ریلنگ چیئر پر بیٹھا مسلسل جھول رہا تھا آنکھیں تھوڑی سی نم تھیں نظریں سامنے لگے نائٹ بلب پر تھیں جس کی تھوڑی سی روشنی اندھیرا چیرنے میں ناکام ٹھریں تھیں
دس سال پہلے
ایک امیر زادہ جس کے کہنے سے پہلے ہر چیز اُسکے سامنے پیش کردی جاتی تھی دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھی زِندگی میں ہر خوشی ماجود تھی امیروں والے ہر شوق میں انتہا حد تک لگاؤ تھا ایک بہن چار سال بڑی جبکہ ایک نو سال چھوٹی تھی
بڑی بہن دماغی توازن پیدائشی طور پر ٹھیک نہیں تھا
"بازل”
آدھی رات کو چیخوں کی آواز سے اُٹھا تو زِندگی ٹھر گئی کوئی اُسکی معصوم اور بیمار بہن پر اپنے نفس کی بھوک مٹا چُکا تھا
گھر میں کوئی کسی سے نظریں ملانے تک کہ روادار نہیں تھا یہیں نہیں ایک اور حملے اُنکی عزت پر کیا گیا جب نازیبہ تصویریں اُنکے ڈیفنس میں پھیلا دیں گیں جس کے بعد باپ کو اٹیک آیا اور ماں خود ہی دُنیا سے منہ موڑ گئی
زندگی کا مشکل ترین مہینہ جس میں ساری ساری رات سڑکوں کی چھان پھٹک کر وہیں سو جاتا کبھی گھر آیا ہی نہیں یہاں لوگ اسکو دیکھ کر ہنستے تھے اُسکی بے بسی کا مذاق اڑاتے تھے
"کیسا بھائی تھا وہ اپنی بہن کی حفاظت نہ کے پایا ۔۔۔۔اپنی گھر کی عزت سے کیسے غافل ہوا ۔۔۔اپنا آپ اپنی مفلوج بہن کا گنہگار سمجھنے لگ گیا تھا ”
چھوٹے سے لڑکے کو اپنی عمر سے بڑھ کے کر دُکھ مل گیا تھا
"سڑک پر جاتیں لڑکیوں کو دیکھ کر خود با خود نظریں جُھک جاتی تھیں ایک ہی دعا تھی کبھی اُسکی بہن کے نصیب جیسا نصیب کسی کا نہ ہو ۔۔۔۔۔۔یہ غم ایک بھائی کے لیے اتنا خطرناک ثابت ہوا تھا تو باپ کی موت بے معنی نہیں تھی یہاں بھی ہوتا تھا ایک ہی ڈر تھا اُسے کوئی پہچان نہ لے کوئی اُسکے ماں باپ کی تربیت پر اُسکی عزت پر سوال نہ کر دے ”
اذیت سے سُرخ آنکھیں ایک سیکنڈ میں کھول دیں سر دونوں ہاتھوں میں گرا دیا
لوگ اُسکے بارے میں کہتے تھے بازل شاہ دُنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے لیکن اُس سے بڑھ کر کون جانتا تھا کہ اُس سے بد قسمت انسان دُنیا میں نہیں تھا جس کی بہن کی عزت بنگلہ کی اونچی دیواریں بھی نہیں بچا سکیں تھیں جب پیسہ بھی لوگوں کا منہ بند نہیں کر سکا تھا
پانی کا گلاس اپنے حلق سے اندر انڈیال لیا جو زہر سے بھی زیادہ کڑوا تھا
سر جھٹک کر سامنے پڑا واجود کو دیکھا جس کے جسم میں دو دن سے کوئی حرکت نہیں آئی تھی
اور اُسکے اوپر ٹانگیں رکھئے نور کو دیکھا جو پرسکون نیند سو رہی تھی
اِس بار وہ اپنی عزت محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوگیا تھا
