قیصر اقبال(مونگیر)
خوشبو نے اپنے خوبصورت بدن پردوچار مگ پانی ڈالا ہی تھا کہ سر کے اوپر سے ایک بڑا سا ڈھیلا بورئے کے چاک کو مزید پھاڑتا ہوا بالٹی کے پاس گرا۔ اس کا سر بچ گیا مگر اسے یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہ لگی کہ یہ ڈھیلا آیا کہاں سے اور کیوں گرا ہے کیونکہ چند روز قبل بھی جب اس کی ماں نہارہی تھی تو ایسا ہی کچھ ہوا تھا جسے خوشبو نے بھی دیکھا تھا لیکن اس کی ماں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی تھی کہ کہیں سے دھوکے میں یہ ڈھیلا آگیا ہوگا۔مگر آج پھر․․․․․․․․․یہ سوچ کر خوشبواپنی چھاتیوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے بورئے کے چاک سے اوپر جھانکنے لگی۔ اس کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ بلاک ـ C کے چودہ نمبر فلیٹ کی بالکونی میں دو جوان چھوکرے کھڑے ہوکردوربین سے بورئے کے چاک کے اندر کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں دوربین اور فوٹو کیمرے تھے۔ خوشبو سہم کر ایک کونے میں دبک گئی۔ اس کے جوان جسم سے پانی کے چمکدار موتی جھڑ رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ آخر اس نے مجبور ہوکر ماں کو پکارا۔ ماں نے سوچاپانی کم پڑ گیا ہوگا، مگر جب وہ ٹاٹ اور ٹن سے گھرے غسل خانے کے اندر گئی تو خوشبو نے سر کے اوپر پھٹے بورئے اور پھر ڈھیلے کی جانب اشارہ کیا۔ ماں فوراً باہر آکر دائیں بائیں آگے پیچھے ہر جانب بنی اونچی عمارتوں کو تکنے لگی۔ تب تک وہ چھوکرے بالکونی سے ہٹ چکے تھے۔
خوشبو کی ماں کملا بھی جوان اور خوبصورت تھی بلکہ اکثر لوگوں کو دونوں ماں بیٹی کے سگی بہن ہونے کا گمان بھی ہوا کرتا تھا۔جس سے کملا دل ہی دل میں خوش ہوجایا کرتی تھی۔آج بھی اسے غصہ آنے کے بجائے کچھ انجانی خوشی ہی کا احساس ہوا۔ پھر اس نے بڑی سی چادر لاکرپھٹے بورئے پر ڈال دیا اور خود سپاہی بن کر اوپر چہار جانب تکنے لگی۔ خوشبو کپڑے پہن کر بھیگی لٹ کو ہاتھ میں تھامے سیدھی جھونپڑی میں چلی گئی۔
یہ ایک بڑی سی جھونپڑی تھی جس میں ایک مرد بھر مٹی کی دیوار اٹھاکر کئی کھٹال بنائے گئے تھے جو الگ الگ کمروں کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔اس جھونپڑی میں رہتے ہوئے خوشبو کے باپ رام گوپال، ماں کملا اور چھوٹے بھائی مونو اور سونو کو دس سال گزر چکے تھے۔ اس سے قبل یہ لوگ صادق نگر کالونی کے سامنے سڑک کے اس پار ایک تالاب کے کنارے جھونپڑی بنا کر آباد ہوئے تھے اور گاؤں سے ساتھ لے کر آئے تین گائے سے دودھ اور چائے، جھونپڑی سے منسلک ایک سٹال پر، بیچ کرپیٹ پال رہے تھے۔ یہ غیر مزروعہ سرکاری زمین تھی اس لئے یہاں ڈیرا ڈالنے میں اول اول تو زیادہ پریشانی نہیں ہوئی، مگر پھر تھانیدار صاحب کے یہاں سے آدمی آگیا اور روزآنہ ایک سیر دودھ تھانیدار صاحب کے یہاں پہنچانے کے عوض رام گوپال کی جاں بخشی ہوگئی۔
