بازل جب حنان کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا تو مشتاق چوہدری اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ حنان جو اسکے ساتھ کروا چکا تھا۔ اس کے بعد وہ زندہ رہ بھی نہیں سکتا تھا۔ دوسروں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والے جب خود کسی کی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں تب انہیں احساس ہوتا ہے کے کتنی تکلیف یہ دوسروں کو دیتے آۓ ہیں۔ بازل نے علی اور محسن کو بھی بلا لیا تھا کیونکہ یہ لوگ ہی تو تھے انکے خاندان کو تباہ کرنے والے۔ محسن آتے ہوئے شہیر شاہ اور فاطمہ بیگم کو بھی لے آیا تھا۔ محسن کےلئے ان دونوں کو لانا بہت آسان تھا کیونکہ وہ محسن کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ اب وہ محسن کے ساتھ اندر داخل ہوتے ہوئے بولے۔
محسن بیٹا یہ کونسی جگہ ہے اتنے اندھیرے میں ہمیں تو کچھ نظر بھی نہیں آرہا۔ شہیر شاہ پریشانی سے بولے۔
انکل بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ آپ اندر چلیں آپکو پتا چل جائے گا لے آپ کہاں ہیں۔ محسن انکو فلحال کسی شک میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا کیونکہ اگر انکو شک ہوجاتا تو وہ جو کرنے کا سوچ رہے تھے وہ نا کر سکتے پھر۔ وہ محسن کی بات پر اثبات میں سر ہلاتے اسکے پیچھے چلنے لگے۔ جب وہ اندر داخل ہوئے تو دروازہ کسی نے بند کیا اور انکے پیچھے داخل ہوا۔
ہیلو سسر جی کیسے ہیں؟ ارے آپ بھی ہیں ساتھ مسز شاہ؟ واہ بھئی محسن تم نے تو دل خوش کر دیا میرا۔ بازل کا لہجا شہیر شاہ کو کھٹکنے پر مجبور کر رہا تھا۔ شہیر شاہ حیرت زدہ انداز میں بازل کو دیکھتے ہوئے محسن سے گویا ہوئے۔
یہ یہاں کیا کر رہا ہے محسن؟ یہ کونسی جگہ ہے؟ اور تم اسے کیسے جانتے ہو؟ شہیر شاہ چیخ رہے تھے اور محسن خاموشی کو توڑتا ہوا بولا۔
شاہ جی اتنا غصہ؟ نا کیا کریں موت سے پہلے مرنا چاہ رہے ہیں؟ محسن مزاحیہ انداز میں بولا۔
میں بتاتا ہوں سسر جی کے میں یہاں کیا کر رہا ہوں اور یہ جگہ وہ ہے جہاں تم نے اور تمہاری اس بیوی نے ہماری زندگیاں اس اپنے یار مشتاق چوہدری کے ساتھ مل کر تباہ کی تھیں۔ ویسے مجھے حیرت ہوتی ہے عاریہ اور ایمان اس جیسی عورت کی بیٹیاں ہو کر بھی بد کردار نہیں ہیں نہ ان دونوں میں حسد بھی نہیں اور نہ ہی وہ دھوکہ باز ہیں۔ بازل کو اس بات پر رشک تھا کے اسکی بیوی باکردار، باوفا ہے۔
بازل ہماری بیویوں کا اس جیسی عورت کے سامنے تزکرہ نا کرو کیونکہ اگر انکی پرورش یہ کرتی تو وہ بھی ایسی ہی ہوتی لیکن کیونکہ انکی پرورش جس نے کی ہے وہ ایک باکردار اور باحیا عورت ہے۔ انکی آیا سلطانہ بی وہ دیندار عورت ہے اس لیئے عاریہ اور ایمان بھی ایسی ہیں اور اس پر نہیں گئی۔۔ محسن فاطمہ بیگم کو دیکھتے ہوئے تنزیہ انداز میں بول رہا تھا۔ جب علی اپنے آدمیوں کے ساتھ اندر آیا جن کے ہاتھوں میں رائفلز تھیں اور دو آدمی مشتاق چوہدری کو گھسیٹ کر لا رہے تھے۔ جو پہچان میں بلکل بھی نہیں آرہا تھا۔ وہ ہر وقت اکڑ میں رہنے والا آج دوسروں کے سہاروں پر آگیا تھا۔
