شانزے اور باذل ساتھ ہی گھر واپس آتے تھے
مگر اک روز مکرم نے باذل کو کسی ضروری کام سے باہر جانے کا کہا تھا اور ستم ظریفی کہ اس وقت سامنے ساحر علی بھی موجود تھا،
وہ ویسے ہی موقع کی تاک میں تھا اور اسکو وہ موقع آج ہاتھ آگیا تھا
اسکے شیطانی دماغ نے اک چال چلی جس سے سانپ بھی مرجاتا اور لاٹھی بھی نا ٹوٹتی…..
اس نے اپنے خاص آدمی سے کہہ کر باذل کی گاڑی کے بریک فیل کروادیے…..
باذل اس بات سے انجان وقت مقررہ پر مکرم کے کام سے جانے کے لیے نکلا….
شانزے وہیں تھی….
بریک فیل ہونے کی صورت میں باذل کا بہت شدید اکسیڈینٹ ہوا….
وہاں موجود لوگوں نے اسکو جلدی ہسپتال پہنچایا…..
کسی نے باذل کے نمبر سے کال کرکے مکرم کو اطلاع کردی انہوں نے شانزے کو بتایا تو وہ بھی پریشان ہوگئی اور مکرم کے ساتھ ہسپتال چلی گئی…..
ساحر علی کے چہرے پہ اک فاتحانہ مسکراہٹ تھی….
اسکا آدھا پلین کامیاب ہوا تھا ابھی تو پورا ہونا باقی تھا……
باذل بےہوش تھا…
مکرم اور شانزے جلدی سے ہسپتال پہنچے ڈاکٹر سے ملے تو انہوں نے کہا ابھی کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا جب تک انکو ہوش نہیں آجاتا آپ دعا کریں….
مکرم نے ہادیہ کو بھی بتادیا تھا وہ بھی پریشان ہوگئیں تھیں اور تھوڑی دیر میں ہسپتال پہنچ گئیں…..
وہ سب دعائیں کررہے تھے ہادیہ نے وہیں پہ نماز کی جگہ ڈھونڈ کر نفل ادا کیے اور اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعا کرنے لگیں….
شانزے بھی پریشان تھی….
تین گھنٹے گزر جانے کے بعد باذل کو ہوش آیا ڈاکٹر نے باہر آکر بتایا کہ اب انکی حالت خطرے سے باہر ہے مگر اک بری خبر ہے ایکسیڈینٹ بہت شدید تھا جس کی وجہ سے انکی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی ہے اور یہ ابھی چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہیں اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انکو ری کوری میں کتنا ٹائم لگے گا….
اگر یہ اپنی ول پاور استعمال کریں تو جلدی کور کرسکتے ہیں…..
یہ خبر سب پہ بم کی صورت میں گری تھی اور شانزے تو یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہورہی تھی کہ اب وہ کیا کرے گی…..
باذل ہوش میں آنے کے بعد دوائیوں کے زیر اثر سو رہا تھا مگر جب اثر ختم ہوا اور اس نے آنکھیں کھولیں تو سب سے پہلے اپنی ماں کو آواز دی….
ڈاکٹر نے کہا اب آپ مل سکتے ہیں مگر خیال رکھیے گا….
وہ تینوں اندر کمرے میں چلے گئے ہادیہ روئے جارہی تھیں مکرم انکو سنبھال رہے تھے…..
انہوں نے باذل کے ماتھے پہ پیار کیا….. اور اسکی صحت کی دعا کرنے لگیں…. شانزے بلکل چپ کھڑی تھی….. باذل نے اسکو دیکھا اور اپنے پاس بلایا…. وہ اسکے پاس آئی اور کہا باذل جلدی ٹھیک ہوجاؤ مجھے ایسے لیٹے ہوئے اچھے نہیں لگ رہے…. باذل ہلکا سا مسکرادیا….. اسنے اٹھنا چاہا تو ہادیہ نے اسکو منع کردیا مگر اسکو کچھ عجیب سا احساس ہوا اسنے گھبراتے ہوئے پوچھا ماما میری ٹانگیں….؟؟؟؟
مکرم نے کہا کچھ نہیں ہوا بیٹا….. سن ہونے کی وجہ سے پتہ نہیں چل رہا جبکہ ہادیہ اپنے جوان بیٹے کی معذوری دیکھ نہیں پارہیں تھیں انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ منہ دوسری طرف کرلیا….
