” کہاں ہے وہ؟ ایسے کیسے کہی جاسکتی ہے سونیا۔ تم نے اُس کی یونی میں معلوم کیوں نہیں کیا؟ “
لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا وہ کھا جانے والی نظروں سے ڈرائیور کو دیکھ رہا تھا۔ جو سر جھکائے بےبس سا کھڑا تھا۔
” پاشا بھائی میں نے سب سے معلوم کر لیا پر وہاں کوئی نہیں جانتا وہ کہاں گئی ہیں۔”
” دفاع ہو جاؤ میری نظروں سے اس سے پہلے میں تمہیں اس دنیا سے دفاع کردوں۔”
پاشا کی دھاڑ پر وہ الٹے قدموں وہاں سے بھاگ نکالا۔ اس کے جاتے ہی پاشا نے بےبسی سے اپنے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔
” ضرور اس میں کردم دادا کا ہاتھ ہے۔ اُسے معلوم ہوگیا ہوگا یہ سب میں نے کروایا ہے تبھی اُس نے بدلہ لینے کے لیے سونیا کو اغوا کر لیا۔”
پاشا نے سوچتے ہوئے ایک نظر سامنے ٹی وی پر نظر آتے نیوز چینل پر ڈالی جس میں بازارِ حسن میں دھماکے سے ہلاک ہونے والے افراد کے بارے ميں بتايا جا رہا تھا۔
اس نے غصّے سے ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی پر دے مارا۔ جس کے باعث اسکرین چکنا چور ہوگی۔
” اب تمہارا مقابلہ سیدھا مجھ سے ہوگا کردم دادا۔ وقت آگیا ہے کہ اب سارے حساب کتاب بےباک کر دیئے جائیں۔”
وہ غصّے سے اُٹھتا گھر سے باہر نکل گیا۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے اسے سونیا کو صحیح سلامت واپس لانا تھا۔
۔*************************۔
وہ گاڑی میں بیٹھا تیزی سے اسے بھگاتے ائیرپورٹ کے راستے جا رہا تھا۔ سنسان سڑک سے گزرتے وہ آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ سامنے سے تیز رفتاری سے آتی گاڑیوں نے اس کا راستہ روک لیا۔ اس نے بر وقت بریک لگایا اور سر اُٹھا کر سامنے گاڑیوں کی طرف دیکھا یکدم اس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ لب دھیرے سے ہلے۔
” کردم دادا !! “
کردم گاڑی سے نکل کر چلتا ہوا سڑک کے بیچ و بیچ آ کھڑا ہوا۔
” جا رہے ہو فاروق؟ مل کر نہیں جاؤ گے اپنے کردم دادا سے؟ “
کردم کی بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی فاروق گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔
” کردم دادا آپ۔۔۔”
اس سے پہلے فاروق اپنی بات مکمل کرتا کردم نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا گریبان پکڑا اور اسے گاڑی کے بونٹ سے لگا دیا۔
” کیوں کیا تم نے ہاں؟ تمہیں کیا لگا تھا۔ اتنا سب کر کے تم اتنی آسانی سے فرار ہو جاؤ گے اور میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہوں گا۔ مجھے پتا نہیں چلے گا۔” کردم غرایا۔
فاروق نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا خاموشی سے اپنا گریبان چھڑوانے کی کوشش کرتا رہا۔
” ویسے میں تم پر کبھی شک نہ کرتا اگر تم وہ سب کرکے فرار نہ ہوتے۔ مگر کہتے ہیں نا۔ استاد۔۔۔ استاد ہوتا ہے۔ تم تو بچے نکلے۔”
کردم نے کہتے ہی اسے سیدھا کھڑا کیا اور دائیں ہاتھ کا مکا بنا کر اس کے منہ پر جڑ دیا۔ وہ لڑکھڑا کر منہ کے بل سڑک پر جا گرا۔
” کیوں کیا تو نے ایسا مجھ سے ہی غداری کی کیوں؟ “
اُس کو دوبارہ اپنے سامنے کھڑا کرکے ایک اور مکا اس کے منہ پر مارا۔ اب کی بار وہ گاڑی کے بونٹ پر جا گرا تھا۔
” کیا بگاڑا تھا میری نور نے تیرا؟ کیوں کیا اُس کے ساتھ ایسا کیوں؟ ” ایک اور مکا۔
