ہیں۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ یہ میرے صفان کا گھر ہے۔“
ادیوا روتے روتے اپنی آواز کا ٹھہراؤ برقرار نہ رکھ پائی۔
اشعر اور مسز عمر اس کی حالت دیکھ کر ٹوٹ کر رہ گئے۔ اب مسز عمر اور اشعر ضرورت سے زیادہ نرم لہجے میں استفسار کرنے لگے، مگر صفان کی والدہ نے ایک بھی بات تحمل مزاجی سے نہ کی۔ادیوا سے نہ رہا گیا، تو وہ انکل کو ڈھونڈتی ہوئی باہر کمرے تک آئی، مگر وہ بھی ادیوا کے حق میں فرعون سے کم ظالم ثابت نہ ہوئے۔ ادیوا کسی صورت گھر سے جانے کوتیار نہ تھی۔
جن گھروں کی بنیادوں کو اپنے خون سے سینچا ہو ناں! تو پھر وہاں سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ آخرکارفون پر صفان کی بات ادیوا سے کرائی گئی اور اس نے ادیوا کو کہا۔
”تم گھر جاؤ میں وہاں آ کر بات کرتا ہوں۔“
اس آس پر وہ واپس آگئی، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے صفان علی ادیوا کو کبھی اپنی زندگی سے بے دخل نہیں کر سکتا اور اس کے رابطہ نہ کرنے کی وجہ صرف اس کی ناراضگی ہے وہ بھی وقتی طور پر۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا ……سب پہلے جیسا ہو جائے گا…… ادیوا کے بھرم تھے کہ ٹوٹنے کا نام نہ لیتے ……
امیدوں کا بھی کوئی دین ایمان نہیں ہوتا۔ایک دم سے بنتی ہیں اور ٹوٹتی ہیں ان کو جتنا بھی مضبوط کر لو،ان کی قسمت میں آخر کار ٹوٹنا ہی لکھاہو تا ہے۔چاہے انسان فلک سے چاند توڑ کے رشتوں کی مانگ بھر دے یا چاہے قدموں میں کائنات ڈال دے، جنھیں توڑ کے جانا ہو، وہ دل سے بندھی گرہوں کا بھی لحا ظ نہیں رکھتے۔ جسم سے روح سمیت سب کھینچ کے لے جاتے ہیں اور پیچھے رہنے والے خالی آنکھیں لیے امیدوں کی قبروں پہ بین کرتے رہ جاتے ہیں …… بس اور ادیوا بے بسی کی انتہا پہ تھی۔
وہ سب واپس آ گئے۔ اب ادیوا شدت سے صفان علی کا انتظار کرنے لگی۔کچھ ہی دیر بعد گھنٹی بجی اور صفان علی کوریڈور سے ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوا۔ عمر حیات نے اسے ویلکم کہا، کیوں کہ گھر کے باقی لوگ تو اسے دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے، جو سلوک اس نے کیا اور کر رہا تھا ادیوا کے ساتھ، اس کے بعد وہ اسی سلوک کا مستحق تھا۔
رسمی سلام دعا کے بعد صفان علی ادیوا کے کمرے میں چلا گیا اور ادیوا وہاں پہلے سے ہی اس کی منتظر تھی۔ بھاگ کر اس کے گلے لگنا چاہا، تو صفان علی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے وہیں روک دیا۔ انسان میں ظرف ہو تو ہی معاف کر سکتا ہے۔ ایک بات تو واضح تھی، ادیوا جتنا ظرف صفان علی کی فطرت میں تھا ہی نہیں …… ورنہ جو تکلیفیں، جو اذیتیں اس نے اپنے لہجے سے، لفظوں سے اسے نوازی تھیں ان کا تو حساب کتاب بھی نہ کیا تھا ادیوا نے…… اگر وہ اپنے حساب کھول لیتی، تو صفان علی کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا حق بھی نہ دیا جاتا۔ ادیوا کے بیان سے ہی اس کو سزا سنا دی جاتی، لیکن بات ادیوا کے ظرف کی تھی، جو اس کے رکنے کے اشارے پر سہم گئی تھی، کیوں کہ ادیوا جانتی تھی کہ وہ تذلیل کرنے میں کوئی لحاظ نہیں کرتا اور ادیوا ایک بار پھر سے اس کے ہاتھوں نہیں ٹوٹنا چاہتی تھی۔
”ادیوا! ہماری شادی کو کتنے مہینے ہو چکے ہیں۔ تین سے زیادہ ہو چکے ہیں ناں؟تمھیں نہیں لگتا کہ ہماری انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو پا رہی۔ تم میرے ساتھ خوش نہیں، اسی لیے تم نے اپنی جان لینے کی کوشش کی۔“