مگر باذل کو کسی حد تک خطرے کا احساس ہوگیا تھا کیونکہ کافی دیر تک بھی جب اسکی ٹانگوں میں حرکت نا ہوئی تو اسنے دوبارہ پوچھا….
پاپا پلیز بتائیں کیا ہوا ہے میری ٹانگوں کو…؟؟؟ سن اتنی دیر کا تو نہیں ہوتا…. ماما پلیز بتائیں…. ایسا کیا ہوا ہے…..؟؟؟؟
ہادیہ تو کچھ بول ہی نہیں پارہیں تھیں اور شانزے بھی چپ تھی….. مکرم نے اسکے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرا تو باذل نے انکا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا
پاپا پلیز مجھے بتادیں….. میں برداشت کرلوں گا جو بھی بات ہے….
مکرم نے ناچاہتے ہوئے بھی ہمت کرکے اسکو بتادیا وہ تو جیسے سکتے کی سی کیفیت میں آگیا…..
مکرم نے اسکو حوصلہ دیا اور کہا بیٹا تم نے ہمت کرنی ہے تمہاری ہمت ہی تمہیں جلد ہی اپنے پاؤں پہ کھڑا کرسکے گی….
تم پریشان نا ہونا ہم سب تمہارے ساتھ ہیں…. میں فزیو تھراپسٹ کا انتظام بھی کردوں گا دیکھنا تم جلد ہی ٹھیک ہوجاؤ گے….
مگر باذل گم صم تھا…..
مکرم اسکے پاس بیٹھ گئے…. ہادیہ سے ضبط نہیں ہورہا تھا وہ بھی اٹھ کر اسکے پاس آگئیں اور اسکو پیار کرنے لگیں انکی اپنی ہمت جواب دے رہی تھی مگر وہ اسکی ہمت بندھا رہیں تھیں
اک مہینہ باذل ہسپتال میں ایڈمٹ رہا اس دوران ہادیہ اور مکرم اسکی ہمت بندھاتے رہتے اسکو حوصلہ دیتے شانزے بھی اسکی دلجوئی کرتی رہتی…..
اک مہینہ بعد وہ ڈسچارج ہوکر گھر آگیا….
وہیل چئیر دیکھ کر وہ کمزور پڑگیا اور ہادیہ اسکو دیکھ کر کمزور پڑ رہیں تھیں مکرم کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس کو سنبھالیں…
انہوں نے ہادیہ کو کہا کہ وہ راحم کو دیکھیں اور خود کو مضبوط کریں ورنہ باذل ہمت ہار جائے گا…..
ہادیہ نے انکا کہا مان لیا اور راحم کو سنبھالنے لگیں…..
شانزے بھی اب زیادہ وقت گھر میں گزارنے لگی تھی مگر اسکو عجیب لگ رہا تھا وہ کبھی کبھی ہی نکلتی گھر سے اور شوٹ پہ جاتی….
اس دوران ساحر اس سے ہمدردیاں جتاتا رہتا اسکو معلوم ہوچکا تھا کہ باذل معذور ہوچکا ہے اور اب وہ شانزے کا برین واش کرنے کی کوششوں میں تھا مگر شانزے اسکے ہاتھ نہیں آرہی تھی…..
شانزے کو راحم سے کوئی دلچسپی نا تھی وہ بس باذل کے ساتھ تھوڑا وقت گزارتی اور چلی جاتی
مکرم اور ہادیہ حیران ہوتے اور باذل شرمندہ… اسکو اپنے کیے پہ پچھتاوا ہوتا مگر اب کیا ہوسکتا تھا…..