آؤ مشتاق چوہدری تمہارا ہی انتظار تھا۔ لیں جی سسر جی آگیا آپکا جگری یار اور آپکی بیوی کا عاشق ہاہاہاہا۔ بازل کی بات سن کر فاطمہ بیگم کا سر شرم سے جہک گیا مگر اب کیا فائدہ ہونا تھا؟ اپنی زندگی انہوں نے گناہوں کی زد میں کردی تھی۔ گناہ کرنا آسان ہے لیکن انسے جان چھوڑانا مشکل ہم ساری جوانی گناہوں میں گزار کر معافی اور عبادت کیلئے بڑھاپا رکھ دیتے ہیں۔
سسر جی اب آپ بتائیں میرے باپ کے شیرز میرے نام کیوں نہیں ہوئے؟ ٹیک اور کی ہوئی کمپنی کے علاوہ بھی میرے باپ کی بہت پروپرٹی تھی جو تم نے ہتیا لی تھی انکے پیپرز میں حاصل کر چکا ہوں ان پر سائن کرو جلدی سے کیونکہ مرے ہوئے لوگ قبر میں تو لے کر نہیں جاتے سب۔ بازل اسکے سامنے پیپرز کرتا ہوا بولا۔ شہیر شاہ اور فاطمہ بیگم کو علی دو کرسیوں پر باندھ چکا تھا۔ شہیر شاہ کا ایک ہاتھ آزاد تھا تاکہ وہ سائن کر سکے اور فاطمہ بیگم پوری ہی قید تھی۔ شہیر شاہ کے سائن کرتے ہوئے بولے۔
میں سائن کر چکا ہوں اب مجھے جانے دو اور محسن تم کیا کر رہے ہو اسکے ساتھ؟ وہ محسن کی طرف غصہ سے دیکھتے ہوئے بولے۔
جا تو تم کہیں نہیں سکتے شہیر شاہ اور میں اسکے ساتھ اس لیئے ہوں کیونکہ میں تم سے انتقام لینا چاہتا ہوں اپنی بہن،باپ کی موت کا، اپنی ماں کی بے حرمتی کا۔ تم جیسے لوگوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہوتا شہیر شاہ۔ تمہاری وجہ سے امل مر گئی، مما کا ریپ کیا تم دونوں نے اور میرے باپ کو بھی مار دیا تم لوگوں نے صرف پروپرٹی کیلئے تم لوگوں کے ضمیر مر چکے ہیں تم لوگ وہ ناسور ہو جو زندہ رہے تو انسانیت اپنے ہونے پر افسوس کرے گی۔ کیونکہ تم اب پروپرٹی ہمیں دے چکے ہو تو تمہیں مرنا ہو گا لیکن اسے پہلے مجھے یہ بتاؤ کے میری ماں کو زندہ لاش بنا کر کیوں چھوڑ دیا ؟ جواب دو شہیر شاہ۔ محسن غم و غصہ سے چیخ رہا تھا۔
ہاہاہا محسن تمہاری ماں تو اسی وقت مر گئی تھی جب تمہاری بہن امل کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا یہ سب اسکی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔ اپنی بچی کو نہیں بچا سکی اس لیئے وہ تب ہی زندہ لاش بن گئی تھی جب میں نے اور مشتاق چوہدری نے اسکا ریپ کیا تو اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی یا یہ کہہ لو کے وہ ایک مرد سے تنگ آگئی تھی اس لیئے ہمیں نہیں روکا۔ تمہارے باپ کو جب پتا چلا تو وہ پہنچ گیا اپنی غیرت لے کر کے اسکی بیوی کے ساتھ یہ سب کیوں کیا پھر اسکا منہ تو بند کرنا تھا نا اس لیئے اتار دیا موت کے گھاٹ اسکو۔ اگر مجھے پتا ہوتا کے تو زندہ ہے تو تجھے بھی مار دیتا۔ شہیر شاہ نفرت سے بولتے ہوئے چپ ہوگیا اور محسن ضبط کھوتا اسکی طرف بڑھا اور اسکے منہ کا حشر بگاڑ دیا۔
بازل اور علی محسن کو شہیر سے دور کرتے ہوئے بولے۔
محسن ابھی رک جا ابھی بہت کچھ جاننا ہے اس سے پھر اسکو موت دیں گے۔ بازل اب فاطمہ بیگم کی طرف رخ کرتے ہوئے بولا۔