وہ اپنے سارے رویوں سے یکسر انجان ہو کے ادیوا کو الزام دیتا گیا۔ہر قصور کی سزاوار ادیوا ٹہری۔
بدگمانی کی ساری حدیں ٹوٹتی گئیں، جوں جوں وہ بولتا گیا۔
”میں نے اب اپنے اور تمھارے بھلے کے لیے یہی فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں اس رشتے کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے، کیوں کہ ہم دونوں میں ہی اتنی طاقت نہیں ہے۔“
اس کا دل چاہا کہ اسی وقت اٹھے اور صفان علی کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دے اور اسے پیار سے سمجھائے کہ وہ بدگمان ہے، بہت بدگمان ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی صفان علی اپنی بات مکمل کر کے دروازے سے باہر نکل گیا۔ وہ عجیب بے یقینی کا شکار تھی۔ بھاگتی ہوئی اس کے پیچھے گئی اور ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔
”صفان! میں آپ کو ایک بات بس ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔ پلیز! میری بات سن لیں۔
اب ادیوا کی بے بسی انتہا پہ تھی۔
صفان علی نے اسے موقع دیا اور وہ بولی۔
”صفان! آپ کو مجھ سے شکایت ہے ناں کہ میں نے وین کیوں کاٹی؟ تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ جب آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تمھیں صبح تمھارے گھر چھوڑ آؤں گا۔ صفان! آپ کو پتا ہے کہ ادیوا صفان موت برداشت کر سکتی ہے، لیکن صفان علی سے الگ ہونا نہیں۔ اگر آپ میری وہ غلطی معاف کردیں، تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ مجھے جیسے رکھیں گے، جہاں رکھیں گے، رہوں گی…… کبھی کوئی گلا بھی نہیں کروں گی ……“
اس کے آگے اس وقت ادیوا کسی بھکاری کی طرح محتاج کھڑی تھی۔
یہی فرق ہوتا ہے ایک انسان سے محبت میں اور اللہ سے محبت میں۔ انسان عمر بھر کے گناہ لے کر اللہ کے سامنے ندامت کا ایک آنسو بہاتا ہے اور وہ اس کے وجود کی ساری کرچیوں کو یکجا کر کے اس کی تکمیل کر دیتا ہے۔جب کہ ایک انسان ایک ایسی خطاء بھی معاف نہیں کرتا جس کی وجہ خود اس کا اپنا رویہ ہوتا ہے۔
اب وہ ہاتھ جوڑ کے صفان علی کے سامنے کھڑی تھی، ایک بات تو طے تھی کہ ادیوا دل ہی دل میں اپنی غلطی پر بہت شرمندہ تھی۔ اسے احساس تھا اس نے واقعہ ہی اپنے اللہ کو بھی ناراض کیا اور اپنوں کو بھی دکھی کیا، لیکن جن حالات سے وہ گزری، اس نے وہی کیا، جو وہ کر پائی۔
”صفان! مجھے معاف کر دیں۔اللہ بھی تو ہے نا! ہماری چھوٹی بڑی سب غلطیاں معاف کر دیتا ہے، آپ میری آخری غلطی سمجھ کے معاف کر دیں۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ سے جڑے ہر انسان کی ایسے ہی عزت کروں گی، جسے میں آپ کو دیتی ہوں۔“
اور ادیوا جانتی تھی کہ اس نے ہمیشہ سب کو سر آنکھوں پہ رکھا تھا۔
”اب اس سے زیادہ میں اور کیا کہوں صفان! کہ آپ کو مجھ پر یقین آئے اور آپ اسی حق سے مجھے گھر لے جائیں، جس طرح پہلی بار لے کر گئے تھے۔ ہاتھ پکڑ کر، محبت سے، مان سے۔“
ابھی وہ اپنی بات ختم کر بھی نہ پائی تھی کہ صفان علی اٹھ کر تیزی سے باہر چلاگیا۔
انسانوں میں کہاں اتنا ظرف کہ وہ کسی کی غلطی معاف کر سکیں۔ وہ تو بس ایک چھوٹی سی خطاء کے منتظر ہوتے ہیں، ادھر غلطی ہوئی اور ادھر سزا آپ کا مقدر بنا دی گئی۔ آپ کی ساری محبتیں، ساری قربانیاں خاک میں ملا دی جاتی ہیں۔ آپ کے وجود سمیت۔