باذل کی خالہ اور مونا بھی آگئیں تھیں مونا نے جب یہ دیکھا کہ شانزے کو باذل کا کوئی احساس نہیں تو اسنے اسکے چھوٹے چھوٹے کام اپنے ذمے لے لیے….
ہادیہ بھانجی کے اس عمل پہ اندر ہی اندر شرمندہ ہوتی رہتیں….
وہ راحم کو بھی سنبھالنے کا کہتی مگر ہادیہ اسکو منع کردیتیں….
شانزے اب پہلے کی طرح ہی اپنی رو میں واپس آگئی تھی…. وہ صبح جم اور پھر سیٹ پہ چلی جاتی اور رات گئے واپس آتی اسکی ڈیمانڈ کافی بڑھ گئی تھی….
سو وہ اس میں خوش تھی….
فزیو تھراپسٹ بھی روز آرہا تھا اور باذل بھی اپنی ول پاور یوز کررہا تھا مگر شانزے کی مصروفیت اور اسکی نظر اندازی اسکو اندر ہی اندر گھلائے جارہی تھی وہ مزید کمزور پڑتا جارہا تھا…..
وہ رات کو گھر آتی اور باذل سے اسکا حال پوچھتی وہ کچھ بات کرنا چاہتا یا پوچھنا چاہتا تو وہ تھکن کا بہانہ بنادیتی اور سوجاتی…..
اک روز ساحر علی موقع ملتے ہی شانزے کے پاس چلا آیا….
“ہائے شانزے کیسی ہو…؟
شانزے اس وقت کھڑی کسی سوچ میں مگن تھی اک دم چونک پڑی…..
“اوہ تم… میں ٹھیک ہوں تم کیسے ہو…؟؟
میں بھی فٹ….
اور تمہارے شوہر نامدار کا کیا حال ہے…؟ چل پھر رہا ہے یا نہیں…؟؟
ساحر نے تمسخر سے پوچھا
تو شانزے نے عجیب نظروں سے اسکو دیکھا اور کہا…” ساحر مائینڈ یور لینگوئیج…. تمہیں کوئی حق نہیں کہ تم اسکے بارے میں اس طرح مجھ سےپوچھو….
وہ اک حادثہ تھا اور حادثہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے… سو پلیز آئندہ مجھ سے میرے شوہر کے بارے میں اس طرح مت پوچھنا…..”
شانزے نے اسکو سنانے والے لہجے میں کہا….
ساحر کو تھوڑی حیرانی ہوئی مگر وہ اب جال میں پھنسی مچھلی کو اتنی آسانی سے کیسے نکلنے دیتا فورا معذرتی لہجے میں کہا…” او سوری یار آئم سو سوری… میرا وہ مطلب نہیں تھا مجھے معلوم ہے اسکے حادثے کا مگر میں بس یہ پوچھ رہا تھا کہ اتنا ٹائم ہوگیا اسکے حادثے کو تو کچھ بہتری آئی یا نہیں اس میں…؟
نہیں… ابھی تو سب ویسا ہی ہے…. پتہ نہیں کب وہ دوبارہ سے پہلے جیسا ہوگا….
شانزے نے اسکے بدلتے لہجے کو دیکھتے ہوئے اپنا لہجہ بھی نرم کیا اور کچھ افسردگی سے کہا….
ساحر کے لبوں پہ اک عجیب سی مسکراہٹ آگئی اور وہ اپنے مدعے پہ آگیا…..
شانزے تم کب تک ایسے رہو گی…. کتنے مہینے ہوگئے مجھے پتہ ہے تم کہیں باہر لنچ یا ڈنر پہ بھی نہیں گئی ہوگی….. بس یہاں آتی ہو اور پھر گھر واپس چلی جاتی ہو…. اور پھر گھر جاکر بھی سکون نہیں ملتا ہوگا…. مجھے لگ رہا ہے تم ٹینشن میں ہو چلو آج ہم دونوں ڈنر پہ چلتے ہیں…. تاکہ تم تھوڑا ریلیکس فیل کرو اور فریش موڈ میں آجاؤ….
