سکوتِ شب پر غروب آفتاب کی سنہری کرنوں کا غازہ پھرا ہوا تھا، اس لیے کائنات کے ہر ذرے سے تبسم کی جھلک نمایاں تھی۔ اس وقت گنگا کے دلفریب مگر سنسان ساحل پر ایک لڑکا اور ایک لڑکی ریتلی زمین کے اس مختصر حصے کو بازیچۂ اطفال بنائے کھیل میں مشغول تھے۔ ان کے احساسِ ہنگامی کے مطابق اس وقت دنیا اور دنیا کی تمام کائنات سمٹ کر صرف ریت کے چمکتے ہوئے ذروں اور بہتے ہوئے پانی کی موجوں میں سما گئی تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ دوسرے طبقات ارض میں کیا ہو رہا ہے۔ قدرت بھی خدا کے پیدا کیے ہوئے ان دو معصوم بچوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
لڑکا کہیں سے درخت کی چھوٹی ٹہنی لے آیا تھا اور ساحل کے قریب گھٹنے ٹکائے اس سے گنگا کے پانی کو گھنگول گھنگول کر خوش ہو رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ خود پانی بھی اس بچے کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ کیونکہ اپنے اندرونی جوش کے باعث وہ بیرونِ ساحل ہو جانا چاہتا تھا۔ کچھ فاصلے پر لڑکی اپنے ایک پاؤں پر ریت جما کر اور ننھے ننھے ہاتھوں سے تھپک تھپک کر ایک بھاڑ تیار کرنے میں مصروف تھی۔ وہ دونوں دھوبی کے بچے تھے، اس لیے ان کے خیالات کی پرواز اسی فضا تک محدود تھی جس میں انھوں نے سانس لے کر زندگی گذاری تھی۔
بناتے بناتے بھاڑ سے بالکا بولی:
“دیکھ! ٹھیک نہیں بنا تو میں تجھے پھوڑ دوں گی۔”
پھر بڑے پیار سے اسے تھپک تھپک کر ٹھیک کرنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی “اس کے اوپر ایک کٹی بناؤں گی۔ وہ میری کٹی ہوگی۔ اور منوہر؟ نہیں وہ کٹی میں نہیں رہے گا۔ وہ باہر ہی کھڑا کھڑا بھاڑ کے اندر آگ پر پتے اور ایندھن ڈالتا رہے گا۔ جب وہ تھک کر ہار جائے گا اور مجھ سے بہت کہے گا تب اسے اپنی کٹی کے اندر بلا لوں گی۔”
منوہر اس کے ان تمام دلی تاثرات سے بے خبر اپنے کھیل میں محو تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ سمندر کے نشیب و فراز کی طرح ایک ہی وقت میں اس کے لیے غصّہ اور پیار کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کبھی بے قصور اس پر عتاب نازل کرنے کا ارادہ ہوتا ہے اور کبھی رحم کھا کر سایۂ عاطفت میں لے لیا جاتا ہے۔
وہ پھر سوچنے لگی: “منوہر بڑا ہی اچھا اور پیارا پیارا ہے۔ مگر ہے بڑا دنگئی؛ ہر وقت شرارت کرتا ہے، ہمیں چھیڑتا ہی رہتا ہے۔ اب اس نے دنگا کیا یا ہمیں چھیڑا تو ہم اسے اپنی کٹی میں سانجھی نہیں کریں گے۔ اگر اس نے سانجھی ہونے کے لیے بہت کہا تو اس سے شرط کرا لیں گے کہ دیکھو بھئی! ہمیں چھیڑنا مت۔ یہ بات اگر وہ مان گیا تب سانجھی کر لیں گے، اور اگر پھر بھی اس نے شرارت کی تو ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ کر کُٹی کر دیں گے۔ پھر نہیں بولیں گے۔”
