لگا ہے بنک سکوائر میں مصر کا بازار
بہت سی چیزیں برائے نمائش آئی ہیں
کلیدِ دولتِ قارون و مسندِ فرعون
شرارِ آتشِ نمرود و جَنَّتِ شدّاد
کشیدہ تیغِ ہلاکو و دشنۂ چنگیز
کُلاہِ کَے کا تفاخر، جلالتِ پرویز
مگر یہ جتنی بھی چیزیں ہیں اب کے پہلی بار
نہ مصر سے نہ دیارِ خُتَن سے آئی ہیں
جناب سام کے واشنگٹن سے آئی ہیں
لگا ہے بنک سکوائر میں اِک نیا بازار
کہ جس کے ایک اندھیرے سے تنگ کونے میں
پڑا ہے خامۂ بہزاد و تیشۂ فرہاد
بِنائے کارگہِ شوق و گلشنِ ایجاد
اسی کے ساتھ تصاویر کے فریموں میں
فسردہ دستِ جفا کش کی جھُرّیاں بھی ہیں
فشارِ دستِ زُلیخا میں صورتِ پرچم
دریدہ دامنِ یوسف کی دھجیاں بھی ہیں
نظام زر کی ہوس ناکیوں میں کچلی ہوئی
لگا ہے بنک سکوائر میں جو نیا بازار
نظامِ زر کی ہوس کاریوں نے سوچا ہے
معاشیات کے اُن فاصلوں نے سوچا ہے
کہ جن کے فربہ خداؤں نے کر دیے پیدا
کدوئے خشکِ گداگر بھی دستِ منعم بھی
ہوس کا کیسۂ زر بھی، مزاجِ حاتم بھی
چلو کہ بنک سکوئر میں ہم بھی ہو آئیں
کہ اِک سوال سلگتا ہے ذہن سوزاں میں
جو ساحرانِ مشیت سے آج پوچھیں گے
تمیزِ بندہ و آقا روا ہے جن کے لیے
کہ اس فساد کا موجد خدا ہے جن کے لیے
اسے بھی جبرِ مشیت کہو گے فرزانو؟
تجوریوں کے شکم ڈالروں سے پھٹتے ہیں
تو محنتوں کے عوض حادثات بٹتے ہیں
کسی کے سینہٗ عریاں کی ہڈیاں بھی ہیں
قبائے دخترِ مزدور پر ہے دستِ ہوس
تڑپتے ہاتھوں میں خنجر کی تیزیاں بھی ہیں
بنامِ قوتِ سرمایہ، شامِ مفلس پر
کڑکتی، ٹوٹتی بل کھاتی بجلیاں بھی ہیں
کھلاتے آئے ازل سے جو اپنے منعم کو
ملوں کے تکلوں میں کیوں ایسے ہاتھ کٹتے ہیں ؟َ
٭٭٭