شانزے اسکی بات سن رہی تھی اور اسکو لگا جیسے ساحر نے اسکے دل کی بات کہہ دی ہو وہ واقعی اکتاگئی تھی اپنی زندگی سے مگر وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی….
ساحر نے جب اسکو سوچ میں گم پایا تو مسکرادیا اور پوچھا…” کیا ہوا شانزے…..؟
شانزے جیسے اپنی سوچ کے محور سے باہر نکلی اور کہا…”ہاں….
نہیں کچھ نہیں….
پھر چلو گی نا شام میں….؟؟؟ ساحر نے پوچھا….
ہاں ٹھیک ہے چلوں گی….. شانزے مان گئی اور اسکے مان جانے میں ساحر کو اپنی کامیابی نظر آنے لگی…..
شانزے کو اس دن ساحر کے ساتھ وقت گزار کے کافی فریش فیل ہوا اور وہ خوشگوار موڈ کے ساتھ گھر واپس آگئی….
مکرم ابھی واپس نہیں آئے تھے….
گھر پہنچ کر اسنے باذل کا حال پوچھا اور چینج کرنے چلی گئی…
بازل آج اسکا بدلہ ہوا موڈ دیکھ رہا تھا اسکو شانزے کچھ بدلی بدلی لگ رہی تھی
کیا بات ہے آج کافی فریش لگ رہی ہو…؟ باذل نے پوچھا….
نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے روز ہی فریش ہوتی ہوں….
اسنے اس سے آنکھیں ملائے بغیر کہا….. مگر باذل کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ضرور کوئی بات ہے اس نے مزید کچھ نہیں پوچھا اور چپ ہوگیا…. شانزے چینج کرنے کے بعد سونے کے لیے لیٹ گئی….
باذل کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا…..
شانزے کی لاتعلقی اسکو اندر ہی اندر مار رہی تھی…. وہ پھر سے کمزور پڑ رہا تھا….. مونا بھی ہر دوسرے دن وقت نکال کر آجاتی اور باذل کو حوصلہ دیتی….
مگر باذل نے ہمت ہار دی…..
وقت گزرتا رہا شانزے ساحر سے کافی کلوز ہوچکی تھی اور ساحر اسکو اپنی باتوں کے سحر میں جکڑ رہا تھا…..
آج کل وہ دونوں اک ڈرامے میں ساتھ کام کررہے تھے…. تو اور اسکو موقع مل رہا تھا…
مکرم نے کافی دفعہ نوٹ کیا اور شانزے کو سمجھانا چاہا مگر اسنے کچھ نا سنا اور یہ کہا کہ ڈرامے کی وجہ سے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے مکرم بچے نہیں تھے جو سمجھ نہیں سکتے تھے…..
انکا بیٹا معذور تھا اور انکی بہو موج مستی کررہی تھی پرسکون تھی اور یہی سکون انکو بےسکون کیے ہوئے تھی انکو لگتا تھا عنقریب کوئی طوفان آنے والا ہے…. جو سب ختم کردے گا اور وہ اس وقت سے ڈر رہے تھے..
جب ساحر نے یہ دیکھا کہ شانزے اسکے کافی قریب آچکی ہے یعنی مکمل جال میں پھنس چکی ہے تو وہ اپنے اصل مقصد کی طرف آگیا…” شانزے مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے میں تمہارے بغیر اب نہیں رہ سکتا…. میں تم سے شادی کرناچاہتا ہوں پلیز انکار مت کرنا”
شانزے نے حیرت زدہ ہوکر اسکو دیکھا…..
“ساحر….!!! تم جانتے ہو میں شادی شدہ ہوں میرا اک بیٹا ہے میں کیسے تم سے شادی کرسکتی ہوں….؟؟؟؟
شانزے تم باذل سےطلاق لے لو…..