لڑکی سُربالا زندگی کی سات بہاریں دیکھ چکی تھی۔ منوہر اس سے صرف دو سال بڑا تھا۔ وہ دونوں رشتے کے بھائی بہن تھے۔
سُربالا ایک دم اس طرح چونک پڑی گویا کسی نے اس کے کان میں کوئی عجیب بات کہہ دی ہے۔ وہ سوچنے لگی “بھاڑ کی چھت تو گرم ہوگی، اس پر منوہر رہے گا کیسے؟ میں تو رہ جاؤں گی مگر وہ جلے گا ضرور۔” پھر سوچا “اس سے میں کہہ دوں گی بھئی! چھت بہت تپ رہی ہے، تم جل جاؤ گے۔ اندر مت جاؤ۔ پھر اگر وہ نہیں مانا؟ میرے پاس بیٹھنے کو آیا ہی تو؟ ہاں! میں کہہ دوں گی بھئی! ٹھہرو، میں بھی باہر آ جاتی ہوں۔ پھر وہ میرے پاس آنے کی ضد کرے گا کیا؟ ضرور کرے گا، وہ ہے بڑا ہٹی۔ پھر میں اسے آنے نہیں دوں گی۔ بیچارہ تپے گا۔ بھلا کچھ ٹھیک ہے۔ زیادہ کہا تو میں بھی دھکا دے دوں گی۔ اور کہوں گی ارے جل جائے گا مورکھ!”
یہ سوچنے پر اسے بڑا مزا سا آیا۔ اس کا منہ سوکھ گیا۔ اسے ایسا معلوم ہوا گویا منوہر دراصل دھکا کھا کر زمین پر گر گیا ہے۔ وہ اس ہنسی دلانے والے مگر قابل رحم نظارہ کو سچ سمجھ کر مسکرا پڑی۔ اس نے دو ایک زور کے ہاتھ لگا کر بھاڑ کو دیکھا، وہ اب بالکل تیار ہو گیا تھا۔ اور جس طرح بڑی ہوشیاری کے ساتھ ماں اپنے شیر خوار بچے کو بچھونے پر لٹاتی ہے ویسے سُربالا نے بھی اپنا پاؤں آہستہ آہستہ بھاڑ کے نیچے سے کھینچ لیا۔ اس کام کو کرتے وقت وہ بھاڑ کو اس طرح چمکارتی جاتی تھی گویا وہ ایک سوتا ہوا بچہ ہے جس کے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے۔ بھاڑ اس کے پاؤں ہی پر ٹکا ہوا تھا، اسے فکر تھی کہ کہیں پاؤں کا سہارا ہٹ جانے پر وہ ٹوٹ نہ جائے۔ جب پاؤں نکال لینے پر وہ نہ ٹوٹا اور جوں کا توں ٹکا رہا تو سُربالا ایک بار خوشی سے ناچ اٹھی۔ گویا اس نے بہت بڑی فتح کی ہے۔ وہ فوراً ہی منوہر کو بلانے کے لیے تیار ہو گئی تاکہ اپنی چترائی سے بنائے ہوئے بھاڑ کو دکھا کر اور زیادہ خوش ہو سکے۔
ڈھیٹ لڑکا پانی سے الجھ رہا تھا۔ اسے خبر بھی نہیں تھی کہ اس کی لاعلمی میں کتنی زبردست کارگزاری ہو گئی ہے۔ شاید اتنا اچھا بھاڑ اس نے خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔
مگر اس نے خیال کیا “ابھی نہیں، پہلے کٹی تو بنا لوں۔”