نور کے ڈائمنڈ میں لگے سنسر سے اُنکی لوکیشن معلوم کی تھی اور فرانس سے باہر جانے سے پہلے اُنکو روکنا تھا اور قسمت نے ساتھ دیا اُنہوں نے جلد ہی اُنکو جا لیا اور پوری کوشش کے باوجود مایا تک پہنچے میں دیر ہوگئی اور اُسکی گردن میں گولی لگ گئی جو بیک سائڈ کو چھو اور گزُری تھی لیکن خون کا ضیا زیادہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک ہوش نہیں آئی تھی اور دوسرا ڈاکٹر کہہ رہے تھے کے وہ اپنے آپ کو مرا ہُوا تسلیم کر چُکی ہے اور رسپونس نہیں کر رہی
آنکھیں بغیر کسی چمک کے مسلسل اُسے دیکھ رہیں تھیں پھر نور کو دیکھا جو اب نور کے سینے پر لیٹ چُکی تھی اور ایک ہاتھ سے مایا کی شرٹ پکڑ رکھی تھی شاید وہ دوبارہ کھونے سے ڈر گئی تھی جس طرح دو دن وہ بیڈ پر اُس گم سم سی مایا سے کھیلتی رہی تھی یہ بات بیا اور بازل کو پریشاں کر گئی تھی یہاں تک کے فیڈر بھی اُسکے بازو پر سر رکھ کر پیتی تھی اور ہر پانچ منٹ بعد اُسکا چہرہ اپنے ننھے ننھے سے ہاتھوں سے مسلسل چھوتی تو کبھی اُسکے چہرے پر پیار کرتی
مسلسل دونوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولیں اور چیئر سے اُٹھ کر بال کھجاتے ہوئے باہر چلا گیا کیوں کہ اندر کافی گھٹن ہورہی تھی
"وہ عشق کے فرائض سے دستبردار ہونے جارہا تھا جس کے لیے تھوڑا وقت درکار تھا ”
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"آنٹی کون ہیں آپ کیا کر رہیں ہیں”
پیرائر روم میں بیٹھی نماز کے بعد دعا مانگ رہی تھی جب پیچھے سے کسی نے بال میٹھی میں جکڑے
"میرا بیٹا چھین کر پوچھ رہی ہے کون ہوں میں”
ایک تھپڑ اُسکے منہ پر جڑتے ہوئے بولی ابھی دو دن بعد ڈاکٹر کا رونا سننے ہاسپٹل آئی تھی جب مہر اور دامل کو ایک پلیٹ میں کھاتا ہُوا دیکھا ۔۔۔۔کافی دور کھڑی تھی لیکن پتہ چل کے دونوں میں کوئی رشتا تو ضرور ہے جو اتنا بے تکلف ہیں اور پاس ہی تالش بیٹھا چیئر سے ٹیک لگے بیٹھا تھا
وہ تو ڈاکٹر عافیہ سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ چھوٹے بیٹے کی بیوی ہے
"آپ اپنے بیٹے سے پوچھیں ”
"کیوں ۔۔۔اج کل کی لڑکیوں کو پتہ نہیں کیا ھوگا ہے بھئی خود ہی گھر سے بھاگ بھاگ کر شدیاں کرے جارہیں ہیں کوئی شرم ہے ہی نہیں ۔۔۔شرم نہ آئی ابھی میرا بچہ ہے ہی کتنے سال کا ہے اُسے بھی پسا لیا ”
بولتی ہوئی اُسکے بالوں اور گرفت مضبوط کر چُکی تھی
"دیکھیں اپنی حد میں رہیں کیا سمجھتی ہیں خود کو پہلے اپنا آپ تو دیکھ لے ستلا تو ایک طرف آپکے اپنے بیٹے نہ اس قابل نہیں سمجھا کے زندگی کے اتنے اہم فیصلہ میں اپکو شریک کر سکیں ۔۔ مجھے آپ دیب مت سمجھیں آپ جیسی کو تو ایسے ساری دنیا کے سامنے پٹکھوں گی کے لوگ آپکی قسمت پر آنسو ضرور بہیں گے ۔۔۔۔۔اور خبر دار جو میرے کردار پر اُنگلی اٹھائی میں اُنگلی نہیں ہاتھ ہی کاٹ دوں گیں”
اپنے بالوں سے ہاتھ ہٹا کر اسکو مضبوطی سے پکڑ کر ایک ایک لفظ چبا چھبا کر کہا تو چند لحموں سے لیے رخسار ڈر کر پیچھے ہوئی
"تجھے تو میں لڑکی….”