” تیری وجہ سے میری بیوی نے خودکشی کی۔ تیری وجہ سے میرا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے مر گیا۔ کیوں کیا تو نے ایسا ہاں؟ “
گریبان سے پکڑ کر اپنے مقابل کرتے کردم نے پوچھا۔ اس بار لہجہ شکستہ تھا۔
” اتنی جلدی بھول گئے کردم دادا۔ یاد نہیں میری ماں جب بیمار تھی۔ اُسے میری ضرورت تھی پر تم نے مجھے اُس کے پاس نہیں جانے دیا۔ وہ مجھ سے ملے بغیر ہی اس دنیا سے چلی گئی یاد نہیں؟ “
فاروق نے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکے۔ وہ آپ سے سیدھا تم پر اُتر آیا تھا۔ کردم ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
” تمہارے لیے اُس وقت تمہارے اڈے کا کام ضروری تھا۔ لیکن میرے لیے میری بیمار ماں۔ میں اُس سے نہیں مل سکا اور وہ مر گئی۔ اور اُس کی موت کے زمہ دار جانتے ہو کون ہے۔ تم کردم دادا تم۔”
” میں نے تمہاری ماں کو نہیں مارا۔” کردم دھاڑا۔
” اُس کے پاس بھی تو نہیں جانے دیا۔” فاروق بھی دوبدو بولا۔
” تو تم نے اس بات کا بدلہ لیا ہے؟ ” کردم نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” ہاں۔ “
بس اتنا کہنا تھا اور کردم نے اپنے کوٹ کی جیب سے گن نکال کر اس کی ٹانگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔
فاروق اوندھے منہ نیچے گرا۔ خون تیزی سے اس ٹانگوں سے بہتا سڑک کو رنگ رہا تھا۔ وہ اپنی ٹانگوں کو پکڑے بُری طرح چیخ رہا تھا۔ چلا رہا تھا۔ مدد مانگ رہا تھا۔ مگر کون تھا جو اس کی سنتا۔
کردم نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
” دل تو کر رہا ہے تجھے جان سے مار دوں۔ لیکن نہیں۔ بہت دکھ ہے نہ اپنی ماں کے پاس نہ پہنچنے کا۔۔۔؟ اب تو کہیں بھی اپنے پیروں پر چل کر نہیں پہنچ پائے گا۔”
ایک ٹھوکر اس کی ٹانگوں پر مارتا وہ پاس مڑ گیا۔
” اسے ہسپتال لے جاؤ۔ میں چاہتا ہوں یہ زندہ رہ کر بےبسی بھری زندگی گزارے۔”
کردم گاڑی میں بیٹھتا ہوا اپنے آدمیوں سے بولا۔ وہیں کھڑا رحیم افسوس سے فاروق کو دیکھتا خود بھی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
۔**************************۔
وہ لان میں لگے جھولے پر بیٹھا خود بھی اس تاریک رات کا منظر لگ رہا تھا۔ سیما خالہ اور آئینور کے بعد یہ ویران گھر اسے کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ زندگی نے کیسا پانسا پلٹا تھا۔ ایک پل وہ اس کے ساتھ تھے اور دوسرے پل نہیں۔
” کردم دادا۔ “
رحیم کی آواز پر وہ اپنی سوچ کی دنیا سے باہر آیا اور سامنے کھڑے رحیم کو دیکھا۔ جو ہمدردی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
” کیا ہوا؟ “
” دادا سب انتظام کر دیا۔ آپ کو کراچی کے لیے نکلنا تھا نا۔”
ٹھیک ہے۔ پر پہلے اڈے پر کچھ کام ہے پھر کراچی کے لیے نکلوں گا۔”
کردم کہتا ہوا جھولے سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کہیں بھی جانے سے پہلے اڈے پر سے ضرور ہو کر جاتا تھا۔
” کیا ہوا کوئی اور بات بھی ہے؟ “
کردم نے اسے ادھر ہی کھڑے دیکھ کر پوچھا۔
” کردم دادا آپ نے فاروق کو زندہ کیوں چھوڑ دیا۔ اُس کی وجہ سے۔۔۔” دانستہ طور پر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
” وہ میرا آدمی تھا رحیم۔ ویسے بھی یہ سب پاشا کا کیا دھرا ہے۔ فاروق نے بس اُس کی مدد کی۔ اتنی سزا کافی ہے اُس کے لیے۔”