وہاااٹ !!!!ساحر تم ہوش میں ہو تم کیا کہہ رہے ہو….؟؟؟ اگر تم سے میں نے اچھے طریقے سے بات کرلی تھوڑا ٹائم ساتھ گزار لیا تو تم نے یہ سمجھ لیا کہ میں تم میں انٹرسٹڈ ہوں…. ”
شانزے اک دم غصہ سے لتاڑتے ہوئےبولی……
اچھا اٹس اوکے… سوری یار تم تو ہائیپر ہوگئی ہو….. دیکھو زندگی پہ تمہارا بھی حق ہے…. تم اتنی خوبصورت ہو اتنی مکمل ہو مگر زندگی تمہاری نامکمل انسان کے ساتھ گزر رہی ہے تمہیں دکھ نہیں ہوتا….؟؟؟
ساحر نے اک دم لہجہ نرم کرتے ہوئے کہا…..
مگر ساحر میں ایسا نہیں کرسکتی ۔۔۔میں باذل کو نہیں چھوڑ سکتی……
اچھا تو پھر یہ آدھی ادھوری زندگی گزار کے تم خوش ہو…. نا تو تم اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جاسکتی ہو نااسکے ساتھ وقت گزار سکتی ہو….
ساحر نے اسکی کمزوری پہ وار کیا وہ جانتا تھا کہ شانزےگھومنے پھرنے کی شوقین ہے…..
شانزے نے منہ دوسری طرف کرلیا جبکہ ساحر کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی وہ جانتا تھا صرف چند روز کی مار ہے پھر شانزے پکے ہوئے پھل کی طرح اسکی گود میں گر جائے گی……
شانزے وہاں سے چلی گئی مگر اسکی سوچیں ساحر کی باتوں کا طواف کررہی تھیں…… وہ عجیب کشمکش میں تھی کیونکہ ساحر کی باتیں اسکے دل کا حال تھیں…… مگر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی….
گھر پہنچ کر بھی وہ انہی سوچوں میں رہی…..
باذل نے اس سے پوچھا تو اسنے کام کا بہانہ بنا کر ٹال دیا…… ساحر پرسکون تھا اس نے اپنا وار کردیا تھا بس جوابی وار آنا باقی تھا اور شانزے اپنی سوچوں کے گرداب میں پھنسی اک دن نکل آئی
اک روز اس نے گھر واپس آکر باذل سے کہہ دیا…..
” باذل…. مجھے طلاق چاہیے..”
باذل تو جیسے یہ سن کر سکتے میں آگیا…..
شانزے اسکے پاس بیٹھی ہوئی تھی باذل کو گم صم دیکھا تو اس کا بازو ہلایا اور کہا باذل میں نے کچھ کہا ہے…..!!!
باذل جیسے کچھ ہوش میں آیا اور کہا…
شانزے مگر کیوں…؟؟
ظاہر ہے باذل میں کب تک ایسے رہوں گی…؟
تم پتہ نہیں کب تک یوں وہیل چئیر پہ رہو گے میں اک مکمل زندگی گزارنا چاہتی ہوں اور تم ادھورے ہو بس اسلیے مجھے تم سے طلاق چاہیے….
باذل نے ویران نظروں سے نظر اٹھا کر اسکو دیکھا وہ بے شک بہت خوبصورت تھی مگر اس میں غرور بہت تھا اور آج تو لہجے میں انتہا کی سفاکی تھی ۔۔۔۔
باذل نے کرب سے آنکھیں بند کرلیں…. وہ واقعی اک نامکمل انسان تھا اور اک نامکمل انسان کسی کو کیا خوشی دے سکتا ہے…..
اس نے اک سرد آہ بھری اور کہا
ٹھیک ہے شانزے میں کل ہی طلاق کے پیپرز بنوالوں گا تم جلد ہی آزاد ہوجاؤ گی…..
شانزے اک دم کسی بچے کی طرح خوش ہوگئی اور کہا تھینکیو باذل تھینکیو سو مچ…..”