میری ماں سے کیا دشمنی تھی تمہاری فاطمہ بیگم تم تو دوست تھی انکی اور کزن بھی پھر اتنی درد ناک موت کیوں دی انہیں؟ بولو۔ بازل چیخ رہا تھا اور فاطمہ بیگم شرمندا انداز میں بولی۔
مجھے معاف کردو بازل۔ ائلا میری بہت اچھی دوست تھی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہنوں کی طرح تھے لیکن ائلا کو ہر چیز بہترین ملتی تھی۔ تمہارا باپ ایک غیرت مند انسان تھا اور شہیر کا دوست بھی میں۔ عدیل بہت خوبصورت تھا لیکن ٹیپیکل مرد تھا جب کے شہیر خوبصورت ہونے کے ساتھ بروڈ ماٹنڈد بھی میں نے شہیر سے افیئر چلایا اور شہیر بھی مجھ جیسی ہی عورت کو پسند کرتا تھا جو ماڈرن ہو۔ شہیر اور میرے افیئر کا جب عدیل کو پتا چلا تو وہ سائیڈ پر ہوگیا اور شہیر اپنے گھر والوں کے ساتھ آگیا رشتہ لے کر۔ شہیر کو نہیں پتا تھا کے میرے مشتاق چوہدری کے ساتھ جسمانی تعلقات ہیں ورنہ یہ مجھ سے شادی نا کرتا اور مشتاق چوہدری پہلے ہی منع کر چکا تھا شادی سے مجھے پتا چلا کے میں پریگننٹ ہوں تو میں نے مشتاق کو بتایا اس نے کہا ابورشن کروا لو میں گئی بھی ابورشن کروانے لیکن میں نہیں کروا سکی۔ شہیر اس لیئے خوش تھا کیونکہ اسے لگا یہ اسکا بچا ہے لیکن سچائی صرف میں اور مشتاق ہی جانتے تھے۔ ایمان کے پیدا ہونے کے بعد مشتاق نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کردیا کے اگر میں نے اسکی بات نا مانی تو وہ سب کچھ سچ سچ شہیر کو بتا دے گا۔ مشتاق چوہدری ہفتہ کی تین راتیں میرے ساتھ گزارتا تھا اور مجھے اسکے بدلے بڑی رقم دیتا تھا اور مجھے بھی اس وقت پیسوں کی لالچ تھی مجھے کوئی عتراض نہیں ہوا۔ ایمان کیلئے پہلے ہی آیا رکھی ہوئی تھی۔ شہیر کو شروع شروع میں بہت غصہ آتا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی عادی ہو گیا۔ ہم تینوں اپنی زندگیوں سے مطمئن تھے جب ایک رات مشتاق نے مجھے بلایا۔ میں بہت مشکل سے گھر سے بہانے کر کے نکلی تھی۔ مشتاق چوہدری نے سارا گیم پلین کیا ہوا تھا۔ ہمیں ایک ساتھ کچھ دیر ہی گزری تھی جب دروازہ کھولا اور شہیر اندر آیا اور جس حالت میں اس نے ہمیں دیکھا تھا اگر کوئی اورغیرت مند انسان ہوتا تو وہی مر جاتا لیکن شہیر کیلئے تو یہ سب کچھ نہیں تھا مشتاق کے ساتھ اسکا بزنس جو تھا۔ اس نے اس وقت مجھے گھر بھیجوا دیا اور میری اماں بابا کو سب بتا دیا بابا برداشت نہیں کر سکے اور ہارٹ اٹیک سے مر گئے اماں نے بھی بات کرنا بند کر دیا۔ سب مجھے نفرت سے دیکھتے تھے۔ ائلا کی شادی مجھ سے بہت پہلے ہوگئی تھی اور شہیر نے مجھسے شادی بہت لیٹ کی تھی۔ ائلا کو تمہارے باپ کے ساتھ خوش دیکھ کر مجھسے برداشت نہیں ہوا۔ میں نے بہت کوشش کی کے تمہارے باپ کو اپنے جال میں پسھا سکوں لیکن وہ نہیں مانا اور مجھے بے حیا عورت کہہ کر دھتکار دیا اور میرے اندر بدلے کی آگ جل گئی۔ میں بہت دنوں سے اس موقع کی تلاش میں تھی جو مجھے ائلا نے دے دیا تھا امل اور بازل کے نکاح کا بتا کر مجھے ایمان کا خیال آیا محسن بھی بہت خوبصورت تھا لیکن بازل کی شخصیت میں اس وقت بھی روب تھا الگ کشش ساری اچھی چیزیں ائلا کو ملتی آئی تھی مجھے نہیں اور میری بیٹی کے ساتھ بھی یہی ہونے والا تھا۔ بازل امل کو ملنے والا تھا اور میری بیٹی کو کوئی نا ملاتا۔ میں نے امل کو مروانے کا سوچا شہیر اور مشتاق عیاش مرد تھے انکے لیئے خوبصورت عورتیں اور انکے جسموں کی اہمیت تھی بس اسی کا فائدہ اٹھایا میں نے اور پہلے ائلا کو ریپ کروایا پھر اسکا چہرا خراب کروا کر قتل کر دیا۔ بہت غرور تھا ائلا اور عدیل کو ائلا کی پاک دامنی پر کے کبھی کسی غیر مرد نے اسکو دیکھا ہی نہیں تھا اور دیکھوں مری بھی تو دو غیر مردوں کے سامنے برہنہ۔ وہ نفرت و حقارت سے کہہ رہی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے والی شرمندگی کہیں غائب ہو چکی تھی۔ جب بازل چیختا ہوا فاطمہ بیگم کی طرف بڑھا اور اسکے ہاتھ میں ایک محلول تھا جس کا رنگ ہلکا گولڈن تھا۔ وہ فاطمہ بیگم کے گرد چکر لگتا ہوا اسکے چہرے کودیکھتا ہوا بولا۔
اگر یہ چہرا اتنا بھیانک بن جائے کے تم خود موت مانگو اور پھر بھی نا آئے تو بتاؤ کیسا لگے گا؟ میری ماں کو برہنہ کیا تھا تم نے۔ انکی پاک دامنی کو خراب کر دیا تم نے۔ انکو تڑپا کر مارا تم نے۔ اور بازل نے آخری بات کہتے ساتھ وہ محلول فاطمہ بیگم کے چہرے پر پھینک دیا اور وہ تڑپتی رہ گئی چیختی رہی اور بازل دوبارہ بولا۔
احساس تو تمہیں اب ہوگا۔ تکلیف تمہیں اب ہوگی کیونکہ تم جیسی بے حیا عورت کیلئے یہی سزا ہو سکتی تھی۔ تم اسی چہرے کے ساتھ اپنی بچی کچی زندگی گزار دو۔ بازل نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تھا اور انہوں نے فاطمہ بیگم کو کرسی کی قید سے آزاد کردیا اور فاطمہ بیگم چہرے پر ہاتھ رکھتی رو رہی تھی جب بازل کا ایک آدمی شیشہ لے کر اسکے سامنے آیا اور فاطمہ بیگم سکتے میں بیٹھی رہی۔
کیسا لگ رہا ہے مسز شاہ اپنا بدصورت چہرا دیکھ کر؟ اچھا تو بلکل بھی نہیں لگ رہا ہوگا لیکن مجھے تو بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اتنا اچھا کے تم سوچ بھی نہیں سکتی۔ بازل اب شہیر شاہ اور مشتاق چوہدری کے جسم پر کٹ لگا رہا تھا۔ ان کٹس سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا اور تبھی بازل نے علی اور محسن کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا اور ایک اشارہ اپنے آدمیوں کو کیا جو چھ شکاری کتوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے کتوں کا قد اچھا خاصہ بڑا تھا اور شکل سے وہ بہت خوفناک تھے۔ بازل شہیر شاہ کے قریب گیا اور اسکی ٹانگوں پر دو گولیا چلائی جن سے وہ اٹھ نہیں سکتا تھا۔ شہیر شاہ کو آزاد کرتے ہوئے اسنے شکاری کتوں کو آزاد کرنے کا اشارہ کیا اور فاطمہ بیگم کا بازو پکڑتے ہوئے باہر نکلنے لگا تھا جب فاطمہ بیگم نے اسکی کمر کے پاس لگی ہوئی پسٹل نکال کر خود کو گولی مارتے ہوئے گویا ہوئی۔