صادق نگر کالونی والوں کے گھردودھ بیچ کر رام گوپال نے مناسب کمائی کر لی تھی اور تین گائے کے علاوہ اب دو بھینں کا بھی اضافہ ہوگیا تھاجس سے رام گوپال کے بچے چین اور سکھ کی زندگی گزارنے لگے تھے۔ کالونی کے بچوں کی دیکھا دیکھی رام گوپال کے بچے بھی کتابوں کے بستے ڈھونے لگے تھے جسے دیکھ کر رام گوپال اور اس کی بیوی کملا کو بہت خوشی ہوتی اور وہ سنہرے مستقبل کے سپنوں میں کھو جاتے۔ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے صادق نگر کالونی کے ہاتھ پاؤں بڑھنے لگے اور سڑک کے اس پار جہاں رام گوپال کی جھونپڑی تھی، نئی عمارتوں کی بنیاد پڑنے لگی۔ ہر طرف کنکریٹ اور لوہے کی سلاخوں کا جنگل پھیل گیا۔ایک دن میونسپل کارپوریشن میں کام کرنے والے دیال بابو نے، جو اکثردودھ لینے رام گوپال کے یہاں آتے تھے یہ خبر سنادی کہ رام گوپال والی جھونپڑی کی جگہ پر نئی کالونی میں بسنے والے مکینوں کے لئے پانی کے حوض کا ٹاور بنے گا۔ لگتا ہے دیال بابو نے پلاننگ کے نقشے کو اچھی طرح دیکھ لیا تھا۔ رام گوپال کی پیشانی پر سکڑن آگئی لیکن اس وقت وہ خاموش رہا۔ دوسرے دن دودھ لے کر وہ خود تھانیدار کے یہاں سویرے سویرے پہنچا اور تھانیدار صاحب سے میونسپل کارپوریشن کے دیال بابو کی کہی ہوئی بات کی تصدیق چاہی۔ تھانیدار سب کچھ سن لینے کے بعدتھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر رام گوپال کو ملول دیکھ کر بولا:
’’فکر کیوں کرتے ہو؟ جھگی جھونپڑی کی صفائی کی مہم شروع کرنے کے لئے سب سے پہلے مجھ سے ہی کہا جائے گا اور جب وہ وقت آئے گا تو میں تمھیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘‘ شاید تھانیدار صاحب کو اپنے ایک سیر دودھ کے بند ہوجانے کا خدشہ بھی ہوگیا تھا۔
رام گوپال تھانیدار کے یہاں سے لوٹ آیا مگر وہ مطمئن نہیں تھا۔ وہ رات بھر یہی سوچتا رہا تھا کہ اس کے گاؤں میں اس کے چچا زاد بھائیوں نے اسے کمزور جان کر اس کے کھیت زمین پر قبضہ کرنا چاہا اور اسے طرح طرح سے پریشان کردیا۔ تنگ آکر وہ شہر چلا آیا۔ یہاں کچھ چین کے دن نصیب ہوئے تو کھونٹا اکھاڑنے کی بات آرہی ہے۔ وہ یہاں سے اکھڑ گیا تو کہاں جائے گا؟ وہ جانتا تھا کہ سارے بڑے شہر یا مہانگر بے مروت ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں تو کالے دھن والے جگہ پاتے ہیں یا پھر سیاسی لاگ بھاگ رکھنے والے چوکس لوگ۔
صبح سویرے کملا نے اپنے شوہر کو یہ صلاح دی کہ میونسپل کارپوریشن والے دیال بابو سے یہ مشورہ کرو کہ جھونپڑی اکھاڑنے کی نوٹس مل جانے کے بعد ہم لوگ کہاں جائیں اور کس سے ملیں کہ کچھ بچنے کی صورت پیدا ہوجائے۔ رام گوپال نے کملا کی بات کو غیر ضروری سمجھ کر ٹال دیا اس لئے کملا ایک روز اپنی طرف سے دودھ کا تحفہ لے کر دیال بابو کے دروازے پر جا پہنچی۔ دیال بابو نے سنجیدگی سے کملا کے مسائل کو سنا اور پھر بتایا کہ گنگا نگر کالونی میں پرائمری اسکول بنانے کے لئے ایک بڑا میدان خالی ہے مگر اس زمین پر رادھے شیام نام کے ایک شخص نے اپنا دعویٰ پیش کر رکھا ہے اور پچھلے دس سالوں سے مقدمہ زیر سماعت ہے۔ غالباً دیال بابو نے یہ سوچ کر گنگا نگر آنے کا مشورہ دیا ہوگا کہ ہماری عدالتوں میں چلنے والے مقدمے کئی کئی نسلیں جھیلتی ہیں ، تب جاکر حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ اس درمیان رام گوپال کے بچے سکھ چین کی زندگی کاٹ لیں گے۔ کملا گاؤں کی رہنے والی حرف ناآشنا عورت تھی مگر بے پڑھی لکھی عورت بھی کبھی کبھی ایسے کارنامے دکھاتی ہے کہ دانا و بینا مرد انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
