(سانحہ پتوکی دعوت ولیمہ)
شادی ہال انسانوں سے بھرا ہے ۔
لیکن انسانیت سے خالی ہے۔
یہاں کوئی انسان نظر نہیں آرہا
یہ بدروحیں ہیں۔
غربت پاپڑ کا تھیلا اٹھا کر اندر داخل ہوتی ہے۔
ظلم نے دنیا سے کنارہ کب کیا ہے؟
اللہ رحمنٰ و رحیم ہے
ظلم نے غربت کی شہہ رگ پر کاری ضرب دے کر اسے موت کے منہ میں تڑپتا چھوڑ دیا۔
لوگ دعوت ولیمہ اڑانے لگے۔
سجے ہوئے ٹیبل کرسیوں کے پاس لاش پر مکھیاں اپنی خوراک پا کر رقص کرنے لگیں۔
بے حسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا یہ سرعام دندناتی پھرتی ہے۔
آجکل کے انسانوں نے بے حسی کا شراب پیا ہے۔
ہم خوفِ خدا سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔
اور آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں۔
وہ رحمنٰ و رحیم ہے کا ورد کر کے
اسکی نافرمانی کرنے لگتے ہیں۔
شاید !
دولت و بے حسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
مٹی کی مورتیں دولت کے نشے میں دھت ہیں۔
انسانیت سے غافل بے حسں و بدمست لاش پر پاوں رکھے کھڑے ہیں۔
ہم بدروحوں کا انسانوں کی بستی سے جانے کب کوچ ہوگا ؟
***۔۔۔۔***