شانزے سوچکی تھی مگر نیند باذل کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اسکے دماغ میں شانزے کی کہی گئی باتیں گونج رہیں تھیں….
“تم ادھورے ہو اور میں اک مکمل زندگی گزارنا چاہتی ہوں…”
باذل کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جو بھی ہوا وہ سب اللّٰہ کی مرضی تھی اس میں اسکا کیا قصور تھا….
مگر شانزے….!!!
خیر اس کا حق ہے میں اسکو طلاق دے دوں گا تاکہ وہ اپنی مرضی سے جس کے ساتھ چاہے زندگی گزارے…..
باذل نے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو صاف کیا اور فیصلہ کرلیا…..
وہ رات اس نے جاگ کر گزاری…. جب سے اسکا ایکسیڈینٹ ہوا تھا وہ زیادہ تر کمرے میں ہی رہتا تھا شروع شروع میں تو وہ پھر بھی باہر آجایا کرتا تھا مگر شانزے کی لاتعلقی اوربےنیازی نے اسکو کمرے کی چار دیواری تک ہی مقید کردیا تھا وہ زندگی سے بیزار رہنے لگاتھا
ہادیہ راحم کو لے آتیں اور اسکی گود میں دے دیا کرتی تھیں تو اس میں اس وقت زندگی کی رمق دکھائی دینے لگتی
وہ کافی دیر اپنے بیٹے کے ساتھ وقت گزارتا اور اب تو اسکابیٹا اک سال کا ہورہا تھا اور شانزے کو اسکی بلکل پرواہ نہیں تھی…..
شکر تھا کہ وہ ہادیہ کے ہاتھوں پرورش پارہا تھا….
اگلی صبح شانزے تیار ہورہی تھی اس نے شانزے سے کوئی بات نہیں کی بلکہ وہ سپاٹ چہرہ لیے مکرم کے کمرے کی طرف گیا…..
مکرم نے اسکو دیکھا تو حیران بھی ہوئے اور خوش بھی اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتے یا کہتے باذل نے بنا تمہید باندھے اپنی بات کی…..
” پاپا مجھے طلاق کے پیپرز بنوانے ہیں آج….”
مکرم جس بات سے ڈر رہے تھے وہی ہورہا تھا کیونکہ وہ شانزے کے تیور دیکھ چکے تھے انکو اندازہ تھا کہ ایسا ہی ہونا ہے اور وہ جانتے تھے کہ یہ بات شانزےنے ہی کہی ہوگی باذل سے….
ہادیہ بھی وہیں تھیں وہ بھی سب سمجھ گئیں مگر انہوں نےباذل سے کچھ نا کہا اور سیدھااس کے کمرے کی طرف گئیں…….
شانزے شیشے کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کو آخری ٹچ دے رہی تھی کہ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں….
شانزے نے انکو دیکھا تو غصہ میں آگئی….
آپکو اتنے بھی مینرز نہیں ہیں کہ کسی کے کمرے میں آتے ہیں تو کھٹکھٹا کے آتے ہیں…”
میں کسی کے نہیں اپنے بیٹے کے کمرے میں آئی ہوں….”
ہادیہ نے پہلی دفعہ اس سے اس لہجے میں بات کی تھی……
اوہ اچھا…. مگر اس وقت اس کمرے میں آپکا بیٹا نہیں ہے میں موجود ہوں…. شانزے نے سرد لہجے میں کہا…..
تم نے طلاق کا کہا ہے باذل سے……؟؟؟ ہادیہ اپنے موقف پہ آگئیں….
اہاں… جی میں نے کہا ہے…. کیونکہ میں اب نہیں رہ سکتی ایسے…. اتناٹائم ہوگیاباذل کو اس طرح دیکھتے ہوئے اس نے ٹھیک ہونا ہوتا تو اب تک ہوچکا ہوتا مگر شاید وہ اب ٹھیک ہونا ہی نہیں چاہتا اور میں اک آدھے ادھورے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی میں بھی اک مکمل زندگی گزارنا چاہتی ہوں اور اب یہ آپکے بیٹے کے ساتھ ممکن نہیں…..