دوسرے ہاتھ کی انگلی آگے کی طرف کی تو مہر نے براؤن آنکھوں سے کھا جانے والے تاثر دیتے ہووے اُسکی اُنگلی مروڑ دی تو رخسار تو چیختی ہی رہ گئی
اور اپنا ہاتھ چھوڑا کر بھاگ گئی جبکہ مہر کا جسم ہولے سے کانپا
"یہ کیا کردیا ۔۔۔۔اُو میرے خدایا ۔۔ ۔۔کہیں وہ جاکر دمل کو نا بتا دے ۔۔۔میں کیا کروں گی ۔۔۔اب تو مجھے وہ اچھے ہی بہت لگتے ہیں”
اپنے کردار اور بات آنے کی وجہ سے پتہ نہیں کدھر سے اتنی طاقت آگئی کیسے بول گئی وہ خود سمجھ نہیں آرہا تھا
اب دل خوف سے دھڑک رہا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
ہولے سے لزرتی ہوئی پلکیں کھولیں تو اپنے ہاتھوں پر چھوٹے چھوٹے سے لمس پائے ذہن آہستہ آہستہ سے بیدار ہو رہا تھا کمرہ بلیک اور وائٹ ۔۔۔ہیں یہ تو بازل کا تھا
اُسے یاد آیا ۔۔۔۔لیکن وہ تو مر گئی تھی
بلکل بچوں والی سوچ ذہن میں آئی تو نظریں گھوما کے دیکھا
سارا کمرہ خالی تھا بس نور اُسکے اوپر سے اور ٹانگیں رکھے سو رہی تھی
اُسے دیکھ کر شدید احساس ہوتا تھا کے وہ چھوٹی سی بچی کیسے ماں کی کمی محسوس کرتی ہوگی
"میں ماں کیسے ہوسکتی ہوں ؟؟؟ مائیں ایسی نہیں ہوتی”
آنکھوں کی پت جھڑ شروع ہوئی تو دروازہ کھولنے کی آواز اور دل میٹھی میں آگیا
سزا سننے کا وقت آگیا تھا اسکی سنگین غلطی کا۔
بازل آتے ہی واش روم میں گھس گیا تھوڑی دیر بعد واپس آکر ایک نظر اُسے دیکھا تو اُسکی بند پلکیں لرز رہیں تھی پاؤں کا انگوٹھا بھی ہل رہا تھا مطلب وہ ہوش میں تھی بال کو پیچھے کرتا بلکل اُسکے اوپر اکھڑا ہوا
"دیکھو تمہیں دور جانا ہے ؟؟؟؟ اور یہاں سے جاکر کس کے پاس جاؤ گی ؟؟؟
بنا حال پوچھے بنا کوئی تہميد بندھے سیدھا سوال کیا تو اُسکی گمبھیر اور رعب و جلال والی آواز سنتے ہی پٹ سے آنکھیں کھول دیں
"وہ۔۔۔میں”
اپنے کیے کی وضاحت دینا چاہتی تھی لیکن وہ کیوں نہیں پوچھ رہا تھا کیوں نہیں چلا رہا تھا اُس پر
"جواب دو ٹائم نہیں فضولیات کے لیے”
سپاٹ تاثرات لیے اُسکے دل میں آئے تمام وہم دور کے گیا تھا
"ہاں ”
جواب دے کر آنکھیں جھکا گئی دل چیخ چیخ کر نہ میں فیصلہ دے رہا تھا لیکن انا کس کام آنی تھی
"کہاں”
اپنا موبائل سائڈ ٹیبل اور سے اُٹھا کر بولا
"کیوں کر رہے ہو ایسے ۔۔۔۔میں نہیں جانا چاہتی ۔۔۔پوچھ کیوں نہیں رہے میں کیسی ہوں کیسے اتنا بڑا زخم کھا کر آئی ہوں”
صرف دل میں سوچ سکی تھی آنکھیں نم ہورہیں تھی لیکن کس کے لیے ہورہیں تھی وہ بے خبر کھڑا موبائل پر ٹائپنگ کر رہا تھا
"محد کے پاس ”
اُسے پتہ تھا وہ چڑتا تھا اُسکے نام سے یقیناً کوئی سوال ضرور کرے گا ۔۔۔اُسے چہرے پر کوئی تاثر تو آئے گا لیکن یہ محض ایک سوچ تھی ایک وہم اور ہر وہم درست ثابت نہیں ہوتا
"عبداللہ اب سے جو پہلی فلیٹ ہے پاکستان کی اُس میں ایک سیٹ ریزرو کروا لو ، مجھے ٹائم سنڈ کردینا اور گھر آکر ایک گیسٹ کو لے جانا ”
کہتا ہوا اُسکی طرف موڑا اور نور کو اُسکے اوپر سے اُٹھا کر اپنے کندھوں پر ڈالا