کردم اس کا کندھا تھپک کر آگے بڑھ گیا۔ مگر رحیم جانتا تھا اُس نے فاروق کی جان اپنے احساسِ جرم کی وجہ سے بخشی۔ کہیں نا کہیں کردم نے اپنے آپ کو واقعی فاروق کی ماں کی موت کا زمہ دار مان لیا تھا۔
۔************************۔
وہ بےچینی سے لاؤنج میں چکر کاٹ رہا تھا۔ کردم دادا کے کئی علاقوں میں وہ سونیا کا پتا کروا چکا تھا۔ لیکن وہ کہیں بھی موجود نہیں تھی۔ سونیا کی گمشدگی اسے پاگل بنا رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ابھی کردم دادا اس کے سامنے آ جائے اور وہ اُسے ختم کر دے۔
” پاشا بھائی !! “
کاشف کی آواز پر اس کے چلتے قدم ایکدم رکے۔ اس نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔
” کیا ہوا کوئی خبر ملی سونیا کی؟ ” پاشا نے بےتابی سے پوچھا۔
” نہیں پاشا بھائی جہاں جہاں ممکن تھا سب جگہ معلوم کروایا۔ مگر سونیا بی بی کہیں نہیں ہیں۔”
اس کی بات پر پاشا نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود پر ضبط کرنے کی کوشش کی۔
” میں چھوڑوں گا نہیں تجھے کردم دادا !! “
” پاشا بھائی ہوسکتا ہے ہم غلط آدمی پر شک کر رہے ہیں۔” کاشف کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
” نہیں میں کردم دادا کو اچھے سے جانتا ہوں سونیا کی گمشدگی میں کردم دادا کا ہی ہاتھ ہے۔ اتنی جرات وہ ہی کر سکتا ہے۔ فون لگاؤ اسے کہو مجھے ملنا ہے۔”
” جی پاشا بھائی۔”
کاشف اثبات میں سر ہلاتا لاؤنج سے باہر چلا گیا۔
” کل کا سورج تمہاری زندگی کا آخری سورج نہ بنا دیا تو کہنا کردم دادا۔”
پاشا نے چیختے ہوئے ٹیبل پر رکھا گلاس فرش پر دے مارا۔
۔**************************۔
چہرے پر رومال باندھے وہ راہداری میں قدم تیزی سے آگے بڑھا رہا تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ روشنی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بس کچھ ہی حصّے میں بتی جل رہی تھی۔ وہ تیز تیز چلتا ایک دروازے کے سامنے جا رکا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے بیٹھے نفوس اسے دیکھتے ہی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
” کردم دادا !! “
وہ شخص اسے دیکھتے ہی آگے بڑھا اور اس کے گلے لگ گیا۔
” کیسے ہو غفار؟ “
کردم نے اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا اور اپنے چہرے سے رومال نیچے کر لیا۔
” میں ٹھیک ہوں دادا ؟ ” غفار کی ہمت نہ ہوئی وہ پلٹ کر اس سے پوچھ لے کے وہ کیسا ہے۔ اس کا حال اس کے چہرے سے ہی واضح ہو رہا تھا۔
” السلام علیکم !! “
پیچھے کھڑی آئمہ نے سلام کیا۔ اس کے جواب میں کردم نے سر ہلا دیا اور آئمہ کے ساتھ کھڑے عدیل کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا۔
” کیسے ہو عادی؟ “
عدیل نے سر اُٹھا کر بےتاثر چہرے سے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔
” ٹھیک ہوں۔”
” آپ یہاں بیٹھیں دادا۔ ہم لوگ باہر جاتے ہیں۔ چلو باہر آجاؤ۔”
غفار کردم سے کہہ کر ان دونوں سے مخاطب ہوا اور انہیں لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔
ان کے جاتے ہی کردم نے مڑ کر اپنے دائیں جانب دیکھا جہاں مشینوں کے درمیان گھرا وجود بے سود بیڈ پر پڑا تھا۔ کردم چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور پاس رکھی کرسی کو کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا۔