بازل تم جو چاہتے ہو وہ زندگی میں نہیں گزار سکتی اور مجھے کوئی افسوس نہیں ہے کے میں نے ائلا کے ساتھ کیا وہ غلط تھا کیونکہ میرے ساتھ کی جانے والی زیادتی کسی کو نظر نہیں آئی۔ سب اچھی چیزیں ائلا کو ملی اور ہر بس ٹھیک ہے والی چیز مجھے اور یہ کہتے ساتھ ہی فاطمہ بیگم نے خود کو شوٹ کر دیا اور بازل نفی میں سر ہلاتا وہاں سے نکل گیا۔ جب وہ علی اور محسن کے پاس پہنچا تو اس نے علی کے آدمیوں کو حکم دیا کے اس گھر کو آگ لگا دی جائے اور کام اتنی صفائی سے کیا جائے کے یہ سب حادثہ لگے اور ایسا ہوا بھی تھا۔ علی ان دونوں سے مل کر دوبئی کیلئے نکل گیا تھا۔ جب محسن اور بازل اپنے گھروں کیلئے نکلنے لگے تو فجر کی آزان ہورہی تھی وہ دونوں ایک ساتھ نماز ادا کرنے کے بعد گھر کیلئے گئے تھے۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل جب کمرے میں پہنچا تو عاریہ جاگ رہی تھی اسکی آنکھیں اس بات کا پتا دے رہی تھی کے وہ ساری رات جاگی ہے۔ عاریہ بازل کو دیکھتے ہوئے بولی۔
کھانا؟ بازل نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
نہیں کھانا نہیں ایک کپ کافی لے آؤ۔ عاریہ اثبات میں سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی اور پندرہ منٹ کافی لے کر اندر آئی۔ بازل بیڈ کراؤن سے سر ٹیکے آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔ جب عاریہ نے اسکو پکارا۔
بازل کافی۔ عاریہ اسے کپ پکڑاتے ہوئے بولی۔
تھینک یو۔ بازل کپ لیتا ہوا بولا۔
ریموٹ دینا ٹی وی کا عاریہ۔ وہ عاریہ کو دیکھتا ہوا کافی کا سپ لیتا ہوا بولا۔ عاریہ اثبات میں سر ہلاتی ریموٹ لے آئی اور بازل کو دیتے ہوئے لیٹ گئی اور جو خبر نیوز چینل پر چل رہی تھی وہ عاریہ کے اوسان خطا کر چکی تھی۔ اسکے ماں باپ مر چکے تھے۔ وہ دنیا میں اکیلی ہوگئی تھی۔ بازل اسکے فیس اکسپریشن دیکھ رہا تھا جو اسکی حالت خراب ہونے کا پتا دے رہے تھے۔ بازل نے عاریہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور عاریہ بازل کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی۔
یہ سب آ آپ نے کی کیا ہے ہےنا؟ می میرے ماں با باپ کو قت قتل کر دی دیا آ آپ نن نے کیوں کی کیا یہ سب؟ انہوں نے جو کی کیا آ آپ نے بھی کچ کچھ الگ نہیں کی کیا اگر وہ قاتل تھے تو آپ بھی قاتل ہیں۔ عاریہ چیخ پڑی تھی آخری بات پر جب بازل اسکا بازو دبوچتے ہوئے بولا۔
میں نے کوئی قتل نہیں کیا صرف قاتلوں کو کیفرے کردار تک پہنچایا ہے اور خون کے بدلے خون ہوتا ہے ورنہ خون بہا اور میں اتنا عظیم انسان نہیں ہو کے انہیں معاف کردیتا اس لیئے میں نے خون کے بدلے خون کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد میں تمہیں کوئی صفائی نہیں دوں گا۔ اگر میں تمہیں قاتل لگتا ہوں تو ایسے ہی سہی لیکن رہو گی تم میرے ساتھ ہی۔ وہ اپنی بات مکمل کرتا ہوا کپ لیتا سٹڈی میں چلا گیا اور عاریہ خا موشی سے آنسو بہاتی جانے کب سو گئی۔
••••••••••••••••••••••••••••••