صادق نگر میں ایک روز سرکاری بلڈوزر لاکرتمام غیر قانونی تعمیرات اور جھگی جھونپڑیوں کو برابر کردیا گیا۔وہاں کے سارے نشانات اس طرح مٹ گئے کہ جیسے وہاں زندگی تھی ہی نہیں۔اگر کملا، دیال بابو کی مدد سے گنگا نگر میں جھونپڑی گاڑنے کا ٹھکانہ نہ کی ہوتی تو رام گوپال کیلئے گاؤں واپس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھااس لئے اب رام گوپال ہر مسئلے میں بیوی کی صلاح پر بھی دھیان دینے لگا تھا۔ آج جب کملا نے غسل خانے کے بورئے پر ڈھیلے گرنے کا واقعہ رام گوپال کو بتایا تو رام گوپال کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور اس نے بالکونی پر کھڑے چھوکروں کو اس طرح غصے سے دیکھا کہ جیسے وہ کسی سپر مین یا بچوں کے شکتی مان کی طرح اوپر اُڑ کر ان کے چہروں کو نوچ لے گا۔ کملا کو رام گوپال کے تیور دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ اگر اسے نہیں روکا گیا تو آج کوئی بڑا ہنگامہ وہ کھڑا کر دے گا جس سے مزید رسوائی ہوسکتی ہے اس لئے وہ اسے کسی طرح جھونپڑی کے اندر لے گئی اور تھوڑا چھاچھ پلا کر کہنے لگی:
’’سارا قصور ان چھوکروں کا نہیں ہے۔ جہاں میٹھا ہوتا ہے وہاں مکھیاں آتی ہی ہیں۔ کیا تم یہ نہیں سمجھتے کہ اب اپنی خوشبو کی خوشبو ہر طرف پھیلنے لگی ہے۔ کتنی موہنی اور سندر لگنے لگی ہے اب ہماری خوشبو․․․․․․کتنی بھیڑ ہونے لگی ہے تمھاری چائے کی دکان پر․․․․․․تمھاری پیٹھ پر خوشبو جو کھڑی رہتی ہے تمھاری مدد کے لئے․․․․․․اور دوپہر کے سمے․․․․․وہ مونچھوں والا سپاہی اور مچھلی آفس کے بڑے بابوپابندی سے آتے ہیں․․․․․․․جب تم جانور کے لئے چارہ کاٹتے ہو․․․․․․میں انھیں چائے بناکر دیتی ہوں تو وہ آہ بھر کر کہتے ہیں:’’کچھ بھی ہو خوشبو کی اماں! تم دونوں ماں بیٹی سگی بہنیں لگتی ہو․․․․․بھگوان ایسی سندرتا اور جوانی سب کو دے ‘‘ پھر وہ اچانک تیور بدل کر کہنے لگی:’’یہ سب سالے چائے کے بہانے ہم ماں بیٹیوں کی سندرتا پر رال ٹپکانے آتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو یہ ․․․․․‘‘وہ غصے سے لال پیلے ہورہی تھی۔رام گوپال چونک گیا اور اپنی بیوی کو غور سے دیکھنے لگا ۔اسے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ سچ مچ کملا تو اب بھی ویسی ہی دکھتی ہے جیسی بیس سال پہلے تھی۔ کیا اس پر سمے کا پربھاؤ نہیں پڑا۔ اس بیچ ہماری خوشبو بھی ․․․․․․
رام گوپال کو کچھ ڈر سا لگنے لگا۔کملا کچھ دھیمی ہوکر بولی کہ اب تو خوشبو کے لئے کوئی لڑکا دیکھنا ہوگا، مگر کیا ہمارے بنجارے بنے رہنے سے اچھے لڑکے والے ہماری طرف دیکھنا بھی پسند کریں گے؟وہ تو ہمارے پوروج، گھر، مکان اور پریوار سب کو جاننا چاہیں گے۔ پھر کچھ رک کر کہنے لگی:’’ ہم کیوں نہیں اب سب کچھ سمیٹ لیں؟‘‘
رات کا اندھیرا باقی تھا۔ صبح کا اجالا پھیلنے میں ابھی کافی دیر تھی۔ رام گوپال ایک ہاتھ میں ڈنڈا اور ایک ہاتھ میں لالٹین لئے اپنی گائے اور بھینسوں کو کچی سڑک پر ہانک رہا تھا اور کچھ آگے ایک بیل گاڑی کے نیچے ایک لالٹین جھول رہی تھی اور گاڑی پر کوچوان بنی کملا․․․․․بیلوں کو قابو میں کئے ․․․․․خوشبو، مونو اور سونو کے ساتھ کچے راستے کی لیک پر آگے بڑھ رہی تھی۔