یہ سوچ کر سُربالا نے ریت کی ایک چٹکی لی اور بہت احتیاط سے بھاڑ کے اوپر ڈال دی۔ اسی طرح چار پانچ چٹکیاں اور ڈالیں۔ پھر اطمینان کا سانس لیا۔ گویا کٹی بھی تیار ہو گئی۔ اس نے خیال کیا “اب سب کام مکمل ہو چکا ہے۔ منوہر کو بلانا چاہیے۔” مگر اپنے گھر کے بھاڑ کا اس نے پورا پورا دھیان کیا تو پتہ چلا کہ ایک کمی رہ گئی ہے۔ “دھواں کہاں سے نکلے گا؟” تھوڑی دیر سوچ کر اس نے ایک تنکا بھاڑ کے سر پر گاڑ دیا، گویا وہ دھوئیں کی چمنی تھی۔ اب تو بھاڑ تیار ہو گیا۔ اس نے آخری نظر ڈالی۔ کہیں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی ہو۔ وہ اسے دیکھ دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سماتی تھی۔ اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ پرماتما کہاں براجتے ہیں تو وہ کہہ دیتی کہ میرے بھاڑ کے اندر۔
منوہر کو خود ہی اپنی سُربالا کا خیال آ گیا۔ اسے یاد کر کے اس نے پانی سے ناتا توڑ دیا اور ہاتھ کی لکڑی کو پوری طاقت سے گنگا کی موجوں کے سپرد کر دیا۔ وہ چپکے چپکے قریب آیا تو دیکھا کہ سُربالا اپنے بھاڑ کے طلسمات کو سمجھنے میں مشغول ہے۔
منوہر نے زور سے قہقہہ لگایا کہ تمام فضا گونج اٹھی اور سُربالا بھی چونک پڑی۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر اس زور سے لات ماری کہ بنے بنائے بھاڑ کا کام تمام ہو گیا۔ ہنستے ہنستے اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے کہا:
“سُرّو رانی!”
وہ مومی مورت کی طرح بالکل خاموش کھڑی رہ گئی۔ اس کے رخسار جو چند لمحے پیشتر مسرت و انبساط کی نورانی ضیا سے دمک رہے تھے، یکلخت ماند پڑ گئے۔ اس کے خیالات اسے دوسری ہی دنیا میں لے گئے تھے۔ اس کی نظر کے سامنے ایک عظیم الشان جنت تھی جس کو اس کی قوتِ بازو نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ اس جنتِ جدید کی خوبصورتی اور فردوسی شان دکھانے کے لیے ایک شخص کو بلانا چاہتی تھی۔ لیکن افسوس کہ وہی شخص آیا اور اس نے لات مار کر اسے توڑ پھوڑ کر تباہ و برباد کر دیا۔ دل کی آرزوئیں خاک میں ملیا میٹ ہو گئیں۔ اس کی روح رنج و محن سے معمور ہو گئی۔
ہمارے لائق قارئین میں سے کوئی ہوتا تو ان ضدی بچوں کو سمجھاتا کہ یہ دنیا عارضی اور جلدی فنا ہونے والی ہے۔ اس میں دکھ کیا اور سکھ کیا۔ جو جس چیز سے بنتا ہے، اسی میں مل جاتا ہے۔ پھر افسوس اور غصے کی کیا بات ہے۔ یہ تمام نگری پانی کا بلبلہ ہے۔ پھوٹ کر کسی روز پانی ہی میں مل جائے گا اور پھوٹ جانے ہی میں بلبلے کی اصلیت کا راز پنہاں ہے۔ جو اس چیز کو نہیں سمجھتے، وہ رحم کے بھی مستحق نہیں۔ اری ضدی لڑکی! یہ تمام دنیا خدا کی بنائی ہوئی ہے۔ ایک نہ ایک دن اسی ذات میں جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، گھل مل کر ختم ہو جائے گی۔ تو کس لیے رنج و غم سہ کر ملول ہو رہی ہے؟ تیرا ریت کا بنا ہوا بھاڑ جتنے جلدی بنا تھا اُتنے ہی جلدی ڈھ گیا۔ خاک سے بنا تھا خاک میں مل گیا۔ رنج کرنے سے کیا فائدہ ہے؟ اس بننے اور بگڑنے سے تو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جس ہستی نے لات مار کر بھاڑ توڑا ہے، وہ خدا کا بھیجا ہوا اور تیرے ساتھ کھیلا ہوا تیرا پریمی ہے۔ تو بھی اس سے پریم کر کیونکہ اس سارے جگت کا دوسرا پر نئے طریقے سے اپنی کرپا کرنا چاہتے ہیں۔ تو ضدی مت بن اور اپنی ہٹ کو چھوڑ دے۔ تو پرماتما کی پیدا کی ہوئی مخلوق کے ساتھ دل لگا۔ پرماتما تجھ پر دیا کریں گے۔
لیکن خود بچاری سُربالا کے خواب و خیال میں بھی فلسفہ کے یہ دقیق رموز نہ آ سکتے تھے اور نہ اس کو سمجھانے کے لیے کوئی عالم فاضل گنگا کے کنارے گیا۔ اگر کوئی جاتا بھی تو شاید اس کا تمام فلسفہ بے کار رہ جاتا۔ کیونکہ وہ اس قدر غصہ میں بھری ہوئی تھی کہ کسی کی بات ہی نہ سنتی اور اگر سنتی تو باقتضاے عمر اسے مطلق نہ سمجھ سکتی۔
خیر کچھ بھی ہو وہاں صرف منوہر تھا جو فلسفہ کی اوّلیات سے بھی ناواقف تھا لیکن اس کے جذبات کی عجیب کیفیت تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اندر ہی اندر اس کے دل کو مسوس رہا ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے کسی قدر ضبط سے کام لے کر کہا:
“چل پگلی سُرّو! تو روٹھ گئی۔”
سُربالا ویسے ہی کھڑی رہی۔ ذرا نہ ہلی نہ کچھ کہا۔
“سُرّی! تو روٹھی کیوں ہے؟”
سُربالا پر پھر بھی کچھ اثر نہ ہوا۔
“سُرّی! سُریا! او سُرّو! بولتی نہیں مردار!”
اب تابِ ضبط نہ تھی۔ منوہر کی آواز بھرا گئی اور سُربالا منہ پھیر کر کھڑی ہو گئی۔ منوہر کی کانپتی ہوئی آواز کا مقابلہ اس سے نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ بظاہر خفا اور خاموش تھی مگر خوب پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی۔
“سُرّی! او سُریا! میں منوہر ہوں۔ منوہر۔ مجھے مارتی نہیں۔ دیکھ میں کھڑا ہوں۔ تو مجھے مار۔”
یہ منوہر نے اس کی پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہو کر کہا اور کچھ ایسی آواز میں گویا وہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کے آنسو نہیں بہ رہے، حالانکہ وہ بہہ رہے تھے۔
“ہم نہیں بولتے جی، نہیں بولتے۔”
وہ بولنا نہیں چاہتی تھی مگر بولے بغیر رہا بھی نہ گیا۔ کیونکہ اس کا بھاڑ، اس کی ساری دنیا، بلکہ خود اس کا وجود منوہر کی بھرائی ہوئی آواز میں جذب ہو کر اپنی خودی کو مٹا چکا تھا۔ منوہر نے اپنے جوش کو دبا کر کہا:
“سُرّو! منوہر تیرے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ بڑا پاپی ہے۔ تو اس سے بول مت لیکن تو خفا ہو کر اس کے سر پر ریت کیوں نہیں ڈال دیتی۔ اس نے تیرا بھاڑ توڑا ہے۔ تو اس کے بال خراب کر دے۔ تو اسے مار کیوں نہیں دیتی۔ ایک تھپڑ لگا۔ وہ اب کبھی شرارت نہیں کرے گا۔”