صبح کے دس بج رہے تھے جب عاریہ کی آنکھ کسی کے رونے کی آواز سے کھولی۔ عاریہ اپنا دوپٹا اٹھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی جہاں ایمان منیزہ بی کے گلے لگے رو رہی تھی اور بولی جا رہی تھی۔
بی جان میری مما میرے بابا کیوں مر گئے۔میں ان سے ناراض تھی لیکن میں یہ تو نہیں چاہتی تھی کے وہ ایسے چلے جائیں۔ ایمان بار بار یہی بات دہرا رہی تھی اور منیزہ بی اب تھک چکی تھی کیونکہ وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ جب عاریہ سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی اور ایمان کو اٹھاتی ہوئی بولی۔
جن کیلئے آپ اپنے آنسو ضائع کر رہی ہیں وہ تو ان آنسوؤں کے قابل بھی نہیں ہیں۔ جانتی ہیں آپ جس کو آپ اپنا باپ کہہ کر رو رہی ہیں وہ آپکا باپ تھا ہی نہیں۔ آپ کا باپ وہ کرپٹ منسٹر مشتاق چوہدری تھا اور جس ماں کیلئے آپ رو رہی ہیں نا جانتی ہیں آپ اسکی ناجائز اولاد ہیں تو یہ آنسو کیوں بہا رہی ہیں۔ ہماری ماں ایک تھی باپ نہیں لیکن آپ میری بہن ہیں اور رہیں گی۔ ہمیں کوئی الگ نہیں کر سکتا اور اب آپ ان لوگوں کیلئے آنسونہیں بہائیں گی۔ سمجھ رہی ہیں نا؟ اپنے بچے کے بارے میں سوچیں آپی جس نے ابھی اس دنیا میں آنا ہے۔ آپ یوں رو کر اسے تکلیف دے رہی ہیں۔ اب آپ نہیں روئیں گی ورنہ آج آپ مجھے بھی کھو دیں گی؟ کیا آپ چاہتی ہیں کے مجھے بھی کھو دیں؟ ایمان نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ منیزہ بی عاریہ کے آتے ہی اٹھ گئی تھیں تاکہ وہ اور ایمان کچھ دیر بیٹھ کر اپنا درد کم کر لیں اور عاریہ نے ایمان کو پھر ساری بات بتائی کے کیسے شہیر شاہ، فاطمہ بیگم اور مشتاق چوہدری نے محسن،بازل اور علی کے خاندان کو برباد کر دیا تھا۔ ایمان ساری بات سننے کے بعد وہاں زیادہ دیر رکی نہیں تھی۔ اسکے آنسو بھی اب ختم ہوگئے تھے۔ جن کیلئے وہ اتنا رو رہی تھی وہ تو اس قابل تھے ہی نہیں۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ایمان جب اپنے گھر پہنچی تو اسے سلطانہ بی ملی محسن نے آج ہی انہیں ایمان کی دیکھ بھال کیلئے بولا لیا تھا۔ ایمان سلطانہ بی سے ملی اور روتے ہوئے انہیں سب بتا دیا اور سلطانہ بی اسے تسالیاں دیتے ہوئے بولی۔
ایمان میرے بچے رو نہیں۔ یہ تمہارے اور تمہارے بچے کیلئے بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس ننھی سی جان پر یوں ظلم مت کرو۔ وہ بہت محبت سے ایمان سے بولی تھیں۔جب ایمان دوبارہ بولی۔
بی اماں وہ عورت جو میری ماں تھی۔ اس کو زرا رحم نہیں آیا۔ ائلا انٹی پر، آپ جانتی ہیں بی اماں محسن نے مجھے نہیں بتایا لیکن اسکی ماں کو بھی اتنی بے دردی سے مارا گیا۔ ماہم انٹی سے شادی کے کچھ عرصہ بعد انکل کو پتا چلا کے سماحا انٹی کو کیسے قتل کیا گیا ہے تو انکل حساب لینے پونچ گئے اور ان ظالموں نے انہیں بھی مار دیا۔اسکے بعد ماہم انٹی محسن کو لے کر یہاں سے چلی گئی اور میری شادی سے کچھ عرصہ پہلے واپس آئیں تاکہ میری شادی محسن سے ہو سکے۔ بی اماں وہ عورت جو میری ماں تھی نفرت ہو رہی ہے مجھے اس سے۔ یہ بات ہی مجھے مار رہی ہے کے میں کسی کی ناجائز۔ اس سے پہلے کے ایمان کچھ بولتی محسن نے اسکی بات کاٹ دی۔