” نور !! “
اسے دھیرے سے پکارتے، کردم نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ جس میں آج بھی نیلے نگینے کی انگوٹی اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔
” تم ناراض ہوگی نا مجھ سے، اس وقت مجھے تمہارے پاس ہونا چاہیئے اور میں تمہیں یہاں چھوڑ کر ان لوگوں سے بدلہ لیتا پھر رہا ہوں۔”
آئینور کے چہرے پر نظریں جمائے وہ اس کے بیہوش وجود سے مخاطب تھا۔
” کیونکہ میں جانتا ہوں۔ تمہیں ہوش آ گیا تو تم کسی سے بدلہ لینے نہیں دوگی۔ اس لیے میں تمہارے ہوش میں آنے سے پہلے ان سب کو ان کے جام تک پہچانا چاہتا تھا۔ جس نے میری نور کو اس حال میں پہنچا دیا۔”
وہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر انگلیاں پھیرنے لگا۔
” ڈاکٹر کہتے ہیں تمہارے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ تمہاری یہ سانسیں بھی اللّٰه کی طرف سے معجزہ ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے نور۔۔۔ تم جلد ہی کوما سے باہر آجاؤ گی۔”
آئینور کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے وہ اس کے بیہوش وجود کو یقین دلا رہا تھا۔ کیسی بےبسی تھی۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس آنکھ سے بہہ گیا۔
” جب تم ہوش میں آجاؤ گی نا۔ تو ہم یہاں سے بہت دور چلے جائیں گے۔ جہاں صرف “ہم” ہوں۔ کوئی تیسرا نہ ہو۔ لیکن اُس سے پہلے مجھے پاشا سے اُس کے کیے کا بدلہ لینا ہے۔ میں جانتا ہوں۔ تمہیں یہ اچھا نہیں لگے گا۔ مگر میرا حق بنتا ہے اُس پر کہ میں پاشا سے بدلہ لوں جس نے میری نور کو مجھ سے دور کرنا چاہا۔”
وہ کھڑا ہوا اور جھک کر اس کے ماتھے کو چوم لیا۔
” ابھی چلتا ہوں تاکہ تمہارے پاس ہمیشہ کے لیے آ سکوں۔”
ایک بار پھر چھک کر اس کے ہونٹوں کو چھوا اور پھر سیدھا ہوتا تیزی سے ہسپتال کے اس کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ خود پر کیسے ضبط کیے ہوئے تھا یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔
کردم کمرے سے باہر نکلا تو چہرے پر واپس رومال چڑھا لیا۔ سامنے ہی بینچ پر آئمہ بیٹھی تھی۔ بینچ کے ساتھ ہی غفار اور رحیم کھڑے آپس میں بات کر رہے تھے۔ ان سے زرا سے فاصلے پر جیب میں ہاتھ ڈالے عدیل دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ کردم چلتا ہوا اس کے سامنے آ گیا۔
عدیل نے نظر اُٹھا کر اسے دیکھا مگر ان نظروں میں کردم کے لیے نفرت نہیں تھی۔ جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ ان آنکھوں میں کردم کے لیے ہمدردی تھی۔ کیونکہ آج اس کی بہن اس کے پاس نہیں تھی تو کردم کے پاس بھی تو کچھ نہیں تھا وہ تو بالکل ہی کھالی ہاتھ رہ گیا تھا۔ کردم اس کا کندھا تھپک کر آگے بڑھ گیا۔ رحیم اور غفار بھی اس کے پیچھے ہی ہسپتال سے باہر نکل گئے تھے۔
۔***************************۔
جہاں جمعے کے دن ہر گھر میں نمازِ جمعہ کے لیے جلدی مچی ہوئی تھی۔ وہیں کردم کے بنگلے پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اسے کراچی سے لاہور واپس آئے دوگھنٹے گزر چکے تھے اور اس وقت اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑا اُس دن کے منظر کو سوچ رہا تھا۔ جب آئینور کا خون میں لپٹا وجود اس کی گود میں تھا۔