سُربالا نے کڑک کر کہا:
“چپ رہو جی۔ ہم نے کہہ دیا ہم نہیں بولتے۔”
“چپ رہوں گا، لیکن کیا مجھے دیکھو گی بھی نہیں؟ بالکل روٹھ گئیں؟”
“ہاں! روٹھ گئے۔ نہیں دیکھتے۔ تمھیں کیا؟”
“اچھا مت دیکھو۔ میں اب کبھی سامنے نہیں آؤں گا۔ میں اسی لائق ہوں۔”
“کہہ دیا تم سے۔ تم چپ رہو۔ ہم نہیں بولتے۔”
ضدی لڑکی کا تمام غصہ اور رنج کبھی کا ختم ہو چکا تھا۔ وہ نرم پڑ گئی تھی۔ ظاہری باتوں کا مطلب کچھ اور ہی تھا۔ اس کی مسرت غصے کے روپ میں جلوہ گر ہوئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں بچپن کی معصومیت پر شرارت غالب آ چلی تھی۔ منوہر بولا:
“لو سُرّو! میں نہیں بولتا۔ میں بیٹھ جاتا ہوں۔ یہیں بیٹھا رہوں گا۔ تم جب تک نہیں کہو گی، نہ اٹھوں گا نہ بولوں گا۔”
منوہر چپ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ہار کر سُربالا بولی:
“ہمارا بھاڑ کیوں توڑا جی؟ ہمارا بھاڑ بنا کے دو۔”
“لو ابھی لو۔”
“ہم ویسا ہی لیں گے۔”
“ویسا ہی لو۔ اس سے بھی اچھا۔”
“اس پر ہماری کٹی تھی۔ اس پر دھوئیں کا راستہ تھا۔”
“لو سب لو۔ تم بتاتی جاؤ، میں بناتا جاؤں۔”
“ہم نہیں بتائیں گے۔ تم نے کیوں توڑا؟ تم نے توڑا، تم ہی بناؤ۔”
“اچھا! پر تم ادھر دیکھو تو۔”
“ہم نہیں دیکھتے۔ پہلے بھاڑ بنا کے دو۔”
منوہر نے ایک بھاڑ بنا کے تیار کیا، پھر کہا:
“لو بھاڑ بن گیا”
“کیا بن گیا؟ بالکل ویسا ہی۔”
“ہاں! خود دیکھ لو۔”
“دھویں کا راستہ بنایا؟ کٹی بنائی؟”
“وہ کیسے بناؤں؟ تم بتاؤ تو۔”
“پہلے بناؤ، پھر بتاؤں گی۔”
منوہر نے بھاڑ کے سر پر ایک سینک گاڑ کر اور ایک پتے کی اوٹ لگا کر کہا:
“بنا دیا دھویں کا راستہ۔ دیکھ لو”
فوراً مڑ کر سُربالا نے کہا:
“سینک ٹھیک نہیں لگی جی! پتا ایسے لگے گا جی۔ اچھا اب جا کر تھوڑا پانی لاؤ۔ بھاڑ کے سر پر ڈالیں گے۔”
منوہر پانی لایا اور چلّو میں لے کر بھاڑ کی مٹی پر چھڑکنا چاہتا تھا کہ خود سُربالا نے ایک لات مار کر بھاڑ کو پہلے کی طرح چکنا چور کر دیا اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئی۔
منوہر بھی خوشی سے ناچ اٹھا۔
گنگا کا پانی بچے کی ہنسی سے ملتی جلتی مدھم آواز کے ساتھ آہستہ آہستہ بہ رہا ہے۔ سورج کی آخری شعاعوں کا الوداعی تبسم صرف دو بلند درختوں کی چوٹیوں پر نظر آ رہا تھا۔ ہوا کی رفتار میں ایک عجیب لطافت محسوس ہو رہی تھی۔ گھنے درخت سر جھکائے ہوئے فلسفیوں کی طرح اپنے خیالات میں محو معلوم ہوتے تھے۔ بڑھتی ہوئی تاریکی کے اندیشے سے سُربالا اور منوہر ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر گھر کی طرف چل پڑے۔ اب ان میں سے کسی ایک کے دل میں غصہ یا رنج کا نام تک نہیں تھا۔