شٹ اپ ایمان۔ آئندہ کے بعد یہ بکواس تمہارے منہ سے نا سنو جو ہو گیا سو ہوگیا تم اسے بدل نہیں سکتی۔ اس لیئے اب اس بات پر رونا بند کرو۔ محسن تیز لہجے میں بول رہا تھا۔ جب ایمان اسکی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
محسن آپ کو نہیں پتا کے مجھ پر کیا گزر رہی ہے میں جس کو باپ سمجھتی رہی وہ تو میرا باپ ہے ہی نہیں اور جو میرا باپ تھا وہ بھی اچھا انسان نہیں تھا۔ میری ماں ایک بد کردار عورت تھی۔ یہ ساری باتیں مجھے تکلیف دے رہی ہیں۔ آپ آپ بھی مجھے چھوڑ دیں میں آپکو ڈزرو نہیں کرتی۔ ایمان کی آخری بات نے محسن اور سلطانہ بی کا دماغ گھوما دیا تھا۔ محسن ایمان کا بازو پکڑتے ہوئے اسکا لیتا کمرے میں آگیا اور اسکو بیڈ پر بیٹھاتا ہوا چیخا۔
کیا بکواس کر رہی تھی ابھی؟ میں تمہیں چھوڑ دوں؟ بتانا پسند کروگی کے میں ایسا کیوں کروں؟ بولو۔ محسن کا تو بس نہیں چل رہا تھا کے ایمان کو ایک آدھی لگا بھی دے۔ یہ وہ لڑکی تھی جو محسن کی بچپن کی محبت تھی۔ جس کیلئے وہ امریکہ سے واپس آیا تھا۔ اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا تھا اور آج وہ کہہ تہی تھی کے محسن اسے چھوڑ دے۔ ایمان ڈرتے ہوئے بولی محسن کا ایسا روپ آج پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی۔
محسن میں مجھے آپ ڈیزرو نہیں کرتے۔ مجھے تو خود آج اپنے اصلی باپ کا پتا چلا ہے آج سے پہلے تک میں انجان تھی۔ کسی کی ناجائز اولاد کو اپنی بیوی کے طور پر آپ کیسے رکھ سکتے ہیں لوگ آپکا مزاخ بنائیں گے۔ ایمان کہتے ساتھ ہی دوبارہ رونے لگی تھی اور یہاں آکر محسن بے بس ہو جاتا تھا وہ ایمان کے آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ایمان کو گلے لگاتے ہوئے محسن بولا۔
ایمان میری جان مجھے سب کچھ پہلے سے پتا ہے۔ ہماری شادی سے بھی پہلے سے۔ میں نے تم سے شادی اپنی محبت کی وجہ سے کی تھی اور تم ایک با کردار اور با حیا لڑکی ہو۔ تمہارے ناجائز اولاد ہونے میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس لیئے خود کو اسکی سزا مت دو جس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ میری بیوی بھی تم ہی بننے کے قابل تھی اور میرے بچے کی ماں بھی۔ اب رونا نہیں کیونکہ تم بہت بہادر لڑکی ہو جو سچ کا ساتھ دیتی ہے اور عاریہ کو بھی سمجھانا کے بازل نے کچھ غلط نہیں کیا۔ ٹھیک ہے؟ وہ ایمان سے محبت پاش لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
جی ٹھیک ہے۔ میں عاریہ کو سمجھا دوں گی۔ ایمان کے بولنے کے بعد محسن ایمان کے سر بوسہ دیتا ہوا۔ کمرے سے نکل گیا اور ایمان سکون سے بیڈ پر لیٹ گئی۔ اسکی زندگی میں خوشیاں آگئی تھی۔ بےلوث محبت کرنے والا شوہر، ممتا کی پرچھائیاں جو اسکے وجود سے نظر آتی تھی اور کیا چاہیئے تھا اسے۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