شانزے نے تنفر سے کہا…..
ہادیہ اسکے لہجے میں غرور کی جھلک دیکھ رہیں تھیں انکو اسکی بےحسی پہ حیرت نہیں ہورہی تھی بلکہ افسوس ہورہا تھا…..
کس چیز پہ غرور تھا اسکو….؟؟؟
اپنی خوبصورتی پہ…؟
اپنے مکمل وجود پہ….؟
” یہ تو قدرت کی طرف سے عنایت ہے اور اللّٰہ کو تو ویسے ہی غرور پسند نہیں جب اسنے یہ سب دیا ہے تو وہ واپس بھی لے سکتا ہے وہ تو ہر چیز پہ قادر ہے….. اور شانزے تم کس چیز پہ اکڑ رہی ہو….؟
انہوں نے اسکو احساس دلانا چاہا مگر شانزے نے غرور سے ہونہہ کہہ کر منہ دوسری طرف کرلیا
اور کہا بس میں فیصلہ کرچکی ہوں اب آپ کچھ بھی کہیں مجھے فرق نہیں پڑتا….
اگر یہ سب آپکے ساتھ ہوتا تو کیا آپ انکل کے ساتھ رہ سکتی تھیں….؟؟؟
شانزے……!!! ہوش میں آؤ….
ہادیہ اک دم غصے میں چلائیں….. اگر خدانخواستہ ایسا مکرم کے ساتھ ہوتا تو میں کبھی انکا ساتھ نہیں چھوڑتی بلکہ انکا ساتھ دیتی انکی ہمت بندھاتی نا کہ تمہاری طرح چھوڑنے کا فیصلہ کرلیتی….
جب اسکو تمہاری ضرورت ہے تو تم چھوڑ کے جارہی ہو…..
تو آنٹی پھر آپ ہی سنبھال لیں نا اپنے بیٹے کو میں نہیں کرسکتی یہ سب…. بلکہ ایسا کریں نا آپ اپنے بیٹے کی شادی کروادیجیے گا اس سے جو اسکو سنبھال سکے اسکی خدمت کرسکے….
یہ کہہ کر اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور چلی گئی
جبکہ ہادیہ افسوس سے سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں جہاں باذل اپنی وہیل چئیر پہ سر جھکائے بیٹھا تھا اورمکرم اسکے نزدیک بیٹھے اس کو کچھ سمجھارہے تھے ہادیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا…..” مکرم آپ فوری ہی پیپرز بنوالیں….
شانزے اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ ہمارے بیٹے کی زندگی سے جڑی رہے…..
بہت غرور ہے اس میں…. وقت آنے پہ پتہ چلے گا یہ تو کہ غرور کا انجام کیا ہوتا ہے…..
باذل نے نم آنکھوں سے سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا اور کہا
” ماما پلیز بددعا مت دیں اسکو…. میں نے اس سےمحبت کی ہے اورمیں نہیں چاہتا کہ اسکو کوئ دکھ ملے اسکا پورا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کسی مکمل انسان کے ساتھ مکمل اور خوشیوں بھری زندگی گزارے اور مجھ جیسا ادھورا اور معذور انسان اسکو کوئی خوشی نہیں دے سکتا…. مجھے اس سے کوئی شکوہ نہیں ہے……
ہادیہ اور مکرم اپنے بیٹے کو دیکھ کر رہ گئےکتنا کرب تھا اسکے لہجے میں…..
انتہا کی بےبسی تھی…..
مگر وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے……
ہادیہ نے اسکو اپنے ساتھ لگالیا انکی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے وہ عورت تھیں اور سب سے بڑھ کے ماں تھیں اپنے اکلوتے بیٹے کی اذیت کو سمجھ سکتی تھیں بس دعا ہی کرسکتی تھیں اسکے لیے…..
