انتظار حسین(لاہور)
ایک افسانہ نگاربتیس سال تک افسانے کے دشت کی سیاحی کرتا رہا۔اب جاکر اُس نے پہلا مجموعہ پیش کیا ہے۔ یہ افسانہ نگار سلطان جمیل نسیم ہیں جنہوں نے اپناپہلاافسانہ ۱۹۵۳ ء میں لکھا تھا، تب سے وہ اِس فن میں ریاض کر رہے تھے۔اب ۱۹۸۶ء کے آغاز کے ساتھ اِن کے افسانوں کا پہلامجموعہ’’کھویا ہوا آدمی‘‘ کے نام سے شائع ہواہے۔اِن کی اِس روش کو دیکھ کر ڈاکٹر وزیر آغا نے یہ کہا ہے کہ ’’اردو افسانے کے ایوان میں سلطان جمیل نسیم ایک دھماکے کے ساتھ نہیں آئے بلکہ خراماں خراماں داخل ہوئے ہیں۔یہی آہستہ روی اِن کے افسانوں کی گہرائی اور پختگی کا باعث بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹروزیر آغا نے درست کہا۔یہ آہستہ روی آج کے زمانے میں کمیاب ہے۔یہ تو ہمارے کلاسیکی عہد کا رویہ تھا کہ شاعر ایک عمر شعر گوئی میں صرف کرتا تھا۔پورا ریاض کرتا تھا تب کہیں جاکراپنا دیوان مرتب کرتا تھا۔ اِس صبر اور ریاض کا اجراسے فنی پختگی کی شکل میں میسر آتا تھا۔ یہ صبر یہ ریاض آج کے زمانے میں ناپید ہے۔ کاتا اور لے دوڑی کا چلن ہے ۔اس میڈیا کے طور طریقے اب ادب میں بھی در آئے ہیں، لکھنے والا بہت عجلت میں ہوتا ہے۔کچا پکا جیسا بھی مال اِس کے پاس ہوتا ہے وہ جھٹ پٹ کتاب کی شکل میں پیش کرڈالتا ہے۔ پھر فن میں پختگی کہاں سے آئے اور گہرائی اور گیرائی کہاں سے پیدا ہو،تو سلطان جمیل نسیم کی آہستہ روی ان کی ذہنی سلامت روی ضامن ہے۔ اس سے یہ تو پتہ چل ہی جاتا ہے کہ لکھنے اپنے فن کے سلسلے میں کتنا سنجیدہ ہے مگر اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ۱۹۵۳ سے ابتک یعنی۸۶ تکہمارے افسانے کی دنیا میں بہت انقلاب آچکا ہے۔ جب سلطان جمیل نسیم نیافسانے کی وادی میں قدم رکھا تھا تو افسانے میں حقیقت نگاری کا چلن تھا اس دہائی کے ختم ہوتے ہوتے اردو افسانے نے حقیقت نگاری کے اسلوب کو سلام کیااور اظہار کے نئے طریقوں کی تلاش شروع ہوئی اس تلاش کے نتیجے میں وہ افسانہ پیدا ہوا جسے علامتیاور تجریدی افسانہ کہا جاتا ہے۔سلطان جمیل نسیم کو یہ نئے اسالیب اپنی طرف نہیں کھینچ سکے۔ وہ ایک استقلال کے ساتھ حقیقت ہی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں۔ہاں اسی دائرے میں رہتے ہوئے کبھی کبھی وہ علامتی رنگ میں بات کہنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک تو انکا رویہ اس لئے درست نظر آتا ہے کہ ان کے بہت سے افسانے تہہ داری کے وصف سے متصف ہیں لیکن خرابی ان کے یہاں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ حقیقت نگار رہتے ہوئے بعض تجریدی افسانہ نگاروں کے رنگِ بیان کو برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
’’اُس نے اپنے قدموں کی چاپ کو محتاط خاموشی کے سلیپر پہنائے‘‘
’’ شام مسکراتی ہوئی رات کے بستر پر لیٹتے ہی سو گئی‘‘
’’سورج ابھی تک انتظار کی صلیب پر لٹکا ہوا ہے‘‘
’’چہرے پر شناسائی کا بھبوت ملا۔آنکھوں میں چھپے ہوئے خوف وہراس کے اندھیرے کو سمیٹ کر اپنائیت کے جذبات کا اجالاپھیلا یا‘‘
اِس قسم کے بیانات پڑھ کر مجھے انور سجاد کا خیال آیا۔پھر رشید امجد کاجنہوں نے اس رنگ بیان کو انتہا تک پہنچادیا ہے۔تجریدی افسانے میں بھی یہ رنگِ بیان میری دانست میں کوئی ایسی پسندیدہ چیز نہیں ہے اور حقیقت نگاری کے اسلوب سے تو یہ بالکل ہم آہنگ نہیں۔
سلطان جمیل نسیم کی ایک کمزوری نے اُن کے حق میں کام کیا ہے۔وہ اس رنگ بیان کو زیادہ دیر تک نبھا نہیں پائے، اس طرح لکھتے ہوئے ان کا جلد ہی سانس پھول جاتا ہے پھر وہ اپنے انداز کے بیان پر آجاتے ہیں بس ان کی یہی کمزوری ان کی حقیقت نگاری کو ایک مروجہ خرابی سے بچا لے گئی۔ بہر حال حقیقت نگاری کی روایت میں سلطان جمیل نسیم کامیاب افسانہ نگار ہیں۔ نئی زندگی نے جو نت نئے مسائل پیدا کئے ہیں اور انسانی تعلقات میں بگاڑ کی صورتیں پیدا کی کی ہیں انہیں افسانہ نگار نے شدت سے محسوس کیا ہے اور جذبے کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مجموعہ کا پہلا افسانہ ہی ہمیں پکڑ لیتا ہے جہاں ایک شخص دوبئی سے پیسہ کما کر مدت کے بعد گھر لوٹا ہے اور اِس عرصہ میں شہر کے گلی کوچے اس کے لئے اتنے اجنبی ہو گئے ہیں کہ وہ گھر کا راستہ بھول جاتا ہے۔بس اسی طر ح نئی زندگی کے مسائل ان افسانوں میں راہ پاتے اورایک فنی چابکدستی کے ساتھ اظہار پاتے نظر آتے ہیں۔
کتاب بڑے سلیقہ سے عہد کے نامور ادیبوں کی آراء کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ بلکہ ان آراء کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ سلطان جمیل نسیم نے اپنے افسانوں پربزرگوں کی آراء کا زیادہ ہی بوجھ ڈال دیا ہے۔ آراء کا یہ ہجوم نہ بھی ہوتا تب بھی یہ افسانے قاری سے اپنا لوہا منوالیتے۔
آجکل ہماراافسانہ نگار جدیدیت کے فیشن میں مبتلا ہے۔ادب میں جدیدیت ممنوعہ شے نہیں ہے، لیکن دائمی قدریں ہمیشہ فیشن زدگی سے الگ رہتی ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ سلطان جمیل اِس علت کا شکار نہیں ہوئے، اِنکی کہانیاں پڑھ کرمجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے کہ ابھی ہمارے نو جوان لکھنے والوں میں ایسے افسانہ نگار موجود ہیں جنکا قلم مستقبل سے مایوس نہیں ہونے دیتا میری دعا ہے خدا اِنکی عمر میں برکت اور فکر کو مزید قوت عطا فرمائے۔ غلام عباس