یہ چار مہینے آرام سے گزر گئے تھے عاریہ اور بازل کے فاصلہ بھی کچھ کم ہوئے تھے لیکن مکمل ختم نہیں۔ بازل جسے ہی محبت کا ایک قدم اٹھاتا عاریہ کی ناراضگی بھی دو قدم بڑھا کر عاریہ کی چھپی ہوئی محبت کو دبا دیتی۔ آج ایمان کے بیٹے کا عقیقا تھا۔ عاریہ لال کامدار فراک میں ملبوس تھی۔ میک اپ کے نام پر لال لپسٹک لگائے۔ ممتا کے رنگوں میں لپٹی ہوئی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ عاریہ ایمان کے ہی گھر میں تھی۔ عاریہ کا آخری مہینہ چل رہا تھا اور بازل نے اسے ایمان کے گھر بھیج دیا تھا کیونکہ وہ ایمان کے بیٹے ریعان کے ساتھ خوش رہتی تھی اور بازل اسے خوش ہی دیکھنا چاہتا تھا۔ عاریہ بہت احتیاط سے چلتی گارڈن میں پہنچی جب اسکا فون بجا اور جو خبر اسے ملی تھی اسنے اسکے اوسان خطا کر دیئے تھے۔ اسکا شوہر موت کے منہ میں تھا اور یہاں عاریہ کا ضبط ختم ہوا تھا اور وہ لہراتی ہوئی زمین پر گری جب ایمان کی زوردار چیخ سے سب عاریہ کی طرف بھاگے۔ عاریہ کو محسن اور ایمان ہسپتال لے آئے تھے ڈاکٹر نے فوری ڈلیوری کا بول دیا تھا کیونکہ عاریہ کی حالت بہت خراب ہوتی جا رہی تھی اور جتنی دیر ہوتی اتنا ہی عاریہ اور اسکے بچے کی جان کو خطرہ بڑھ جاتا۔ محسن نے بہت کوشش کی تھی بازل کو کنٹیکٹ کرنے کی مگر اسکا فون اٹینڈ نہیں ہورہا تھا۔ محسن جب تھک ہار کر بیٹھ گیا تو اسکا فون بجا اور کال بازل کے نمبر سے آرہی تھی۔ محسن نے ایک سیکنڈ کی بھی دیر لگائے بغیر کال اٹینڈ کی تھی اور تیزی سے بولا۔
بازل کہاں ہو تم؟ جلدی سے اس ہسپتال آجاؤ۔ عاریہ کی حالت بہت خراب ہے ڈاکٹر نے فوری ڈلیوری کا بولا ہے۔ محسن اس سے پہلے کے کچھ اور کہتا دوسری طرف سے کوئی بولا۔
دیکھیں جی یہ فون جن کا انکا اکسیڈینٹ ہو گیا ہے اور وہ بھی اسی ہسپتال میں ہیں انکی حالت بلکل ٹھیک ہے پٹی کروا کر آرہے ہیں آپ انہی سے بات کر لیں۔ محسن اسکی بات سنتا خاموش ہوگیا جب دوسری طرف سے بازل کی بھاری آواز سنائی دی۔
ہاں محسن بولو سب خیریت ہے؟ میں بس پہنچ ہی رہا ہوں چھوٹا سا اکسیڈینٹ ہوگیا تھا اب ٹھیک ہوں۔ بازل کی بات ختم ہونے پر محسن بولا۔
کچھ بھی خیریت نہیں ہے اسی ہسپتال کے لیبرروم کے باہر آجاؤ۔عاریہ کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے فوری آپریشن کا بولا ہے۔ پرمیشن فارم پر تمہارے سائن چاہیئے ہیں۔ محسن کہتا ہوا چپ ہوا۔ جب بازل فون کاٹتا ہوا لیبر روم کی طرف بھاگا۔
بازل کے زہن میں وسوسے آرہے تھے جو اسکی محبت کو اس سے دور لے جارہے تھے۔ بازل گرتا سنبھلتا ہوا لیبر روم تک کیسے پہنچا اسے کچھ اندازہ نہیں تھا۔ وہاں پہنچتے ہی بازل نے کانپتے ہاتھوں سے پرمیشن فارم پر سائن کیئے اور وہاں تھکے ہارے انداز میں کرسی پر بیٹھ گیا اور سر دیوار کے ساتھ ٹکائے آنکھیں موندے بیٹھ گیا۔ جب اسے کچھ آوازیں سنائی دیں بین کرنے کی ایک بچی کے رونے کی اورسفید چادرمیں لپٹا ہوا وجود نظر آیا جب ڈاکٹر آیا اور بولا۔
We’re extremely sorry sir for you loss .
••••••••••••••••••••••••••••••