ادیوا تیزی سے اس کے پیچھے بھاگی، تو حادی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”ادیوا! سنبھالو خود کو …… مجھے مجبور مت کرو …… میں اس انسان سے وہ سلوک کروں، جو تم برداشت نہ کر سکو۔ کبھی سوچا ہے ادیوا! کس تکلیف سے گزر رہے ہیں ہم سب؟ ماناکہ تمھاری محبت کے معاملے میں ہمارے وجود بے وقعت ہیں۔ صفان علی کے اونچے مرتبے کے آگے ہم سب تمھیں دکھائی نہیں دے رہے، لیکن ہمارے وجود کو اتنا بھی مت نظر انداز کرو ادیوا! کہ کل کو تمھیں ہماری ضرورت پڑے اور تمھیں ہمارے مردہ وجود مٹی کے ڈھیلوں سے نکالنے پڑیں اور پھر ہم تمھارے کچھ کام نہ آ سکیں ……“
حادی کی آنکھیں بھیگتی جا رہی تھیں اور وہ اپنی بات مکمل کیے بنا ہی وہاں سے چلا گیا۔
وہ بوجھل قدموں سے کمرے میں واپس آگئی۔ جانے کتنی دیر تک روتی رہی۔ اس بات کو پانچ دن گزرے تھے کہ عمر حیات اور مسز عمر ادیوا کے پاس آئے۔ وہ اپنے کمرے میں کچھ بکس کو ترتیب سے شیلف میں لگارہی تھی۔
”پاپا…… ماما! آئیں ناں بیٹھیں …… کیاہواآپ لوگ مجھے بلا لیتے۔“
”نہیں بیٹا! کوئی خاص کام نہیں تھا۔ بس سوچا تم سے پوچھیں کہ کیا پلان ہے آگے …… فارغ ہو اور فارغ ذہن میں الٹی سیدھی سوچوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ میں سوچ رہا تھاکہ تم کیلیفورنیا چلی جاؤ اور آؤٹنگ بھی ہو جائے گی۔ تمھارا شوق بھی ہے ایسی جگہیں دیکھنے کا۔“
”واؤ پاپا! گریٹ آئیڈیا ……لیکن صفان……؟ پاپا! آپ صفان سے بات کریں گے، تو وہ مان جائیں گے ناں! اور ہم دونوں کو کچھ بریک بھی مل جائے گی۔“
اب عمر حیات ہمت کر کے بھی وہاں زیادہ دیر نہ بیٹھ سکے۔ دونوں پریشان سے دکھائی دے رہے تھے۔ ادیوا کے اس جواب کے بعد دونوں چپ سے باہر نکل آئے اور وہ بیڈ پر بیٹھ کر سوچنے لگی۔ اپنا اور صفان کا ساتھ…… کیلیفورنیا کی خوبصورت گرینری میں حسین لمحے ہوں گے اور وہ کافی دیر خود سے باتیں کرتی رہی۔ آج ڈائننگ ٹیبل پر کوئی موجود نہ تھا۔ جب ادیوا ڈنر کے لیے نیچے آئی، تو سب لوگ لاؤنج میں افسردہ، پریشان حال بیٹھے۔ ادیوا سمجھ نہ پا رہی تھی کہ آخر ہوا کیا ہے۔ اس کے بہت اصرار پر سب نے تھوڑا بہت کھانا کھایا اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
شاید پریشانیاں اور دکھ بانٹنے کے لیے اپنے کمرے کی دیواروں سے اچھا اور سچا ساتھی کوئی نہیں ہوتا۔ وہ آپ کو ہر ہر کروٹ ٹوٹتے بکھرتے زندگی سے لڑتے دیکھتی ہیں۔ آپ کے سارے راز اپنے اندر جمع کرتی رہتی ہیں۔
ٹھیک اگلے دن ایک پلوڈر آکر عمر حیات کے دروازے کے آگے رکا، تو ادیوا بے اختیار اپنے کمرے کی بالکونی پر آ گئی۔ اب ڈرائیور اور واچ مین مل کر اس گاڑ ی سے سامان اتارنے لگے۔ ادیوا کے قدموں سے جیسے زمین نکل گئی یہ تو وہی سامان تھا۔ اس کے کمرے کا۔۔اس کا بیڈ اور ڈریسنگ۔ وہ ننگے پاؤں کار پورچ کی طرف بھاگی۔
”ماما…… ماما! یہ کیا ہے۔ پلیز کہاں ہیں۔ جلدی آئیں۔“
جیسے کوئی درد کی extremeسے چلا رہا ہو، مگر آواز پھر بھی اتنی دھیمی ہو کہ اپنے آپ کو بھی سنائی نہ دے۔
ادیوا چِلاّ چِلاّکر پوچھ رہی تھی۔
”کیوں لائے ہیں آپ لوگ یہ …… کس سے پوچھ کے میرے کمرے سے سامان اٹھایا ہے۔“
وہ اب واقعی اپنے حواس کھو رہی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...