"گڈ بائے”
کہتا ہوا اُسکی آنکھیں میں آئی نمی کو نظرانداز کرتا چلا گیا
پیچھے لیٹے ہوئے ہی زرو قطار رو دی
"یہ اہمیت ہے میری بوجھ ہوں میں ۔۔۔ایک سیکنڈ میں مہمان بنا دیا ۔۔۔کیوں نہیں دکھتا تمھیں بازل شاہ کیوں نہیں دیکھ سکتے میری انکھوں میں جانے سے انکار ۔۔۔۔۔۔نور کے بغیر کیسے رہوں گیں ”
اینڈ پے شاید خود کو سمجھا رہی تھی کے وہ نور کی وجہ سے جانا نہیں چاہتی اور کوئی وجہ نہیں ہے
پھر ٹیک کا سہارا لیتی اُٹھ کر بیٹھ گئی اور گٹھنوں کے اوپر سر رکھ کے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو بہانہ دیے
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
"دمل آنٹی آئیں تھیں اور ۔۔۔۔مجھ”
بیٹھی اپنی انگلیاں چٹخاڑ رہی اور خود ہی بتانے کا سوچا لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کے کیسے بتائے ایک نظر سامنے دیب کا ہاتھ تھامے بیٹھے تالش کو دیکھا جس کو پتہ نہیں کیوں بچے کے ساتھ اتنی اٹیچمنٹ نہیں تھی بس وہ زبردستی پکڑا دیتے تو چند منٹ کھیل لیتا باقی وقت دیب کے پاس ہی رہتا
اُسکی آدھی بات سن کر تالش نے نظریں اُٹھا کر دیکھا
"کونسی آنٹی”
دمل نہ سمجھی سے بولا
"آپکی کی امی ”
بول کر ہاتھ میں پکڑے ہوئے عدن ابراہیم کو فیڈر پلانے لگی
"امی ۔۔۔۔وہ کیوں آئیں تھیں ”
اب بولنے والا تالش تھا تشویش ہوئی تھی کیوں وہ تو اس سب سے بےخبر تھیں
"پتہ نہیں مجھے کہہ رہیں تھی کے اُنکے بیٹے پر قابض ہوگئی ہوں میں ”
بول کر نظریں جُھکے گئی کیوں کے اپنا ردعمل بتانے کا سوچ کر ڈر لگ رہا تھا
تالش نے اُلجی ہوئی نظروں سے دیکھا تو کچھ معاملہ سمجھ میں آنے لگا اُسے کل سے لگ رہا تھا کے جب بھی ڈاکٹر دیب کے انجیکشن لگاتی ہے اُسکے ہاتھ کانپ رہے ہوتے اور انجیکٹ کیا ہوا انجیکشن اپنے ساتھ واپس لے جاتی تھی
تبی اچانک دروازہ کھولا تو وہی ڈاکٹر اپنے ہاتھ میں انجکشن لیے دیب تک آئی اور اُس کے بازو پر روئیں رکھنے ہی والی تھی جب تالش نے اُسکا وہی ہاتھ موڑ کر اُسکی گردن اور وہی انجیکشن رکھ دیا
"بتاؤ کتنے پیسوں میں میری دیب کا سودا کیا ہے ”
اتنی زور سے چلائے کے چھوٹا تالش ڈر سے رونے لگ گیا
دامل کے مطابق وہ تالش کی کاربن کاپی تھی ایک ایک نقش تالش جیسا تھا
جبکہ کے دامل معاملے کی نزاکت دیکھتے ہوئے دروازہ اندر سے بند کر چُکا تھا
"ہوش میں آؤ مسٹر کیا بدتمیزی شروع کی ہے”
وہ ذرا سنبھل کر بولی آج ہی تو نیا چیک ملا تھا اور اُسے حلال کرنے کے لیے کچھ تو کرنا تھا
"بتاؤ ورنہ یہیں زمین میں گھاڑ دوں گا ”
اُسکے ایک لفظ میں شیدتوں کے طوفان تھے آنکھیں سُرخ انگارہ بن چکیں تھیں
"تمہیں پتہ ہے اِس طرح بدتمیز اور مارنے کی دھمکی کی سزا ایک سال جیل ہوتی ہے ایک با عزت اور پیشہ ورانہ انسان کے ساتھ”
اُس میں ابھی بھی اکڑ باقی تھی مگر نظریں صاف بول رہیں تھیں کے سب جھوٹ ہے
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...