مکرم نے بھی اسکے سر پہ ہاتھ رکھا…..
تسلی،دلاسہ اور حوصلہ کچھ بھی تو دینے کے لیے انکے پاس الفاظ نہیں تھے….. وہ اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے وہاں سے اپنے وکیل کے پاس چلے گئے اور طلاق کے پیپرز بنوانے کا کہہ دیا…..
وکیل نے دو تین دن کا ٹائم مانگا
مگر مکرم نے وکیل کو منہ مانگی رقم سے زیادہ دے کر اک دن میں ہی پیپرز بنانے کا کہا….
وکیل نے اپنا کام کرلیا اور رات تک مکرم کو کہہ دیا کہ وہ کل پیپرز لے لیں….
اگلے دن مکرم صبح ہی وکیل کے پاس گئے اور پیپرز لاکر باذل کو اسکے کمرے میں دے دئیے….
شانزے وہیں کھڑی تیار ہورہی تھی….
باذل نے کانپتے ہاتھوں سے پیپرز کو دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رودیا…..
شانزے نے جب اسکو روتا دیکھا تو اک لمحے کو اسکی اک دھڑکن تیز ہوئی مگر اگلے ہی لمحے اس نے اپنے آپکو سنبھال لیا….
مکرم نے باذل کو کچھ نا کہا وہ وہاں سے چلے گئے ان سے اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی……..
ہادیہ اپنے کمرے میں تھیں جب انکو پتہ چلا کہ مکرم طلاق کے پیپرز بنواکر آگئے ہیں تو وہ فورا اسکے کمرے کی طرف گئیں مکرم انکو منع کرنے لگے مگر وہ نہیں رکیں….
شانزے انتظار میں تھی کہ کب باذل اسکو پیپرز دیتا ہے….
جب ہادیہ اسکے کمرے میں پہنچی تو باذل کو روتا ہوا دیکھا وہ جلدی سے اسکے پاس گئیں اور اسکو سنبھالنے لگیں….
انہوں نے بہت غصے سے شانزے کو دیکھا جو بےنیاز سی کھڑی اپنے موبائل میں مصروف تھی….
باذل نے نظریں اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا اسکی آنکھوں میں وحشت تھی اس لمحے ہادیہ کو اسکی آنکھوں سے خوف آیا وہ بھاگ کر مکرم کو بلا کر لائیں….
مکرم نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور آنکھوں سے اشارہ کیا….
بالاآخر اس نے ہمت مجتمع کرکے ان سب کے سامنے پیپرز پہ سائن کیے اور شانزے کو طلاق دے دی….
شانزے تو اسی کی منتظر تھی فورا سے پہلے سائن کردئیے…..
اب وہ آزاد تھی….
ہادیہ نے اسکو یہ اچھی طرح باور کروادیا تھا کہ اگر کبھی اسکو احساس ہوا بھی تو وہ راحم کی طرف نہیں دیکھے گی نا ہی اس سے ملنے کی کوشش کرے گی
اور شانزے نے کہا کہ مجھے کوئی شوق بھی نہیں ہے….
ہادیہ اسکی بے حسی پہ افسوس کرنے لگیں وہ وہاں سے باذل کو اپنے کمرے میں لے آئیں….
بازل وہیل چئیر پہ پتھر کی مورت کی طرح بیٹھا ہوا تھا ہر چیز سے بیگانہ ہوکر….
شانزے کو معلوم ہوگیا تھا کہ طلاق کے پیپرز تیار ہورہے ہیں تو وہ اپنا سامان پہلے ہی پیک کرچکی تھی اب جب باذل نے اسکو آزادی کا پروانہ دے دیا تھا تو اب یہاں رکنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی تھی اسنے اپنا سامان اٹھایا اور اپنے پاپا کے گھر چلی گئی…..
ساحر کو وہ بتاچکی تھی….. اسنے عدت کا وقت مانگا جو کہ ساحر نے دے دیا…..
ساحر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تھا سو اسنے اس رات جشن منایا….
******
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...