اُس دن آئینور کے بے جان ہوتے وجود کو اُٹھا کر وہ سیدھا ہسپتال پہنچا تھا۔ آئینور کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر نے پہلے ہی نا اُمیدی ظاہر کر دی تھی۔ تاہم ڈاکٹر کی کوششوں اور اللّٰه کی رحمت نے اسے مرنے تو نہیں دیا مگر وہ کوما میں چلی گئی تھی۔ یہ ہی نہیں ڈاکٹر نے اس کے بعد یہ بھی کہہ دیا تھا کہ آئینور کی یہ سانسیں کب تک چلیں کچھ معلوم نہیں۔ ممکن ہے وہ ہوش میں آ جائے اور یہ بھی ممکن ہے وہ کومے کی حالت میں ہی اس دنیا سے چلی جائے۔
کردم جہاں پہلی بات پر خوش ہوا تھا وہیں دوسری بات نے اسے تکلیف سے دوچار کر دیا تھا۔ کتنا جان لیوا تھا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی نور کو قبر میں اُترتا دیکھنا۔
آئینور کی حفاظت کے لیے انہوں نے ہر جگہ یہ خبر پھیلا دی تھی کہ وہ مر گئی۔ اس لیے کردم اور رحیم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا آئینور کوما میں ہے۔ وہ راتوں رات ہی آئینور کو لاہور سے کراچی لے گئے تھے اور ہسپتال پہنچ کر کردم نے رخسار بیگم اور عدیل کو بھی خبر کردی تھی۔ یہ خبر سنتے ہی وہ دونوں فوراً ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ غفار اور آئمہ بھی کراچی میں ہی رہ رہے تھے۔ اس لیے کردم کی ایک کال پر ہی وہ دونوں بھی ہسپتال چلے آئے۔ اچھی طرح تسلی کر لینے کے بعد ان سب کو آئینور کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ کر وہ واپس لاہور آ گیا تھا تاکہ آئینور کے مجرم اور اپنے بچے کے قاتلوں کو موت کے منہ اُتار کر واپس اپنی نور کے پاس چلا جائے۔
کردم ان ہی سوچوں میں گم کھڑا تھا کہ اچانک اس کا موبائل بج اُٹھا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکالا۔ اسکرین پر جگمگاتا پاشا کا نام اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ لے آیا۔
” ہیلو !! “
” تو آخر تم نے فون اُٹھا ہی لیا۔”
کردم کے ہیلو کہتے ہی پاشا کی طنز بھری آواز اسپیکر میں اُبھری۔
” ہاں !! تمہاری کالز اور دھمکیوں بھرے میسج ملے تھے۔ مجھے لیکن کیا ہے نا۔ تم سے بھی زیادہ ضروری کام کر رہا تھا۔ آخر سونیا کی مہمان نوازی بھی تو کرنی تھی۔”
کردم نے پاشا کو بھڑکانے کے لیے جھوٹ بولا جو پاشا پر اثر بھی کر گیا تھا۔ وہ ایکدم دھاڑ اُٹھا۔
” اگر سونیا کو کچھ بھی ہوا میں تیری جان لے لوں گا۔”
“چلو ٹھیک ہے۔ دیکھتے ہیں آج کون کس کی جان لیتا ہے۔” جگہ اور وقت بتا کر کردم نے کال کاٹ دی۔
” آج یا تو نہیں یا میں نہیں۔”
کردم سوچتا ہوا الماری کی جانب بڑھا اور اپنا سیاہ شلوار قمیض نکال کر باتھ روم میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس لاؤنج میں چلا آیا جہاں رحیم صوفے پر بیٹھا بلکہ تقریباً لیٹا ہوا تھا۔
” کہاں جا رہے ہیں کردم دادا؟ “
کردم کو دیکھ کر وہ فوراً سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور اس کی تیاری دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
” نماز پڑھنے۔”
وہ کہہ کر بنا اس کی طرف دیکھے سیدھا باہر چلا گیا۔ جبکہ رحیم صوفے پر بیٹھا بار بار اپنے کانوں میں انگلی ڈال کر ہلا رہا تھا۔ آیا کہ کان خراب تو نہیں ہوگئے۔ کیا اس نے وہی سنا ہے جو کردم نے کہا۔
۔**************************۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...